آسام کے وزیر خزانہ ہمنتا بسوا شرما نے سنیچر کو جاری این آر سی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہ سپریم کورٹ کو سرحدی اضلاع میں کم سے کم 20 فیصد اور بقیہ آسام میں 10 فیصد ری ویر ی فکیشن کی اجازت دینی چاہیے۔وہیں بی جے پی ایم ایل اے شیلادتیہ دیو نے کہا کہ این آر سی ‘ہندوؤں کو باہر کرنے اور مسلمانوں کی مدد کرنے’ کی سازش ہے۔
ہمنتا بسوا شرما ، فوٹو : فیس بک
نئی دہلی : آسام کے وزیر خزانہ ہمنتا بسوا شرما نے سنیچر کو جاری این آر سی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہ اس میں کئی ایسے لوگوں کے نام شامل نہیں ہیں جو 1971 سے پہلے بنگلہ دیش سے ہندوستان آئے تھے ۔ شرما نے ٹوئٹ کیا،’ این آر سی میں کئی ایسے ہندوستانی شہریوں کے نام شامل نہیں کیے گئے ہیں جو 1971 سے پہلے پناہ گزینوں کے طور پر بنگلہ دیش سے آئے تھے کیوں کہ اتھارٹی نے ان کے دستاویز قبول کرنے سے انکار کردیے ۔ الزام ہے کہ کئی نام اس جڑے ہیں کیوں انہوں نے legacy data سے چھیڑ چھاڑ کی ہے۔’
انہوں نے کہا کہ ریاستی اور مرکزی حکومتوں کی پہلی گزارش کے مطابق سپریم کورٹ کو سرحدی اضلاع میں کم سے کم 20 فیصد اور بقیہ آسام میں 10 فیصد ری ویر ی فکیشن کی اجازت دینی چاہیے۔انہوں نے ٹوئٹ کیا ، ‘میں دوہراتا ہوں کہ مرکز اور ریاستی حکومتوں کی گزارش پر سپریم کورٹ کو صحیح اور غیر جانبدارانہ این آر سی کے لیے (سرحدی اضلاع میں) کم سےکم 20 فیصد اور (بقیہ ریاست میں) 10 فیصد ری ویری فکیشن کی اجازت دینی چاہیے۔
واضح ہوکہ دونوں حکومتوں نےخاص طور سے بنگلہ دیش کی سرحد سے لگے اضلاع میں این آر سی میں غلط طریقے سے شامل نام اور باہر کیے گئے نام کا پتہ لگانے کے نمونوں کو نئے سرے سے تصدیق کیے جانے کو لے کر عدالت سے دو بار اپیل کی تھی ۔غور طلب ہے کہ آسام کی آخری این آر سی سنیچر کو صبح 10 بجے شائع کر دی گئی۔ 3.3 کروڑ درخواست گزاروں میں سے 19 لاکھ سے زیادہ لوگ آخری فہرست سے باہر کر دئے گئے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ شرما اکیلے رہنما نہیں ہیں جو این آر سی سے خوش نہیں ہیں ۔ بی جے پی ایم ایل اے شیلادتیہ دیو نے کہا کہ این آر سی ‘ہندوؤں کو باہر کرنے اور مسلمانوں کی مدد کرنے’ کی سازش ہے۔کانگریسی رہنماؤں نے بھی این آرسی کو لے کر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ ساتھ ہی گن پریشد، آل آسام اسٹوڈنٹ یونین اور این آر سی اپڈیٹ کو لے کر سپریم کورٹ جانے والی تنظیم آسام پبلک ورکس نے بھی کہا ہے کہ اس فہرست سے خوش نہیں ہیں ۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)