چالیس سال بعد سوال اب یہ نہیں ہےکہ نیلی میں کیا ہوا؟ بلکہ یہ ہے کہ ہندوستان اب اس کھلے سچ کے ساتھ کیا کرے گا؟ اگر نیلی کے قاتل سزا پاتے، تو 1984 کا سکھ مخالف قتل عام شاید نہ ہوتا۔ اور اگر سکھوں کے قاتلوں کو فوری سزا ملتی، تو 2002 کے گجرات کے مسلم کش فسادات شاید نہ ہوتے۔ یہ صرف تاریخ نہیں، بلکہ سبق ہے۔
آسام تحریک میں ایک ریلی۔ تصویر: وکی پیڈیا/CC BY-SA 4.0
سال 1983 کا موسم گرما تھا۔ جموں و کشمیر میں ا سمبلی انتخابات کا بگل بج چکا تھا۔ میں اپنے آبائی قصبہ سوپور میں اسکول سے گھر کی طرف لوٹ رہا تھا کہ قصبہ کے مرکز یعنی مین چوک کے نزدیک اقبال پارک میں ایک جلسے سے ایک حضر ت کوخطاب کرتے ہوئے دیکھا۔
ویسے تو سوپور کے باسیو ں کو جوشیلی تقریریں سننے کی عادت ہی تھی، مگر یہ مقرر کچھ مختلف نظر آرہا تھا۔ یہ ایک نوجوان وکیل، مظفر حسین بیگ تھے۔
گو کہ بعد میں دو دہائی بعد وہ نائب وزیر اعلیٰ بھی رہے مگر تب تک وہ معروف سیاسی چہرہ نہیں تھے۔ وہ وکیلوں کے انداز میں دلائل دیتے ہوئے ایک رسالے کے مرکزی صفحات لہرا کر سامعین کو دکھا رہے تھے۔
اس میں آسام کے دھان کے کھیتوں میں بکھری لاشوں کی تصویریں چھپی تھیں۔ رسالے شاید ہفتہ روزہ سنڈے اور انڈیا ٹوڈے تھے۔
معصوم بچوں کی لاشیں، جن کی قمیضوں کے بٹن ابھی تک لگے تھے، خواتین کی تصاویر، جن کے مردہ برہنہ اجسام پر چاول کے پودے پردہ کیے ہوئے تھے۔
یہ آسام کا نیلی کا قتل عام تھا، جس کو ابھی صرف تین ماہ ہوئے تھے۔ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے یہ بطور استعارہ کشمیر کے ان انتخابا ت کا مرکزی موضوع بننے والا تھا۔
پہلے مجمع پر خاموشی چھا گئی، پھر ایک انجانی گھبراہٹ کے ساتھ بے چین ہونے لگا، جیسے کسی نے ذہن کے اندر ایک دراڑ ڈال دی ہو۔بیگ کا یہ سوال پہلے سوپور تک تھا، پھر وادی بھر کی آواز بن گیا۔
جماعت اسلامی کے رہنما سید علی شاہ گیلانی نے نیلی کی ان تصویروں کو فوراً سیاسی علامت بنا لیا۔ ایک ایسا نعرہ ابھرا جو جلسوں کی زمین ہلا دیتا تھا۔
کشمیری میں’یَینا یَتے بَناونی آسام؟’ (کہیں یہاں آسام نہ بن جائے) ایک انتخابی نعرہ بن گیا۔ چند ہی ہفتوں میں اس نعرہ کو نیشنل کانفرنس نے بھی اپنا لیا۔
وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے اس نعرے کو براہ راست وزیر اعظم اندرا گاندھی کی طرف موڑا اور کانگریس کے خلاف ایک ہتھیار بنا لیا۔ انہوں نے اندرا گاندھی پر الزام لگایا کہ ان کو مسلمانوں کی زندگی سے کوئی دلچسپی نہیں، چاہے وہ برہم پتر کے میدان ہوں یا کشمیر کی وادیاں۔ یوں نیلی کشمیر میں بطور خبر نہیں، بلکہ انتخابی ہتھیار کے استعارے کے بطور داخل ہوا۔
