آسام: ہندو جاگرن منچ کا سیریل پر لو جہاد کو بڑھاوا دینے کا الزام، دو مہینے کی پابندی

آسام کے رینگونی چینل پر نشر ہونے والے سیریل‘بیگم جان’پر لو جہاد کو بڑھاوا دینے کا الزام لگایا ہے۔ چینل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سیریل کا لو جہاد سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس میں ایسا کچھ نہیں دکھایا جا رہا، جو کسی مذہب کے لیے توہین آمیز ہو۔

آسام کے رینگونی چینل پر نشر ہونے والے سیریل‘بیگم جان’پر لو جہاد کو بڑھاوا دینے کا الزام  لگایا ہے۔ چینل کی جانب  سے کہا گیا ہے کہ سیریل  کا لو جہاد سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس میں ایسا کچھ نہیں دکھایا جا رہا، جو کسی مذہب کے لیے توہین آمیز ہو۔

آسامی زبان کے سیریل  بیگم جان کا پوسٹر۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

آسامی زبان کے سیریل  بیگم جان کا پوسٹر۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: آسام میں مبینہ طور پر لو جہاد کو بڑھاوا دینے اورآسام کی ہندوتہذیب کو کمتردکھانے کے الزام  میں ایک ٹیلی ویژن سیریل  پر دو مہینے کی پابندی  لگا دی ہے۔مقامی انتظامیہ نے مذہبی جذبات مجروح  کرنے کے لیے 24 اگست کو آسامی ٹی وی سیریل ‘بیگم جان’پر پابندی  لگانے کے آرڈردیے تھے۔

ٹی وی چینل‘رینگونی’ پر ‘بیگم جان’ہرہفتے نشر کیا جاتا ہے۔این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، یہ ٹی وی شو ایک ایسی ہندو لڑکی کے بارے میں ہے، جو ایک مسلم نوجوان کی مدد سے سماج سے لڑتی ہے۔ اس شو کا اس سال جولائی مہینے میں ہی براڈکاسٹ  شروع ہوا تھا اور تبھی سے یہ تنازعہ  میں ہے۔

آر ایس ایس سے وابستہ  ہندو جاگرن منچ اور دوسرےگروپ  اس سیریل  کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس شو پر مکمل پابندی  کو لےکر سڑکوں سے لےکر سوشل میڈیا تک احتجاج کیا گیا۔

گوہاٹی پولیس کے کمشنرایم پی گپتا نے کہا، ‘ضلع سطح کی  نگرانی کمیٹی کی میٹنگ  میں اس پر چرچہ ہوئی۔ اس کمیٹی میں 10 ممبر ہیں۔ اس پر دو مہینے کی پابندی  کا فیصلہ لیا گیا، کیونکہ ایسے خدشات  ہیں کہ امن وامان میں خلل پڑ سکتا ہے اور پہلی نظر میں ایسےالزام  لگے ہیں، جس سے سماج کے ایک طبقہ کے مذہبی جذبات مجروح  ہو سکتے ہیں۔’

دوسری طرف ایسے الزام  ہیں کہ گوہاٹی پولیس نے بیگم جان کی مرکزی کردار پریتی کونگنا کی شکایت پر کوئی کارروائی نہیں کی۔ پریتی کو سوشل میڈیا پر ٹرول نے نشانہ بنایا ہے۔پریتی کا کہنا ہے کہ جولائی میں شو شروع ہوتے ہی انہیں اور ان کے اہل خانہ کو سوشل میڈیا کے ذریعے ٹرول کیا گیا، دھمکایا گیا اور یہاں تک کہ انہیں ریپ تک کی دھکمی دی گئی۔

انہوں نے کہا، ‘میرا قانون اور انتظامیہ  پریقین ہے۔ آج کل اداکاروں  کو سوشل میڈیا پر ٹرول کرنا ٹرینڈ بن گیا ہے۔ یہ بہت دردناک ہے۔’پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ابھی بھی شکایت کی جانچ کر رہے ہیں۔گپتا نے کہا، ‘ان کی شکایت پر ہم نے دسپور پولیس تھانے میں معاملہ درج کیا تھا اور جانچ جاری ہے۔ قانون اپنا کام کرےگا۔’

ہندو جاگرن منچ کی گوہاٹی اکائی کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی سیریل یا فلم ہندو سماج کو نیچا دکھانے کی کوشش کرےگی، ہم ہر بار اس کی مخالفت کریں گے۔

منچ کے ریاستی صدرمرنال کمار لشکر کا کہنا ہے، ‘بیگم جان میں صحیح معنوں  میں ہندو سماج یا آسامی سماج کے اقدار کوپیش  نہیں کیا گیا۔ اس میں برہمنوں کو کمتر دکھایا گیا ہے۔ آسام سماج میں پہلے سے ہی لو جہاد ہے اور یہ سیریل  اسے اور بڑھاوا دے رہا ہے۔’

وہیں رینگونی چینل کا کہنا ہے کہ ان کا سیریل  کسی بھی طرح سے کسی مذہب یا کمیونٹی کے لیے توہین آمیزنہیں ہے۔

چینل کے سی ایم ڈی سنجیو نارائن نے کہا، ‘اس کا لو جہاد سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ ایک ہندو لڑکی کے بارے میں ہے، جو ایک مسلم علاقے میں مصیبت میں پڑ جاتی ہے اور ایک مسلم نوجوان  اس کی جان بچاتا ہے۔ ہماری قانونی ٹیم اس معاملے کو دیکھ رہی ہے۔ یہاں پہلی بار اس طرح کی کارروائی کی گئی ہے۔ ہم اس سیریل میں ایسا کچھ نہیں دکھاتے، جو کسی مذہب کے لیے توہین آمیز ہو۔’

Next Article

بانو مشتاق سے پہلے بھی پی ایم مودی نے دونامور شخصیات کو انٹرنیشنل ایوارڈ پر نہیں دی تھی مبارکباد

کنڑ ادیبہ بانو مشتاق کی’ہارٹ لیمپ’ کو انٹرنیشنل بکرپرائز ملنے پرپی ایم مودی نےانہیں مبارکباد پیش نہیں کی۔ اس سے پہلے انہوں نے رویش کمار کو ریمن میگسیسے ایوارڈ اور گیتانجلی شری کو انٹرنیشنل بکر ایوارڈ ملنے پر بھی مبارکباد نہیں دی تھی۔

