چھتیس گڑھ: کیاحکومت بدلنے سے کچھ بدلنے کی امید کی جاسکتی ہے؟

جو عوام رام، گائے اور مندر کے جھانسے میں نہیں آئی وہ جنیو اور راہل کے گوتراور شیو پوجا کے جھانسے میں بھی نہیں آنے والی۔ The post چھتیس گڑھ: کیاحکومت بدلنے سے کچھ بدلنے کی امید کی جاسکتی ہے؟ appeared first on The Wire - Urdu.

جو عوام رام، گائے اور مندر کے جھانسے میں نہیں آئی  وہ جنیو اور راہل کے گوتراور شیو پوجا کے جھانسے میں بھی نہیں آنے والی۔

چھتیس گڑھ ریاستی کانگریس صدر بھوپیش بگھیل، وزیراعلیٰ رمن سنگھ اور اجیت جوگی۔  (فوٹو بشکریہ: فیس بک)

چھتیس گڑھ ریاستی کانگریس صدر بھوپیش بگھیل، وزیراعلیٰ رمن سنگھ اور اجیت جوگی۔  (فوٹو بشکریہ: فیس بک)

تین ریاستوں میں بی جے پی ہاری ہے اور کانگریس جیتی ہے۔ ہمارے کئی دوست بہت خوش ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ اب سب کچھ بدل جائے‌گا۔ لیکن میں تھوڑا تذبذب میں ہوں۔ میرے  خدشا ت کیاہیں وہ میں آپ کے سامنے رکھوں‌گا۔میرا میدان عمل چھتیس گڑھ کا بستر رہا ہے۔پچھلے کچھ وقتوں میں بی جے پی کے وقت میں  ہوئے استحصال سے متعلق میری  رپورٹس شائع  ہوتی رہی ہیں۔ لیکن یہ مکمل  سچ نہیں ہے۔نریندر مودی کے  وزیر اعظم بننے سے پہلے جب دہلی میں منموہن سنگھ وزیر اعظم اور پی چدمبرم وزیر داخلہ تھے۔ میں نے بہت ساری رپورٹس کانگریس کی حکومتوں کے مظالم  اور غیر قانونی کاموں کے خلاف بھی لکھی تھیں۔

جب ہم چھتیس گڑھ میں تھے اس وقت چھتیس گڑھ میں کانگریسی رہنما جواپوزیشن پارٹی  کے رہنما مہیندر کرما تھے۔ وہ غیر قانونی مہم سلوا جڈوم کی  قیادت کر رہے تھے۔ سلوا جڈوم کو سپریم کورٹ نے آئین مخالف قرار دیا تھا۔ کانگریس نے آج تک سلوا جڈوم کے دوران کئے گئے ظلموں کے لئے معافی نہیں مانگی ہے۔

مجھے اچھے سے یاد ہے جب سارکیگڈا میں سی آر پی ایف نے ماٹی تہوار منا رہے 17 آدیواسیوں کو گولیوں سے بھون ڈالا تھا جن میں 9بچے بچیاں بھی تھیں۔ تب کانگریس کے وزیر داخلہ پی چدمبرم نے چھتیس گڑھ کے وزیراعلیٰ کے اس خوفناک کام کی تعریف کی تھی اور پریس کانفرنس کرکے کہا تھا کہ ہمارے  حفاظتی دستوں نے  ماؤوادیوں کو مار ڈالا ہے۔

جبکہ دنتے واڑا ضلع ‎ کی کانگریس کی  بنائی  گئی جانچ کمیٹی نے مانا تھا کہ حفاظتی دستوں نے بےقصور آدیواسیوں کا قتل کیا  ہے۔ میں خود بھی جب چدمبرم سے ملا تھا تو چدمبرم نے میرے منھ پر رمن سنگھ کی بڑی تعریفیں کی تھیں۔ آج کس منھ سے چھتیس گڑھ میں کانگریس بی جے پی کے کاموں کی مخالفت کر رہی ہے جب خود اس نے مرکز میں رہتے ہوئے بڑے کارپوریٹ کے لئے زمینیں چھیننے کے لئے چھتیس گڑھ حکومت کو مدد دی اور اس کی حمایت کی  تھی؟اگر آپ اس لئے خوش ہیں کہ اب کانگریس کی  قیادت راہل گاندھی کے ہاتھ میں آ گئی ہے۔ اس لئے اب کانگریس پرانی کانگریس نہیں رہ گئی ہے تو کانگریس کو یہ ثابت کرنا ہوگا۔

کانگریس پہلے سلوا جڈوم کے لئے معافی مانگے۔ کانگریس پہلے بی جے پی حکومت کے ذریعے سونی سوری پر لگائے گئے فرضی مقدمے واپس لے اور سونی سوری کی شرمگاہ میں پتھر بھرنے والے پولس سپرنٹنڈنٹ انکت گرگ کے خلاف ایف آئی آر  درج کرنے کا حکم دے اور اس کو جیل میں ڈالے۔ سونی سوری  کے ذریعے اٹھائے گئے انسانی حقوق کی  پامالی کے معاملوں کی جانچ شروع کروائے۔

کانگریس میں جرأت ہے تو سکما کے کلکٹر الیکس پال مینن کے نکسلیوں کے ذریعے اغوا کے بعد جیلوں میں بند بےقصور آدیواسیوں کو رہا کرنے کے لئے بنائی گئی بوچ کمیٹی کو زندہ کرے اور بےقصور آدیواسیوں کو جیلوں سے رہا ہونے میں رکاوٹ نہ پیدا کرے۔

مجھے یاد ہے جب سکما ضلع  کے گومپاڈ گاؤں میں سی آر پی ایف کی کوبرا بٹالین نے 16 آدیواسیوں کو تلواروں سے کاٹ دیا تھا جس میں 80 سال کی خاتون کے پستان کاٹ ڈالے تھے اور ڈیڑھ سال کے بچے کا ہاتھ کاٹ دیا تھا۔ جب اس معاملے کو لےکر  میں سپریم کورٹ آیا تو کانگریس حکومت نے میرے خلاف کورٹ میں اپنے وکیل کھڑے کئے اور مجھے نکسلی کہا۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے حکومت کو مجھے نکسلی کہنے پر ڈانٹ پلائی تھی۔ آج بھی وہ معاملہ سپریم کورٹ میں لٹکا ہوا ہے۔


یہ بھی پڑھیں :چھتیس گڑھ : فرضی مقدموں میں پھنسائے جا رہے آدیواسی


میں یہ بھی نہیں بھول سکتا کہ کانگریس کے وقت میں ہی ہندوستان کے وزیر اعظم منموہن سنگھ اور وزیر داخلہ پی چدمبرم نے میرے سپریم کورٹ میں معاملے اٹھانے پر بیان دیا تھا کہ اب ماؤوادی عدالتوں کی مدد لے رہے ہیں۔ اور میں نے جواب میں لکھا تھا کہ آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ ماؤوادی قانون اور آئین کو مان رہے ہیں اور اگر کورٹ میں جانا بھی ماؤواد ہے تو ہمیں لسٹ دےکر بتا دیجئے کہ آپ کی نظر میں اور کیا کیا ماؤواد ہوتا ہے؟

کانگریس کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہندوستان میں اسلامی دہشت گردی کا ہواکانگریس کے وقت میں ہی کھڑا کیا گیا تھا۔ ٹاڈا، پوٹا، مکوکا، یو اے پی اے جیسے جابرانہ قانون کانگریس کے ہی وقت میں لائے گئے تھے اور ان قوانین کے تحت گرفتار کئے گئے لوگوں میں 90 فیصد سے زیادہ لوگ مسلمان تھے جو بعد میں بےقصور ثابت ہوئے۔

مونگیلی ضلع کے پتھریا تھانہ علاقہ علاقے میں دلت خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کرنے والوں کو گرفتار کرنے اور ان کو تحفظ دینے والے رہنماؤں کے خلاف یکجا ہوئے مقامی لوگ 

مونگیلی ضلع کے پتھریا تھانہ علاقہ علاقے میں دلت خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کرنے والوں کو گرفتار کرنے اور ان کو تحفظ دینے والے رہنماؤں کے خلاف یکجا ہوئے مقامی لوگ

کانگریس کے وقت میں ہندوستان کی  وزارت داخلہ نے انڈین مجاہدین جیسی خیالی دہشت گرد تنظیم کا ہوا کھڑا کیا اور ہندوستان کی آئی بی کے لوگوں نے مسلم دہشت گردی کے ہوا کو صحیح ثابت کرنے کے لئے اپنے ایجنٹ کے ذریعے مسلمان لڑکوں کو بھڑکاکر ان کو مشتعل بنانے کی حرکتیں کیں جن کا انکشاف رہائی منچ کئی معاملوں میں اپنی جانچ رپورٹس میں کر چکا ہے۔ کانگریس نے ہی بابری مسجد کا تالا کھلوایا تھا اور ملک میں فرقہ وارانہ سیاست کا راستہ صاف کیا تھا۔


یہ بھی پڑھیں : چھتیس گڑھ اسمبلی انتخاب: یہاں ووٹ فیصد معمہ کیوں بن گیا ہے؟


کانگریس کے وقت میں چھتیس گڑھ میں نگرنار لوہا کارخانے کے لئے جب زمین لی گئی تھی تب پورے گاؤں والوں کو جیل میں ڈال دیا گیا تھا جن میں حاملہ خواتین اور بچّے بھی شامل تھے اور بستر کی  کلکٹر رچا شرما کے ذریعے گرام سبھا کے رجسٹر میں سے حصول اراضی کے خلاف منظور گرام سبھا کی تجویز کو پھاڑ‌کر خود فرضی گرام سبھا کی کارروائی لکھی گئی تھی اور نگرنار کی زمین لے لی گئی تھی۔

ہو سکتا ہے کانگریس کے کچھ رہنما راہل گاندھی کو سمجھائیں کہ آپ مندر گئے، جنیو پہنا اس لئے جیت گئے۔ تو کانگریس اپنی بربادی خودہی طے کر لے‌گی۔ جو عوام رام، گائے اور مندر کے جھانسے میں نہیں آئی وہ جنیو اور راہل کے گوتراور شیو پوجا کے جھانسے میں بھی نہیں آنے والی۔کانگریس اگر اپنے کو اب بدلی ہوئی، سدھری ہوئی  اور اب اچھی پارٹی ثابت کرنا چاہتی ہے تو اس کو یہ اپنے کاموں سے ثابت کرکے دکھانا ہوگا۔

چھتیس گڑھ میں ہم نے جن آدیواسیوں کے اوپر ہوئے مظالم؛جن میں آدیواسیوں کے گھر جلانے، ان کی خواتین سے ریپ  کرنے، ان کے بچوں کے  قتل کرنے کے معاملوں کے خلاف عدالت جاکر انصاف مانگنے میں مدد کی ان مقدموں میں بہت سارے کانگریسی رہنما بھی پھنسے ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ سلوا جڈوم کے نئے ایڈیشن میں کانگریسی غنڈے برابر شامل رہے ہیں۔اب یہ کانگریسی رہنما پولیس کے ساتھ مل‌کر ہمارے اوپر ویسے ہی حملے کریں‌گے جیسے بی جے پی والے کرتے تھے۔ آج صبح سونی سوری سے  میری بات ہوئی ہے حکومت بدلنے سے کچھ بدلنے کی امید ہم نہیں کر رہے۔

بشکریہ: جن چوک

The post چھتیس گڑھ: کیاحکومت بدلنے سے کچھ بدلنے کی امید کی جاسکتی ہے؟ appeared first on The Wire - Urdu.

