گزشتہ اکتوبر مہینے میں آسام کے وزیر تعلیم نے کہا تھا کہ ریاست میں 610 سرکاری مدرسے ہیں اور سرکار ان اداروں پر ہرسال 260 کروڑ روپے خرچ کرتی ہے۔ جبکہ لگ بھگ 1000منظورشدہ سنسکرت اسکول ہیں اور ریاستی سرکار ان سنسکرت پاٹھ شالاؤں پر سالانہ لگ بھگ ایک کروڑ روپے خرچ کرتی ہے۔
آسام کے وزیرہمنتا بسوا شرما (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک/@himantabiswasarma)
نئی دہلی: آسام کابینہ نے تمام سرکاری مدرسوں اور سنسکرت اسکولوں کو بند کرنے کی تجویز کو اتوارکو منظوری دے دی اور اس سلسلے میں اسمبلی کے آئندہ سرمائی اجلاس میں ایک بل پیش کیا جائےگا۔یہ جانکاری پارلیامانی امور کے وزیر چندر موہن پٹواری نے دی۔
آسام سرکار کے ترجمان پٹواری نے کہا، ‘مدرسہ اور سنسکرت اسکولوں سے متعلق موجودہ قوانین کو واپس لے لیا جائےگا۔ اسمبلی کے اگلے سیشن میں ایک بل پیش کیا جائےگا۔’آسام اسمبلی کاسرمائی اجلاس 28 دسمبر سے شروع ہوگا۔
وزیر تعلیم ہمنتا بسوا شرما نے پہلے کہا تھا کہ آسام میں 610 سرکاری مدرسے ہیں اور سرکار ان اداروں پر ہرسال260 کروڑ روپے خرچ کرتی ہے۔آسام میں لگ بھگ 1000 منظورشدہ سنسکرت اسکول ہیں، جن میں سے لگ بھگ 100 کوسرکاری امدادحاصل ہیں اور ریاستی سرکار ان سنسکرت پاٹھ شالاؤں پر سالانہ لگ بھگ ایک کروڑ روپے خرچ کرتی ہے۔
شرما نے کہا تھا، ‘ریاست کے مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو ختم کر دیا جائےگا اور سرکار کی طرف سے چلنے والےسبھی مدرسوں کو ہائی اسکول میں تبدیل کیا جائےگا۔ موجودہ طلبا کو ریگولراسٹوڈنٹ کے طور پر نئے سرے سے داخلے دیے جائیں گے۔’
انہوں نے کہا تھا، ‘آخری سال کے طلبا کو پاس ہوکر وہاں سے نکلنے کی اجازت دی جائےگی، لیکن ان اسکولوں میں اگلے سال جنوری میں داخلہ لینے والے تمام طلبا کوریگولر اسٹوڈنٹ کی طرح پڑھائی کرنی ہوگی۔’انہوں نے کہا تھا،یکسانیت لانے کے لیے سرکاری خرچ پر قرآن کو پڑھائے جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
انڈین ایکسپریس کی
رپورٹ کے مطابق، وہ ان اداروں کو عام تعلیم کی پڑھائی کے لیے تبدیل کریں گے۔اس کے ساتھ ہی شرما نے کہا تھا کہ یہ پیسہ بچانے کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ وہ 300 کروڑ روپے خرچ کرتے رہیں گے تاکہ کسی کو نکالنا نہ پڑے۔
شرما کے مطابق، آسام کے مدرسوں میں اسلام یا قرآن پرمشتمل موضوعات کو پڑھنے پرطلبا کو 200 مارکس حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔شرما نے کہا، ‘میرا اعتراض اس لیے ہے کیونکہ آپ کو یکسانیت قائم کرنی ہوگی۔ یا تو آپ بھگوت گیتا یا بائبل کی بھی اجازت دیجیےتاکہ دوسرے اسٹوڈنٹ بھی 200 مارکس حاصل کر سکیں یا قرآن کو نکال دیجیے۔’
انہوں نے آگے کہا، ‘مجھے لگتا ہے کہ بائبل یا بھگوت گیتا کی پڑھائی شروع کرنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ آسام میں ایک ملی جلی تہذیب ہے اور کئی چھوٹے مذاہب ہیں۔ تو برابری قائم کرنے کا سب سے اچھا طریقہ قرآن پرمشتمل موضوعات کو ہٹانا ہے۔’
اس سے پہلے شرما نے گوہاٹی میں صحافیوں سے کہا تھا کہ سنسکرت ٹولوں کی باگ ڈور کمار بھاسکرورما سنسکرت یونیورسٹی کو سونپی جائےگی اور انہیں ہندوستانی تہذین پر اکادمک ایجوکیشن اورریسرچ کے مراکز میں بدل دیا جائےگا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)