حال ہی میں جب آسام حکومت نے 1983 کے قتل عام سے متعلق
دو تحقیقی رپورٹوں کو اسمبلی کے سامنے پیش کیا، تو چالیس سال قبل کے واقعات جیسے ایک فلم کی طرح میری نظروں کے سامنے سے گزررہے تھے۔
اسمبلی میں پیش کی گئی ایک رپورٹ ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر ٹی پی تیواری نے مئی 1984 میں تیار کی تھی۔اس کے زرد صفحات، کناروں سے بھربھرے، نرم کاغذ پر ٹائپ شدہ، متن آج بھی زخموں کی طرح چبھ رہا ہے۔اس کے صفحہ 312 میں بتایا گیا ہے کہ 18 فروری 1983 کی صبح سے دوپہر تک صرف چار گھنٹوں میں ہی 2,072 افراد قتل ہوئے۔
یہ سبھی بنگالی بولنے والے مسلمان تھے۔ لیکن بچ جانے والوں نے ہمیشہ کہا کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔
رپورٹ کے مطابق نوگاوں ضلع کے 14 مقامات متاثر ہوئے تھے۔ ان میں الیسنگا، کھولا پتھر، بسندھری، بگڈوبا بیل، بگڈوبا ہابی، بور جولا، بٹونی، دونگابوری، انڈرماری، مٹی پربت، مولادھاری، سل بھیٹا، بربوری اور خود نیلی شامل تھے۔
کئی برسوں بعد جب میں صحافت کے میدان میں آیا اور کئی بار آسام کا دورہ کرنا پڑا، تو مقامی افراد نے مجھے بتایا کہ مہلوکین کی تعداد دس ہزارسے اوپر تھی۔
کئی ہزار افراد لاپتہ ہو گئے تھے۔ زندہ بچے لوگوں نے بتایا 18 فروری 1983 کی صبح، نیلی میں زندگی عام دنوں کی طرح رواں تھی۔ دھان کے کھیتوں میں مویشی چر رہے تھے، گھروں میں چولہے سلگ رہے تھے، بچے مرغیاں دوڑا رہے تھے۔ چند گھنٹوں بعد یہی کھیت لاشوں سے بھرے پڑے تھے۔ مائیں بچوں کو پشت پر باندھ کر بھاگ رہی تھیں۔ گاؤں کے گاؤں جلائے گئے۔
رپورٹ اسی کی تصدیق کرتی ہے کہ حملہ آور کئی سمتوں سے داؤں، نیزوں، بندوقوں اور آتش گیر مادوں سے لیس ہو کر آئے۔ فرار کے راستے بند کر دیے گئے تھے اور یہ حملہ پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا تھا۔ الیسنگا کی ایک بوڑھی عورت نے کہا؛
پہلے سیٹیوں کی آواز آئی،پھر دریا کی طرف سے ٹارچ کی جھلک نمودار ہوئی اور پھر وہ آ گئے۔
اس دن نیلی کی سانسیں رک گئیں۔طلوع آفتاب سے کچھ پہلے، جب دھان کے کھیتوں پر ابھی کہر بکھری تھی، منظم گروہوں نے مسلمان آبادیوں کو گھیر لیا۔کچھ دریا کی طرف سے آئے، کچھ برہمپور روڈ سے، کچھ کیلے کے جھاڑی دار قطاروں کے اندر سے، کچھ پشتوں کے ساتھ ساتھ۔
رپورٹ میں درج ہے کہ حملہ آوروں کے درمیان سیٹیوں کے ذریعے اشاروں کا نظام تھا۔ کب بڑھنا ہے، کب رکنا ہے۔