Next Article

تجارتی دباؤ اور نظریاتی غلامی کے شکنجے میں جکڑا ہندوستانی میڈیا

دنیا کے کئی میڈیا اداروں نے حالیہ دنوں میں اندرونی ایڈوائزیز جاری کرکے اپنے صحافیوں کو ہندوستانی میڈیا کا حوالہ دےکر خبریں فائل کرتے وقت انتہائی محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے۔

Illustration: The Wire, with Canva

تقریبا تین دہائیوں تک ہندوستان کے مین اسٹریم میڈیا کا حصہ رہنے کے بعد اس کی تنزلی کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔

حالیہ ہندوپاک کشیدگی کے دوران جھوٹی خبروں کی یلغار کرکے ہندوستانی میڈیا  نے ایسے منظرنامے کی تصویر کشی کی  جو تجارتی دباؤ، نظریاتی غلامی، اور نمائشی تماشے کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔

 معلوم ہوا ہے کہ دنیا کے کئی میڈیا اداروں نے حالیہ دنوں میں اندرونی ایڈوائزیز جاری کرکے اپنے صحافیوں کو ہندوستانی میڈیا کا حوالہ دےکر خبریں فائل کرتے وقت انتہائی محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے۔

 صحافی ہونے کے علاوہ میں ہندوستان میں میڈیا سے متعلق کئی اداروں سے بھی وابستہ رہا ہوں۔ پارلیامنٹ کی پریس ایڈوائزری کمیٹی کا ڈپٹی چیئرمین، سینٹرل پریس ایکریڈیٹیشن کمیٹی کا ممبر پریس کونسل کے ساتھ وابستگی کے علاوہ میں نے برکس میڈیا فورم میں ہندوستان کی نمائندگی بھی کی ہے۔

اس کے علاوہ پریس کلب آف انڈیا، پریس ایسوسی ایشن اور دہلی یونین آف جرنلسٹس کا بھی عہدیدار رہا ہوں۔ان تجربات کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ ہندوستان میں کبھی بھی میڈیا ایک آزاد اور خود مختار ادارہ نہیں تھا، مگر آزادی کی ایک ظاہری اور موہوم شکل موجود تھی۔

میڈیا کو  جمہوریت کا چوتھاستون تو کہا جاتا ہے، مگر اس کو چلانے والے صحافیوں یا نان-صحافیوں کے نان و نفقہ کا کوئی ڈھانچہ کبھی بھی کھڑا نہیں ہو پایا ہے۔ پہلے تین ستون یعنی پارلیامنٹ، ایگزیکٹو، عوامی ٹیکس کے دم پر ایک سسٹم کے تحت چلتے ہیں  ۔ مگر میڈیا جیسے اہم شعبہ کو اشتہاری اور تجارتی اجارہ داری کے مگرمچھ کے حوالے کردیا گیا ہے۔

ہندوستان میں اس وقت ایک لاکھ پچاس ہزار کے قریب اخبارات شائع ہوتے ہیں، اس کے علاوہ ملک کے طول و عرض میں  850 سے زائد ٹی وی نیوز چینلز ہیں۔

ہندوستان میں اشتہاری معیشت کا حجم نوسو بلین کے لگ بھگ ہے۔ یہ معیشت اس وسیع میڈیا کو سنبھال نہیں سکتی ہے۔ دیکھا جایے تو میڈیا کی آمدن کا کوئی پائیدار ماڈل موجود ہی نہیں ہے۔ اس پر طرہ کہ ٹی آر پی نظام  شفافیت سے مبرا ہے۔

ہندوستان کے ایک سابق وزیر اطلاعات و نشریات منیش تیواری کے بقول اس خامی سے ہی سنسنی خیزی کی دوڑ شروع ہو جاتی ہے، جس کو مقابلہ جاتی غیرذمہ داری کا بھی نام دیا گیا ہے۔  جب پورا نظام ہی اشتہارات اور ٹی آر پی پر منحصر ہو، تو سچ کی ہی سب سے پہلے قربانی دی جائےگی۔

اس کے علاوہ ہندوستان میں میڈیا ملکیت کا پیٹرن بھی اس کا ذمہ دارہے۔ جنوبی ہندوستان کے بنگلور میں دکن ہیرالڈ گروپ کے علاوہ باقی سبھی قومی میڈیا کے ادارے ایک مخصوص طبقہ یعنی بنیا یا ویشیہ کی ملکیت ہیں۔ ان کے دیگر کاروبار ہیں ۔

 ہندوستان ٹائمز کے مالکان ہندوستان موٹرس اور کئی دیگر کمپنیاں چلاتے ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کے مالکان دالمیا گروپ آف انڈسٹریز کے بھی مالکان ہیں۔ زی نیوز، ویان اور ڈی این اے کے مالک سھاش چندرا نامی گرامی بلڈر ہونے کے ناطے ایس ایل گروپ کے مالک ہونے کے علاوہ تیس سے زائد کمپنیوں کے مالک ہیں۔

 ان کمپنیوں کے مقابلے میڈیا ادراوں سے ان کو نہایت ہی کم منافع حاصل ہوتا ہے، چند ادارے تو نقصان میں ہی چلائے جاتے ہیں۔ مگر وہ اس کو اپنی طاقت کے بطور استعمال کرکے دیگر بزنس اداروں کےلیے اکثر و بیشتر مراعات حاصل کرتے ہیں۔

میڈیا کے زوال کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے، تو پتہ چلتا ہے کہ قومی سلامتی کے حوالے سے ہندوستانی میڈیا میں ہمیشہ ہی حکومت کے ورژن کو ہی حرف آخر تصور کیا جاتا رہا ہے۔ مگر پھر بھی کسی وقت رگ صحافت پھڑک ہی جاتی تھی۔ کرگل جنگ کے وقت مجھے یاد ہے  کہ انڈیا ٹوڈے کی ہریندر باویجا نے وہاں ناگا بریگیڈ کے کیمپ کے گیٹ پر پاکستانی سپاہیوں کے سروں کو بطور وار ٹرافی لٹکانے کی واردات کو رپورٹ کیا تھا۔

 اس کے بعد ایک عرصہ تک ان کو کرگل جانے سے منع کر دیا گیا تھا۔ مگر اس کےلیے انہوں نے اپنے صحافتی اقدار کا سودا نہیں کیا۔ جبکہ اس کو رپورٹ کرنے کی سختی سے ممانعت کی گئی تھی۔

کم و بیش بڑی حد تک اس جنگ کی رپورٹنگ متوازن ہی تھی۔ لیکن 2014 کے بعد خوف، نظریاتی جبر، اور تجارتی دباؤ نے ادارتی آزادی کو نگل لیا ہے۔جس سے  آج کا میڈیا دراصل ‘پرفارمیٹو جرنلزم’بن گیا ہے ۔

یہاں تک کہ نیٹ فلکس جیسے عالمی پلیٹ فارم بھی اب ہندوستان میں خود کو سینسر کر رہے ہیں۔ کوئی نہیں کہتا، مگر خوف اندر تک بیٹھ گیا ہے۔

 ہر سانحہ، ہر خبر، جھوٹ کے سرکس میں کھو جاتی ہے۔ یہ صحافت نہیں، ایک تماشہ سا بن گیا ہے، جس سے ہم سب کی معتبریت مجروح ہو گئی ہے۔

بین الاقوامی سطح پر ہندوستانی میڈیا کی ساکھ اس قدر متاثر ہو چکی ہے کہ  اس کا نقصان سب سے پہلے حکومت کو  ہی عالمی سطح پر اٹھانا پڑ رہا ہے۔ کل جماعتی وفد جو سفارتی مشن پر مختلف ممالک کے دورہ  پرہے، کو یہ ادراک ہو رہا ہے کہ میڈیا نے ملک کی کس قدر سبکی کی ہے۔

تیواری کے مطابق، دو ہزار سات  میں  کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے حکومت نے میڈیا ریگولیشن کا بل لانے کی کوشش کی، مگر میڈیا ہاؤسز نے شدید مزاحمت کی۔ انہیں ریاستی کنٹرل سے نہیں بلکہ کسی بھی کنٹرول سے پرہیز تھا۔ انہوں نے سیلف ریگولیشن کی وکالت کی، جس کی آئے دن دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ جب تک  اشتہارات کے کیبل ایکٹ کی طرز پر اس سیلف ریگولیشن کو کسی قانونی دائرہ میں نہیں لایا جاتا ہے، تب تک اس کا وجود ہی بے معنی ہے۔

ہندوستانی جمہوریت ایسے میڈیا ہاؤسز بنانے میں ناکام رہی ہے جو کاروباری مفادات سے آزاد ہوں۔ یہی ہندوستانی جمہوریت کا سب سے بڑا المیہ ہے۔

بنیے کا میڈیا آزاد معیشت اور ہندو تو نظریہ کو ضم کر چکا ہے۔ اب حکومت کو کچھ کرنے کی ضروت ہی باقی نہیں رہ گئی ہے۔  صحافت کو پیشہ ورانہ بنانے کی ہر کوشش کو میڈیا گروپس نے خود ناکام بنایا ہے، کیونکہ اب وہ خود ہی صحافتی اسکول بھی چلاتے ہیں اور معیار بڑھانے میں ان کو کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔

