ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آرایس ایس کا صدسالہ جشن

آر ایس ایس کے پرچارکوں میں سے ایک نریندر مودی آج ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں۔ جس کی وجہ سے اس کا اثر قومی زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں نظر آتا ہے۔

آر ایس ایس کے پرچارکوں میں سے ایک نریندر مودی آج ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں۔ جس کی وجہ سے اس کا اثر قومی زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں نظر آتا ہے۔

سال 2025 کے یوم آزادی کی تقریر کے دوران پی ایم مودی کی تصویر (فوٹو: پی ایم او وایا پی ٹی آئی ) اور آر ایس ایس کے سویم سیوک (تصویر: پی ٹی آئی)

ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس آجکل اپنے قیام کا صد سالہ جشن منانے میں مصروف ہے۔ آر ایس ایس کو اگر دنیا کی سب سے بڑی غیر سرکاری ملٹری تنظیم کہا جائے، تو بے جا نہ ہوگا۔

اس وقت اس تنظیم کی 75ہزار شاکھائیں ملک کے طول و عرض میں سرگرم ہیں۔ ان کے سربراہ کو شاکھا پرمکھ کہتے ہیں، جو صبح سویرے بستیوں کے باہر کھلی جگہوں پر تنظیم سے وابستہ افراد کو ڈرل وغیرہ  کے ساتھ ساتھ درس دے کر ا ن کی برین واشنگ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

ڈاکٹر کیشو بلی رام ہیڈگوار نے اکتوبر 1925کو  اس تنظیم کی داغ بیل ڈالی۔ اس کے موجودہ یعنی چھٹے سربراہ جس کو سرسنگھ چالک کہتے ہیں، موہن بھاگوت ہیں۔ بھارت میں موجودہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اس کی سیاسی شاخ ہے۔ اسی لیے بی جے پی کا دنیا کی دیگر دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اس کے لیڈران کی نکیل ان کے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہوتی ہے۔

الگ تھلگ  اور میڈیا کی چکا چوند سے پر ے رہنے والی اس تنظیم نے اپنی روایات کے برعکس اس بار صد سالہ جشن کی مناسبت سے حال ہی میں دہلی میں دو روزہ کانفرنس کا اہتمام کیا، جس میں سفارت کاروں، دانشوروں، صحافیوں، صنعت کاروں و دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔

اس کانفرنس کے آخری دن سرسنگھ چالک نے سوالات کے جوابات دیے، جو ایک دن قبل کانفرنس ہال کے باہر رکھے بکس میں ڈالنے تھے۔ سوالات کے جواب دیتے ہوئے موہن بھاگوت نے کچھ ایسی باتیں کیں، جو مسلمانو ں کے لیے اطمینان بخش تھیں۔

انہوں نے کہا کہ اسلام ہندوستان میں صدیوں سے موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام ختم ہوجائے گا، وہ ہندو فکر و فلسفے سے رہنمائی حاصل نہیں کرتے۔’یہ تنازعہ تبھی ختم ہوگا جب دونوں جانب اعتماد قائم ہوگا۔ سب سے پہلے ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم سب ایک ہیں۔’

 انہوں نے یہ بھی کہا کہ بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر بنوانے میں آر ایس ایس نے کلیدی کرداراداکیا ور اس کے کارکنان دیگر دو مساجد یعنی بنارس کی گیان واپی اور متھرا کی عید گاہ مسجد کو مندر بنوانے کی مہم چلانے کے لیے آزاد ہیں، مگر ان کے علاوہ ہندو سماج کو ہر مسجد کی بنیاد کے نیچے مندر ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے، یعنی دیگر مساجد کی تحفظ کی انہوں نے ایک طرح سے گارنٹی دے دی۔

ان کے اس بیان سے کئی مسلم لیڈروں کی باچھیں کھل گئیں۔  جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ مولانا ارشد مدنی نے موہن بھاگوت سے دہلی میں ملاقات بھی کی۔ ان کے دوسرے دھڑے کے سربراہ  محمود مدنی نے بھی سنگھ کے سربراہ کے بیانات کا خیر مقدم کیا۔