رپورٹ کے صفحہ 157 میں بتایا گیا ہے کہ کئی گھروں پر پہلے ہی نشانات لگا دیے گئے تھے۔ عورتیں گھسیٹ کر باہر نکالی گئیں۔ شیر خوار بچوں کو کاٹ دیا گیا۔ جھونپڑیوں کو اندر سے بند کر کے آگ لگا دی گئی۔
رپورٹ میں شامل بیانات بتاتے ہیں کہ حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کیے گئے، بھاگتے ہوئے بچوں کو دھان کے کھیتوں میں گولیوں سے بھون ڈالا گیا، اور کئی نوزائیدہ بچوں کو تالابوں میں پھینک دیا گیا۔
کئی دیہاتوں میں دس برس سے زیادہ عمر کا کوئی بچہ زندہ نہیں بچا۔ لاشیں ایسے بچھی تھیں جیسے کٹائی کے بعد کھلیان میں پڑا اناج ہو۔ دریا کا پانی سرخ ہو گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق پولیس کی تعیناتی ناکافی تھی، حالانکہ پہلے سے خفیہ رپورٹیں موجود تھیں کہ حالات بگڑ سکتے ہیں۔جب پولیس نیلی پہنچی تو گاؤں راکھ ہو چکے تھے۔
لاشیں دریاکے کناروں پر ڈھیر تھیں اور جو بچے تھے، وہ سہمے ہوئے تھے۔بچنے والے زیادہ تر نوعمر بچے تھے جنہیں خود بھی کچھ سمجھ نہ تھی کہ انہوں نے کیا دیکھا۔
سرکاری قافلے لاشیں ٹریکٹروں پر، بانس کی چارپائیوں پر ڈھوتے رہے۔ زندہ اور لاپتہ افراد کی فہرستیں مرتب ہوئیں۔ امداد کے اعلان ہوئے۔ ریلیف کیمپ قائم ہوئے۔
تیواری کمیشن نے براہ راست سیاسی عہدیداروں پر انگلی نہیں اٹھائی، مگر ابہام کی کوئی جگہ بھی نہیں چھوڑی۔ رپورٹ کے مطابق آسام اسٹوڈنٹس یونین (اے اے ایس یو)اور آسام گنا پریشد(اے اے جی پی) کی ایجی ٹیشن اور انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل سے یہ قتل عام پیش آیا۔
ریاست نے 688 ایف آئی آر درج کیں۔ سینکڑوں نام شامل ہوئے۔ 2,091 گواہوں نے بیان دیا، جن میں وہ خواتین بھی تھیں جن کے خاندان کا ایک بھی فرد زندہ نہیں بچا تھا۔ لیکن ایک شخص بھی سزا نہیں پایا۔1985 میں وزیر اعظم راجیو گاندھی اور آسام گنا پریشد کے درمیان طے پائے گئے آسام معاہدے کے بعد، تقریباً تمام مقدمے ‘امن مفاہمت’کے نام پر خاموشی سے واپس لے لیے گئے۔
رپورٹ میں صاف لکھا ہے کہ سیاسی ضرورت کے تحت مقدمات کی واپسی نے قانونی انصاف کا امکان ختم کر دیا۔کوئی عدالتی رپورٹ سامنے نہ آئی۔ کوئی سزا نہ ہوئی۔ سینکڑوں ایف آئی آر درج ہوئیں مگر کوئی مقدمہ آخری مرحلے تک نہ پہنچا۔ آسام ایکارڈ کے بعد تقریباً تمام کیس واپس لے لیے گئے اور ملزم آزاد گھومتے رہے۔
قومی سطح پر مذمت ہوئی مگر حکومت اور دہلی میں کوئی عدالتی کمیشن قائم نہ ہوا۔ ایک بیوروکریٹ پر تحقیق کی ذمہ داری چھوڑ دی گئی، جس کی رپورٹ عوام تک اب چالیس سال بعد پہنچی ہے۔ ساتھ ہی ایک غیر سرکاری تحقیقاتی کمیشن آسام راجیک فریڈم فائیٹرز ایسو سی ایشن نے قائم کیا، جس کی سربراہی جسٹس ٹی یو مہتا، سابق چیف جسٹس ہماچل پردیش ہائی کورٹ نے کی۔
