ہندوستان میں اسمبلی انتخابات: بنگال اور کیرالہ پر نظریں ٹکی ہیں

04:12 PM Mar 18, 2021 | افتخار گیلانی

مغر  بی بنگال کا مقابلہ سخت ہونے کا امکان ہے، جہاں مرکز میں حکمراں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی  (بی جے پی)نے صوبہ میں حکمراں  ممتا بنرجی کی قیادت والی علاقائی جماعت آل انڈیا ترنمول کانگریس کو ہرانے کے لیے پوری طاقت جھونک دی ہے۔

فوٹو: پی ٹی آئی/ رائٹرس

ہندوستان  میں اس وقت چار صوبوں مغربی بنگال، آسام، تامل ناڈو، کیرالہ اور مرکزی انتظام والے خطہ پڈوچیری میں اسمبلی انتخابات کا بگل بج گیا ہے۔ مغربی بنگال کی294  اسمبلی نشستوں پر انتخابات آٹھ مرحلوں میں 27 مارچ سے 29 اپریل کے درمیان ہوں گے، جبکہ آسام کی 126 نشستوں پر انتخابات 27 مارچ سے 6 اپریل کے درمیان تین مراحل میں منعقد ہوں گے۔

کیرالہ، تامل ناڈو اور پڈوچیری میں 6 اپریل کو بیک وقت انتخابات ہوں گے۔دو مئی کو نتائج کا اعلان کیا جائےگا۔ ان سب میں مغربی بنگال کا مقابلہ سخت ہونے کا امکان ہے، جہاں مرکز میں حکمراں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی  (بی جے پی)نے صوبہ میں حکمراں  ممتا بنرجی کی قیادت والی علاقائی جماعت آل انڈیا ترنمول کانگریس کو ہرانے کے لیے پوری طاقت جھونک دی ہے۔

سال 2010 سے قبل 35 برس تک اس ریاست میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کی قیادت میں بائیں بازو کا محاذ برسر اقتدار تھا اور دائیں بازو کی موجودگی برائے نام تھی۔ مگر اس بار اس صوبہ میں مقابلہ بی جے پی اور ترنمول کانگریس کے درمیان ہی ہے۔اس صوبہ میں مسلم آبادی کا تناسب27فیصد ہے، جن کی اکثریت نے ان انتخابات میں فی الحال ترنمول کانگریس کا ہی دامن تھاما ہے۔

  ماضی میں اس ریاست میں انتخابات کی کوریج کے دوران جب مختلف علاقوں آسنسول، مرشد آباد، بردھمان، مالدہ کے قصبوں یا دیہاتوں میں گھومنے کا موقع ملتا تھا، تو گلی کے نکڑوں یا چوپالوں پر مارکس، اینجلز، لینن یا چیرمین ماو زے  تنگ کی اقتصادی تھیوریوں اور فلسفہ  پر خوب بحث و مباحثہ دیکھنے کو ملتا تھا۔

مقابلہ بھی اکثر کانگریس اور بائیں بازو کے درمیان ہی ہوتا تھا، تو بحث بھی مارکسزم بنام جواہر لال نہرو کے سوشلزم کے ارد گرد ہی گھومتی تھی۔کمیونسٹ پارٹی کے اراکین کانگریس کو بورژوا  اور اپنے آپ کو پرولتاری کہتے تھے۔ مگر اب ان دونوں پارٹیوں کی سیاسی قسمت اس صوبہ سے گول ہو چکی ہے۔

رہی سہی قوت کو برقرار رکھنے کے لیے بورژوا اور پرولتاری یکجا انتخابات لڑ رہے ہیں۔مگر اس اتحاد کی کامیابی کی زیادہ گنجائش نہیں ہے۔  زیادہ حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے، کہ بائیں بازو کے وہ کارکنان، جو مارکس اور لینن کی قسمیں کھاتے تھے اور گھنٹوں بحث ومباحثہ کرکے نئی دہلی میں لال انقلاب لانے کے لیے لنگوٹ کس رہے ہوتے تھے، اب ان میں اکثر بی جے پی کے خیمہ میں چلے گئے ہیں۔