لیکن کیا کیا جائے، آر ایس ایس کا ہمیشہ سے دوہرا رویہ رہا ہے۔

بھاگوت نے اس امید افزا بیان کے دو دن بعد ہی دہلی کے نواح میں انتہائی متمول کثیر منزلہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے احاطے میں آر ایس ایس کے مقامی پرچارک نے ایک نشست رکھی تھی۔

میری ایک سابق صحافی کولیگ اسی سوسائٹی کی مکین ہے۔ اس کے مطابق شاکھا پرمکھ نے ایک طویل تقریر کی، جس میں مکینوں کو بتایا گیا کہ وہ مسلمان سیکورٹی گارڑ رکھنے سے پرہیز کریں۔ علاوہ ازیں سوسائٹی یا فلیٹوں کے کے اندر مسلمان الیکٹریشن یا پلمبروں یا سبزی بیچنے والوں کو گھسنے نہ دیں۔

اگرگھروں میں کام کروانے کے لیےتکنیکی عملہ کی ضرورت ہو، تو آرایس ایس کی مقامی شاکھا سے رابطہ کریں، وہ معتبر ہندو عملہ بھیجا کریں گے۔

پرچارک کا مزید کہنا تھا کہ ہندوستان کو اصلی آزادی تو سنہ 2014 میں ہی ملی ہے۔ مہاتما گاندھی اگر واقعی لیڈر تھے، تو برطانوی پولیس یا فوج کے ہاتھوں ان کو کبھی کوئی خراش تک کیوں نہ آئی؟

پھر ا ن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک ہزار سالہ غلامی نے ہندوؤں کو بزدل بنایا ہے اور مسلمانوں نے ان کا استحصال کیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کورونا وبا میں مسلمانوں کے مقابلے ہندو زیادہ ہلاک ہوئے۔

آخر میں انہوں نے اس سوسائٹی سے والینٹر بھرتی کرنے کے لیے نام  مانگے۔

یہ تو طے ہے کہ زمین پر سر سنگھ چالک کے بجائے مقامی شاکھا پرمکھ کا ہی سکہ چلے گااور وہ نفرت کو پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ لال کرشن اڈوانی اکثر بی جے پی کا موازنہ یورپ کی دائیں بازو کی جماعتوں سے کرتے تھے۔ لیکن معروف قانون دان اور کالم نویس مرحوم  اے جی نورانی اپنی کتاب آر ایس ایس: اے مینک ٹو انڈیا میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ فیصلے لینے میں بی جے پی بظاہر آزاد دکھائی دیتی ہے، مگر آر ایس ایس کا اس پر مضبوط کنٹرول ہے۔

بی جے پی کا طاقتور ترین اہلکار یعنی آرگنائزنگ جنرل سکریٹری آرایس ایس سے ہی آتا ہے۔ اسی طرح دہلی میں پارٹی کے صدر دفتر کا انچارج بھی آرا یس ایس کا پرچارک ہوتا ہے۔ ایک دہائی قبل تک بی جے پی کے اشوکا روڑ والے صدر دفتر کے احاطے میں ہوائی چپل پہنے ایک شخص گھومتے ہوئے نظر آتا تھا۔ پہلی نظرمیں وہ کوئی سائل معلوم ہوتا تھا، مگر جب بھی کوئی لیڈر یا وزیر دفتر آتا تھا، تو پہلے اس کے پاس جاکر جھک کر سلام کرتا تھا۔

معلوم ہوا کہ یہ آر ایس ایس کے پرچارک اور بی جے پی کے آرگنائزنگ جنرل سکریٹری رام لال ہیں۔ اسی طرح اس دفتر کے منتظم آر کے سنہا بھی سادگی کے پیکر تھے۔ یہ دونو ں افراد دن میں کروڑں کا لین دین، اور حساب و کتاب کے ذمہ دار ہوتے تھے۔