اگر ایک صحافی کی ضرورت ہے، تو اس کےلیے بیس کو ایڈمیشن دیتے ہیں، تاکہ مارکیٹ میں ان کی کثرت رہنے سے مسابقت رہے اور ان کو زیادہ تنخواہیں نہ دینا پڑیں۔

پاکستان کے ساتھ حالیہ جنگ میں بتایا جاتا ہے کہ حکومت کی طرف سے باضابطہ کوئی ہدایات نہیں تھیں۔ فوج کے سربراہ کا بھی کہنا تھا کہ اس نازک وقت میں ان کا پندرہ فی صد وقت غلط خبروں سے نمٹنے میں صرف ہوا۔

پاکستانی شہر ہندوستانی فوج کے قبضے میں آ گئے، یا اعلیٰ افسران ملک چھوڑ گئے، یہ نہ تو سرکاری بیانات تھے، نہ ہی کسی معتبر ذرائع سے تصدیق شدہ۔ یہ دعوے خود میڈیا اداروں نے گھڑے تھے۔ اور یہ زیادہ خطرناک ہے۔

جنگی جنون اور حالیہ مس انفارمیشن ایک پیٹرن کا حصہ ہے ، جس میں ، اقلیتوں کے خلاف نفرت، اور سرکاری بیانیے کی اندھی تکرار اور اس سے بھی آگے جاکر شاہ کی وفاداری میں مسابقت کرنااب  ایک معمول ہے۔

چونکہ میڈیا کے حالیہ رویہ سے ملک اور حکومت کی سب سے زیادہ سبکی ہوگئی ہے اور بین الاقوامی طور پر ہندوستان کا بیانیہ کتنا ہی سچا کیوں نہ رہا ہو، پٹ گیا ہے، اس لیے ضرورت ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ میڈیا کے اصلاحات کا بیڑا اٹھایا جائے۔ ایک بڑی جمہوریت ہونے کے ناطے یہ خطہ نے دیگر ممالک کےلے بھی مشعل راہ ہوسکتے ہیں۔

نہ صرف میڈیا کی ملکیت کے حوالے سے شفافیت ہونی چاہیے بلکہ کراس ہولڈنگ پر بھی پابندی ہو۔ جو براڈکاسٹر ہے، وہ پروڈیوسر نہ ہو۔ ایک آزاد میڈیا کونسل کی بھی اشد ضرورت ہے، جو خود مختار اور سبھی سیاسی جماعتوں پر مشتمل ادارہ ہو۔ اس میں کسی ایک پارٹی کا غلبہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ادارہ ہمہ وقت معیار، اشتہارات کی نگرانی کے علاوہ احتساب کا بھی کام کرے۔

کئی میڈیا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دو ہزار چودہ کے بعد میڈیا نے جس طرح کی مثال قائم کی ہے، اگر وزیر اعظم مودی کی حکومت اقتدار سے باہر بھی ہو جاتی ہے، توبھی آئندہ آنے والی حکومتوں  کےلیے بھی ایک نظیرقائم کی گئی ہے۔ وہ بھی میڈیا کی اسی طرح کی تابعداری کی توقع کریں گے اور اگر کوئی ادارہ اس سے انکار کرےگا تو اس کو اسی طرح بھگتنا پڑے گا۔

 دی وائر کی ایڈیٹر سیما چشتی نے حال ہی میں معروف قانون دان کپل سبل کے ایک پروگرام میں کہا کہ سیاست دانوں نے سیکھ لیا ہے کہ میڈیا پر جتنا دباؤ ڈالو وہ اتنامطیع رہےگا۔  اب  کوئی بھی پاور میں آئےگا تو وہ جمہوریت کے اس چوتھے ستون کو غلام بنانے پر پورا زور صرف کرےگا۔

اندرا گاندھی کے ذریعے ایمر جنسی لگانے کے بعد 1977 میں جب ایل کے اڈوانی وزیر اطلاعات و نشریات مقرر ہوئے، تو انہوں نے ہندوستانی میڈیا پر طعنہ کستے ہوئے کہا کہ ان کو رکوع کرنے کےلیے کہا گیا  تھا مگر وہ پیٹ کے بل لیٹ گئے۔ موجودہ میڈیا کے حوالے سے اب کیا کہا جاسکتا ہے۔ وہ لیٹنے کے عمل کو بھی پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔

سبل کے مطابق یہ صرف میڈیا کا نہیں، بلکہ جمہوریت کے وجود کا مسئلہ ہے۔ جب سچ کی جگہ جھوٹ، اور احتساب کی جگہ تماشا لے گا، توملک ایک ہیجان زدہ قوم کا مسکن بن جائےگا، جو پورے خطے کےلیے خطرناک اور پریشان کن صورتحال ہے۔

ہندوستان کا میڈیا ایک باخبر عوام کے بجائے قوم کو ایک ہیجان زدہ جنونیوں کے قالب میں ڈھالتا جا رہا ہے۔دنیا بھر کے ذی ہوش اور ذی حس افراد کو اس کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔

Next Article

محمود آباد کے بہانے اب اشوکا یونیورسٹی پر حملہ

محمود آباد کے بہانے اب اشوکا یونیورسٹی پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ کیا ہم اس ادارے سےامید کر سکتے ہیں کہ یہ ہارورڈ کی طرح حکومت کے سامنے اٹھ کرکھڑا ہوجائے؟ شاید وہ روایت یہاں نہیں ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ اس بار پھر سے اس ادارے کے آقا بی جے پی کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی قربانی دے دیں گے۔

(اسکرین گریب بہ شکریہ: یوٹیوب/اشوکا یونیورسٹی)

اب یہ بات آہستہ آہستہ واضح ہوتی جا رہی ہے کہ علی خان محمود آباد کے بہانے اشوکا یونیورسٹی کو گھیرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کیا اس پر پوری طرح  قبضہ کر لیا جائے گا؟ کیا یہ جے این یو کی طرح برباد کر دیا جائے گا؟

اس خدشے کی  وجہ ہے۔ اس بار آر ایس ایس کی تنظیمیں، بی جے پی، سرکاری ادارے، سب مل کر اشوکا یونیورسٹی پر حملہ کر رہے ہیں۔ خبرہے کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے قومی کمیشن نے تین ماہ قبل اشوکا یونیورسٹی کیمپس میں دو طالبعلموں کی موت کے معاملے میں وضاحت کے لیے ہریانہ پولیس اور انتظامیہ کو نوٹس بھیجا ہے۔ اس نے یہ کام کسی کی شکایت پر کیا ہے۔

کمیشن کے خط میں کہا گیا ہے کہ ‘شکایت کنندہ نے الزام لگایا ہے کہ 14 اور 15 فروری کو اشوکا یونیورسٹی کے دو طالبعلموں کی المناک موت نے ممکنہ ادارہ جاتی کوتاہی کے بارے میں شدید تشویش پیدا کی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، ایک طالبعلم کی خودکشی سے موت  کا اندازہ ہے، جبکہ دوسرے طالبعلم کی لاش چند ہی گھنٹے بعد یونیورسٹی کے گیٹ کے قریب غیر واضح اور مشتبہ حالات میں پائی گئی۔’

کمیشن کے مطابق، ‘شکایت کنندہ نے واقعات کے ارد گرد شفافیت کی تشویشناک کمی کو اجاگر کیا، جس میں مبینہ خودکشی نوٹ کے مواد کو ظاہر نہ کرنا بھی شامل ہے۔ مزید برآں، یونیورسٹی کے مینٹل ہیلتھ سپورٹ سسٹم، سیکورٹی پروٹوکول، اور کیمپس کے مجموعی ماحول سے متعلق اہم سوال  بھی تھے۔’

یہ سب کچھ نارمل لگ سکتا ہے اگر ہم یہ نہ دیکھنا چاہیں کہ مرنے والوں کی عمریں 21 اور 19 سال تھیں اور انہیں کسی بھی طرح بچوں کے زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ کمیشن کے دائرہ اختیار سے باہر کا معاملہ ہے، حالانکہ یہ اپنے آپ میں تشویشناک ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں اس کمیشن نے بچوں کے حقوق کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس حکومت کے ناقدین پر بار بار حملہ کیا ہے۔ ہرش مندر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس نوٹس کے بہانے اشوکا یونیورسٹی کے ادارہ جاتی عمل کی تحقیقات شروع کی جائیں گی اور اسے کنٹرول  میں لینے کی کوشش کی جائے گی۔

اس نوٹس کا وقت بھی کم اہم نہیں ہے۔ یہ علی خان کے مقدمے کے عین درمیان میں آیا ہے۔ اس طرح کے واقعات پچھلے 11 سالوں میں کئی کیمپس میں پیش آئے ہیں۔ کیا کمیشن نے ہر جگہ اس انداز سے متحرک ہونے کا ثبوت دیاہے؟

اس نوٹس سے پہلے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے طلبہ ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد نے یونیورسٹی کے خلاف احتجاج کیا۔ پریشداس بات پر ناراض ہے کہ یونیورسٹی نے علی خان کی رہائی پر راحت کا اظہار کیوں کیا اور اب تک ان کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔ علی خان کو معطل یا برخاست کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

اگرچہ احتجاج میں بہت کم لوگ تھے، لیکن معلوم ہوا ہے کہ یونیورسٹی نے پریشد کو دو تین دن بعد جواب کی یقین دہانی کرائی ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ آر ایس ایس کے ترجمان ‘آرگنائزر’ نے بھی اسی بہانے اشوکا یونیورسٹی کے خلاف لکھا ۔ علی خان کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا مطلب یہی ہوگا کہ اشوکا یونیورسٹی ان کے خیالات سے متفق ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حکومت ہند کی وزارت تعلیم نے اشوکا یونیورسٹی کے کچھ اکیڈمک پروگراموں میں ریزرویشن کو لے کر بھی سوال اٹھائے ہیں۔

علی خان کے خلاف برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ہریانہ اسٹیٹ ویمن کمیشن کی چیئرپرسن نے اشوکا یونیورسٹی کو کھری -کھوٹی سنائی تھی اور اسے دھمکی بھی دی تھی۔

