اسمبلی انتخابات: کیا ہندوتوا کے تجربے کو عوامی تائید حاصل ہوگی …

سماجی و معاشی ترقی کے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کے بجائے یوگی آدتیہ ناتھ نے کھلے طور پر اپنی پوری طاقت مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے اور مندر بنوانے میں صرف کی ہے۔

سماجی و معاشی ترقی کے ایجنڈہ  کو آگے بڑھانے کے بجائے یوگی آدتیہ ناتھ نے کھلے طور پر اپنی پوری طاقت مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے اور مندر بنوانے میں صرف کی ہے۔

علامتی تصویر،فوٹو: رائٹرس

علامتی تصویر،فوٹو: رائٹرس

ہندوستان میں حال ہی میں الیکشن کمیشن نے پانچ صوبائی اسمبلیوں کےلیے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کردیا ہے، جس کے مطابق سات مرحلوں پر محیط انتخابات 10فروری سے شروع ہو کر 7مارچ کو اختتام پذیر ہوجائیں گے۔ 10مارچ کو نتائج کا اعلان کیا جائےگا۔

ان میں  سے اہم صوبائی انتخاب آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش میں ہو رہا ہے۔ چونکہ اس صوبہ کی پارلیامنٹ کی 543نشستوں میں سے 80نشستیں ہیں، اس لیے اسمبلی کے نتائج کا مرکزی سیاست پر اثر انداز ہونا لازمی ہے۔ 204ملین نفوس پر مشتمل اس صوبہ میں مسلمانوں کی آبادی 43ملین یعنی 19فیصد سے زائد ہے۔

مشہو ملی ادارے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، دارلعلوم دیوبند، مظاہر العلوم، بریلی مکتبہ فکر کا مرکزی ادارہ بھی اسی صوبہ میں ہیں۔چونکہ ہندوستان میں ووٹنگ اکثر ذات و پات اور برادری کی بنیاد پر ہوتی ہے اس لیے اگر اس صوبہ کے آبادیاتی منظر نامہ کا جائزہ لیا جائے، تو یہاں دلت 21.1فیصد (جس میں جاٹو دلت9فیصد ہیں)، دیگر پسماندہ ذاتیں 44فیصد ان میں یادو (9 فیصد)، اعلیٰ ذاتیں 16فیصد(برہمن 10فیصد)۔ اگر دیکھا جائے تو  مسلمان ایک طرح سے واحد سب سے بڑا گروپ ہے۔

امریکی جریدہ فارن افیرزنے اپنی تازہ اشاعت میں ان انتخابات کو ہندوستان کے مستقبل کے لیے اہم قرار دیا ہے۔ گو کہ پنجاب، اتراکھنڈ، منی پور اور گوا کے لیے بھی ووٹ ڈالے جائیں گے، مگر اتر پردیش کے انتخابات کو 2024 کے عام انتخابات سے قبل ایک سیمی فائنل تصور کیا جا رہا ہے۔

معروف تجزیہ کار سمت گانگولی فارن افیرز میں لکھتے ہیں کہ پچھلے پانچ سالوں سے اس اہم صوبہ کی زمام کار ایک ہندو پروہت یوگی آدتیہ ناتھ کے سپرد ہے، جس نے اس صوبہ کو ہندوتوا یعنی سخت گیر ہندو ازم کی تجربہ گاہ بنایاہوا ہے۔ اگر ان انتخابات میں ہندوتوا کے تجربہ کو عوامی تائید حاصل ہوتی ہےتو 2024کے عام انتخابات میں اس کا پوری طرح اطلاق کیا جائےگا اور دنیا ایک نئے ہندوستان کے روبرو ہوگی۔

گانگولی کا کہنا ہے کہ سماجی و معاشی ترقی کے ایجنڈہ کے بجائے آدتیہ ناتھ نے کھلے طور پر اپنی پوری طاقت مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے اور مندر بنوانے میں صرف کی ہے۔ وہ ہر تقریر میں پچھلی حکومتوں پر مسلمانوں کی منہ بھرائی کا الزام لگا کر، اکثریتی طبقہ میں اقلیتوں کے تئیں نفرت پھیلانے کا کام کرتے ہیں۔