نورانی کے بقول نوآبادیاتی دور میں آر ایس ایس نے برطانوی راج کے ساتھ تعاون کیا اور آزادی کی تحریک میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ آزادی کے بعد اس نے کئی ذیلی تنظیمیں قائم کیں، جنہوں نے ہزاروں اسکول، خیراتی ادارے اور کلب قائم کیے تاکہ اپنی نظریاتی سوچ کو پھیلایا جا سکے۔

آر ایس ایس پر 1947 میں چار دن کے لیے پابندی لگی۔ بعد ازاں آزاد ہندوستان کی حکومت نے اس پر تین مرتبہ پابندی لگائی۔ پہلی بار 1948 میں، جب ناتھورام گوڈسے، جو آر ایس ایس کا رکن تھا، نے مہاتما گاندھی کو قتل کیا۔ دوسری بار ایمرجنسی (1975-1977) میں، اور تیسری بار 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد۔

 آر ایس ایس کا زیادہ تر کام مختلف شاکھاؤں کے ذریعے چلتا ہے، جو ایک گھنٹہ عوامی مقامات پر منعقد ہوتی ہیں۔ ان کی تعداد 1975 میں 8,500 تھی، جو اب 75 ہزارہوگئی ہیں۔ یہ اس وقت ہندوستان کی سب سے طاقتور تنظیم ہے، جس کی اپنی نجی فوج ہے جو اپنے رہنما کی فسطائی طرز پر بنائی گئی پالیسیوں پر اندھا دھند عمل کرتی ہے۔

اس کے پرچارکوں میں سے ایک نریندر مودی آج ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں۔ جس کی وجہ سے اس کا اثر قومی زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں نظر آتا ہے۔ 1951 میں اس نے اپنا سیاسی محاذ ‘بھارتیہ جن سنگھ’ کے نام سے بنایا، جو 1977 میں جنتا پارٹی میں ضم ہوا، مگر 1980 میں الگ ہوکر بھارتیہ جنتا پارٹی کے طور پر دوبارہ سامنے آیا۔

آر ایس ایس کے نظریہ ساز ایم جی ویدیا نے 21 دسمبر 2014 کو یہ سوال اٹھایا؛’ہندوستان کے مسلمان کون ہیں؟’ ان کا کہنا تھا کہ 90 فیصد مسلمان پہلے ہندو تھے، تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے زبردستی یا مصلحتاً  اسلام قبول کیا۔  اس لیے انہیں دوبارہ ہندو بنایا جا سکتا ہے۔ یہی ’گھر واپسی‘ کی دلیل تھی۔

آر ایس ایس کے نشانے پر ہمیشہ تاریخ رہی ہے۔ ان کے مطابق اس مضمون پر بائیں بازو کے دانشوروں کا  قبضہ رہا ہے، جنہوں نے ہندوؤں کو احساس کمتری میں مبتلا کر کے رکھا ہوا ہے۔ اس لیے تاریخ کو از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔

 جب اتحادیوں کی مدد سے 1998 میں پہلی بار ہندوستان میں اٹل بہاری واجپائی کی سربراہی بی جے پی نے حکومت سازی کی، تو بتایا جاتا ہے کہ آر ایس ایس کی طرف سے بس ایک پیغام تھا، کہ ملائی والی وزارتیں اگر سبھی کی سبھی اتحادیوں کی دینی پڑیں گیں، مگر تعلیم کی وزارت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔

اس طرح آر ایس ایس کے رکن مرلی منوہر جوشی کو وزارت تعلیم کا قلمدان دیا گیا، جس نے اگلے چھ سال تک تعلمی اداروں میں نفرت کا زہر سرایت کرنے کا کام کیا۔ 2004 میں جب بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، تو نئے وزیر تعلیم ارجن سنگھ کو اس زہر کو دور کرنے کے لیے کئی افسران کو متعین کرنا پڑا۔