یہ بھی یوں ہی نہیں ہوا کہ علی خان کے معاملےکی سماعت کے دوران جسٹس سوریہ کانت نے اشوکا یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ کو احتجاج کرنے پر دھمکی دی۔ اس کا کوئی موقع نہیں تھا۔ کیا اشوکا یونیورسٹی انتظامیہ اس زبانی دھمکی کو طلبہ  اور اساتذہ کو نظم و ضبط کے لیے استعمال کرے گی؟

علی خان محمودآباد کے تبصرے میں خیالی طور پرخاتون مخالف اور سیڈیشن ڈھونڈ کر ان پر حملہ کیا جا رہا ہے، وہ اب اشوکا یونیورسٹی پر حملے میں بدل گیا ہے۔ اس کا  مطلب کیاہے؟

ہندوتوا تنظیمیں اشوکا یونیورسٹی کو بھی اسی طرح شک و شبہ دیکھتی ہیں جس طرح جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کو ۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کو بھی ملک دشمن کہہ کر گھیر لیا گیا ۔ اس کے زیادہ تر اساتذہ آزاد خیال تھے، یہ حقیقت آر ایس ایس کو مسلسل پریشان کرتی رہی۔ اس کے نصاب نوجوانوں میں لبرل سوچ کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور وہ ہندو راشٹر واد کے ناقد تھے۔

جے این یو ہندوستان کی تمام یونیورسٹیوں کے لیے ایک ماڈل تھا۔ اگرچہ یہ تعداد اور حجم میں دہلی یونیورسٹی سے چھوٹا تھا، لیکن اس کا تعلیمی وقار زیادہ تھا۔ اسے ختم کرنا ضروری تھا۔ اسی طرح اشوکا یونیورسٹی بھی ایک بہت چھوٹا ادارہ ہے، لیکن کئی وجوہات کی بنا پر علمی اور اکیڈمک دنیا میں اس کی علامتی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ یہ آر ایس ایس کے ثقافتی تسلط کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اس علامت کو ختم کرنا ضروری ہے۔

جے این یو کو بھی ملک دشمن کہہ کر بدنام کیا گیا۔ اس کے بعد اس کے کردار کو بدلنے کی کوشش کی گئی۔ اسے سرکاری طور پر کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔ ہندوتوا دی وائس چانسلر مقرر کرکے جے این یو کو تباہ کیا گیا۔ دہلی یونیورسٹی کو بھی آہستہ آہستہ تباہ کر دیا گیا ہے۔ یہ سب سے پہلے وائس چانسلر کی تقرری اور پھر اساتذہ کی تقرری کے ذریعے کیا گیا۔ اب، ایسے اساتذہ کی کافی تعداد ہے جو ہندوتوا یا دائیں بازو کے ہیں۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ ان میں سے اکثر نااہل بھی ہیں۔

اشوکا یونیورسٹی میں ایسے اساتذہ کی ایک بڑی تعداد ہے جنہیں اپنی سوچ میں ترقی پسند یا لبرل کہا جا سکتا ہے۔ ان کی وجہ سے یونیورسٹی کا نصاب بھی لبرل ازم کی اقدار کو فروغ دیتا ہے۔ اس کے طلبہ بھی زیادہ تر لبرل اقدار کی پیروی کرتے ہیں۔ ابھی انہوں نے علی خان کی حمایت کی ہے۔ لیکن اس کے منتظمین پر ترقی پسندی یا لبرل ازم کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔

پچھلے 10 سالوں میں انہوں نے بارہا ان اساتذہ کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا ہے جن کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی یا آر ایس ایس نے ناراضگی ظاہر کی۔ 2016 میں انتظامیہ نے کشمیر سے متعلق ایک بیان پر دستخط کرنے پر راجندرن نارائنن اور دو اکیڈمک اہلکاروں سورو گوسوامی اور عادل مشتاق شاہ کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تھا۔ اس کے بعد وائس چانسلر پرتاپ بھانو مہتہ کو بھی اشارہ کیا گیا کہ وہ عہدہ چھوڑ دیں کیونکہ ان کی موجودگی سے ادارے پر حکومت کی سفاک نگاہیں بنی رہیں گی اور وہ اس کے کام کاج میں  رکاوٹیں پیداکرے گی۔

ان کے استعفیٰ کے بعد انتظامیہ یہ کہتی رہی کہ پرتاپ نے یہ کام اپنی مرضی سے کیا ہے۔ اس کے بعد، ابھی کچھ دن پہلے، اقتصادیات کے پروفیسر سبیہ ساچی داس کو ان کی ملازمت سے اس لیے نکال دیا گیاکہ انہوں نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات پر ایک اکیڈمک پیپر جاری کیا تھا، جو بی جے پی کوناگوار گزرا تھا۔

اساتذہ کو سزا دیتے ہوئے انتظامیہ نے ہر بار یہ دلیل دی کہ اشوکا یونیورسٹی کی بقا ہندوستان کے لیے بہت ضروری ہے اور اگر اس کے لیے اساتذہ کو قربانی دینی پڑتی ہے تو یہ جائز ہے کیونکہ اشوکا یونیورسٹی ہندوستان کے نالج کیمپس کے لیے ضروری ہے۔ بڑے مقصد کے لیے سب کی قربانی ضروری ہے۔ یعنی یونیورسٹی بذات خود ایک ایسا مقدس مقصد ہے کہ اس کے لیے ان اقدار کو بھی نظر انداز کیا جا سکتا ہے جن کا اشوکا یونیورسٹی دعویٰ کرتی رہی ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ اسے اپنی ترقی کے لیے، زمین، پانی اور بجلی کے لیے سرکار کے تعاون کی ضرورت ہے۔ ایک دو اساتذہ نہ ہوں تو کیا تبدیلی آ جائے گی؟

تو کیا اس بار بھی علی خان کی قربانی دے کر اشوکا یونیورسٹی اپنے لیے کچھ اورمہلت طلب کر لے گی؟ یا اس بار بی جے پی اور آر ایس ایس اس سے مطمئن نہیں ہوں گے اور ان کا مطالبہ کچھ اوربڑا ہوگا؟ کیا وہ انتظامیہ کے لیے اپنا آدمی چاہیں گے؟ کیا وہ یونیورسٹی کی فکری سمت میں تبدیلی کا مطالبہ کریں گے؟ یونیورسٹی انتظامیہ کا کیا موقف ہوگا؟

ہم اشوکا یونیورسٹی کے بورڈ سے ہارورڈ کی طرح حکومت کے سامنے کھڑے ہونے کی امید نہیں کر سکتے۔ وہ روایت یہاں نہیں ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس بار پھر سے وہ بی جے پی یا حکومت کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی قربانی دیں گے۔

وہ یہ نہیں بھی کر سکتے ہیں۔ میں کم از کم ایک ایسے اسکول منتظم کو جانتا ہوں جس نے دائیں بازو کے دباؤ کے سامنے جھکنے سے انکار کیا، اسکول پر حملہ اس لیے کیا گیا تھاکہ اس نے اپنے طلبہ کو پڑھنے کے لیے کچھ کتابیں تجویز کی تھیں اور ہندوتوا کے حامیوں کواس پر اعتراض تھا۔ اسکول میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ دھمکیاں دی گئیں۔ لیکن اسکول کے منتظم نے کہا کہ وہ کتابوں کی فہرست میں کوئی تبدیلی نہیں کریں گے۔ اگر انتظامیہ نے اسے سکیورٹی فراہم نہیں کی تو وہ اسکول بند کرنے کو ترجیح دیں گے۔ ابھی اسکول چل رہا ہے۔

کیا اشوکا یونیورسٹی کے سرپرستوں میں یہ کہنے کی ہمت ہے کہ اگر انہیں ان کے مقاصد کے مطابق کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تو وہ ادارے کو بند کرنے کو ترجیح دیں گے؟ وہ شاید ہی ایسا کر سکیں۔

لیکن ہم ان کی بزدلی پر کتنی ہی لعنت بھیجیں، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس نے یہ صورتحال پیدا کی ہے۔ اگر اشوکا یونیورسٹی بچ جاتی ہے اور جے این یو کی طرح ختم ہوجا تی ہے تو اس کے ذمہ دار وہی  ہیں۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)

Next Article

ہندوپاک کشیدگی کے درمیان ’بائیکاٹ ترکیہ‘ کا مطلب کیا ہے؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے ترکیہ کے ساتھ تجارتی بائیکاٹ کا شاید ہی کوئی اثر ترکیہ پر پڑے گا۔ کیونکہ ترکیہ کی کل درآمدات میں ہندوستان کا حصہ صرف 0.2 فیصد ہے۔اسی طرح ہندوستان سے ترکیہ جانے والے سیاح کل سیاحوں کا صرف 0.6 فیصد ہیں۔

سودیشی جاگرن منچ کے اراکین کا جمعہ 16 مئی 2025 کو نئی دہلی میں ترکی کے خلاف احتجاج۔ تصویر: پی ٹی آئی

جموں و کشمیر کے پہلگام پہاڑو ں میں سیاحوں کی ہلاکت اور اس کے بعد پاکستان کے ساتھ محدود جنگ میں عالمی حمایت حاصل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق، ہندوستان میں سارا غصہ ترکیہ پر اتارا جا رہا ہے۔

کہیں تجارت یا سیاحت کا بائیکاٹ، تو کہیں ترکیہ کو فوجی طریقے سے گھیرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔

حیرت تو یہ ہے کہ سرکاری ترجمان نے اس پاگل پن کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ترکیہ نے پہلگام واقع کی مذمت نہیں کی۔ ایسی بے خبری بھی کیا۔ ترک وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر وہ بیان ا بھی بھی موجود ہے، جو 22اپریل کو ہی ریلیز کیا گیا تھا، جس میں پہلگام واقعہ کی  شدیدمذمت کی گئی تھی۔

وزیرا عظم نریندر مودی غالباًامریکی صدر جارج بش کے نو گیارہ حملوں کے بعد دنیا کو دیے پیغام کی کاپی کر رہے ہیں کہ یاتو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا خلاف ہیں۔ غیر جانبدار رہنے کا سوال ہی نہیں ہے اور جو خلاف ہیں، ان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ایسی دوٹوک باتیں سفارتی طور پر تو کسی سپر پاور کو بھی زیب نہیں دیتی ہیں۔ ہندوستان جیسے درمیانہ درجے کے پاور کے لیے جو ابھی ایک موثر ایشیائی علاقائی طاقت بننے کے  ابتدائی مراحل میں ہی ہے، یہ غیر حقیقت پسندانہ رویہ انتہائی نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے۔