اتنی لمبی نظریاتی چھلانگ لگانااو راس کا دفاع کرنا واقعی دل گردے کا کام ہے۔ رائے عامہ کے جائزو ں میں بتایا گیا ہے کہ ممتا بنرجی کی قیادت میں ترنمول کانگریس اقتدار میں واپس آئےگی، مگر بی جے پی، جس کی ابھی تک ایوان میں بس تین سیٹیں تھی، لمبی چھلانگ لگا کر 294رکنی ایوان میں 107کے قریب نشتیں حاصل کرنے والی ہے۔

بنگال میں ویسے تو ہندو قوم پرستی کی جڑیں بہت پرانی ہیں تاہم بائیں بازو کے محاذ کے دور اقتدار میں اس کا اثر نہایت ہی کم ہو گیا تھا۔ گزشتہ کچھ برسوں سے بی جے پی نے اس ریاست میں رقوم خرچ کرکے اور دیگر پارٹیوں کے لیڈروں کو لبھا کر ہندو قوم پرستی کا احیاء کیا ہے۔ گزشتہ روز بالی وڈ کے معروف اداکار متھن چکرورتی بھی بی جے پی میں شامل ہو گئے اور کولکاتہ میں مودی کے ساتھ انہوں نے بھی ریلی سے خطاب کیا۔

وزیر داخلہ امت شاہ نے سابق کرکٹر سوربھ گنگولی کو بھی رام کرنے کی بھر پو کوشش کی اور ان کو وزیر اعلیٰ بنانے تک کی پیشکش کی ہے۔ متھن چکرورتی بھی کمیونز م سے خاصے متاثر ہوتے تھے۔گنگولی اور چکرورتی کمیونسٹ پارٹی کے دور اقتدار میں بائیں بازو کے جید لیڈروں جیوتی باسواور سوم ناتھ چٹرجی کے کافی قریبی بھی جانے جاتے تھے۔

چکرورتی نے چند ہفتے قبل  ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات کی تھی۔جس کے بعد ان کو بی جے پی میں داخل کرایا گیا۔ مغربی بنگال کے بعد  2018  میں لیفٹ فرنٹ نے شمال مشرق کی ایک اور ریاست تری پورہ کو بھی 25 سال تک اقتدار میں رہنے کے بعد گنوادیا۔

اس صوبہ میں 2013  میں اسمبلی کے انتخابات میں بی جے پی کو صرف 2.1 فی صد ووٹ ملے تھے جب کہ2018  میں اس کو40 فی صد ووٹ ملے۔ مغربی بنگال میں جہاں ترنمول کانگریس نے لیفٹ فرنٹ کو شکست دے کر حکومت چھین لی تھی، لگتا تھا کہ عوام بہت جلد  وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کی سیمابی فطرت سے تنگ آ کر دوبارہ لیفٹ فرنٹ کا دامن تھامیں گے۔

مگر لیفٹ فرنٹ کی سیاسی زمین پر جس تیزی کے ساتھ بی جے پی قبضہ کر رہی ہے، اس سے بس یہی نتیجہ اخذکیا جاسکتا ہے کہ اقتدار کی دیوی کی بس ایک نظر کرم کے سامنے نظریات ہیچ ہیں۔ 1996 اور  2008کے بیچ بائیں بازو محاذ بلندیوں پر تھا۔اس دوران دیو گوڑا، اندر کمار گجرا ل اور بعد میں من موہن سنگھ کی پہلی حکومت ان کی ہی بیساکھیوں پر ٹکی ہوئی تھی۔

مغربی بنگال اور تری پورہ میں شکست کے بعد اب کیرالہ ہی ایک ریاست ہے جہاں کمیونسٹ بر سر اقتدار ہیں۔ کیرالہ میں بھی مخلوط حکومت ہے۔ کیرالہ میں ایک دفعہ لیفٹ فرنٹ تو دوسری دفعہ کانگریس کی قیادت میں قائم محاذ یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ الیکشن جیت جاتا ہے۔