سال 2015 میں انڈین کونسل آف ہسٹاریکل ریسرچ کو مودی حکومت نے ازسرنو تشکیل دیا گیا تاکہ نئی  تاریخ دوبارہ ہندوتو نظریاتی رجحانات کے مطابق ہو۔

سال 2014میں جموں و کشمیر کے اسمبلی انتخابات کو کور کرتے ہوئے میں نے چناب ویلی یعنی ڈوڈہ و کشتواڑ کے دور دراز پہاڑوں پر ایکل ودھالیہ یعنی ایک ٹیچر اسکول دیکھے، جن کو آر ایس ایس کے والینٹیر چلاتے تھے۔ کوئی والینٹیرکسی کارپوریٹ کمپنی کا عہدیدار تھا، تو کوئی آئی آئی ٹی کا گریجویٹ انجینیر۔

بات چیت کرتے ہوئے پتہ چلا کہ وہ سال میں چند ماہ چھٹی لےکر اس مدت کو سنگھ کے کاموں کے لیے وقف کردیتے ہیں۔

آر ایس ایس کی ایک ذیلی تنظیم ویشیو ہندو پریشد کے ایک لیڈر پروین بائی توگڑیا، جو پیشہ سے ڈاکٹر اور کینسر اسپیشلسٹ ہیں، نے بھی ایک با ر مجھے بتایا کہ وہ پندرہ دن احمد آباد میں پریکٹس کرتے ہیں اور پھر پندر ہ دن تنظیم کا کام کرتے ہیں۔

میں نے ان سے انٹرویو کے دوران سوال پوچھا تھا کہ پندرہ دن آپ کسی انسان کے کینسر کو ٹھیک کرتے ہیں اور پھر باقی پندرہ دن سماج میں کینسر پھیلانے نکلتے ہیں۔ کیا  یہ دوہرا میعار نہیں ہے؟  نہایت تلخ لہجے میں انہوں نے جواب دیا کہ وہ باقی پندرہ دن بھی کینسر ہٹانے کا ہی کام کرتے ہیں۔

ان کی مطابق سماج کا کینسر مسلمان، مدرسہ اور مارکسزم ہے، وہ اس کو ختم کرنے نکلتے ہیں۔

 فروری 2015 کو موہن بھاگوت نے کہا؛’یہ وقت ہمارے لیے موافق ہے۔ ہندوتوا ہی دنیا کا واحد نظریہ ہے جو سب کو اکٹھا کرتا ہے۔ ہندوستان دراصل ہندو راشٹر ہے، یہ ایک حقیقت ہے۔ ہمیں آگے بڑھ کر اسے حقیقت میں ڈھالنا ہوگا۔ جب ہمارا ملک عظیم ہوگا تو پوری دنیا کو فائدہ ہوگا۔’

انہوں نے کہا کہ اب صرف تقریروں سے بات نہیں بنے گی، تنظیم کو بڑھنا ہوگا، ہندو سماج کو متحد اور بے خوف، خود کفیل اور ایثار پسند بنانا ہوگا۔اونچی ذات کے ہندوؤں جو ملک کی آبادی کا 15فیصد ہیں، کو تو ایک لڑی میں پرویا تو جاسکتا تھا، مگر باقی 85 فیصد کو اکھٹا کرنے کے لیے کسی دشمن کو پیدا کرنا ضرور ی تھا۔

اس لیے آر ایس ایس نے ایک منصوبہ کے تحت ہر ذات میں کسی  نہ کسی تاریخی ہیرو کو ڈھونڈا، جس کی ماضی کی دہلی کی مسلمان سلطنت کے ساتھ ان بن رہی ہو یا  جس نے مسلمان بادشاہوں کا مقابلہ کیا ہو۔ اتر پردیش کی راج بھر ذات کو مسلمانوں کے خلاف اکسانے کے لیے ایک راج بھر راجہ سہیل دیو کو چنا گیا، جس نے محمود غزنوی کے بعد افغانوں کو ایک عرصے تک شمالی ہندوستان سے دور رکھا۔