گیتانجلی شری، بانو مشتاق اور رویش کمار۔ تصاویر: وکی میڈیا کامنس، اے پی/پی ٹی آئی، اور انٹرنیشنل بکر ویب سائٹ۔

گیتانجلی شری، بانو مشتاق اور رویش کمار۔ تصاویر: وکی میڈیا کامنس، اے پی/پی ٹی آئی، اور انٹرنیشنل بکر ویب سائٹ۔

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی عام طور پر بین الاقوامی فورمز پر مختلف شعبوں میں ہندوستانیوں کی حصولیابیوں کو عوامی طور پر تسلیم کرنے اور ان کاجشن منانے کے لیےمعروف ہیں۔ تاہم، اس میں کچھ قابل ذکر مستثنیات ہیں، جہاں ان کی خاموشی کوواضح طور پرمحسوس کیا گیاہے۔

رپورٹ کے مطابق، ایسی ہی ایک مثال بانو مشتاق کی ہے، جنہیں حال ہی میں بین الاقوامی بکر پرائز سے نوازا گیا، اور پی ایم مودی کی جانب سے انہیں مبارکبادنہیں دی گئی۔

معلوم ہو کہ بانو نے اپنےافسانوں کے مجموعہ’ہردے دیپا’ (ہارٹ لیمپ) کے لیے 2025 کا بین الاقوامی بکر پرائز جیتا ہے۔

بانو کے علاوہ، کم از کم دو ایسی مثالیں اورہیں جب پی ایم مودی نے عالمی سطح پر تسلیم شدہ ایوارڈ کے ہندوستانی فاتحین کی عوامی طور پر ستائش نہیں کی ۔

ان تینوں معاملوں میں وزیر اعظم مودی کی خاموشی کھیل، سائنس اور دیگر شعبوں میں ہندوستانی حصولیابیوں کا عوامی طور پر جشن منانے کے ان کے معمول کے بالکل برعکس ہے۔

یہ خاموشی ممکنہ طور پرترجیحی ہے، اورممکنہ طور پر ان ایوارڈ یافتگان کے سیاسی نظریات ، آئیڈیالوجی یا ان کے کام کے موضوعات کی وجہ سے بھی ہے، جن میں اکثر مذہبی اکثریت پسندی اورتفرقہ انگیز سیاست کی تنقید اور ہندوستان میں تکثیریت کی وکالت شامل ہوتی ہے۔

رویش کمار – ریمن میگسیسے ایوارڈ (2019)

ہندی کے سینئر صحافی رویش کمار کو 2019 میں باوقار ریمن میگسیسے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ اسے ایشیا کا نوبیل انعام بھی کہا جاتا ہے۔ ہندوستانی سیاسی اسپیکٹرم سے وسیع پیمانے پر مبارکباد کے باوجود وزیر اعظم مودی کی طرف سے  اس کامیابی پررویش کمار کو عوامی طور پر کوئی مبارکبانہیں دی گئی تھی۔

گیتانجلی شری – بین الاقوامی بکر پرائز (2022)

سال 2022 میں گیتانجلی شری کے ناول ‘ریت سمادھی’ کے انگریزی ترجمہ ‘ٹومب آف سینڈ’ کو بین الاقوامی بکر پرائز سے نوازا گیا تھا۔ گیتانجلی شری بین الاقوامی بکر پرائز جیتنے والی پہلی ہندوستانی ادیبہ ہیں۔ اس حصولیابی پر وزیر اعظم مودی سمیت مرکزی حکومت اور حکمراں جماعت  قابل ذکر  طور پر خاموش رہی، حالانکہ یہ کتاب جنوب ایشیائی زبان میں ایوارڈ جیتنے والی  پہلی تخلیق تھی۔

مودی حکومت کی جانب سےہندی کو فروغ دینے اور ہندوستانیوں کی کامیابیوں کے لیے بین الاقوامی ایوارڈز کا جشن منانے کے بر عکس اس معاملے پر قابل ذکر طو رپر توجہ نہیں دی گئی۔ گیتانجلی کی یہ کتاب ہندوستانی تکثیریت، سرحدوں کی بے معنویت کی ایک جرٲت مندانہ جستجو ہے اور اس میں ایک مسلمان پاکستانی مرد اور ایک ہندو ہندوستانی عورت کے درمیان مضبوط رشتے کی عکاسی کی گئی ہے۔

بانو مشتاق – بین الاقوامی بکر پرائز (2025)

اسی ہفتے ادیبہ بانو مشتاق نے اپنے افسانوی مجموعے ‘ہردے دیپا’ (ہارٹ لیمپ) کے لیے 2025 کا بین الاقوامی بکر پرائز جیتا ہے۔ بنیادی طور پر کنڑ میں لکھی گئی اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ دیپا بھاستی نے کیا ہے۔ اس سلسلے میں جہاں اپوزیشن لیڈر انہیں مبارکباد کے پیغامات بھیجتے رہے،  وہیں پی ایم مودی کی خاموش قابل ذکر طور پرمحسوس کی گئی۔

کنڑ ادب اور ہندوستانی زبان کے لیے ایوارڈ کی تاریخی نوعیت کے پیش نظر یہ کوتاہی کئی معنوں میں حیران کن ہے۔

معلوم ہو کہ یہ مجموعہ جینڈرکے بارے میں بات کرتے ہوئے پدری  نظام پر حملہ کرتا ہے۔

Next Article

پہلگام حملہ: ایک ماہ بعد بھی خالی ہاتھ این آئی اے، اب تک نہیں ملا کوئی ٹھوس سراغ

پہلگام حملے کو ایک مہینہ گزر چکا ہے، لیکن این آئی اے کو ابھی تک کوئی ٹھوس سراغ نہیں ملا ہے۔ تفتیشی ایجنسی گواہوں سے پوچھ گچھ اور تکنیکی نگرانی کر رہی ہے۔ پانچ دہشت گردوں پر شبہ ہے، جن میں سے تین پاکستانی ہو سکتے ہیں۔ سینکڑوں لوگوں سے پوچھ گچھ کی گئی ہے۔ تھری ڈی میپنگ بھی کی گئی ہے۔