مگر  اس بار رائے عامہ کے جائزے بتا رہے ہیں کہ وزیر اعلیٰ پناری ویجائن کی قیادت میں کمیونسٹ فرنٹ دوبارہ اقتدار میں آئےگا، کیونکہ ان کے حریف کانگریس کی قیادت والے فرنٹ میں لیڈروں کے درمیان اور ٹکٹوں کے حصول کیلئے گھمسان پڑا ہوا ہے، جو اس صوبہ کا خاصہ نہیں ہوتا تھا۔ چونکہ پچھلی بار کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی اسی صوبہ سے لوک سبھا کے لیے منتخب ہوگئے تھے، اسی لئے ماضی کے برعکس کانگریس کے مرکزی لیڈروں کی طرف سے ٹکٹوں کے بانٹنے میں مداخلت نے مقامی رہنماؤ ں کو ناراض کردیا ہے۔

یہ غالباً واحد صوبہ تھا جہاں کانگریس  پارٹی کی مرکزی کمان اپنا کوئی امیدوار نہیں تھوپ دیتی تھی بلکہ  یورپی ممالک کی طرز پر انتخابات کے ذریعے پارٹی عہدوں تک پہنچتے تھے۔ اس صوبہ میں بھی سیندھ لگانے کے لیے آر ایس ایس اوربی جے پی کمر کس رہی ہے۔اس لیے انہوں نے معروف ریٹائرڈ انجینئر اور دہلی میٹر ٹرین سمیت کئی دیگر مشکل ریلوے پرجیکٹوں کے خالق ای سری دھرن کو بطور وزیر اعلیٰ کے امیداوار کے طور پر نامزد کیا ہے۔

سال  2011 ء کی مردم شماری کے مطابق اس صوبہ کی آبادی میں ہندوؤں کا تناسب 56 فیصد مسلمانوں کا 25 فیصد اور عیسائیوں کا 19فیصد ہے۔صوبہ کے نامور قانون داں کے راج کے مطابق چونکہ اس صوبہ میں اقلیتوں کا تناسب کم و بیش 50فیصد ہے، اس لیے ہندو قوم پرستوں کی دال شاید ہی گل جائے۔

مگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ  لیفٹ فرنٹ یعنی کمیونسٹ مغربی بنگال، تری پورہ اور  دیگر علاقوں میں ہو رہی ہزیمت سے کوئی سبق نہیں لے رہے ہیں۔ آر ایس ایس کے ساتھ نظریاتی مقابلہ کرنے کے بجائے  وہ  اقتدار کا سہارا لےکر غنڈہ گردی پر زیادہ تکیہ کرتے ہیں۔ امت شاہ کے مطابق صوبہ میں پچھلے کئی برسوں میں آر ایس ایس اور بی جے پی کے سینکڑوں اراکین ہلاک کر دیے گئے ہیں۔ اس کو بنیاد بنا کرہندو انتہا پسنداپنے آپ کو مظلوم و مقہور جتلا کر ہندو نوجوانوں کی ہمدردیا ں بٹورنے میں مصروف ہیں۔

آر ایس ایس نے لو جہاد یعنی مسلمان لڑکوں کے ذریعے ہندو لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر دام محبت میں پھنسا کر بعد میں ان کا تبدیلی مذہب کرانے کا مفروضہ اسی صوبہ سے شروع کیا تھا۔  اس صوبہ کی ایک اور خاص بات ہے کہ دیگر علاقوں کے برعکس کیرالہ کے مسلمان اپنی سیاسی حیثیت رکھتے ہیں، ان کی اس طاقت کا سرچشمہ انڈین یونین مسلم لیگ  ہے۔ 141 رکنی صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ کے اس وقت 18اراکین ہیں۔

یہ کانگریس کی قیادت والی یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کا ایک اہم جز ہے۔ریاست کے مسلمانوں میں اب کئی دوسری تنظیموں نے بھی اب اپنی جگہ بنالی ہے، ان میں جماعت اسلامی ہندکی حمایت یافتہ سالیڈیریٹی یوتھ فرنٹ اور سوشلسٹ ڈیموکریٹک فرنٹ آف انڈیا شامل ہے۔