اسی طرح جاٹوں کے لیے مہاراجہ سورج مل کو ڈھونڈا گیا، جس نے مغلوں سے لوہا لیا۔ آسام میں آہوم سلطنت کے راجہ پرتاپ سنگھا کو ہیرو بنایا گیا، جس نے 1662 تک مغلوں کو اس خطے میں سے دور رکھا۔مرہٹوں کے لیے پہلے ہی شیواجی تھے۔ مسلمانوں کو اس پوری آبادی کے لیے دشمن گر دانا گیا۔ ان کو بتایا جاتا ہے کہ کس طرح مسلم بادشاہوں نے ان کی خواتین کی بے حرمتی کی اور ان کو حرم کی زینت بناتے تھے۔

 پھر دوسرا معاملہ تھا کہ کہیں یہ سبھی شودر کسی وقت ایک نہ ہوجائیں، اس لیے ان کو ذیلی ذاتوں میں تقسیم کرکے رکھنا تھا۔ دلتوں کی بہوجن سماج پارٹی کے بانی آنجہانی کانشی رام کے ایک بار مجھے کہا کہ اونچی ذاتوں میں جب کبھی کسی کو کاسٹ سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے، تو اس کو برہمن، راجپوت،ٹھاکر یا بنیا کی سند دی جاتی ہے۔ مگر جب شودر کو اسی طرح کی سند کی ضرورت ہوتی ہے، تو اس کی سرٹیفیکٹ یادو، کرمی، راج بھر،  جاٹ،  سینی  وغیرہ  کی بنائی جاتی ہے۔

ان ذاتوں کی تعداد ہی پانچ ہزار کے لگ بھگ ہے۔ دلتوں کے اندر بھی تقریبا سو کے قریب ذیلی ذاتیں ہیں۔  برہمنوں کی بھی کئی تقریبا نو سو کے قریب ذیلی ذاتیں ہیں، مگر ان کوبرہمن کا ہی سرٹیفیکیٹ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح 36کے قریب ذیلی قبیلے راجپوتوں کے بھی ہیں، مگر ذات کا سرٹیفیکیٹ ان کو راجپوت کا ہی ملے گا۔

نورانی کے مطابق 10 مارچ 2000 کو  اس وقت کے آر ایس ایس کے سربراہ  ایس سدرشن نے مطالبہ کیا کہ موجودہ آئین، جو برطانوی ماڈل 1935 پر مبنی ہے، کو ختم کیا جائے اور ایک نیا آئین بنایا جائے جو ہندوستانی روایات اور امنگوں کو ظاہر کرے۔

رام مندر کی تعمیر اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے بعد آر ایس ایس یا یہ ایک ایجنڈہ ہے۔ مگر چونکہ اس سے دلت اور دیگر پسماندہ طبقات کے ہندو بدکتے ہیں، اس لیے ابھی اس کو زور و شور سے بجایا نہیں جاتا ہے۔

ناگپور میں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے سدرشن نے کہا کہ غیر ہندو اصل میں ‘سابقہ ہندو’ ہیں۔ وہ بھارتی ہیں، لیکن ان کے مذاہب کو ‘بھارت کے مطابق’ بنایا جانا چاہیے۔ یہی بات انہوں نے دہلی میں 23 مارچ 2000 کو بھی دہرائی۔

اسی دوران آر ایس ایس کے زیر اہتمام پبلشنگ ہاؤس نے ‘پونیہ بھومی بھارت’ کے نام سے ایک نقشہ شائع کیا جس میں افغانستان کو ‘اپ بھارت’ اور کابل کو ‘کُبلا نگر’ کہا گیا۔ پشاور کو ‘پروشہ پور’، ملتان کو ‘ملتان دیوستھل’، سری لنکا کو ‘سنگلدیپ’ اور میانمار کو ‘برہم دیش’ دکھایا گیا۔