ہندوستان کے اندر گودی میڈیا کے ذریعے عوام کو اپنی فوجی اور سفارتی کامیابیا ں بتاکر ایک جنون تو پیدا کیا جاسکتا ہے، مگر بین الاقوامی طور پر حقائق کو چھپانا ناممکن ہوتا ہے۔

سال 2019میں پلوامہ کے واقعہ کے بعد جس طرح کی حمایت ہندوستان کو حاصل ہوئی تھی،اس وقت واضح طور پر مفقود ہے۔ دنیا بھر کے فوجی ماہرین متفق ہیں کہ اس محدود جنگ کے دوران ہندوستان کے چند انتہائی جدید رافیل طیارے چینی طیاروں اور ان کی فراہم کردہ تکنیک کی وجہ سے گرائے گئے ہیں۔

اس لیے اگر پاکستان کو دفاعی ساز و سامان دینے کا معاملہ ہے، تو یہ غصہ چین پر نکالنا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ یہ بھی واضح ہوتا جا رہا ہے کہ حملوں کی جانکاری ہونے کے باوجود اس کا سد باب کرنے کے بجائے، ہلاکتوں اور نقصان کے بعد ہی دنیا بھر میں پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا ڈھونڈورا پیٹا جاتا ہے اور داخلی طور پر اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

 ایک ملک میں حال ہی میں رپورٹروں اور تھینک ٹینک کے اسکالروں کے لیے ہندوستان نے بریفنگ کا انتظام کیا تھا۔  چونکہ اسی دن بائیکاٹ ترکیہ کا ٹرینڈ چل رہا تھا، اس لیے جب سوالات کیے گئے کہ اس ملک کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے، تو بتایا گیا کہ پاکستان نے جو 300 سے 400 ڈرونز استعمال کیے، وہ مبینہ طور پر ترکیہ کی طرف سے فراہم کیے گئے تھے۔

اب اس محفل میں فوجی ماہرین بھی شامل تھے، تو انہوں نے ان ڈرونز کی تصویریں دکھانے کا مطالبہ کردیا۔ جو پریزنٹیشن دی جارہی تھی، اس میں صرف چینی ملٹری ڈرون نظر آرہے تھے۔

پوچھا گیا کہ کیا ترکیہ کے جدید ترین بیرکتر ٹی بی سیریز کا کوئی ملٹری ڈرون پاکستان نے استعمال کیا، تو جواب نفی میں تھا۔ لے دے کے بس اتنا پتہ چلا کہ پاکستان نے ترکیہ کے سونگر ڈرون نگرانی کے لیے استعمال کیے تھے۔ان کا رینج بھی زیادہ نہیں ہوتا ہے۔

اب اگر ان سے پوچھا جائے کہ نگورنو کاراباخ کی جنگ میں تو ہندوستان نے آکاش میزائل اور ڈیفنس سسٹم کے علاوہ جنگی جہاز اور دیگر ساز و سامان آرمینیا کو فراہم کر دیے تھے، وہ کس کھاتے میں آتا ہے؟ ترکیہ نہ آذربائیجان نے اس کو کبھی ایشو نہیں بنایا، تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔

 ویسے تو دنیا  بھر میں ترکیہ نے اپنے آپ کو ڈرون پاور کے بطور منوا لیا ہے۔ 15مئی کو جب یوکرین کے صدر ولادمیر زیلنسکی انقرہ میں تھے، تو اپنے ملک کے سفارت خانہ میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 24فرروری 2022کو جب روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا، تو انہوں نے دارالحکومت کیف کے ایر پورٹ پر تقریبا ً قبضہ کر لیا تھا اور اگلے چند گھنٹوں میں وہ دارالحکومت پر قبضہ کرکے پورے ملک کوکنٹرول کرنے کے قریب تھے۔ جس چیز نے یوکرین کو بچایا اور جنگ نے طول کھنچا وہ ترکیہ کے بیرکتر ڈرون تھے۔

انہوں نے روسی ایر ڈیفنس سسٹم کو چکمہ دیکر روسی ٹینکوں کو اس حد تک تہس نہس کر ڈالا کہ ان کو پسپا ہونا پڑا۔ انہی ڈرونز نے شام، لیبیا، آذربائیجان، ایتھوپیا سمیت کئی محاذوں پر جنگ جیتنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن یہ بات اب طے ہے کہ پاکستان نے یہ ڈرونز استعمال نہیں کیے اور چینی ڈرونز پر ہی انحصار کیا ہے۔  جبکہ نگرانی اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کے مقصد سےترک ’سونگار‘ ڈرونز استعمال کیے۔

اس دعویٰ کی پو ل کھلنے کے بعد بتایا گیا کہ ناراضگی کی وجہ کراچی میں ترک جنگی بحری جہازوں کی آمد اور اسلام آباد میں ترک فوجی طیارے کی لینڈنگ ہے۔ جن کی تصاویر پاکستانی فوج کے ٹوئٹر ہینڈل سے شیئر ہوگئی۔ دراصل جنگی بحری جہاز کوریا سے روانہ ہوکر استنبول کی طرف رواں تھا اور ایندھن لینے کے لیے کراچی میں رک گیا تھا۔

انقرہ میں ذرائع کا کہنا ہے کہ 7 مئی کو جب ہندوستان نے پاکستان کے اندر میزائلوں سے حملہ کیا، تو تو ترک صدر رجب طیب اردوان نے جنوبی ایشیا کے امور سے متعلق اپنی حکمراں جماعت آق پارٹی اور قریبی مشیروں کے ساتھ ایک اہم اجلاس بلایا۔

ذرائع نے بتایا کہ یہ اجلاس محض 10 منٹ جاری رہا اور صدر کا پیغام نہایت واضح تھا: ضبط و تحمل اپنایا جائے اور خطے میں امن یقینی بنایا جائے۔

انقرہ اور استنبول میں موجود ذرائع کا کہنا تھا کہ اگرچہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پرامن تعلقات ترکی کے اسٹریٹجک مفاد میں ہیں، لیکن اگر مکمل جنگ چھڑ جاتی ہے تو عسکری روابط کو مدنظر رکھتے ہوئے ترکیہ کے پاس پاکستان کی حمایت کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ ماضی میں پاکستان کی فضائیہ نے ترکیہ کی مدد کی ہے، خواہ وہ 1973 میں یونان کے ساتھ قبرص کی جنگ ہو یا شام کے حالیہ تنازعات۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے ترکیہ کے ساتھ تجارتی بائیکاٹ کا شاید ہی کوئی اثر ترکیہ پر پڑے گا۔ کیونکہ ترکیہ کی کل درآمدات میں ہندوستان کا حصہ صرف 0.2 فیصد ہے۔اسی طرح ہندوستان سے ترکیہ جانے والے سیاح کل سیاحوں کا صرف 0.6 فیصد ہیں۔

جو چیزیں ہندوستان سے آتی ہیں جیسے باسمتی چاول وغیرہ، وہ پاکستان سے بھی دستیاب ہے۔ اگر ترکیہ جوابی اقدام کرتا ہے، تو اس سے ہندوستانی معیشت کو زیادہ نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ تجارت کا  بیلینس ہی ہندوستان کی طرف ہے۔

مزید یہ کہ تقریباً 200 بڑی بھارتی کمپنیوں کے دفاتر استنبول، ازمیر اور انتالیہ میں ہیں، جہاں سے وہ یورپ میں اپنی تجارت کو کو کنٹرول کرتی ہیں۔ ترکی چونکہ یورپی کسٹمز یونین کا رکن ہے، اس لیے ہندوستانی کمپنیوں کو یہاں کام کرنے میں لاگت میں بچت ہوتی ہے۔

پندرویں صدی میں عثمانی اور مغلیہ سلاطین میں خط و کتابت سے لے کر مشترکہ صوفی روایات اور لسانی مماثلتوں تک،  غیر منقسم ہند-ترک تعلقات کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ 1912 میں بلقان کی جنگوں کے دوران،  ڈاکٹر ایم اے انصاری جو بعد میں مسلم لیگ اور پھر انڈین نیشنل کانگریس کے صدر بنے — زخمی ترک سپاہیوں کا علاج کرنے کے لیے ایک طبی مشن لے کر ترکیہ پہنچے۔

ان کے ساتھ علی گڑھ کالج کے طالبعلم  عبد الرحمان صمدانی عرف پشاوری بھی تھے — جنہوں نے اپنا سب کچھ بیچ کر ترکوں کی مدد کرنے کے لیے استبول جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ان کے باقی ساتھی مشن مکمل کرکے تو واپس ہندوستان آگئے، مگر وہ ترکیہ میں ہی مقیم رہے۔وہ مصطفیٰ کمال اتا ترک کے قریبی رفیق بنے اور گیلی پولی کی جنگ میں حصہ لیا۔

جب اتا ترک نے انادولو نیوز ایجنسی قائم کی تو وہ اس کے پہلے رپورٹر مقرر ہوئے۔ ان کا تعلق ایک ایسے کشمیری خاندان سے تھا جو بارہمولہ سے پشاور ہجرت کر گیا تھا۔

ان کے چھوٹے بھائی محمد یونس گاندھی خاندان کے قریبی تھے اورہندوستان میں کئی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے، کئی ممالک میں سفیر، اور انڈیا ٹریڈ پروموشن آرگنائزیشن کے سربراہ بھی رہے۔ غیر منقسم ہندوستان  میں ترکیہ کے لیے جو امدادی فنڈ جمع ہوا، اس سے ‘ایش بینک’قائم ہوا — جو آج بھی ترکیہ کے بڑے بینکوں میں شمار ہوتا ہے۔

کم لوگ  ہی جانتے ہوں گے کہ 20ویں صدی کے وسط تک لداخ میں لداخی کے بعد ترک زبان کا ہی استعمال ہوتا تھا۔  لیہہ کے ارغون مسلمان — جو ترک تاجروں کی نسل سے ہیں — آج بھی وسطی ایشیا اور ترک رسم و رواج، ناموں اور اشیاء کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ترک ارغون  غلام رسول گلوَان کے  نام پر ہی  گلوَان وادی منسوب ہے، اور ترک سلطان سعید خان، کے نام پر  لق دق صحرا کا نام دولت بیگ اولدائی  رکھا گیا۔

