معاملہ درانگ ضلع کےسپاجھار کا ہے،جہاں پولیس نے تجاوزات ہٹانے کی ایک مہم کے دوران گولیاں چلائیں، جس میں دو لوگوں کی موت ہو گئی۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ مقامی لوگوں نے ان پر حملہ کیا تھا، جس کے بعد انہیں طاقت کا استعمال کرنا پڑا۔ ریاستی حکومت نے اس معاملےمیں عدالتی جانچ کے حکم دیے ہیں۔
سامنےآئے ویڈیو میں آسام پولیس مقامی لوگوں پر فائرنگ کرتی نظر آ رہی ہے۔ (بہ شکریہ: اسکرین گریب)
نئی دہلی: آسام کے درانگ ضلع کےسپاجھار میں جمعرات کو پولیس نے تجاوزات ہٹانے کی ایک مہم کے دوران گولیاں چلائیں جس میں دو لوگوں کی موت ہو گئی۔
رپورٹ کےمطابق،اس واقعہ کا ایک حیران کن ویڈیو سامنے آیا ہے، جس میں پولیس اہلکاروں کو اوپن فائرنگ کرتے ہوئےاور ایک شخص کوزدوکوب کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ویڈیو میں سینےپر گولی کےزخم کےنشان والےشخص کو کیمرا کے ساتھ نظر آرہانوجوان بھی پیٹتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی نے اس نوجوان کی پہچان بجئے شنکر بنیا کے طور پر کی ہے، جو مقامی سطح پر فوٹوگرافی کا کام کرتا ہے اورضلع انتظامیہ نے اس صورتحال کو ریکارڈ کرنے کے لیے اس کی خدمات لی تھیں۔ رپورٹس کےمطابق، نوجوان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ویڈیو میں نظرآرہا ہے کہ پیڑوں کے پیچھے سے کئی پولیس اہلکار ان دیکھے نشانوں کی طرف گولیاں چلا رہے ہیں۔
شروعات میں پولیس نے
این ڈی ٹی وی کو بتایا تھا کہ کوئی ہلاک نہیں ہوا ہے،لیکن اب تک دو موتوں کی تصدیق ہوئی ہے اور 20 لوگوں کےزخمی ہونے کی خبر ہے۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب پولیس ریاستی حکومت کے ایک زرعی منصوبے کے لیےحاصل کی گئی زمین سے مبینہ ‘غیرقانونی تجاوزات’کو ہٹا رہی تھی۔دی وائر نے اس ویڈیو کو دیکھا ہے،جس میں پولیس نے ایک شخص کو گولی ماری اور اس کو زدوکون کیا، لیکن اس کی حساس نوعیت کی وجہ سے شیئر نہیں کیا جا رہا ہے۔
اس ویڈیو میں بجئے شنکر بنیا کو ایک شخص جوممکنہ طور پر مرچکا ہے،کےاوپرچھلانگ لگاتے ہوئےدیکھا جا سکتا ہے۔ ایک پولیس اہلکار اس کو ہٹاتا ہے لیکن وہ پھر سےزمین پر پڑے اس شخص کو مارنے پہنچ جاتا ہے۔
پی ٹی آئی کے مطابق، بجئے کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔اس بیچ ریاستی حکومت نے عوام کے غصے کو دیکھتے ہوئے عدالتی جانچ کا اعلان کیا ہے۔
محکمہ داخلہ اور پالیٹیکل ڈپارٹمنٹ کےسکریٹری دیب پرساد مشرا کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سرکار نے فیصلہ کیا ہے کہ اس معاملے کی جانچ گوہاٹی ہائی کورٹ کے ایک سبکدوش جج کے ذریعے کی جائےگی۔
اسکرول ڈاٹ ان کے مطابق، انتظامیہ کی جانب سے کراکوٹا چار کے لوگوں کو بدھ کی دیر رات تجاوزات ہٹانے کے بارے میں مطلع کیا گیا تھا۔ اگلی صبح ایک احتجاج ہوا جس کے بعد انتظامیہ نے مبینہ طور پر ‘وعدہ کیا کہ تجاوزات ہٹانے سے پہلےان کی بازآبادی کا انتظام کیا جائےگا۔’
ایک مقامی شخص نے اس ویب سائٹ کو بتایا کہ اس کے بعد جب سماجی کارکن علاقے سے نکلے، پولیس نے مظاہرین پر گولیاں برسانا شروع کر دی۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق، پولیس نے کہا ہے کہ مقامی لوگوں نے ان پر پتھروں سے حملہ کیا، جس کی وجہ سے انہیں طاقت کا استعمال کرنا پڑا۔
درانگ کےایس پی اور وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما کے چھوٹے بھائی سشانت بسوا شرما نے دعویٰ کیا کہ مظاہرین نے دھاردار ہتھیاروں سے پولیس اہلکاروں اوردوسرے لوگوں پر حملہ کرکے پتھراؤ بھی کیا۔