اس کمیشن میں ان کے ساتھ جی سی پھوکان،ریٹائرڈ آئی اے ایس اور پروفیسر ریحان شاہ شامل تھے۔مہتا کمیشن نے آتش زدہ گاؤں دیکھے، اجتماعی قبروں کے نشانات دیکھے، ریلیف کیمپوں کی فہرستیں جمع کیں، 600 سے زائد زبانی گواہیاں قلمبند کیں اور چھ ہزار سے زائد میمورنڈم حاصل کیے۔
گاؤں کے لوگوں نے کمیشن کو بتایا کہ آسامیہ اور بنگالی بولنے والے برسوں ساتھ رہے۔ کھیتی باڑی مشترک، تہوار جدا مگر احترام باہم۔ نہ دشمنی نہ نفرت۔دراڑ تب پڑھی جب 1983 کے انتخابات کا اعلان ہوا۔
اس وقت جب آسام میں غیر آسامیوں کے خلاف تحریک زوروں پر تھی اور بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا تھا، تو حکومت نے بنگالی آبادی کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دی۔ یہ بارود کو چنگاری دکھانے کے مترادف تھا۔ حکومت نے ان کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب تو دی، مگر ان کی حفاظت کا کوئی بندوبست نہیں کیا۔
رپورٹ 13 اور 15 فروری 1983 کے دو حملوں کا اندراج کرتی ہے جن میں مسلمان اور آسامیہ بستیوں میں گھروں کو آگ لگی، مال مویشی لوٹے گئے، خوف سے عورتیں اور بچے میکر بھٹا منتقل کیے گئے۔
مگر پولیس کی نفری نہ بڑھی، نہ سرکار نے خطرہ محسوس کیا۔مہتا کمیشن کے مطابق صبح سویرے مسلح جتھوں نے مسلمان اکثریتی گاؤں گھیر لیے۔حملہ آور نیزوں، داؤں، بندوقوں، کیروسین اور بانس کے تیز ڈنڈوں سے لیس تھے۔ پہلے گھروں میں آگ لگائی گئی تاکہ عورتیں اور بچے باہر آئیں، پھر انہیں راستوں ہی میں کاٹ ڈالا گیا۔ بھاگنے والے تالابوں اور دھان کے پانی بھرے کھیتوں میں گرتے۔
کئی بچوں کو اونچے بانسوں پر اچھال کر پھینک دیا گیا۔کمیشن ایک جگہ پہنچا جہاں 585 افراد کی اجتماعی قبر کی نشاندہی ہوئی۔ کپڑوں، چوڑیوں، دانتوں سے شناخت ہوئی۔ مگر کئی نام ہمیشہ کے لیے گم ہو گئے۔
گواہوں میں ایک نام ریحانہ خاتون کا ہے۔ قتلِ عام کے وقت اس کی عمر صرف تیرہ برس تھی۔ اُس نے بتایا کہ وہ گھنٹوں تک دھان کے پانی بھرے کھیت میں مردہ جسموں کے درمیان پڑی رہی۔ جب وہ نکلی تو اپنی ماں کو پاس میں مردہ پایا، ایک بازو کٹا ہوا، اور اپنے بھائی کہیں دکھائی نہ دیے۔ ریحانہ نے کبھی شادی نہیں کی۔ایک اور گواہی عبدالغفور کی ہے، جس نے اپنی بیوی، والد اور تین بیٹیوں کو کھو دیا۔ اُس نے کہا؛
پہلے آگ لگی، پھر چیخیں، پھر صرف خاموشی باقی رہ گئی۔
وہ آج بھی اسی جگہ بانس کی جھونپڑی میں رہتا ہے جہاں کبھی اس کا گھر تھا۔