23 اپریل 2025 کو جائے وقوع  پر تعینات ہندوستانی فوج کے جوان۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

23 اپریل 2025 کو جائے وقوع  پر تعینات ہندوستانی فوج کے جوان۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: پہلگام میں 22 اپریل کو ہوئے حملے کو ایک مہینہ گزر چکا ہے، لیکن قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) اب بھی ان دہشت گردوں کی تلاش کر رہی ہے جنہوں نے جموں و کشمیر کے اس سیاحتی مقام پر 26 شہریوں – 25 سیاحوں اور ایک مقامی کو ہلاک کیا تھا۔ اس حملے کے بعد پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشیدگی کافی بڑھ گئی تھی۔

حملے کے چند دن بعد جموں و کشمیر پولیس سے جانچ اپنے ہاتھ میں لینے والی این آئی اے کو اب تک کوئی ٹھوس سراغ نہیں ملا ہے۔ ایجنسی اب گواہوں سے پوچھ گچھ کر رہی ہے اور تکنیکی نگرانی کے ذریعے ڈیٹا کی جانچ کر رہی ہے۔

شبہ ہے کہ اس حملے میں کم از کم پانچ دہشت گرد ملوث تھے، جن میں سے تین کا تعلق پاکستان سے تھا۔ انتظامیہ نے کم از کم تین دہشت گردوں کے اسکیچ جاری کیے ہیں اور ان کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والوں کے لیے 20 لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔

انڈین ایکسپریس نے ایک ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے، ‘جموں و کشمیر پولیس نے ابتدائی طور پر دہشت گردوں کے اسکیچ جاری کیے تھے۔ اس کے بعد این آئی اے نے ایک نیا مقدمہ درج کیا اور گواہوں سے پوچھ گچھ شروع کی۔ اب تک 150 مقامی لوگوں سے پوچھ گچھ کی جا چکی ہے، جن میں ٹٹو چلانے والے، دکاندار، فوٹوگرافر اور ایڈونچر اسپورٹس سے وابستہ افراد شامل ہیں۔’

این آئی اے نے ایک مقامی شخص سے بھی پوچھ گچھ کی ہے، جس نے واقعہ سے تقریباً 15 دن پہلے علاقے میں ایک دکان کھولی تھی لیکن حملے کے دن اسے بند رکھا تھا۔ ذرائع نے کہا، ‘اب تک اس کے خلاف کچھ ٹھوس نہیں ملا ہے، تحقیقات جاری ہے۔’

تحقیقات کے دوران این آئی اے نے جائے وقوع سے جمع کیے گئے موبائل ڈیٹا کی جانچ شروع کردی ہے، جس میں متاثرین کے رشتہ داروں اور دیگر سیاحوں کے ذریعے لیے گئے ویڈیوز اور تصاویر بھی شامل ہیں۔ ایجنسی نے گواہوں اور دکانداروں کے بیانات کی بنیاد پر وادی بائی سرن کی تھری ڈی میپنگ بھی کی ہے۔

ایک افسر نے کہا، ‘اس سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ حملہ آور کتنی  دیر تک وہاں تھے، وہ کہاں سے آئے اور کہاں گئے۔ اسی طرح کی تھری ڈی میپنگ این آئی اے نے 2019 کے پلوامہ حملے کی تحقیقات میں بھی کی تھی۔’

حملے کے بعد جموں و کشمیر پولیس نے بڑے پیمانے پر چھاپے مارے اور سینکڑوں لوگوں کو حراست میں لیا، جن میں اوور گراؤنڈ ورکرز بھی شامل تھے۔ ایک سینئر پولیس اہلکار نے کہا کہ حراست کے پیچھے دو مقاصد تھے؛’پہلا، حملے کے بارے میں کوئی معلومات حاصل کرنا اور دوسرا، یہ پیغام دینا کہ اس طرح کے حملوں کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی اور انہیں برداشت نہیں کیا جائے گا۔یہ پیغام دینا ضروری تھا تاکہ مستقبل میں ایسے حملوں کو روکا جا سکے۔’

تاہم، اہلکار نے یہ بھی اعتراف کیا، ‘پہلے مقصد کے حوالے سے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔’

ایک اور اہلکار نے بتایا کہ حراست میں لیے گئے بیشتر افراد کو رہا کر دیا گیا ہے۔ ‘تاہم، جن لوگوں نے پہلے اوور گراؤنڈ ورکرز کے طور پر کام کیا ہے ان میں سے کچھ کے خلاف پی ایس اے (پبلک سیفٹی ایکٹ) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔’

انہوں نے کہا کہ پولیس اور این آئی اے کو ‘بہت سے لوگوں’ کے بارے میں اطلاع ملی تھی، لیکن زیادہ تر سراغ جھوٹے نکلے۔ ‘ایک معاملے میں، ایک سیاح نے تین آدمیوں کا ویڈیو پوسٹ کیاتھا،  جو حملہ آوروں سے ملتے جلتے تھے اور انہیں وادی بیتاب (پہلگام کے قریب) میں دیکھا گیا تھا۔ انہیں پکڑا گیا اور بعد میں چھوڑ دیا گیا کیونکہ کوئی کچھ خاص نہیں ملا۔’

ایک اور اہلکار نے بتایا کہ تلاشی مہم کو پہلگام سے آگے جنوبی کشمیر کے بیشتر جنگلات تک بڑھا دیا گیا ہے۔

افسر نے یہ بھی کہا کہ حملے کے ابتدائی چند دنوں میں، سیکورٹی فورسز کو دہشت گردوں کے ڈیجیٹل فٹ پرنٹ  ملے تھے اور ان کی بات چیت کو ٹریس کیاگیا تھا۔ ‘لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ اب مکمل طور پر آف لائن ہو چکے ہیں۔’

حملے کے بعد، فوج اور پولیس نے جنوبی کشمیر میں دو الگ الگ کارروائیوں میں مقامی دہشت گردوں  کو ہلاک کر دیا ہے، جن میں ٹی آر ایف (دی ریزسٹنس فرنٹ) کا ایک ٹاپ کمانڈر بھی شامل تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ پہلگام حملے کے پیچھے اسی تنظیم کا ہاتھ ہے۔