آر ایس ایس لیڈر ڈاکٹر سدانند دامودر کی کتاب اکھنڈ بھارت میں ہدایت دی گئی ہے کہ کہ گھروں میں اکھنڈ بھارت کا نقشہ ٹانگنا چاہیے تاکہ وہ ہمیشہ نگاہوں کے سامنے رہے اور موجودہ تقسیم شدہ  ہندوستان کے نقشے کو دیکھ کر دل میں چبھن پیدا ہو اور ‘اکھنڈ بھارت’ کے عزم کی یاد تازہ رہے۔مگر سوال یہ ہے کہ جو لوگ اندرون اور بیرونِ ملک مسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکاتے ہیں، وہ جنوبی ایشیا کو دوبارہ کیسے متحد کرسکیں گے؟

دسمبر 1948 میں برطانوی ہائی کمشنر سر آرچبلڈ نائی نے لندن کو بھیجی گئی رپورٹ میں آر ایس ایس کو ایک ‘ہندو دائیں بازو کی نیم فوجی تنظیم’ قرار دیا۔

اتر پردیش کی حکومت کے چیف سکریٹری راجیشور دَیال نے اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ کس طرح  آر ایس ایس کے سربراہ ایم ایس گولوالکر کو 1948 میں مہاتما گاندھی کے قتل سے قبل اسموکنگ گن کے ساتھ پکڑا گیا لیکن اس وقت کے وزیر اعلیٰ گووند بلبھ پنت نے انہیں بغیر کسی سزا کے چھوڑ دیا۔

دیال کے مطابق سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے ایسا ہوا کیونکہ کانگریس پارٹی کے اندر بھی آر ایس ایس کے ہمدرد موجود تھے، حتیٰ کہ کابینہ میں بھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ اگر پنت نے بروقت کارروائی کی ہوتی تو گاندھی کی جان بچائی جا سکتی تھی۔

اطالوی محقق مارسیا کاسولاری نے اپنی تحقیق میں بتایا ہے کہ آر ایس ایس نے اپنی ابتدا ہی میں یورپی فاشزم سے متاثر ہوکر اسے اپنانا شروع کیا۔ ہندو مہاسبھا کے صدر بی ایس مونجے 1927 میں آر ایس ایس کے قریب تھے۔ وہ 1931 میں اٹلی گئے، تنظیم کے قیام کے چھ سال بعد۔ وہاں وہ مسولینی سے ملے اور اس سے سخت متاثر ہوئے۔ مہاسبھا کے ساورکر جرمنی کو ہٹلر کو ترجیح دیتے تھے۔

مونجے نے 1934 میں ‘بھونسلہ ملٹری اسکول’ قائم کیا اور ‘سینٹرل ہندو ملٹری ایجوکیشن سوسائٹی’ کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد ہندو نوجوانوں کی عسکری تربیت کرنا تھا۔نورانی کے مطابق، ہندو مہاسبھا نے ہندوؤ ں کے بطور اکثریتی فرقہ کے جائز حقوق کا دفاع کرتے ہوئے ہندو راج کا نعرہ لگایا تھا۔ مگر آر ایس ایس نے اس سے ایک قدم آگے بڑھا کر ہندو راشٹرہ کا نعرہ دیا۔

برطانوی حکومت اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ آر ایس ایس کسی بھی ‘سول نافرمانی’ میں شریک نہیں ہے، اس لیے اس کی سیاسی سرگرمیوں کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ برطانوی ہوم ڈپارٹمنٹ نے نوٹ کیا تھا کہ آر ایس ایس کے اجتماعات میں مقررین اپنے کارکنوں کو تاکید کرتے تھے کہ وہ کانگریس کی برطانوی مخالف تحریکوں سے الگ رہیں۔