انہوں نے بتایا،‘ہمارے نو پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ دو اور لوگ زخمی ہیں۔ انہیں اسپتال بھیجا گیا ہے۔ اب سب نارمل ہے۔’
سشانت بسوا شرما اس مہم کے دوران موجود تھے اور انہوں نے بتایا کہ یہ پورا نہیں ہو سکا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں پولیس فائرنگ کے بارے میں پتہ نہیں چلا، ‘علاقہ بڑا ہے۔ میں دوسری طرف تھا۔ ہم اس بارے میں پتہ لگائیں گے۔’
ہندوستان ٹائمس کے مطابق، وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے کہا کہ انہیں جانکاری ملی ہے کہ ‘مقامی لوگوں نے پولیس پر حملہ کیا تھا۔’
اخبار کے مطابق،انہوں نے گوہاٹی میں ایک صحافی سے کہا کہ تشدد کے بعد مہم دوبارہ شروع ہو گئی تھی،اور جمعہ کو بھی جاری رہےگی۔
جمعرات کو چلی یہ مہم پچھلے تین مہینے میں دھال پور میں تجاوزات ہٹانے کی تیسری مہم تھی۔ یہاں زیادہ تر مشرقی بنگالی نژاد کےمسلمان رہتے ہیں۔ اس سے پہلے سوموار کو آسام سرکار نے یہاں سے 800 خاندانوں کو بےدخل کرتے ہوئے ‘آٹھ ہزار بیگھہ’ زمین کو واپس لینے کا
دعویٰ کیا تھا۔
پہلی مہم کے فوراًبعد جون کے دوسرے ہفتے میں شرما کی کابینہ نے ہزاریکا کےصدر کی حیثیت سے ایک کمیٹی کی تشکیل کو منظوری دی تھی، جس کا کام ‘درانگ میں سپاجھار کے گورکھٹی میں تجاوزات سے خالی کرائی گئی77 ہزار بیگھہ سرکاری زمین کازرعی مقاصدکے لیے استعمال کرنا ہے۔’
جمعرات کو ہوئی پولیس فائرنگ پرملک بھر سےشدید ردعمل کا اظہار کیا جارہاے۔ لگ بھگ 800خاندانوں کی بازآبادی کےمطالبے کو لےکرعوام کا احتجاج شروع ہو گیا تھا، ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ جس زمین پر وہ دہائیوں سے رہ رہے تھے اس سے انہیں بےدخل کر دیا گیا ہے۔
کانگریس کے سابق صدر اورایم پی راہل گاندھی نے الزام لگایا کہ ریاست اس وقت‘اسٹیٹ اسپانسرڈ آگ’کی گرفت میں ہے۔
کانگریس رہنما نے ٹوئٹ کیا،‘آسام میں سرکار کی طرف سےاسپانسرڈ آگ لگی ہوئی ہے۔ میں صوبے کے اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔ ہندوستان کا کوئی بچہ اس کا حقدار نہیں ہے۔’
ریاست کے کانگریس رہنماؤں نے بھی مہاماری کے دوران تجاوزات کوہٹانے کی اس مہم کو غیرانسانی اور سپریم کورٹ کےاحکامات کی خلاف ورزی بتایا ہے۔
کانگریس ریاستی صدربھوپین کمار بورا نے ہندوستان ٹائمس سے کہا کہ آسام سرکار ‘1970کی دہائی سے اس علاقے میں رہنے والے دھال پور کےلوگوں کو بےدخل کرنے کے لیے ایک آمرانہ رویہ اپنا رہی ہے۔’
انہوں نےمزید کہا،‘بےدخلی سے پہلے سرکار کو بازآبادی اور متبادل انتظام کرنا چاہیے تھا…یہ لوگ زیادہ تر کسان ہیں اور ان کے ذریعہ معاش پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ سرکار کا کام لوگوں کی بھلائی کرنا ہے نہ کہ لوگوں کو بےگھر کرکے ان کے لیے مشکلیں پیدا کرنا۔ کانگریس بی جے پی حکومت کو وارننگ دیتی ہے کہ وہ ایسے کاموں میں شامل نہ ہو جو آسام کو پولیس اسٹیٹ میں بدل دے۔’
اس معاملے کو لےکر کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا نے فیس بک پوسٹ میں بی جے پی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا،‘گاندھی جی کے راستےپر چلنے والے ملک کو بی جے پی تشدداور نفرت کی آگ میں جھونک دینا چاہتی ہے۔تشدد اور نفرت ہی اس کےقول وفعل ہیں۔ آسام کے اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔’
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)