Next Article

کیرو ہائیڈرو کیس میں ستیہ پال ملک سمیت 6 دیگر کے خلاف سی بی آئی کی چارج شیٹ، آئی سی یو میں سابق گورنر

کیرو ہائیڈرو الکٹرک پروجیکٹ معاملے میں سی بی آئی نے تین سال کی تحقیقات کے بعد اپنے نتائج خصوصی عدالت  کو سونپے ہیں۔ اس معاملے میں جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک اور پانچ دیگر کے خلاف چارج شیٹ داخل کی گئی ہے۔ دریں اثنا ملک نے بتایاہے کہ وہ شدید بیمار ہیں۔

اپریل 2023 میں نئی ​​دہلی کے آر کے پورم پولیس اسٹیشن میں جموں وکشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

اپریل 2023 میں نئی ​​دہلی کے آر کے پورم پولیس اسٹیشن میں جموں وکشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) نے جمعرات (22 مئی) کو جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک اور پانچ دیگر کے خلاف کیرو ہائیڈرو الکٹرک پروجیکٹ کیس میں چارج شیٹ داخل کی ۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق ، سی بی آئی نے اس معاملے میں تین سال کی تحقیقات کے بعد اپنے نتائج خصوصی عدالت کو سونپے ہیں۔ یہ چارج شیٹ اس سال 22 فروری کو ملک کے گھر اور دیگر جائیدادوں پر سی بی آئی کے چھاپے کے بعد داخل کی گئی ہے۔

اس سلسلے میں ستیہ پال ملک کے علاوہ چناب ویلی پاور پروجیکٹس پرائیویٹ لمیٹڈ (سی وی پی پی پی ایل) کے اس وقت کے چیئرمین نوین کمار چودھری ادھیکاری ایم ایس بابو، ایم کے متل اور ارون کمار مشرا کے علاوہ تعمیراتی فرم پٹیل انجینئرنگ لمیٹڈ کا بھی نام لیا گیا ہے۔

واضح ہو کہ یہ معاملہ 2019 میں جموں و کشمیر کے کشتواڑ ضلع میں ایک ہائیڈرو الکٹرک پروجیکٹ کے سول کام کے لیے ایک نجی کمپنی کو 2200 کروڑ روپے کا ٹھیکہ دینے میں مبینہ بے ضابطگیوں سے متعلق ہے۔

سال2022 میں کیرو ہائیڈرو پروجیکٹ کیس میں سی بی آئی کی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں جموں و کشمیر اے سی بی اور محکمہ بجلی نے تحقیقات کی تھی۔

اس میں مزید کہا گیا ہے، ‘ان رپورٹس کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ کیرو ہائیڈرو الکٹرک پاور پروجیکٹ کے سول ورکس پیکج کے ای-ٹینڈرنگ سے متعلق گائیڈ لائنز پر عمل نہیں کیا گیا  تھااور چناب ویلی پاور پروجیکٹس کے 47ویں بورڈ میٹنگ میں ریورس آکشن(نیلامی) کے ساتھ ای-ٹینڈرنگ کے ذریعے دوبارہ ٹینڈر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، تاہم جاری ٹینڈر کو رد کرنے کے بعد بھی اسے لاگو نہیں کیا گیااور آخر کارٹینڈرمیسرز پٹیل  انجینئرنگ کو دے دیا گیا۔’

یہ بھی کہا گیا ہے کہ 4287 کروڑ روپے کی تخمینہ لاگت والا پروجیکٹ ناقص کام کے الزامات اور مقامی بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے میں ناکامی کی وجہ سے برباد ہو گیا۔

معاملے کی اے سی بی جانچ میں پایا گیا کہ چناب ویلی پاور پروجیکٹ کی47ویں بورڈ میٹنگ میں پروجیکٹ کے لیے ٹینڈر منسوخ کر دیا گیا تھا، لیکن اسے 48ویں بورڈ میٹنگ میں واپس لا کر پٹیل انجینئرنگ کو دیا گیا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ 23 اگست 2018 سے 30 اکتوبر 2019 تک جموں و کشمیر کے گورنر رہے ستیہ پال ملک نے خود اکتوبر 2021 میں دعویٰ کیا تھا کہ انہیں پروجیکٹ سے متعلق دو فائلوں کو منظوری دینے کے لیے 300 کروڑ روپے کی رشوت کی پیشکش کی گئی تھی  ۔ ان میں سے ایک فائل راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے متعلق تھی۔

انہوں نے گزشتہ سال سی بی آئی کی تلاشی کے بعد اپنے خلاف کرپشن کے الزامات سے انکار کیا تھا ۔

ہسپتال میں ملک

قابل ذکر ہے کہ اس دوران ملک نے کہا ہے کہ وہ شدید بیمار ہیں اور بدھ (21 مئی) سے ان کی کڈنی کا ڈائلیسس شروع ہو اہے۔

ان کے پرسنل مینیجر کے ایس رانا نے دی وائر کو بتایا،’ستیہ پال ملک کو 11 مئی کو ڈاکٹر رام منوہر لوہیا اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ وہ پیشاب اور گیس پاس کرنے سے قاصر ہیں، اور 14 مئی کو کرائے گئے کلچر ٹیسٹ میں شدید یورین انفیکشن اورکڈنی کی خرابی کی تصدیق ہوئی ہے۔ کل سے ان کی حالت بگڑ گئی ہے اور ان کے گردے بالکل کام نہیں کر رہے ہیں۔ وہ اس وقت آئی سی یو میں داخل ہیں اور بے ہوشی کی حالت میں زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔’

اس سے قبل فروری میں چھاپے کے بعد ملک نے کہا تھا کہ وہ کسان کے بیٹے ہیں اور چھاپے ماری سے ڈریں  گے نہیں۔

