ٹوئٹرکی جانب سے لمین ڈیٹابیس کو بھیجے گئے ایک نوٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ وزارت اطلاعات نے کرناٹک کے جنوبی بنگلور سے بی جے پی ایم پی تیجسوی سوریہ کے سال 2015 میں کئے گئے ایک ٹوئٹ سمیت 100 سے زیادہ ٹوئٹ کو ہندوستان میں بلاک کرنے کے لیے کہا تھا۔
بی جے پی ایم پی تیجسوی سوریہ(فوٹو: ٹوئٹر)
نئی دہلی: ملک کی حکمراں پارٹی بی جے پی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑکر ایم پی بننے سے پہلے تیجسوی سوریہ کے ذریعے کئے گئے مسلم مخالف ٹوئٹ حکومت ہند کے لیے پریشانی کا سبب بن گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پچھلے مہینے سرکار نے ٹوئٹر سے سوریہ کے سال 2015 کے اس ایک ٹوئٹ کو ہٹانے کی درخواست کی جس میں اسلام کو دہشت گردی سے جوڑا گیا تھا۔
بتا دیں کہ، حال کے دنوں میں متحدہ عرب امارات سمیت خلیجی ممالک نے ہندوستانیوں کی جانب سے کیے جا رہے مسلم مخالف پوسٹ پر نہ صرف وارننگ دی ہے بلکہ کارروائی بھی کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، سال 2015 کے اس ٹوئٹ میں تیجسوی سوریہ نے لکھا تھا، ‘اجمالی طور پر کہیں تو یہ سچ ہے کہ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، لیکن دہشت گردوں کا ضرور ایک مذہب ہوتا ہے جو کہ اکثر معاملوں میں اسلام ہوتا ہے۔’
مواد کو ہٹانے کی درخواست کو شائع کرنے والی ایک کمپنی کے پاس ٹوئٹر کے ذریعے جمع کئے گئے ڈیٹابیس سے پتہ چلتا ہے کہ سوریہ کا ٹوئٹ ان سینکڑوں ٹوئٹ میں سے ایک تھا جس کوہندوستان میں بلاک کر دیا گیا کیونکہ سوشل میڈیا کمپنی کو حکومت ہند سے اس کو ہٹانے کے لیے سرکاری طور پردرخواست ملی تھی۔
حکومت ہند نے ٹوئٹر سے جن مواد کو ہٹانے کی درخواست کی تھی ان میں سے اکثر(سبھی نہیں)فرقہ پرستی کو پھیلانے والے یا دو مذہبی کمیونٹی کے بیچ کشیدگی پیدا کرنے کے امکان والے تھے۔تیجسوی سوریہ جنوبی بنگلور سے بی جے پی ایم پی ہیں اور انہیں پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ فالو کرتے ہیں۔ نریندر مودی کے چہیتے مانےجانے والے سوریہ کومرکزی قیادت نے سال 2019 کے لوک سبھا انتخاب کے لیے بنگلور کی باوقار سیٹ کے لیے خود چنا تھا۔ اس سے پہلے سوریہ بی جے پی کو ایک
اصلی پارٹی بنانے کی وکالت کر چکے تھے۔
ٹوئٹر کی جانب سے ہٹائے گئےدوسرے ٹوئٹ میں کشمیر یا پاکستان کی حمایت کے بارے میں بھڑکاؤ طریقے سے بات کرنے والے اکاؤنٹ کے ذریعے ڈالے گئے قابل اعتراض مواد تھے۔لمین ڈیٹابیس کو بھیجے گئے نوٹس کے مطابق، ہندوستان کےوزارت اطلاعات ونشریات(ایم ای آئی ٹی وائی)کی طرف سے بھیجی گئی ایک درخواست کے جواب میں ٹوئٹس کو ہٹا دیا گیا ہے۔
حالانکہ، دی وائر آزادانہ طور پرٹوئٹ کو ہٹانے کی کی تصدیق نہیں کر سکا۔ ہارورڈ ویونیورسٹی کے برک مین کلین سینٹر کی جانب سے شروع کیا گیا لمین ڈیٹابیس گوگل اور ٹوئٹر جیسی اہم ٹکنالوجی کمپنیوں کے ذریعے فراہم مواد کو ہٹانے کی درخواست کو پورا کرتا ہے۔اس سے پہلے
