وزیر داخلہ امت شاہ نے 20 نومبر کو راجیہ سبھا میں اعلان کیا تھا کہ آسام میں این آر سی اپڈیٹ کرنے کی کارروائی ہندوستان کے باقی حصے کے ساتھ نئے سرے سے چلائی جائےگی، جس کے بعد آسام حکومت میں وزیر خزانہ ہمنتا بسوا شرما نے بتایا تھا کہ ریاستی حکومت نے مرکزی وزیر داخلہ سے این آر سی کی موجود ہ صورت کو خارج کرنے کی اپیل کی ہے۔
ہمنتا بسواشرما(فوٹو بشکریہ :فیس بک)
نئی دہلی: آسام حکومت میں وزیر خزانہ ہمنتا بسوا شرما کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومت نے این آر سی کی حتمی فہرست سے باہر ہوئے ہندو بنگالیوں کی ضلع وار تعداد اسمبلی کےموجودہ سیشن میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ہمنتا نے کہا کہ ہندوستان کے کنٹرولر اور آڈیٹر جنرل (سی اے جی) نے ریاست میں تین سال پہلے این آر سی کو اپ ڈیٹ کرنے کے عمل میں سخت بے ضابطگی پائی ہے۔انہوں نے اسمبلی احاطے میں نامہ نگاروں سے کہا، ‘ہم ان ہندو بنگالی افراد کے اعداد و شمار اسمبلی کے موجودہ سیشن کے دوران پیش کریںگے، جو این آر سی سے باہر کئے جانے کے بعد مختلف اضلاع میں درخواست دے رہے ہیں۔ این آر سی کی فہرست تیار نہیں ہونے کی وجہ سے ہم پہلے یہ اعداد و شمار پیش نہیں کر سکے تھے لیکن اب ہمارے پاس ضلع وار اعداد وشمار ہے۔’
واضح ہو کہ مختلف طبقوں کی طرف سے یہ الزام لگایا گیا ہے کہ 31 اگست کو شائع این آر سی کی حتمی فہرست میں بڑی تعداد میں ہندوؤں کو باہر کر دیا گیا ہے اور اس میں 19 لاکھ سے زیادہ درخواست گزار کو چھوڑ دئے گئے ہیں۔ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے 20 نومبر کو راجیہ سبھا میں اعلان کیا تھا کہ آسام میں این آر سی اپڈیٹ کرنے کاعمل ہندوستان کے باقی حصے کے ساتھ نئے سرے سے چلایا جائےگا۔
اسی دن ہمنتا نےکہا تھا کہ ریاستی حکومت نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ سے این آر سی کو اس کی موجودہ شکل میں خارج کرنے کی اپیل کی ہے۔ ہمنتا نے کہا کہ آسام کے لوگوں نے نہیں بلکہ صرف اے آئی یو ڈی ایف اور کانگریس ایم ایل اے کے ایک طبقے نے مانگ کی ہے کہ این آر سی کوردنہیں کیا جانا چاہیے۔
سپریم کورٹ کی نگرانی والی این آر سی فہرست اپڈیٹ کرنے کی کارروائی کا مقصد غیر قانونی مہاجروں کی پہچان کرنا تھا جس میں زیادہ تر مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش)سے ہیں۔ یہ عمل آسام میں شروع کیا گیا، جہاں پڑوسی ملک سے 20ویں صدی کی شروعات سے ہی لوگوں کا داخلہ ہو رہاہے۔ ہمنتا نے کہا کہ ملک گیر این آر سی کی ایک مشترکہ آخری تاریخ ہونی چاہیے، نہیں تو لوگ ایک ریاست میں خارج ہونے کے بعد دوسری ریاست سے ہندوستانی شہریت حاصل کرنے کی کوشش کریںگے۔
بی جے پی رہنمانے کہا، ‘نئے این آر سی میں 1971 آخری سال ہو سکتا ہے یا اس میں پوری طرح سے ایک نئی آخری تاریخ ہو سکتی ہے لیکن پورے ہندوستان کے لئے جو بھی وقت کی آخری تاریخ ہووہ آسام پر بھی نافذ ہونی چاہیے۔ ہمیں 1971 سے پہلے کسی بھی سال سے کوئی اعتراض نہیں ہے۔’واضح ہوکہ اسمبلی کے سرمائی اجلاس کے پہلے دن کانگریس اور اے آئی یو ڈی ایف کے ممبروں نےریاستی حکومت کے این آر سی خارج کرنے کے قدم اور متنازعہ شہریت ترمیم بل کے خلاف مظاہرہ کیا۔
غور طلب ہے کہ ریاستی اسمبلی کا سرمائی اجلاس جمعرات کو شروع ہوا اور یہ چھے دسمبر کو ختم ہوگا۔ ہمنتا نے کہا کہ سی اے جی نے تقریباً تین سال پہلے این آر سی دفتر اور اس کی سرگرمیوں کا جائزہ لیاتھا اور ریاستی حکومت کو سخت بدانتظامی اور بے ضابطگیوں کے بارے میں مطلع کیاتھا۔انہوں نے کہا کہ لوگوں کے درمیان غلط فہمی سے بچنے کے لئے وزیراعلیٰ نے اس وقت فیصلہ کیا تھا کہ این آر سی کی کارروائی پوری ہونے تک رپورٹ پر کوئی کارروائی نہیں کریںگے۔ انہوں نے این آرسی کو اپ ڈیٹ کرنے کی اس قواعد میں مبینہ بدانتظامی کی رقم کا انکشاف نہیں کیا۔
قابل ذکر ہے کہ این آر سی کی حتمی فہرست 31 اگست کو جاری کی گئی تھی۔ اس وقت ریاست میں این آر سی کے کنوینر پرتیک ہجیلا تھے۔اس بیچ ایک غیرسرکاری ادارہ (این جی او)آسام پبلک ورکس (اے پی ڈبلیو)نے آسام میں این آر سی کےسابق کنوینر پرتیک ہجیلا پر این آر سی اپ ڈیٹ کرنے کے عمل میں بڑی سطح پر سرکاری رقم کے غبن کرنے کا الزام لگاتے ہوئے سی بی آئی کا اینٹی کرپشن برانچ میں
ایف آئی آر درج کرائی ہے۔
ہجیلا پر ریاست میں این آر سی کی فہرست اپڈیٹ کرنے میں بڑی سطح پر سرکاری رقم کے غبن کا الزام لگایا ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)