بمبئی حکومت نے بھی اپنی رپورٹ میں آر ایس ایس کو سراہا کہ اس نے ہمیشہ قانون کے اندر رہ کر کام کیا اور ‘ہندوستان چھوڑو تحریک’ میں حصہ نہیں لیا۔ دسمبر 1940 میں صوبائی آر ایس ایس رہنماؤں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ کوئی ایسی سرگرمی نہ کریں جسے برطانوی حکومت ناپسند کرے۔ اس کے جواب میں آر ایس ایس نے یقین دلایا کہ اسے حکومت کے احکامات کی خلاف ورزی کا کوئی ارادہ نہیں۔

 والٹر کے اینڈرسن اور سدھارتھ ڈاملی کی کتا ب دی آر ایس ایس: اے ویو ٹو دی انسائیڈ کے مطابق  آر ایس ایس سے منسلک 36 ذیلی گروہ ہیں، جو سیاست، زراعت، صحت عامہ، تعلیم، مذہب، کاروبار، قبائلی بہبود اور سابق فوجیوں کے امور سمیت کئی شعبوں میں کام کرتے ہیں۔

وقت کے ساتھ نئے نئے گروپ بنتے رہتے ہیں تاکہ نئے چیلنجز کا مقابلہ کیا جائے۔ خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ‘تری شکتی’ نامی ذیلی تنظیم ہے۔ مسلمانوں کے لیے ‘راشٹریہ مسلم منچ’ قائم تو کیا گیاہے، مگر اس کو آر ایس ایس کے بنیادی ڈھانچہ سے الگ رکھا گیا ہے۔

آر ایس ایس کی بیرونِ ملک بھی موجودگی ہے، جسے ‘ہندو سیوا سنگھ’ کہا جاتا ہے۔ یہ تنظیم نریندر مودی کے غیر ملکی جلسوں میں طاقت کے مظاہرے کا بڑا ذریعہ بنی۔ اس کے کارکن دنیا کے تین درجن ممالک میں سرگرم ہیں۔

بظاہر ہر ملک کی شاخ الگ اور قانونی طور پر آزاد ہے، مگر ہندوستان سے آنے والے فل ٹائم پرچارک ان کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ مودی کے جلسوں کو منظم کرنے میں ‘اوورسیز فرینڈز آف بی جے پی’ بھی شامل ہے، جو دہلی سے بی جے پی کے دفتر کے تحت چلتا ہے۔

آر ایس ایس کا تنظیمی ڈھانچہ کچھ اس طرح کا ہے۔ سرسنگھ چالک کے بعد سب سے بڑا عہدہ سرکاریاوہ یعنی جنرل سکریٹری کا ہوتا ہے۔ اس کرسی پر فی الوقت دتا راے ہوشبولے براجمان ہیں۔ اس کے تحت چھ جوائنٹ جنرل سکریٹری یعنی ساہ سرکاریاوہ ہیں۔ پھر سات شعبہ ہیں، جن میں ورزش، میڈیا، تبلیغ، خدمت، پبلک ریلیشن وغیرہ شامل ہیں۔ سب سے اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس  اکھل بھارتیہ کاریکاری منڈل یعنی سنٹرل ایگزیکیوٹو کمیٹی ہوتی ہے، جس کے 48اراکین ہیں۔

اس کے بعد اکھل بھارتیہ پرتیندھی سبھا یعنی جنرل اسمبلی ہے، جس کے 1400اراکین ہیں۔ 36ذیلی تنظیموں میں طالب علموں کے لیے اکھل بھارتیہ ددیارتھی پریشد، وکیلوں اور ججو ں کے لیے اکھل بھارتیہ ادھواکتا پریشد، بچوں کیلئے بالا گوکولم، ماہرین تعلیم کے لیے بھارتیہ شکشن منڈل، ڈاکٹروں کے لیےنیشنل میڈیکو آرگنائزیشن، سائنسدانوں کے لیے وگیان بھارتی، سابق فوجیوں کے لیے اکھل بھارتیہ سینک سیوا پریشد شامل ہیں۔