مہتا رپورٹ میں آسامیہ گواہوں کے بیانات بھی شامل ہیں۔ گواہ 254، جوگیسور ناتھ نے کہا کہ اس نے پورے محلے جلتے دیکھے۔ نہ اسکول بچا، نہ مسجد۔ انتقام نے انسانیت کا چہرہ پہچاننا چھوڑ دیا تھا۔ قتل، مذہب یا قومیت کے نام پر نہیں۔ ایک اجتماعی جنون کے طور پر ہوا۔
کئی ملزمان وہیں رہتے رہے۔ کچھ نے الیکشن بھی لڑے۔ ٹی پی تیواری رپورٹ اور مہتا کمیشن، دونوں ایک ہی نتیجے پر پہنچے کہ 1983 کا انتخاب کسی سیاسی عمل کے بغیر ایسی فضا میں نہیں ہونا چاہیے تھا۔انتباہ کو نظر انداز کیا گیا۔ انتخابی عمل نے فسادات کو بھڑکایا۔
چالیس برس بعد، نیلی اب بے نام نہیں۔دونوں کمیشنوں کی رپورٹ اب عوام کے سامنے ہیں۔گواہیاں محفوظ ہیں۔لیکن انصاف اب بھی غائب ہے۔زندہ بچ جانے والوں نے صرف اپنے عزیز نہیں کھوئے، انہیں خاموشی کا بوجھ بھی دیا گیا۔مقدمات واپس ہو گئے،فائلیں غائب ہوئیں۔ثبوت موجود ہے، جرم موجود ہے، مگر انصاف غائب ہے۔
جب بیگ نے سوپور میں نیلی کی تصویریں لہرا کر دکھائیں اور جب فاروق عبداللہ نے اسے کانگریس کے خلاف ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، تو نیلی خبر نہیں رہی تھی۔
وہ وادی کے لیے وارننگ بن چکی تھی۔ ایک آئینہ، جس میں کشمیر نے اپنا ممکنہ مستقبل دیکھا۔آسام کوئی دور دراز سرزمین نہیں تھی۔ وہ ایک امکان تھی۔ ایک اندیشہ، جو کل کو حقیقت بن سکتا تھا۔
نیلی کے قتل عام کی پردہ پوشی اور نیشنل کانفرنس سے دو ہاتھ کرنے کے لیے 1983 کے اسمبلی انتخابات میں اندرا گاندھی نے جموں خطے میں بھرپور انتخابی مہم چلائی اور بار بار یہ تاثر دیا کہ ‘مسلمانوں کی آمد’ آبادی کا تناسب بدل سکتی ہے۔
انہوں نے نیشنل کانفرنس کے منظور کردہ ری سیٹلمنٹ بل کو مثال بنا کر پیش کیا، جس کے مطابق 1954 سے پہلے پاکستان منتقل ہونے والے لوگ واپس آکر اپنی جائیداد کا حق لے سکتے تھے۔یہ حکمتِ عملی کامیاب رہی۔
کانگریس نے ہندو اکثریتی حلقوں میں بڑا فائدہ اٹھایا اور 26 نشستیں جیتیں، جبکہ نیشنل کانفرنس 46 نشستوں کے ساتھ مسلم اکثریتی علاقوں میں غالب رہی۔ 1983 کا انتخاب یوں آنے والی دہائیوں کے لیے کشمیر اور جموں کے لیے سیاسی صف بندی کا سانچہ بن گیا۔
نیلی نے انتخابی مہم بدلی۔ یادداشتیں بدلی۔ بے اعتباری کی چھاپ چھوڑ دی۔چالیس سال بعد سوال اب یہ نہیں کہ نیلی میں کیا ہوا؟بلکہ یہ کہ ہندوستان اب اس کھلے سچ کے ساتھ کیا کرےگا؟
اگر نیلی کے قاتل سزا پاتے، تو 1984 کا سکھ مخالف قتل عام شاید نہ ہوتا۔ اور اگر سکھوں کے قاتلوں کو فوری سزا ملتی، تو 2002 کے گجرات کے مسلم کش فسادات شاید نہ ہوتے۔ یہ صرف تاریخ نہیں، بلکہ سبق ہے۔