امریکی جریدہ نے 2022میں دنیا میں پیش آنے والے اہم واقعات اور مستقبل پر ان کے اثر انداز ہونے کے پیمانہ کی وجہ سے اتر پردیش کے انتخابات کو اہم سنگ میل قرار دیا ہے۔

اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ کے علاوہ وزیر اعظم نریندر مودنے بھی اپنی حالیہ تقاریر میں کھل کر عندیہ دیا ہے کہ انہوں نے 2014کے انتخابات سے قبل ان کے ارد گرد بنے ‘وکاس پرش’ کا چولہ اتار کر پھینک کر ہندو توا کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔

سال  2014سے قبل جو لوگ یہ یقین دہانیاں کرا رہے تھے کہ متنازعہ شخصیت ہونے کے باوجود مودی نئی دہلی میں پاور میں آنے کے بعد اپنے پیش رو لال کرشن  اڈوانی کی طرح کم از کم بین الاقوامی برادری کو دکھانے کےلیے تکثیری اور جامع ایجنڈہ اپنا لیں گے وہ مودی کی حالیہ تقاریر کے بعد اپنا سر پیٹ رہے ہیں۔

مودی نے حال ہی میں بنار س میں کاشی وشو ناتھ دھام مندر کی طرف جانے والے عالیشان راستہ کا افتتاح کرتے ہوئے، مغل فرمانروا اورنگ زیب اور صوفی بزرگ سالار مسعود غازی کو نشانہ بناکر صاف کر دیا کہ ہندوستان کی کلچرل جیوگرافی کو اب صرف ہندو نظروں سے ہی دیکھا جائےگا۔ اپنی تقریر میں انہوں نے ہندوستان کے کلچرل ورثہ کے طور پر سکھ، جین و ہندو عبادت گاہوں کا ذکر تو کیا،مگر بھولے سے بھی عمداً مسلم عبادت گاہوں یا ورثہ کا تذکرہ نہیں کیا۔

جس طرح کی تقریر مود ی نے بنارس میں کی، عام طور پر ایسے بیانات پارٹیاں اپنے پیادوں یا دوسری صف کے لیڈروں سے دلاتے تھے۔ مگر خود وزیر اعظم کی طرف سے اس طرح کے بیانات دینا، ایک خطرناک رجحان کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

اور تو اور اتراکھنڈ کے شہر ہری دوار میں جس طرح ہندو سادھوں، سنتوں کے ایک جم غفیر نے کھل کر مسلمانوں کے قتل عام کی دھمکی دی، اس پر بھی مودی کی خاموشی معنی خیز ہے۔ اس سے یہی پیغام مل رہا ہے کہ ہندوستان میں ایک نیا نارمل نافذ ہو چکا ہے، جس کے  نیشنلز م میں اب مسلمانوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔

سینٹر فار اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز یعنی سی ایس ڈی ایس میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہلال احمد کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ کورونا وبا  سے ناکامی، کسانوں کے ایجی ٹیشن اور معاشی فرنٹ پر ناکامی کی وجہ سے مودی نے عمداً ترقی یا وکاس کے ماڈل کو پس پشت ڈال کر ہندو توا کو بھنانے کا پروگرام بنایا ہے۔

خود مودی نے جس طرح پچھلے کئی برسوں میں لمبی داڑھی رکھ کر اپنی وضع و قطع میں تبدیلی کی ہے، وہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ ایک ٹیک سیوی یعنی تکنیک فہمی کی امیج سے اب وہ اپنے آپ کو ایک ہندو سنت کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔

اتر پردیش میں 2017 کے انتخابات سے قبل کالے دھن کو ختم کرنے کے نام پر  مودی نے ہزار اور پانچ سو کے نوٹ بند کرکے مسلمان کاریگروں اور تاجروں کی کمر توڑ ڈالی تھی اور اس سے ابھی بھی ابھر نہیں پا رہے ہیں۔ صدیوں سے اتر پردیش ہنر مندوں کی سرزمیں رہی ہے۔