انہوں نے  ٹوئٹ کیا تھا،’میں نے بدعنوانی کےملزم لوگوں کے خلاف شکایت کی تھی۔ لیکن سی بی آئی نے ان کی تلاش کے بجائے میرے گھر پر چھاپہ مارا۔ میرے گھر سے آپ کومیرے 4-5 کرتے پاجامے کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ تاناشاہ سرکاری اداروں کا غلط استعمال کر کے مجھے ڈرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں کسان کا بیٹا ہوں، میں ڈروں گا  نہیں اور جھکوں گا نہیں۔’

سی بی آئی نے جنوری میں اس کیس کے سلسلے میں پانچ دیگر افراد کے احاطے کی بھی تلاشی لی تھی۔ الزام ہے کہ ملک کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کرنے کے لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

Next Article

ہندوستانیوں میں فیک نیوز اور صحیح خبروں میں فرق کرنے کی تمیز سب سے کم: رپورٹ

پیرس کی مارکیٹ ریسرچ اور کنسلٹنگ فرم اپسوس گروپ کی ایک رپورٹ میں کہا گیاہے کہ ہندوستانیوں میں حقیقی اور جعلی معلومات میں فرق کرنے کی صلاحیت سب سے کمزور ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانیوں  میں فطری  طورخبر کو سچ ماننے کارجحان زیادہ ہے۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: پکسابے)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: پکسابے)

نئی دہلی: ہندوستان، امریکہ، برطانیہ اور فرانس میں8800 لوگوں پر کی گئی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ہندوستانیوں میں  فرضی خبروں اور غلط معلومات کے تئیں حساسیت زیادہ  ہوتی ہے۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، پیرس کی مارکیٹ ریسرچ اور کنسلٹنگ فرم اپسوس گروپ کے ایک مطالعہ پر مبنی رپورٹ گزشتہ ماہ شائع ہوئی تھی، جس میں اس بات پر توجہ مرکوز کی گئی تھی کہ لوگوں میں اصلی خبروں کوفرضی خبروں سے الگ  کرنے کی صلاحیت کس طرح متاثر ہوتی ہے۔

مطالعہ میں 8800 شرکاء کو کچھ اصلی اور جعلی سرخیاں دکھائی گئیں۔ اصلی سرخیاں معتبر خبر رساں اداروں سے تھیں، جبکہ جعلی سرخیاں حقائق کی جانچ کرنے والی سائٹوں سے تھیں۔

ہیڈ لائن کو عام سوشل میڈیا پوسٹ کی طرح بنایاگیا تھا، جس میں ماخذ، لائیک اور کوئی تبصرہ نہیں تھا۔ یہ اس لیے کیا گیا تاکہ شرکاء سرخی کی بنیاد پر خبر کی صداقت کا اندازہ لگا سکیں۔

رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ہندوستانیوں میں اصلی اور جعلی معلومات میں فرق کرنے کی سب سے کمزور صلاحیت ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانیوں  میں فطری طور پر خبر کور سچ ماننے کارجحان زیادہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کے شرکاء سب سے زیادہ ذہین تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے، ڈیجیٹل لینڈاسکیپ کے فروغ کی وجہ سےغلط معلومات کے پیمانے اور پیچیدگی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔صارف کی مصروفیت کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے لیے بنائے گئے الگورتھم، نادانستہ طور پر سنسنی خیز یا تفرقہ انگیز مواد کو بڑھاوا دے سکتے ہیں، اگر ان کا ڈیزائن یعنی خبر کے وائرل ہونے کو ترجیح دیتا ہے۔’

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانیوں میں سرخیوں پر یقین کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے، خاص طور پر اگر وہ مثبت جذبات کو جنم دیتے ہیں، لیکن وہ منفی جذبات کے بارے میں شکوک  وشبہات کا اظہار کم کرتے ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے کہ فیصلہ سازی پر اس کے جذباتی اثرات کی وجہ سے ہندوستان میں لوگ جذباتی طور پرمشتعل اور غلط معلومات کے تئیں زیادہ حساس ہوجاتے  ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب ہندوستانیوں کو حقیقی خبر دی جاتی ہے تو وہ اسے سچ تسلیم کرتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غلط معلومات کی وجہ سے درپیش چیلنجز کے باوجودہندوستان میں لوگوں میں سچائی کو پہچاننے کی مضبوط بنیادی صلاحیت ہے۔

مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانیوں میں حقیقی خبروں کی شناخت کی درستگی دوسرے ممالک کے برابر ہے۔

اپسوس  انڈیا کے منیجنگ ڈائریکٹر (ریسرچ) وویک گپتا نے کہا کہ مثبت خبروں پر عام طور پر منفی خبروں کے مقابلے میں کم سوال اٹھائے جاتے ہیں۔

ایک اچھی لیکن جھوٹی سرخی، جیسے کہ ‘ پریس فریڈم انڈیکس میں ہندوستان سب سے اوپر’، پر یقین کرنے اور بڑے پیمانے پر شیئر کیے جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے، بھلے ہی یہ سچ نہ ہو۔ ‘تمام مقامی اسٹریٹ وینڈرز پر پابندی لگانے کے لیے حکومت کی نئی پالیسی’جیسے منفی طور پر بنائے گئے جھوٹے بیانیےکو اب بھی بغیر کسی سوال کے قبول کیا جا سکتا ہے، کیونکہ لوگ جو کچھ پڑھتے ہیں اس پر ٹھہر کرسوچنے  اور ان کا تنقیدی جائزہ لینے کا امکان کم ہوتا ہے۔

گپتا نے کہا، ‘ منفی خبروں کے معاملے میں برطانیہ سب سے زیادہ سوال اٹھاتا ہے… امریکہ زیادہ تحقیقات کے بغیر منفی خبروں پر یقین کرلیتا ہے۔’

Next Article

آل پارٹی وفد میں شامل جان برٹاس اور اویسی بولے – حکومت سے شدید اختلاف، لیکن ملک کے لیے متحد

مرکزی حکومت نے ہندوپاک کشیدگی سے متعلق مسئلے پر 30 سے ​​زائد ممالک میں سات وفد بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس میں حکمراں جماعت اور اپوزیشن کے رہنما شامل ہیں، جن کے بارے میں حزب اختلاف کے ارکان پارلیامنٹ کا کہنا ہے کہ وہ ملک سے باہر مختلف اندرونی اختلافات کے باوجود متحد ہیں۔