دی وائر کئی مواقع پر بتا چکا ہے کہ کس طرح سے ہندوستان کشمیرمرکوز ایسے مواد کو بلاک کرنے کے لیے ٹوئٹر کوباقاعدگی سے درخواست بھیجتا رہا ہے، جنہیں ایجنسیاں خطرناک اور غیرقانونی مانتی ہیں۔
گزشتہ 28 اپریل کو بھیجے گئے اس نئے نوٹس کو ٹوئٹر نے تین مئی کو لمین کو بھیجا تھا۔اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وزارت اطلاعات ونشریات نے آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 69اے کاذکر کرتے ہوئے ٹوئٹر کو توہین آمیز ٹوئٹ کوہٹانے کی ہدایت دی ہے۔دفعہ69 اے انفارمیشن کے لیے عوامی پہنچ میں رکاوٹ ڈالنے کااہتمام کرتی ہے جب ‘مرکز سرکار یا اس کے کسی افسر کے ذریعےبالخصوص اس بارےمیں مجاز بنایا جاتا ہے کہ وہ ہندوستان کی سالمیت اور خودمختاریت کےحق میں، ہندوستان کی سلامتی، ریاست کی سلامتی، غیر ملکی ریاستوں کے ساتھ دوستانہ تعلق یا عوامی نظم ونسق یا اوپر سے متعلق کسی بھی قابل دست اندازی جرم کے کمیشن کو روکنے کے لیے مطمئن ہے یا ایسا کرنے کے لیے ضروری یا مناسب ہے۔’
لومین ٹیم کے ایک ممبر نے دی وائر کو تصدیق کی کہ ٹوئٹر نے ڈیٹابیس کو یہ نوٹس سونپی اور ‘سرکاری درخواست’ کو نوٹس زمرہ کے طور پر چنا، جس کامطلب ہے کہ حکومت ہند نے اس موادکو ہٹانے کے لیے کہا تھا۔دی وائر نےبھی الگ سے تصدیق کی ہے کہ لمین کو ٹوئٹر کا نوٹس دراصل ایک قانونی نوٹس ہے۔
حالانکہ، موادصرف ہندوستانی صارفین کے لیے ہٹایا گیا ہے اور ابھی بھی ملک کے باہراس کو دیکھا جا سکتا ہے۔ حالانکہ، کم سے کم 15 ٹوئٹ صارف کے ذریعے ہٹائے گئے یا ‘دستیاب ’ نہیں ہیں۔حالیہ نوٹس میں جن اہم ٹوئٹ کو ہٹانے کی درخواست ہے ان میں سے اکثر ہندوتوا سے جڑے اکاؤنٹ کی جانب سے کئے گئے مسلم مخالف پوسٹ ہیں۔
دی وائر نے جن لگ بھگ 130 ٹوئٹ کاتجزیہ کیا ان میں سے 60 فیصدی مسلم مخالف تھے جبکہ ان میں سے کچھ اسلام سے جڑے ہوئے، ہندو مخالف اور بی جے پی یا آر ایس ایس مخالف تھے۔تیجسوی سوریہ کا ٹوئٹ اب ہندوستان میں روک دیا گیا ہے، لیکن دوسرے ممالک میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اصل ٹوئٹ(بائیں) اور ٹوئٹر کی جانب سے ہٹائے جانے کے بعد کا ٹوئٹ(دائیں)۔
د ی وائر نے بی جے پی ایم پی سے اس بارے میں بیان مانگا تھا کہ ان کے 2015 کے ٹوئٹ کو روک دیےجانے کے بارے میں کیا انہیں مطلع کیا گیا تھا اور کیا انہوں نے ٹوئٹر سے لڑنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ان کا جواب آنے پر ہم اسٹوری اپ ڈیٹ کریں گے۔
اصل ٹوئٹ(بائیں) اور ٹوئٹر کی جانب سے ہٹائے جانے کے بعد کا ٹوئٹ(دائیں)۔
اصل ٹوئٹ(بائیں) اور ٹوئٹر کی جانب سے ہٹائے جانے کے بعد کا ٹوئٹ(دائیں)۔
ہٹائے گئے دوسرے ٹوئٹ میں 470000 سے زیادہ فالوور والی شیفالی ویدیہ کے ساتھ سابق سی جے آئی رنجن گگوئی کے پیروڈی اکاؤنٹ سے کیا گیا شامل ہے۔ دونوں ٹوئٹ میں کووڈ 19 سے متعلق تنازعہ کو مسلمانوں یا تبلیغی جماعت سے جوڑکر پیش کیا گیا تھا۔