چند ماہ قبل ترکیہ دورہ پر آئے ہندوستان کے  اسٹریٹجک امور کے معروف  ماہر سی راجہ موہن نے حقیقت پسندی اور فوری توجہ کی ضرورت پرزور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ترکیہ اور ہندوستان دونوں اکیسویں صدی کی بااثر علاقائی طاقتیں ہیں، اس لیے دونوں ایک دوسرے سے دور نہیں رہ سکتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر چہ ترکیہ کی طرف سے کشمیر کے ذکر اور پاکستان کی حمایت کرنے سے ہندوستان میں ناراضگی پائی جاتی ہے، تو ترکیہ بھی ہندوستان کی طرف سے آرمینا کو ہتھیار سپلائی کرنے اور قبرص پر یونانی موقف کی حمایت کرنے سے تشویش ظاہر کرتا ہے۔

لہذاطویل مدتی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے، دونوں ممالک کو ان چپقلشوں کو درکنار کرتے ہوئے بین الاقوامی معاملات پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی راہیں ڈھونڈنی ہوں گی۔سینئر سفارت کار ایم کے بھدرکمار، جو انقرہ میں ہندوستان کے سفیر رہے ہیں کا کہنا ہے کہ  ترکیہ اور پاکستان کے درمیان عسکری تعلقات واقعی موجود ہیں، مگر یہ تعلق ہندوستان کے لیے چین کی پاکستان کے ساتھ اسٹریٹجک قربت جتنا خطرناک نہیں۔ انہوں نے ہندوستانی لیڈروں پر واضح کیا کہ سفارتی امور پر جذباتی ردعمل سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے تزویراتی مفاد کو مقدم رکھیں۔

ترکیہ کی ابھرتی عالمی حیثیت کے پیش نظر، دنیا کے لیے اسے نظرانداز کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔مثال کے طور پر، ترکیہ اس وقت روس اور یوکرین کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ باوجود اس کے کہ ترکیہ کے ڈرون نے روسی صدر ولادمیر پوتن کے یوکرین پر قبضہ کرنے کے پلان کو خاک میں ملا دیا۔ مگر وہ پھر بھی ترکیہ کو ہی قابل اعتماد ثالث گر دانتے ہیں۔وہ مودی کی طرح روٹھے نہیں۔

اردوان نے بیک وقت دونوں ملکوں سے دوستی برقرار رکھی ہے۔ شام میں بشارالاسد کی برطرفی اور جلاوطنی ترکیہ کی عسکری اور سفارتی حکمتِ عملی کی بڑی کامیابی مانی جاتی ہے۔ ترکیہ ایک یوریشیائی مرکز کے طور پر ابھر رہا ہے، یوکرین میں ثالثی کے علاوہ وہ وسطہ ایشاء نیز افریقہ اور جنوبی امریکہ میں ایک بڑے رول میں سامنے آرہا ہے۔ ہندوستان اگر اپنی معیشت اور اثر و رسوخ کو پر امن طور پر وسعت دینا چاہتا ہے تو اسے خارجہ پالیسی میں ردعمل سے ہٹ کر فعال حکمت عملی اپنانی ہوگی۔

 انقرہ یلدرم بیازیت یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے اسکالراور مصنف پروفیسر عمیر انس کا کہنا ہے کہ ہندوستان-پاکستان کی حالیہ محدود جنگ ترکیہ کی پالیسی پر خاصی اثر انداز ہو گئی ہے۔ تر کیہ کی نظر میں اب جنوبی ایشیا ایک ‘سکیورٹائزڈ’ یعنی سکیورٹی مرکز خطہ ہے، جہاں اس کی اپنی سلامتی بھی جڑی ہوئی ہے۔

ان کے مطابق انقرہ اور ریاض میں خاموش اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ پاکستان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور اس کی ملٹری پاور کا تحفظ ناگزیر ہے۔ اسلام آباد اب نیٹو سے باہر ترکی کا سب سے اہم دفاعی شراکت دار بن چکا ہے۔لیکن اس تعلق کی بھاری قیمت ہندوستان کی ناراضگی کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ترکیہ نے طویل عرصے تک پاکستان کے ساتھ تعلقات میں ابہام برقرار رکھا اور ہندوستان سے بھی قریبی روابط قائم رکھنے کی کوشش کی۔ ترکیہ نے ہندوستان کو ایک پیشکش کی تھی، کہ پاکستان سے تعلقات کی بحالی، بشمول کشمیر تنازع کا پرامن حل کے بدلے میں وہ ہندوستان کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری میں حصہ لے گا۔ اس مقصد کے لیے صدر اردوان نے کئی سطحوں پر ہندوستان کو آمادہ کرنے کی کوشش کی، لیکن اکثر یہ کوششیں سفارتی تناؤ کی نذر ہوگئیں۔

پروفیسر انس کے مطابق 2019 سے 2022 کا عرصہ ترکی-ہندوستان تعلقات کابد ترین دور کہلایا جا سکتا ہے، جب دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف میڈیا مہمات چلا رکھی تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان نے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی تھی۔ ہندوستان کی حکمران جماعت کے نظریاتی بیانیے میں’انڈیا فرسٹ’ کا نعرہ گونجنا شروع ہو گیا تھا۔

مطلب یہ کہ ہندوستان کے مفادات ہر چیز پر مقدم ہیں۔ نئی دہلی کے حقیقت پسند تجزیہ کار اکثر اس نعرے کی تشریح ‘انڈیا اکیلا’ کے طور پر کرتے ہیں، یعنی ہندوستان تنہا اپنے مفادات کا تحفظ کرے گا۔

یہ موقف گجرال ڈاکٹرائن سے متصادم ہے، جو ہندوستان کے ہمسایہ ممالک کو بلا مشروط مدد فراہم کرنے کی بات کرتا تھا۔۔مگر 2022 کے بعد ہندوستان اور ترکیہ نے تعلقات پر از سر نو غور کرنا شروع کیا تھا۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کے پاس ترکیہ سے متعلق کوئی جامع پالیسی نہیں۔محض وقتی ردعمل اور لین دین پر مبنی تعلقات، جو ایک ابھرتی ہوئی طاقت ترکیہ کا مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔

سفارت کاری کے آئینے میں دیکھا جائے، تو ترکیہ صرف پاکستان کا دوست نہیں، اور ہندوستان صرف یونان یا آرمینیا کا حلیف نہیں  ہوسکتا ہے۔ اب وقت ہے کہ بیانیہ بدلا جائے۔ ‘بائیکاٹ ترکی’ کے بجائے پیغام ہونا چاہیے؛ ‘روابط بحال کرو، مکالمہ کرو اور نئے تعلقات  تعمیر کرو۔’

آج دونوں — ہندوستان اور ترکیہ — خطے کی کلیدی طاقتیں ہیں جو عالمی نظام میں نئے کردار کی تلاش میں ہیں۔ ایک پر امن ہندوستان، جو علاقائی مسائل کا حل پر امن طریقے سے سلجھانے پر یقین رکھتا ہو، وقت کی ضرورت ہے۔

چین ایک معاشی پاورتبھی بنا جب اس نے اپنی سرحد پر بیشتر ممالک کے ساتھ تنازعات سلجھائے۔ہندوستانی لیڈروں کو جان لینا چاہیے کہ قدیم تہذیبیں وقتی تنازعات کی بنیاد پر خود کو محدود نہیں کر سکتیں۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ ایک خول میں بند رہنے اور گھمنڈ و غرور میں مبتلا ہونے کے بجائے افکار و خیالات کے تبادلے سے اپنا مستقبل تراشیں۔

Next Article

ہندوپاک کشیدگی: امن اور دوستی کے لیے نئی پہل ضروری

امن کا راستہ بہت کٹھن ہے اور ہوگا۔ ہمارا ہمسایہ بھی آسانی سے اس راستے  پر چلنے کوراضی نہیں ہوگا کیونکہ وہ فوج کے زیر انتظام  ملک ہے۔ لیکن یہی واحد راستہ ہے جو ہمیں تباہی اور بربادی سے بچا سکتا ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

پہلگام دہشت گردانہ حملے میں مارے گئے ہندوستانی سیاحوں کی بیویوں کے جذبات پر، لگتا ہے  کہ لوگوں نے  دھیان دیا اور حکمرانوں کے اکسانے کے باوجود اسے ہندو-مسلم تنازعہ نہیں بنایا اور جب ہندوستان کے بدلے کی کارروائی میں  پاکستان کےدہشت گردوں کےبعض ٹھکانوں پر حملہ کیاگیاتو پورے ملک نےاس کی حمایت کی۔ کئی لوگوں کے دنگے کی خواہش پوری نہیں ہوئی۔ زہر بہت پھیلایا گیا ہے اور اس میں اقتدار-مذہب-میڈیا-بازار نے بہت فعال کردار ادا کیا ہے، لیکن ہندوستانی عوام نے گویا اس زہر کو اور پھیلنے سے روک دیا۔

شاید اس سے بے زارہو کر بی جے پی کے ہی کچھ لیڈروں نے اب فوج کے خلاف زہر اگلنے کی مہم شروع کر دی ہے۔ اس کی شروعات مدھیہ پردیش سے ہوئی، جو بی جے پی مقتدرہ ریاست ہے۔پہلے ایک وزیر نے ہندوستانی حکومت کی طرف سے تعینات ہندوستانی فوج کی ترجمان کرنل صوفیہ قریشی کے خلاف زہر اگلتے ہوئے انہیں  ان کے مذہب کی بنیاد پر ‘دہشت گردوں کی بہن’ قرار دیا ۔ پھر اسی ریاست کے نائب وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہندوستانی فوج وزیراعظم کے قدموں میں جھک گئی ہے۔ یہ بیک وقت ہندوستانی فوج کی توہین اور اس پرسیاست ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ مستقبل میں اس طرح کی اورکتنی  کجی سامنے آئے گی۔ لیکن چونکہ بہار میں انتخابات ہیں اس لیےاس کا امکان بہت زیادہ ہے۔

