اس موت کے ساتھ ہی اب تک آسام واقع ڈٹینشن سینٹروں میں رکھے گئے لوگوں کی ہونے والی اموات کی تعداد 29 ہو چکی ہے۔ ان ڈٹینشن سینٹروں میں تقریباً 1000 لوگوں کو رکھا گیاہے۔
آسام کی 10 ضلع جیلوں میں ڈٹینشن سینٹر بنائے گئے ہیں۔ گولپاڑا ضلع جیل (فوٹو : عبدالغنی)
نئی دہلی: غیر قانونی مہاجر ہونے کی وجہ سے آسام کے ڈٹینشن سینٹر میں رکھے گئے ایک شخص کی گزشتہ جمعہ کو گولپاڑا میں گواہاٹی میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل (جی ایم سی ایچ ) میں موت ہو گئی۔ اس شخص کو 10 دن پہلے بیمار ہونے پر اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، اس شخص کی موت کے ساتھ ہی اب تک ریاست میں واقع ڈٹینشن سینٹروں میں رکھے گئے لوگوں کی ہونے والی اموات کی تعداد 29 پہنچ چکی ہے۔ ان ڈٹینشن سینٹروں میں تقریباً 1000 لوگوں کو رکھا گیا ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق، مرنے والوں کی پہچان 70 سالہ پھالو داس کےطور پر کی گئی ہے جو کہ نلباری ضلع کے مکل موا کے پاس واقع ساتے ماری کے رہنے والے تھے۔ ان کو 11 اکتوبر کو اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ اس کے بعد انہیں جی ایم سی ایچ بھیج دیا گیا تھا۔گزشتہ اکتوبر میں ایک 65 سالہ شخص کی بھی جی ایم سی ایچ میں موت ہو گئی تھی۔ ان کی فیملی کا الزام تھا کہ وہ ذہنی طور پر بیمار تھے اور انہیں ڈٹینشن سینٹر میں رکھا گیا تھا۔
ایک پولیس افسر نے کہا تھا کہ سونت پور ضلعے کے الیسنگ گاؤں کے رہنے والے مرحوم دولال پال کو 28 ستمبر کو اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ افسر نے کہا تھا کہ پال 11 اکتوبر، 2017 سے تیج پور کے ڈٹینشن سینٹر میں رکھے گئے تھے۔فی الحال، آسام میں چھ ڈٹینشن سینٹر ہیں لیکن ان کو ضلع جیلوں میں بنایا گیا ہے۔ ان میں 1000 لوگوں کو رکھا گیا ہے۔ گولپاڑا ضلع میں ایک ساتواں ڈٹینشن سینٹر زیر تعمیر ہے۔
بتادیں کہ یہ چھ ڈٹینشن سینٹرآسام کے گولپاڑا، کوکراجھار، سلچر، ڈبروگڑھ، جورہاٹ اور تیج پور میں ہے۔ ان میں عورت اور مردکے علاوہ بچوں کو بھی قیدی بناکر رکھا جاتا ہے۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق،گزشتہ 3 سال میں آسام کے فارین ٹریبونل کے ذریعے غیر ملکی قرار دیے گئے اور ڈٹینشن سینٹر میں رکھے گئے 28 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔
ریاست کے پارلیامنٹری افیئرس منسٹر چندرموہن پٹواری نےوزیراعلیٰ سربانند سونووال کی طرف سے ریاستی اسمبلی میں جواب دیتے ہوئے جولائی میں کہا تھا کہ آسام کے 6 ڈٹینشن سینٹر میں
کل 25 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔اسمبلی میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، ان میں سے صرف دو مرنے والوں کا پتہ بنگلہ دیش کا ہے باقی سبھی کا پتہ آسام کا ہے۔
پٹواری نے کہا تھا کہ جب ان لوگوں کی موت ہوئی، تب وہ ہاسپٹل میں بھرتی تھے۔ حالانکہ ان کا دعویٰ ہے کہ ان لوگوں کی موت بیماریوں کی وجہ سے ہوئی، لیکن کچھ کے رشتہ داروں کا الزام ہے کہ یہ اموات اس لئے ہوئیں کیونکہ جیل میں ان کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا اور جیل میں ان کا استحصال کیا گیا۔
غورطلب ہے کہ 1985 میں آسام میں آل آسام اسٹوڈینٹس یونین کی قیادت میں چلا آسام آندولن آسام سمجھوتہ پر ختم ہوا تھا، جس کے مطابق، 25 مارچ 1971 کے بعد ریاست میں آئے لوگوں کو غیر ملکی مانا جائےگا اور واپس ان کے ملک بھیج دیا جائےگا۔ سمجھوتہ کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ 1966 سے 1971 کے درمیان جن لوگوں کے نام ووٹر لسٹ میں ہوںگے، ان کو ڈیلیٹ کرتے ہوئے اگلے 10 سالوں تک ان کا ووٹ کرنے کا حق چھین لیا جائےگا۔
اسی بنیاد پر این آر سی تیار کیا گیا تھا، جس کو اب اپ ڈیٹ کیا جا رہا ہے۔ اس کے مطابق، ریاست کا کوئی بھی باشندہ اگر یہ ثابت نہیں کر سکا کہ اس کے آباواجداد 24 مارچ 1971 سے پہلے یہاں آکر نہیں بسے تھے، اس کو غیر ملکی قرار دے دیا جائےگا۔