سی پی آئی (ایم) ایم پی جان برٹاس اور اے آئی ایم آئی ایم ایم پی اسد الدین اویسی (تصویر: ایکس اور پی ٹی آئی ویڈیو)

سی پی آئی (ایم) ایم پی جان برٹاس اور اے آئی ایم آئی ایم ایم پی اسد الدین اویسی (تصویر: ایکس اور پی ٹی آئی ویڈیو)

پہلگام دہشت گردانہ حملے اورآپریشن سیندور کے بعد جب اپوزیشن نریندر مودی حکومت سے مشترکہ پارلیامانی اجلاس اور وزیر اعظم کی موجودگی والی آل پارٹی میٹنگ بلانے کا مطالبہ کر رہی تھی،اسی درمیان سب کو حیران کرتے ہوئے مرکزی حکومت نے اعلان کر  دیاکہ  وہ ہندوپاک کشیدگی سے متعلق مسئلے پرایک اہم سفارتی اقدام کے تحت  30 سے ​​زائد ممالک میں سات وفد بھیجے گی ۔

حکومت کے مطابق،اس  وفد میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اپوزیشن پارٹیوں کے ایم پی شامل ہوں گے، جن میں کچھ  کی قیادت وہ خود کریں گے، مثلاً ششی تھرور (کانگریس)، سپریا سولے (نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (شرد چندر پوار)) اور کنیموزی (دراویڈ منیترا کزگم)۔

توقع ہے کہ یہ وفد 22 اور 23 مئی کو جاپان، جنوب مشرقی ایشیا، عرب دنیا اور افریقہ سے لے کر برطانیہ، یورپی یونین، لاطینی امریکہ اور امریکہ تک دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں نمائندوں سے ملاقات کے لیے روانہ ہوگا۔

تاہم، اس سے چین  کوباہررکھا جائے گا کیونکہ اس اقدام کا بنیادی مقصد آپریشن سیندور کے بعد پاکستان کی دہشت گردی کی نوعیت کو بے نقاب کرنا اور پاکستان کو عالمی سطح پر الگ -تھلگ کرنا ہے۔

حکومت کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے، ‘کُل جماعتی وفد تمام صورتوں  اور اظہاریہ میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے  کے لیے ہندوستان کےقومی اتفاق رائے اورنظریے  کا مظاہرہ کرے گا۔ وہ دنیا کو دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس کا مضبوط پیغام پہنچائیں گے…’

اس حوالے سے پارلیامانی امور کے وزیر کرن رجیجو نے کہا، ‘یہ سیاست سے بالا تر قومی اتحاد کا ایک طاقتور عکس ہے… ہندوستان ایک آواز میں بات کرے گا۔’

ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس اقدام کے ذریعے حکومت نے ایک ہی جھٹکے میں اپوزیشن کی ان تنقیدی آوازوں کو دبا دیا ہے، جس نے انٹلی جنس کی ناکامی پر سوال اٹھائے تھے اورجس کی وجہ سے پہلگام میں قتل عام ہوا؟ متاثرین کو مدد ملنے میں تاخیر ہوئی۔ نام نہاد امریکی ثالثی سے جنگ بندی؛ اور دیگر متعلقہ سوالات کے مناسب جوابات مانگے جا رہےتھے؟

اس سلسلے میں دی وائر نے حزب اختلاف کے دو سرکردہ رہنماؤں سے بات کی، جو اس وفد کا حصہ ہیں –کیرالہ سے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے رکن پارلیامنٹ جان برٹاس، جو جاپان، جنوبی کوریا، سنگاپور، ملائیشیا اور انڈونیشیا کا دورہ کریں گے، اور حیدرآباد سےآل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ایم پی اسد الدین اویسی،جو سعودی عرب، کویت ، بحرین اور الجیریاکا دورہ کریں گے۔

پیش ہیں اس بات چیت کے بعض اہم  اقتباسات؛

کیا مودی حکومت نے پہلگام کے بعد بین الاقوامی سفارتی رابطہ کاری  کے لیے حزب اختلاف کے اراکین پارلیامنٹ کو شامل کرکے اپنی غلطیوں اور تنقیدوں کو کم کرنے کا کام کیا ہے؟ حکومت نے اس معاملے پر سوال کا جواب دینے کے لیے پارلیامنٹ کا مشترکہ اجلاس منعقد کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔

جان برٹاس: ہاں، ہم چاہتے تھے کہ حکومت پارلیامنٹ کا خصوصی اجلاس بلائے، ہم یہ بھی چاہتے تھے کہ وزیراعظم ایک آل پارٹی اجلاس کی صدارت کریں، کیونکہ وہ پاکستان سے متعلق گزشتہ دو اجلاس میں غیر حاضر تھے۔

ہمارے پاس بہت سارے سوال اور خدشات ہیں اور ہمیں وضاحت کی ضرورت ہے – ڈونالڈ ٹرمپ کے کئی  گھمنڈ بھرے بیانات سے کہ انہوں نے کس طرح جنگ بندی کی ثالثی کی اور کس طرح انہوں نے تجارت کو لالچ دیا۔ اس کے علاوہ انٹلی جنس کی ناکامی، سیکورٹی فورسز کی طرف سے ردعمل میں تاخیر؛ میڈیا کے ذریعے نفرت، بنیاد پرستی اور جنگی جنون ؛ سکریٹری خارجہ اور ان کے اہل خانہ سمیت مارے گئے بحریہ  کےافسر کی اہلیہ پر سائبر حملے۔ ہم ان کا جواب چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں میں نے وزیر داخلہ کو ایک خط بھی لکھا تھا، جس میں ان سے سائبر حملوں کے پس پردہ  کون  لوگ ہیں،اس کی جانچ کرنے کی اپیل کی گئی تھی،  لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

ان تمام اور دیگر بہت سے پہلوؤں پر ہمیں اس حکومت سے شدیداختلاف ہے، لیکن جب بین الاقوامی سطح پر سفارت کاری کے ذریعے عوامی رابطوں کی بات آتی ہے تو ہمیں تعاون کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ دنیا میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان واضح تفریق کرنا ضروری ہے۔

امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک ہندوستان کو پاکستان کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ وہ ہمیں ایک جیسا سمجھتے ہیں، اور ہم اسے بالکل بھی بدل نہیں پائے ہیں۔

نیز، ہماری جمہوریت میں دو حزبی وفود کو بیرون ملک بھیجنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ منموہن سنگھ کے دور میں ممبئی میں 26/11 کے بعد وفود پاکستان کے دہشت گرد نیٹ ورک کو اجاگر کرنے کے لیے گئے تھے۔

اب ہماری بھنویں تن گئی  ہیں، کیونکہ ہمیں مودی حکومت سے ایسے صحت مند سیاسی کلچر کی کبھی توقع نہیں تھی جیسا کہ ہم نے گزشتہ 11 سالوں میں کسی جمہوریت کا تجربہ نہیں کیا ہے۔ ہماری شرکت دنیا کویہ  دکھانے کے لیے ہے کہ اس ملک کے جمہوری عمل میں اپوزیشن کا اہم کردار ہے۔

اسدالدین اویسی: پارلیامانی وفد سفارت کاری میں کوئی نئی روایت  نہیں ہے، نرسمہا راؤ، اٹل بہاری واجپائی یا منموہن سنگھ کی قیادت والی سابقہ حکومتوں نے بھی ایسا کیا ہے۔

اب پاکستان سے آئے دہشت گردوں کے ذریعے کیے گئے ہولناک قتل عام،جنہوں نےمذہب کی بنیاد پر لوگوں کو قتل کیا اور اس کے بعدپاکستان میں دہشت گردوں کے 9 ٹھکانوں  پر ہندوستان کے حملوں کے بعد یہ ضروری ہے کہ ہم ارکان پارلیامنٹ عالمی رہنماؤں سے ملاقات کریں اور انہیں اس خطے کے مسائل سے آگاہ کریں۔ ہندوستان  کئی سالوں سے دہشت گردی کا شکار  ہے، جس کی منصوبہ بندی اور سرپرستی ہمارے پڑوسی نے کی ہے اور ماضی میں بھی کئی حملے ہوئے ہیں۔

کئی ایسے مسائل ہیں جن پر ہم حکومت سے متفق نہیں ہیں اور جہاں تک میری پارٹی کا تعلق ہے، 2014 میں مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے وقف (ترمیمی) بل کی منظوری تک، ہم نے اس حکومت کے ہر بل کی مخالفت کی ہے۔ جبکہ اپوزیشن میں شامل نام نہاد سیکولر جماعتوں نے 2019 میں خطرناک غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ترمیمی ایکٹ کی بھی حمایت کی، جس نے اتنے سارے نوجوانوں کو جیل میں ڈال دیا ہے۔

ہم حکومت کی حمایت نہیں کر رہے ہیں، ہم اس ملک کی حمایت کر رہے ہیں جہاں ہم دنیا کو بتا رہے ہیں کہ پاکستان سے آنے والے دہشت گردوں کی وجہ سے ہمارے شہری اپنی جان گنوا رہے ہیں۔

کیا حکومت نے آپ کو ایجنڈے اور ان لوگوں کے بارے میں معلومات فراہم کی  ہیں، جن سے آپ ملاقات کریں گے؟

جان برٹاس: دوسرے ممالک کو یہ بتانے کا بہترین موقع ہے کہ ہم ایک ذی شعور جمہوریت ہیں اور میں نے کل سکریٹری خارجہ کے ساتھ پروگرام کی بریفنگ کے دوران اس کا اشتراک کیا۔ میں نے کہا کہ ہمیں اپنے بھرپور تنوع اور ثقافتی کثرت کو اجاگر کرنا چاہیے اور دنیا کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ ہم پاکستان کے برعکس ایک متحرک جمہوریت ہیں، جو مذہب کی بنیاد پر پیدا ہوا تھا۔

ہمیں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانا چاہیے کہ ہندوستان پاکستان کے ساتھ مسلسل جھڑپوں میں دلچسپی نہیں رکھتا اور پاکستان شروع سے ہی دہشت گردی کی کارروائیاں انجام دیتا رہا ہے۔

ہمیں دنیا کو بتانا چاہیے کہ ہم پاکستان کی نقل نہیں بننے جا رہے ہیں، بلکہ ہمارے پاس ایک آئین ہے اور ہم ترقی، معاشی ترقی اور غربت کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہیں۔

ہم نہ صرف ان ممالک کے ایکٹرز کے ساتھ بلکہ سول سوسائٹی، میڈیا اور تھنک ٹینکس کے ساتھ بھی بات چیت کریں گے، جیسا کہ وزارت خارجہ نے ہمیں مطلع کیا ہے۔ جب ممبران پارلیامنٹ اور معززین کا وفد دورہ کرتا ہے تو ہم لوگوں کے بہت سے طبقوں کے ساتھ آزادانہ بات چیت کرنے کے لیے آزاد ہوتے ہیں۔ حکومت اس کی اجازت دیتی ہے، لیکن ہمارے پاس ابھی تک دورے کا کوئی شیڈول نہیں ہے۔

اسدالدین اویسی : ایجنڈا بالکل واضح ہے – جب  میں نے صاف کر دیا ہے کہ جہاں تک ملک کے اندر مودی حکومت کی پالیسیوں کا تعلق ہے، ہم ان کی مخالفت کرتے ہیں اور ہم ان کی مخالفت کرتے رہیں گے- لیکن اس آؤٹ ریچ پروگرام کا تعلق ہمارے ملک پر بیرونی حملے سے ہے۔

اور اگر موجودہ حکومت کو لگتا ہے کہ یہ ملک کے مفاد میں ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین پارلیامنٹ جا کر بتائیں کہ پڑوسی ملک نے کیا کیا ہے، اور براہ کرم یاد رکھیں، آئین کا آرٹیکل 355 کہتا ہے کہ اگر کوئی بیرونی حملہ ہوتا ہے تو حکومت  کوفوری ایکشن لینا چاہیے، ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