ایسے موقع پر طرح طرح کے الزامات کا سامنا کرنے کا خطرہ اٹھاتے ہوئے یہ کہنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ہندوستانی ریاست ہندوستانی عوام نہیں ہے اسی طرح پاکستانی ریاست پاکستانی عوام نہیں ہیں۔ یہ دونوں قومیں ایک دوسرے سے نفرت نہیں کرتیں۔ دونوں باہمی امن اور خوشحالی چاہتے ہیں؛ دونوں کو بہتر زندگی اورہمہ جہت ترقی کاانتظار ہے۔ دونوں سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی اور جنگ ان کی نمائندگی نہیں کرتے اور انہیں امن اور بہتر زندگی کے حصول کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہیے۔

ہم اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے کہ 78 سال پہلے ہم ایک ہی ملک  تھے اور اب ہمسائے ہیں۔ ہماری زبانوں پنجابی-اردو-سندھی میں، خوراک، لباس، رہن سہن اور ہمارے سماجی رویوں میں حددرجہ مماثلت ہے۔ جغرافیائی بٹوارہ ہوا، لیکن ثقافتی بٹوارہ  نہیں ہوا۔ پاکستانی  شاعر،جیسے  فیض، احمد فراز، منیر نیازی، کشور ناہید، ان کے افسانہ نگار جیسےانتظار حسین، ان کے گلوکار جیسے مہدی حسن، اقبال بانو، فریدہ خانم، نصرت فتح علی، ان کے کلاسیکی فنکار جیسے روشن آرا بیگم، نزاکت علی-سلامت علی وغیرہ ہندوستان میں اتنے ہی تسلیم شدہ اورمقبول ہیں جتنےپاکستان میں۔

یہ بات بھی تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اس عرصے میں ہماری ساجھی اردو میں لکھے گئے بہترین ادب کا بڑا حصہ پاکستان میں لکھا گیا ہے۔ جس طرح ہندوستانی جمہوریت میں زیادہ تر ادب کارپوریٹ مخالف رہا ہے، اسی طرح پاکستان میں ادیب اور فنکارآمریت اور تانا شاہی کے خلاف رہے ہیں۔

معروف سیاسی تجزیہ کار سوہاس پالشیکر نے کہا ہے کہ اس وقت ملک میں تین طبقے ہیں۔ پہلے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ فیصلہ کن جنگ ، آخری نہیں پہلا آپشن ہے۔ اس میں جنگ کے بارے میں ایک خوفناک رومان ہے۔ دوسرے خطے میں یہ عقیدہ غالب ہے کہ ہندوستان کوایک بار میں بٹوارے کے گناہ سےخود کو آزادکر لینا چاہیے اور پاکستان کو تباہ وبرباد کر دینا چاہیے۔ تیسرےمیں مسلمانوں کے خلاف جنون پیدا کیا جا رہا ہے۔

اسی دوران خبر آئی کہ ہندوستانی حکومت دنیا بھر میں اپنا نقطہ نظر سمجھانے کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل کئی وفد بھیج رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس مختصر جنگ میں ہندوستان کو وہ وسیع خیر سگالی اور حمایت حاصل نہیں ہوئی،جس کی اسے اپنی مبالغہ آمیزسرکاری اور خود ساختہ امیج کے باعث امیدتھی۔ سارے اشتہارات، شور شرابے اور وشو گرو (عالمی رہنما) مانے جانے کے بے بنیادگھمنڈ کے باوجود،  ہندوستان کی سفارت کاری ناکام ثابت ہوئی ہے۔ دنیا اپنے مسائل، کاروبار وغیرہ میں مصروف ہے اور اسے ‘وشوگرو’ کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔

ہمارے یہاں پاکستان کو ایک ناکام ملک سمجھنے کا جوش بھی خوب ہے۔ یہ صفت ہم نے نہیں ایجاد نہیں کی، مغرب سے آئی ہے۔ لیکن یہی ناکام پاکستان مختلف بنیادوں پر بنائی گئی عالمی فہرستوں میں ہندوستان سے زیادہ نیچے نہیں ہے۔ کچھ میں شاید اوپر بھی ہے۔ اگر ہم اس کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ پاکستان کے بارے میں ہمارا فوجی اور سفارتی اندازہ درست نہیں تھا۔

اس مقام پر، یہ تجویز کرنا اچھی سوچ ہے، چاہے یہ کتنا ہی متنازعہ کیوں نہ ہو، ہمیں امن اور دوستی کے لیے نئی پہل کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنی تاریخ کو قبول کرنا چاہیے اوربٹوارے کو ختم کرنا چاہیے اور اپنے پڑوسی کو تباہ کرنے کے خیال کو بالکلیہ ترک کر دینا چاہیے۔ امن کا راستہ بہت مشکل ہے اور ہوگا۔ ہمارا ہمسایہ بھی آسانی سے اس پر چلنے کوراضی نہیں ہوگا کیونکہ وہ  فوج کے زیر انتظام  ملک ہے۔ لیکن یہی واحد راستہ ہے جو ہمیں تباہی اور بربادی سے بچا سکتا ہے۔

(اشوک واجپئی ہندی کےممتاز ادیب اور نقادہیں۔)

Next Article

پہلگام اور اس کے بعد: ایک بے بس امن پسند دیوانے کی بڑ

گزشتہ دس سالوں میں مسلم مخالف تعصب اور جذبات عروج پر پہنچ گئےہیں– اور اسے مقتدرہ پارٹی کی خطرناک سیاست نے اوربھڑکایا ہے۔ پاکستان کے ساتھ جب بھی کشیدگی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، تو اس کا اثر مسلمانوں پر ظلم کی صورت میں نظر آتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ پہلگام حملے کے بعد جو ماحول بنا ہے، وہ  بالکل وہی ہے جس کا مجھے خدشہ تھا۔

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

پہلگام حملے کی خبر نے پہلے مجھے حیران کیا اورمشتعل کر دیا، لیکن جلد ہی میں نے اپنے اندر خوف اور بے چینی بھی محسوس کی۔ میں نے اپنے تجربے سے سیکھا ہے کہ دہشت گردی کے ہر واقعے کا ردعمل زیادہ تر ملک کے شہریوں میں فوری انتقام کا شدید احساس پیدا کرتا ہے۔ درحقیقت، سب سے مکروہ سچائی یہ ہے کہ ہندوستانیوں کا ایک زہریلا طبقہ ایسے سانحات کو سنہری موقع تصور کرتا ہے—مسلمانوں کو پاکستان کا حمایتی،غدار اور دہشت گردی کے حامی کے طور پرپیش کرنےکے لیے- جو سزا کے مستحق ہیں۔

ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کو تقریباً آٹھ دہائیاں گزر چکی ہیں، لیکن ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بداعتمادی کی فضا ذرا بھی صاف نہیں ہوئی۔ گزشتہ دس سالوں میں مسلم مخالف تعصب اور جذبات عروج پر پہنچ گئے ہیں – اور مقتدرہ پارٹی کی خطرناک سیاست نے اسے اور بھڑکایاہے۔ پاکستان کے ساتھ جب بھی کشیدگی کا کوئی واقعہ رونما  ہوتا ہے، اس کا اثر مسلمانوں پر ظلم کی صورت میں نظر آتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پہلگام کے واقعہ کے بعد جو ماحول بناہے، وہ  بالکل وہی ہے جس کا مجھے خدشہ تھا۔

بحیثیت معاشرہ ہم حیوانیت کی ساری حدیں پار کر چکے ہیں۔ میرے بال تراشنے والا ایک  نوجوان ہیئر ڈریسر – جو میرے سر پر بچے کھچے بالوں کو سنوارتاہے – انتہائی صدمے میں ہے، کیونکہ مسعود پور ڈیری کے علاقے میں رہنے والے اس جیسے مسلمانوں پر وہاں سے نکل جانے کادباؤ بنایا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں ہندوتوا گروہ مسلم کمیونٹی کی زندگی کو مشکل بنا رہے ہیں۔ مہاراشٹر کے ایک بدنام وزیر نتیش رانے نے لوگوں سے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ مسلمانوں کی پہچان کرنے کے لیےانہیں ہنومان چالیسہ پڑھنے کو کہیں اور پھر ان کا اور ان کے سامان کا بائیکاٹ کریں۔ راجستھان میں سینکڑوں مسلمانوں کو اس بہانے سے گرفتار کیا گیا کہ وہ بنگلہ دیشی ہیں۔ تلنگانہ میں ‘کراچی بیکری’ کی دو شاخوں میں توڑ پھوڑ کی گئی – صرف اس لیے کہ اس کا نام ‘کراچی’ ہے، جبکہ وہ  دکان ہندوؤں کی ہے۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ نفرت نے اب منطق، سچائی اور انسانیت کی ہر حد کو کچل دیا ہے۔

کشمیری طلبہ اور مزدوروں کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور انہیں اپنی جان بچانے کے لیے کشمیر واپس جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ امتیازی سلوک کے ایک واضح عمل میں دہلی یونیورسٹی نے کالجوں سے کشمیری طلبہ کی تفصیلات جمع کرنے کو کہا ہے — ٹھیک ویسے ہی جیسے ہٹلر کے جرمنی میں یہودیوں کی فہرست تیار کی جاتی تھی۔ اور جو نفرت  ہمانشی نروال جھیل رہی ہیں— صرف اس لیے کہ انہوں نے مسلمانوں اور کشمیریوں کو نشانہ بنائے جانے کے خلاف آواز اٹھائی— ان سب کے آگے ہمیں شرم آنی چاہیے! یہ گاندھی کا ہندوستان نہیں ہے۔


آج ہم ایسے ہندوستان میں رہ رہے ہیں جسے پچھلی دہائی سے ایک ایسا شخص چلا رہا ہے جو ‘وشوگرو’ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے – ایک ایسا ہندوستان جس نے نہ امن کا مشاہدہ کیاہے، نہ انصاف، نہ اچھائی اور نہ اتحاد۔جہاں اپوزیشن ناقابل معافی سیکورٹی لیپس کے لیے جوابدہی کا مطالبہ کر رہی ہے، وہیں میرے لیے پہلگام کی بربریت کے بعد کےخوفناک دنوں میں مودی کی سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ جب ملک میں کئی لوگ ‘خانہ جنگی’ کے خدشے کا اظہار کر تھے، تب انھوں نے مسلمانوں اور کشمیریوں کے خلاف ڈھائے جانے والے مظالم کے بارے میں ایک لفظ بھی بولنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔

