آسام: مبینہ طور پر حراست میں ہلاک ہوئے شخص کی اہلیہ سمیت پانچ لوگوں پر یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج

10:17 PM May 25, 2022 | دی وائر اسٹاف

یہ پانچ ان چھ لوگوں میں شامل ہیں جن پر پہلے ہی مبینہ طور پر پولیس حراست میں ہوئی شفیق الاسلام کی موت کے خلاف احتجاج کے دوران ناگاؤں ضلع کے بٹادروا پولیس اسٹیشن کو آگ لگانے کا الزام لگایا گیا ہے۔

نئی دہلی: آسام پولیس نے سوموار (23 مئی) کو بتایا کہ انہوں نے پانچ لوگوں کے خلاف یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا ہے –ان میں اس شخص کی بیوی بھی شامل ہے جس  کی موت مبینہ طور پر حراست میں ہوگئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق، یہ پانچ افراد ان چھ لوگوں میں شامل ہیں جن پر پہلے ہی مبینہ طور پر حراست میں ہوئی  موت کے خلاف احتجاج کے دوران   ناگاؤں کے بٹادروا پولیس اسٹیشن میں آگ لگانے کا الزام لگایا گیا ہے۔

ناگاؤں کی ایس پی لینا دولے نے انڈین ایکسپریس کو بتایا، ویڈیو فوٹیج میں شفیق  الاسلام کی بیوی اور بیٹی دونوں کو پولیس اسٹیشن میں آگ لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ گرفتار کیے گئے دیگر افراد بھی ان کے رشتہ دار ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کی بیٹی کو جووینائل جسٹس رولز کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ ضلع انتظامیہ نے اتوار کو سلونا باڑی گاؤں میں تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے ایک مہم شروع کی تھی،جہاں کے باشندوں نے ایک دن قبل مبینہ طور پر ایک مقامی شخص شفیق  الاسلام کی حراست میں مبینہ موت کے بعد مبینہ طورپر حملہ کیا تھا اور ایک تھانے میں آگ لگا دی تھی۔

پولیس حکام نے بتایا کہ اتوار کی صبح بلڈوزر لے کر حکام پولیس تھانے سے تقریباً چھ کلومیٹر دور گاؤں پہنچے اور تھانے میں آگ لگانے والوں کے ’غیر قانونی‘ مکانات کو مسمار کر دیا۔ اسلام کو واقعے سے ایک رات پہلے (20 مئی) کو حراست میں لیا گیا تھا۔

ناگاؤں  ایس پی نے یہ بھی بتایا کہ اس واقعہ کے سلسلے میں تین مقدمات درج کیے گئے ہیں- شفیق کی حراست میں موت کے سلسلے میں غیر فطری موت کا معاملہ؛ تھانے میں آگ زنی  کا مقدمہ؛ اور یو اے پی اے کا معاملہ، کیونکہ پولیس کو شبہ ہے کہ آتش زنی کے ملزمین کے ‘دہشت گردانہ روابط’ ہیں۔

جہاں پہلے دو کیس بٹادروا تھانے میں درج کیے گئے ہیں، وہیں یو اے پی اے کا معاملہ  ڈِھنگ پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا ہے، جس کے دائرہ اختیار میں ملزمین کا گاؤں آتا ہے۔

دولے نے مزید کہا،ہمیں ملزمین کی کئی مجرمانہ سرگرمیوں کے بارے میں مطلع کیا گیا ہے… ہمیں شبہ ہے کہ (ان کے) دہشت گردانہ روابط بھی ہیں، اور اس بات کی تصدیق کے لیے کہ ہم نے بارپیٹا اور بونگائیگاؤں اضلاع کی پولیس سے رابطہ کیا ہے کہ ان میں سے کوئی  انصار اللہ  بنگلہ ٹیم (اے بی ٹی ) سے وابستہ ہے یا نہیں۔

اے بی ٹی بنگلہ دیش کی ایک کالعدم دہشت گرد تنظیم ہے۔ مارچ کے بعد سے آسام پولیس نے بارپیٹا اور بونگائیگاؤں اضلاع میں کم از کم 10 لوگوں کو اے بی ٹی کے ساتھ مبینہ تعلقات کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔

غور طلب  ہے کہ پولیس نے مبینہ طور پرشراب کے  نشے دھت شفیق کو جمعہ کی رات کو گرفتار کیا تھا۔ پولیس نے حراست میں اس کی موت کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی موت بیماری کی وجہ سے ہوئی ہے۔

وہیں، متاثرہ خاندان نے الزام لگایا ہے کہ پولیس نے اسے چھوڑنے کے لیے 10000 روپے کی رشوت اور ایک بطخ کا مطالبہ کیا تھا اور حراست میں ان کی پٹائی کی تھی ، جس کی وجہ سے ان کی موت ہوگئی۔

سنیچر کو بھیڑ کے تشدد اور تھانے میں آتش زنی کے بعد اتوار کو پولیس نے ان لوگوں کے مکانات کو منہدم کر دیا، جنہوں نے مبینہ طور پر تھانے کو آگ لگا دی تھی۔ اس میں شفیق  کا گھر بھی شامل تھا۔

پولیس کے مطابق، ملزمین نے ‘تجاوزات’ کیا ہوا تھا  اور ‘جعلی’ دستاویزوں کے ساتھ سرکاری زمین پر رہ رہے تھے۔

دریں اثنا، اپوزیشن اے آئی یو ڈی ایف اور کانگریس کے رہنماؤں نے سوموار کو گاؤں کا دورہ کیا اور بی جے پی کی قیادت والی ریاستی حکومت کو  تنقید کا نشانہ بنایا۔

اے آئی یو ڈی ایف کے ایم ایل اے اشرف حسین نے جوڈیشل انکوائری  کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ پولیس کی ‘ناکامی’ کو ظاہر کرتا ہے۔

انہوں نے کہا، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس واقعے کے ہر مجرم کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ اگر پولیس کو اس طرح قانون کا غلط استعمال کرنے کی اجازت ہے تو پھر عدالت اور آئین کس لیے  ہیں؟

ترنمول کانگریس کے ریاستی صدر رپن بورا نے کہا، قانون کو اپنا کام  کرنے کیوں نہیں دیا جا رہا ہے؟ یہ بھاجپا راج ہے یا ہٹلر راج؟