مسلمان اور دیگر بادشاہوں نے  صنعتوں کو پذیرائی بخش کر اس صوبہ کو ملک کی اقتصادیات کے لیے ریڑھ کی ہڈی بنادیا تھا۔ اور اس سلسلے میں ہر علاقہ کی ایک مخصوص صنعت پر اجارہ داری تھی۔ جیسے لکڑی کا کام اور فرنیچر کے لیے سہارنپور، جانوروں کے سینگوں سے اشیاء تعیش اور سجاوٹ کا سامان بنانے کے لیےسنبھل، کپڑے کی بنائی کے لیے بنارس، قالینوں کے لیے مرزا پور اور ہردوئی، تالوں کے لیے علی گڑھ، چاقوؤں کے لیے رام پور، کانچ کے کام کےلیے فیروزپور،  پیتل سازی کے لیےمراد آباد، زردوزی کے لیے بریلی وغیرہ۔

سرکاری سرپرستی سے محرومی، تحقیق و ترقی کی عدم دستیابی  اور نئے  ڈیزائن کی حوصلہ افزائی کے فقدان کی وجہ سے یہ سبھی ہنر اب آخری سانسیں لے رہے تھے، مگر نوٹ بندی نے بچے کچھے کاریگروں کو بھی کنارے لگانے کا کام کردیا تھا۔ رام پور میں چاقو کی صنعت کو نئی جہت دینے اور اس کو سوئس چاقوؤں کے مقابل کھڑا کرنے کے بجائے تقریباً بند کردیا گیا ہے۔ چونکہ کاریگر اکثر مسلمان ہیں اور یہ ہنر نسل در نسل ان کے خاندانوں میں چل رہا ہے، اس کو تعلیم کے ساتھ منسلک کرکے اور  ادارتی صورت دینا کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا ہے۔

گو کہ ہندوطبقہ کے کاروبار بھی اس نوٹ بندی کی زد میں آگیا تھا۔ مگر  پچھلے انتخابات میں اس صوبہ کا دورہ کرکے جب میں نے کئی ہندو تاجروں سے مودی کے اس  قدم کے بارے میں سوال کیا، پہلے تو وہ اس کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں، مگر تھوڑی بے تکلفی کے بعد ان کا کہنا تھا، کہ ملک کے لیےتھوڑی بہت قربانی تو دینی پڑتی ہے۔بجنور کے پاس دریائے گنگا کے گھاٹ پر ایک  ہندو تاجر برج نارائن  تو اتنی دور کی کوڑی لےکر آگئے کہ میں سٹپٹا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ  ؛ہم کو تکلیف تو ہوئی، مگر پاکستان کو بھی تو پریشانی ہوگئی، مافیا ڈان داؤد ابراہیم کی جعلی کرنسی کی فیکٹری تو بند ہوگئی’۔

سال1992میں بابری مسجد کے سانحہ کے بعد اس صوبہ میں کانگریس کے زوال کے بعد سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو مسلمانوں کےمسیحا کے روپ میں ابھر کر سامنے آگئے تھے۔گو کہ ترقی کے نام پر انہوں نے بھی کچھ نہیں دیا، مگر انہوں نے  فسادات کو قصہ پارینہ بنا دیا تھا۔ سلامتی کے احساس نے مسلمانوں کو تجارت اور دیگر شعبوں کی طرف مائل کردیا تھا۔

پچھلے دو انتخابات سے اب ملائم سنگھ کے صاحبزادے اکھلیش سنگھ اب مسلم ووٹ حاصل کرنے کے فراق میں ہیں۔کانگریس  نے بھی پرینکا گاندھی کو میدان میں لاکرمیڈیا کی حد تک تو اپنے وجود کا احساس کرایا ہے۔مگر مسلمانوں میں یہ احساس گھر کر جا رہا ہےکہ جب وہ  سیکولر امیدوارں کو کامیاب بنانے کی کوشش کرتے ہیں توبجائے ان کو  احترام کی نگاہ سے دیکھنے کے،  ان کی اسی سعی کو  ان کی مجبوری اور بے بسی سمجھا جا تا ہے اور ان کی سیاسی حیثیت اور بھی  بے اثر ثابت ہوجاتی ہے۔

مسلمانوں سے یہ  پارٹیاں ووٹ لیتی  ہیں، خود تو اقتدار کے مزے لوٹتی ہیں، مگر مسلم ووٹر اپنے سیاسی حق سے محروم ہی رہتا ہے۔ خیر ہندوستانی سیاست کے بدلتے رخ سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ مودی اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ملک کو ایک پراعتماد، تعمیری اور تکثیری معاشرہ دینے میں بری طرح ناکام رہے ہیں اور اب آخری ہتھیار کے طور پر ہندو توا کا سہارا لے رہے ہیں۔