وزارت خارجہ نے ابھی ہم سے بریفنگ کے لیے ملاقات کرنی ہے، ہم دوسرے بیچ میں جا رہے ہیں، لیکن ہم واضح ہیں کہ ملک کے دفاع کے لیے عالمی رہنماؤں سے ملیں گے۔

کیا ہوگا اگر بین الاقوامی رہنما اور دیگر افرادجن سے آپ بات چیت کرتے ہیں وہ اقلیتوں پر مہلک حملوں کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں۔ یا مثال کے طور پر، حال ہی میں  علی خان محمود آباد کی ایک جائز سوشل میڈیا پوسٹ کے لیے سیڈیشن کے الزام میں گرفتاری؟

جان برٹاس: یہ مسائل یقینی طور پر ہماری تشویش کا حصہ ہیں – یہ مکمل طور پر مضحکہ خیز ہے کہ سوشل میڈیا پر تبصرے کرنے والے کسی شخص کوبناوٹی الزام میں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ میں نے یہ مسئلہ کئی بار اٹھایا ہے اور پارلیامنٹ میں بھی غیر آئینی گرفتاریوں کی بات  کی ہے۔

یقیناً، ہم سے ایسے بہت سے سوال پوچھے جائیں گے، لیکن ہمارا وفد ان پر فیصلہ کرنے کے لیے کافی سمجھدار ہے۔ سفارتی رسائی میں شامل بین الاقوامی وفود کے لیے، ہمارا کام اور مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہمارا بڑا ایجنڈا سامنے آئے۔ جہاں تک ملکی مسائل کا تعلق ہے، ہم اسے ملک کے اندر ہینڈل کرلیں گے۔

اسد الدین اویسی:  دنیا کو ہم سے اقلیتوں پر حملے اور ان کے خلاف طے شدہ تعصبات پر سوال پوچھنے دیجیے۔ میں اس کا دفاع کرنے کے قابل ہوں۔ اگر آپ میرے 2013 کے ویڈیو دیکھیں، جب میں نے پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت قبول کی، تو مجھ سے بھی یہی سوال پوچھا گیا تھااوریہ سمجھائے  گا کہ میں ایسے سوالوں کا سامنا کیسے کرتا ہوں۔

میں ایک ٹیلی ویژن چینل پر آیا اور مجھ سےملک میں مسلمانوں کی حالت زار کے بارے میں پوچھا گیا۔ میرا سادہ سا جواب تھا؛’آپ ہندوستانی مسلمانوں کی فکر کرنا چھوڑ دیں، انہوں نے 60 سال پہلے ہی طے کر لیا تھاکہ ہندوستان ان کا ملک ہے۔ ہمارا آئین بھی سیکولر ہے اور ہم اس پر عمل کریں گے۔’

کیا پی ایم مودی اپنی عالمی رسائی میں ناکام رہے ہیں؟ انہوں نے مبینہ طور پر 11 سالوں میں 72 ممالک کے 129 دورے کیےہیں، لیکن انہیں کسی بھی عالمی رہنما  سے معمول کے وعظ و نصیحت کے سوا مشکل سے ہی حمایت حاصل ہوئی ہے۔

جان برٹاس: میں حقیقت میں حیران ہوں کہ اسرائیل کی بھرپور حمایت کے علاوہ میں نے کسی دوسرے ملک کی حمایت نہیں دیکھی۔ میں بھی اتنا ہی حیران ہوں کہ امریکہ نے کس طرح  کےرد عمل کااظہار کیا، جس طرح امریکہ نے برتاؤ کیا ہےاور ہمیں نیچا دکھایا ہے۔

ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیم کی طرف سے کی جا رہی بکواس پر ہندوستان کو شروع میں ہی واضح جواب دینے کی ضرورت ہے – جس طرح انہوں نے جنگ بندی کے معاہدے کی تصویر کشی کی، جس طرح سے انہوں نے اس سودے کو انجام دیا، وہ کہتے ہیں؛ یہ باتیں ہمارے خلاف گئی  ہیں۔

میرے خیال میں مودی سرکار کی طرف سے محض انکار کے علاوہ ایگزیکٹو کی طرف سے بھی واضح جواب دیا جانا چاہیے۔ لیکن ایسا بالکل نہیں ہو رہا ہے۔

ٹرمپ کی لین دین کی ڈپلومیسی بھی ہمارے لیے تباہ کن ہے، وہ صرف اپنے ملک کی تجارت میں دلچسپی رکھتے ہیں اور مودی سرکار کے ترکی اور بنگلہ دیش کے ساتھ تجارت کے بائیکاٹ کے باوجود انہوں نے وہاں جا کر ان ممالک کے ساتھ تجارتی سودے کیے۔

میرے خیال میں مودی حکومت کو سب سے بڑا دھچکا پاکستان کو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کا قرض تھا۔ یہ امریکہ کی چال تھی، کیونکہ قرض کی منظوری میں آئی ایم ایف بورڈ پر اس کا غالب اختیار ہے۔

ہندوستان نے مغربی ممالک کے ساتھ سفارت کاری میں جو بے تحاشہ سرمایہ کاری کی ہے، اس کے پیش نظر، ردعمل کم سے کم کہنے کے لیے مایوس کن رہاہے۔

اسد الدین اویسی: یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمیں ایک ایسے ملک سے زوردار حمایت ملی ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے، جو اب بھی نسلی امتیاز پر عمل پیرا ہے، جو کہ اسرائیل ہے؛ اور بعد میں افغانستان کی طالبان حکومت کی طرف سے، جس نے پہلگام قتل عام کی کھل کر مذمت کی ہے۔ یہ صرف دو حکومتیں ہیں جنہوں نے ہندوستان کی حمایت کی ہے۔

تو ہاں، یقینی طور پر امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین  جیسے ہمارے اتحادیوں کے ساتھ ضرور اصلاحات کی ضرورت ہے، جنھیں واضح طور پر اس نسل کشی کی مذمت کرنی چاہیے تھی۔

جہاں تک جنگ بندی اور تجارتی معاہدے پر ٹرمپ کے بیانات کا تعلق ہے تو ہمیں انتظار کرنا پڑے گا اور دیکھنا ہوگا کہ سیاسی قیادت ٹرمپ کی تردید کرےگی یا نہیں۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )