آسام کے بارپیٹا ضلع کے رہنے والے اور فی الحال کولکاتہ میں تعینات ہندوستانی فوج کے ایک صوبےدار کو آسام میں شہریت کی لڑائی لڑنی پڑ رہی ہے۔
علامتی تصویر(فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: آسام کے بارپیٹا ضلع کے رہنے والے اور فی الحال کولکاتہ میں تعینات ہندوستانی فوج کے ایک صوبےدار کو آسام میں شہریت کی لڑائی لڑنی پڑ رہی ہے۔
انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق 43 سال کے شاہدالاسلام نے کہا کہ انہوں نے شمالی کشمیر کے بارامولہ اور گزشتہ سال اکتوبر میں کولکاتہ میں تعینات ہونے سے پہلے سیاچن گلیشئر میں اپنی خدمات دی ہیں۔
شاہدکو اب خود کو ہندوستانی شہری ثابت کرنے کے لئے بارپیٹا ضلع کے غیر ملکیوں کے ٹریبونل نمبر 11 میں لڑائی لڑنی پڑ رہی ہے۔ انہوں نے کہا، مجھے کشمیر، کارگل اور سیاچن میں تعینات کیا گیا تھا۔ میں اپنے ملک سے پیار کرتا ہوں اور اس کی حفاظت کے لئے تیار ہوں۔ لیکن میرے اپنے گھر آسام میں مجھے ایک مشکوک شہری کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ‘
اس معاملے کی اگلی سماعت 18 مارچ کو طے ہے۔ لیکن، شاہد نے کہا کہ وہ 18 مارچ کو سماعت کے لئے حاضر نہیں ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ تعیناتی پر ہیں۔شاہد نے بتایا کہ ان کی فیملی کے خلاف معاملہ 2003 میں درج کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا، غیر ملکیوں کی عدالت میں پیش ہونے والا پہلا نوٹس گزشتہ سال اکتوبر میں آیا تھا۔ میری ماں، بھائی اور مجھے گزشتہ 9 نومبر کو پیش ہونے کے لئے کہا گیا تھا۔ ‘
سال 2003 میں درج کئے گئے معاملے میں شاہد کے والد عبدالحامد کے ساتھ ان کے دو بھائی میزانر علی (27) اور ڈیلبور علی (29) کے نام بطور نابالغ شامل کیے گئے تھے۔میزانر اس وقت سی آئی ایس ایف میں ہیں اور ڈیلبور 2010 سے فوجی طبی کور کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ عبدالحامد کا سال 2005 میں انتقال ہو گیا تھا۔
گزشتہ 20 دسمبر کو آسام کے وزیراعلیٰ کو لکھے خط میں 852 لائٹ ریجمنٹ کے کمانڈنگ افسر کرنل ہری نائر نے ذکر کیا تھا کہ شاہد ان کی کمان میں کام کر رہے ہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ فوج میں شامل ہونے سے پہلے شاہداور ان کے بھائی ڈیلبور کی پولیس تصدیق نے ان کو ہندوستانی شہری اعلان کر دیا تھا۔
بارڈر پولیس کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ شاہدالاسلام اور ان کی فیملی کے دیگر ممبروں کے خلاف معاملہ 2003 میں درج کیا گیا تھا اور ان کو اکتوبر 2018 میں سربھوگ میں غیر ملکیوں کی عدالت سے ایک نوٹس ملا تھا۔