آسام: سپریم کورٹ نے ’بلڈوزر کارروائی‘ پر ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کیا

سپریم کورٹ کی جانب سے بلڈوزر کارروائی پر عبوری روک لگائے جانے کے باوجود آسام میں 47 لوگوں کے گھروں پرسرکار کی ہدایت پر بلڈوزر چلائے گئے، جس کے بعد ان لوگوں نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے اس کارروائی کو آرٹیکل 14، 15 اور 21 کے تحت بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کہا ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے بلڈوزر کارروائی پر عبوری روک لگائے جانے کے باوجود آسام میں 47 لوگوں کے گھروں پرسرکار کی ہدایت پر بلڈوزر چلائے گئے، جس کے بعد ان لوگوں نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے اس کارروائی کو آرٹیکل 14، 15 اور 21 کے تحت بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کہا ہے۔

فوٹو: دی وائر

فوٹو: دی وائر

نئی دہلی: ملک کی سپریم کورٹ نے ‘بلڈوزرکارروائی ‘ معاملے میں آسام حکومت کو توہین عدالت  کا نوٹس جاری کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں آسام حکومت سے تین ہفتوں کے اندر جواب طلب کیا ہے اور اگلی سماعت تک صورتحال کوبرقرار رکھنے کا حکم دیا ہے۔

این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق، سپریم کورٹ کی جانب سے عبوری روک لگائے جانے  کے باوجود آسام کے 47 رہائشیوں کے گھروں پر سرکار کی ہدایت پر بلڈوزر چلا دیے گئے، جس کے بعد ان لوگوں نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر تے ہوئے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔

جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس کے وی وشوناتھن کی بنچ نے کیس کی سماعت کی، جس میں عرضی گزاروں نے بلڈوزر کی کارروائی کو آئین کے آرٹیکل 14، 15 اور 21 کے تحت بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔

کیا ہے پورامعاملہ؟

دراصل، 17 ستمبر کو سپریم کورٹ نے ملک بھر میں بلڈوزر کی کارروائی کے خلاف عبوری حکم جاری کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ عدالت کی اجازت کے بغیر کوئی بھی انہدامی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ تاہم، سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ اس کا اطلاق ایسے معاملات میں نہیں ہوگا جہاں سڑکوں، فٹ پاتھوں، ریلوے ٹریکس اور آبی ذخائر پر غیر قانونی تجاوزات کیا گیا ہو۔

اب درخواست گزاروں کا دعویٰ ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود حکام نے ان کے مکانات گرائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آسام کے ایڈوکیٹ جنرل نے 20 ستمبر کو گوہاٹی ہائی کورٹ کو یقین دلایا تھا کہ ان کی درخواستوں کو نمٹانے تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی، اس کے باوجود ان کے گھروں کو توڑ دیا گیا۔

واضح ہو کہ یہ معاملہ آسام کے ضلع کامروپ کے کچوٹولی پتھار گاؤں اور آس پاس کے علاقوں میں 47 گھروں پر بلڈوزر کی کارروائی سے متعلق ہے، جہاں ان 47 لوگوں کے مکانات کو آسام حکام نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے مسمار کر دیا۔ درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ وہ زمین کے اصل مالکان کے ساتھ معاہدے کے تحت کئی دہائیوں سے وہاں رہ رہے ہیں۔ انہوں نے دلیل دی کہ وہ حکومت کی طرف سے انہیں آدی واسی  زمین پر ‘غیر قانونی قابضین’ کے طور پر درجہ بندی کرنے کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ بھی کہا کہ انہوں نے کسی قانونی شق کی خلاف ورزی نہیں کی ہے اور موجودہ معاہدوں کے تحت ان کا قبضہ قانونی ہے۔

درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ حکام نے قانونی پروٹوکول کی خلاف ورزی کی ہے، جس کے تحت مکینوں کو خالی کرنے کے لیے ایک ماہ کی مدت کے ساتھ بے دخلی کے نوٹس جاری کیے جانے کی ضرورت ہے۔ مزید برآں، یہ دلیل دی گئی ہے کہ مکینوں کو منصفانہ سماعت کا موقع دیے بغیر ان کے گھروں اور روزی روٹی سے محروم کر دیا گیا، جو کہ آئین کے آرٹیکل 14، 15 اور 21 کے تحت بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، جو قانون کے سامنے برابری کی ضمانت دیتے ہیں اور زندگی اور شخصی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