اس طرح کی بربریت اور جبر کے سامنے ان کی خاموشی ناقابل معافی ہے – لیکن حیرت کی بات نہیں، کیونکہ انہوں نے اقتدار پر اپنی گرفت اسی  وعدے کے سہارے بنائی اور بنائے  رکھی ہے کہ ‘مسلمانوں کو سبق سکھائیں گے۔’


ہندوستان کا متوسط ​​طبقہ ملک کی بدترین جبلتوں کا نمائندہ بن چکا ہے- طبقاتی، نرگسیت، بزدل اور خود غرضی۔ اور سب سے اہم بات، اندر تک  فرقہ وارانہ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو وہاٹس ایپ پر نفرت اور تفرقہ پیدا کرنے والے غنڈوں میں تبدیل ہوچکے ہیں – اپنے محفوظ گھروں سے زہر فشانی کرتے ہوئے، اپنے ہی ہم وطنوں کے ساتھ جس غیر انسانی سلوک کا مظاہرہ کرتے ہیں اس پر ذرا بھی شرمندہ نہیں۔

انہیں گودی میڈیا کے جھوٹے اور زہریلے بیانیے کے ذریعے تربیت دی گئی ہے – جس کی قیادت ارنب گوسوامی، انجنا اوم کشیپ اور نویکا کمار جیسے لوگ کر رہے ہیں۔ میڈیا کے ان چہروں نے معاشرے کے مکروہ جذبات کو ہوا دی ہے۔ اس کے باوجود، ان کے ٹی وی شوز سب سے زیادہ دیکھے جاتے ہیں – یہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم نفرت سے بھرا معاشرہ بن چکے ہیں۔

وہ ہولناک سانحہ جس کا مجھے خدشہ تھا وہ 7 مئی کی صبح اس وقت حقیقت بن گیا،  جب ‘ گھر میں گھس کر ماروں گا’ کہنے والے ہمارے وزیر اعظم نے جنگ کا بگل بجا دیا۔ ہندوستان نے پاکستان اور پی او کے میں دہشت گردوں کے نو ٹھکانوں پر ہائی-پریسیشن ہتھیاروں سے حملہ کیا۔ وزیر دفاع نے چونکا دینے والا دعویٰ کیا کہ 100 سے زائد دہشت گردوں کو مارا گیا، لیکن ایک بھی شہری ہلاک نہیں ہوا۔ حالاں کہ،اگلے ہی دن پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر 15 ہندوستانی شہریوں کو ہلاک کر دیا۔ ہندوستان کے اس دعوے کے برعکس کہ اس نے صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنایا، بین الاقوامی ایجنسیوں نے تصدیق کی ہے کہ حملوں میں خواتین اور بچے بھی مارے گئے۔

ہر سیاسی جماعت کے قائدین نے نتائج کی پرواہ کیے بغیر انتہائی سخت کارروائی کا مطالبہ کرنا شروع کردیا۔ کسی نے تحمل سے کام لینےیا پاکستان کو سبق سکھانے کے لیے جنگ کے علاوہ دوسرے متبادل کی بات نہیں کی۔ ہمیشہ دانشمندی کی بات کرنے والےششی تھرور نے بھی دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانے والے ردعمل کا مطالبہ کیا۔ مودی کے دفاعی وکیل کا نادانستہ کردار ادا کرتے ہوئے انہوں نے انٹلی جنس ایجنسیوں کی ناقابل معافی ناکامی کو اس مضحکہ خیز دلیل کے ساتھ نظر انداز کر دیا کہ ‘سکیورٹی سسٹم عالم کل نہیں ہوتا’ اور ‘یہاں تک کہ اسرائیل بھی 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کو نہیں روک سکا۔’ ان کی اس دفاعی کوششوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جلد ہی پارٹی بدلنے کی تیاری میں ہیں۔

تشدد کا یہ خوفناک سلسلہ تین دن سے کچھ زیادہ ہی جاری رہا، جب تک کہ امریکہ کی ثالثی سے اچانک جنگ بندی نہیں ہوگئی۔ اب دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں ممالک اس خودکش جنگ کو ختم کرنے اور جنگ بندی پر متفق ہو گئے ہیں۔

یہ احمقانہ تصور کہ ہم سپریم ہیں اور یہ کہ پاکستان ایک کمزور، بے بس قوم ہے جو جوابی حملہ کرنے سے قاصر ہے، چاہے ہم اسے تسلیم کرنے سے گریزاں ہوں۔ رافیل طیاروں پر مبینہ ‘حملے’ کی بحث پر ہماری خاموشی بہت کچھ کہتی ہے۔ ہم نے پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا، لیکن ہم نے خود بھی کم نقصان  نہیں اٹھایا۔ اس کے باوجود، خود ساختہ ماہرین، خونخوار ہجوم اور یہاں تک کہ سابق فوجی افسران بھی ہندوستان  کے جنگ بندی کے فیصلے پر شدید تنقید کر رہا ہے – ایک ایسے فیصلہ کن  موڑ پر جب یہ بھی واضح نہیں ہے کہ ہم کیا حاصل کر سکتے تھے۔

آئیے تصور کریں کہ اگر ہم قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ جاری رکھتے تو ہم کیا حاصل کر سکتے تھے؟ کیا ہم اپنے دور دراز اہداف کے قریب کہیں بھی پہنچ پاتے؛ (الف) دہشت گردی کو ختم کرنا یا اسے معذور بنا دینا، (ب) پاکستان مقبوضہ کشمیر (پی او کے) کو واپس لینا، اور (سی) پاکستان کو گھٹنےپر لا دینا؟

عملی سیاست کے عظیم مفکر میکیاویلی کا خیال تھا کہ ‘اگر کسی کو تکلیف پہنچانی ہے تو اسے اتناشدید ہونا چاہیے کہ وہ بدلہ لینے کی پوزیشن میں ہی نہ رہے۔’ لیکن جس چیز کو ہمارے اندر موجود جنگی جنون کی خواہش نظر انداز کردیتی  ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ ہندوستان کے پاس پاکستان سے زیادہ فوجی طاقت ہو، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس ‘باغی’ ملک پر اپنی مرضی مسلط کر سکتے ہیں۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سب سے زیادہ کمزور اور بے بس لوگوں میں شامل فلسطینی، جنہیں عالمی برادری نے کئی دہائیوں سے تقریباً علیحدہ کر دیا ہے، وہ اسرائیل کی بے رحم فوجی طاقت کے خلاف مسلسل مزاحمت کر رہے ہیں۔ اور پاکستان کی بات کریں تو یہ ایٹمی طاقت ہے، جسے چین کی سرگرم حمایت حاصل ہے۔

ایسے میں اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو مودی کی جارحانہ پالیسی، جس میں ایٹمی خطرے سے کھیلنے کا رجحان بھی شامل ہے، دراصل کھوکھلی اور بے معنی نظر آتی ہے— صرف لفظوں کا غبارہ۔ جیسا کہ ڈگلس ہارٹن نے کہا تھا، ‘جب بدلہ لینے نکلو تو دو قبریں بنواؤ – ایک دشمن کے لیے اور ایک اپنے لیے!’


مودی کی کشمیر پالیسی مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ جب سے آرٹیکل 370 کو منسوخ کیا گیا اور ریاست کی حیثیت کو کم کر کے مرکزکے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا، تب سے یہ خطہ شدید عدم اطمینان میں ڈوبا ہوا تھا۔ ایسے میں مرکزی حکومت کو پہلگام سانحہ کے بعد انتہائی حساسیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ لیکن اس کے برعکس، حکومت نے یوگی ماڈل کی پیروی کی اوردہشت گردوں سے تعلق رکھنے کے شبہ میں لوگوں کے گھروں کو مسمار کرنا شروع کر دیا، اور سینکڑوں کشمیریوں کو ایک بڑے سیکورٹی کریک ڈاؤن میں گرفتار کیا گیا، جس میں مشتبہ افراد کے ساتھ ساتھ بے گناہ بھی پھنس گئے۔


جبر کی پالیسی براہ راست علیحدگی پسندوں اور پاکستان کے ہاتھ مضبوط کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر حصوں میں کشمیریوں پر ظلم و ستم نے اس زہر کو مزید مہلک بنا دیا ہے۔ جمہوریت، انسانیت اور کشمیریت یہ تینوں اب تقریباً مر چکے ہیں۔

اس تاریک دور میں ہمیں اپنے ماضی کے عظیم رہنماؤں سے تحریک اور رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ بدقسمتی سے ہمارا دور اندیش معاشرہ اندرا گاندھی کے ان دنوں کو یاد کرتا ہے جب انہوں نے 1971 میں امریکی صدر رچرڈ نکسن کی ذرا بھی پرواہ نہیں کی تھی۔ لیکن آج جب صورتحال اس قدر سنگین ہے تو ہم نے ہندوستان کے عظیم ترین اور شاید اس سرزمین کے سب سے بڑے انسان مہاتما گاندھی کو کیوں یاد نہیں کیا؟

کڑوا سچ یہ ہے کہ گاندھی اس مسئلے کو بالکل مختلف طریقے سے حل کرتے، اور اسی لیے انہیں نظر انداز کیا گیا ہے۔

میں اپنے دوستوں سے، مذاق میں نہیں، بلکہ سنجیدگی سے کہتا ہوں کہ اگر گاندھی آج زندہ ہوتے تو مسلمانوں اور پاکستان کے بارے میں ان کے خیالات کی وجہ سے انہیں ہجوم نے مار ڈالا ہوتا!

ہمیں بھی اب اسی طرح کی اُولُو الْعَزْمی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں پاکستان کے ساتھ بات چیت شروع کرنی چاہیے اور دہشت گردی کے خلاف مل کر لڑنا چاہیے۔ بصورت دیگر، ہمیں یا تو ایک اور ہزار سال کی جنگ کے لیے تیار رہنا ہوگا – یا پھر اس دن کے لیے جب ایٹمی تباہی ہمارے مشترکہ مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔ بلاشبہ پہلا آپشن بہت آسان اور سب کے لیےمفید ہے۔

(میتھیو جان سابق سول سرونٹ ہیں۔)