آسام حکومت میں ہیلتھ اینڈ فیملی ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کے چیف سکریٹری سمیر سنہا نے بتایا کہ اس سال جن لوگوں کی موت اے ای ایس کی وجہ سے ہوئی ہے ان میں 10 بالغ جبکہ 2 بچے شامل ہیں۔
علامتی تصویر (فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: آسام میں اس سال ابھی تک ایکیوٹ انسفلائٹس سنڈروم (اے ای ایس) یا چمکی بخار سے متعلق 10 معاملے سامنے آنے کے بعد مرکزی حکومت نے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کو روانہ کر دیا ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، آسام حکومت کے ہیلتھ اینڈ فیملی ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کے چیف سکریٹری سمیر سنہا نے بتایا کہ آسام میں اس سال ابھی تک اے ای ایس کے 10 معاملے سامنے آئے ہیں۔
وہیں، معاملے کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے مرکزی وزیرصحت ڈاکٹر ہرشوردھن نے حالات کے تجزیہ کے لئے ڈاکٹروں کی ایک مرکزی ٹیم کو روانہ کر دیا ہے۔سنہا نے کہا کہ اس سال جن لوگوں کی موت اے ای ایس کی وجہ سے ہوئی ہے ان میں 10 بالغ جبکہ دو بچے شامل ہیں۔
انہوں نے کہا، ہم معاملے پر پوری طرح سے نظر رکھے ہوئے ہیں۔ دیکھ بھال، ٹیکہ کاری اور علاج میں کوئی لاپروائی نہیں برتی جا رہی ہے۔ آسام میں یہ بار-بار ہونے والا واقعہ ہے اور اگر آپ پچھلی بار سے اس کا مقابلہ کریںگے تو آپ دیکھیںگے کہ ایسے معاملوں اور ان میں ہونے والی اموات کی تعداد کافی کم ہے۔ ہم ہر ممکن قدم اٹھا رہے ہیں۔
گوہاٹی میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جاپانی انسفلائٹس (جاپانی بخار) کے ٹیکہ کے ایجاد ہونے سے ہرسال مریضوں کی تعداد میں کمی آتی جا رہی ہے۔غور طلب ہے کہ ہندوستان میں اے ای ایس کی ایک اہم وجہ جاپانی انسفلائٹس ہی ہے۔سرکاری اعداد و شمار کو دیکھیں تو آسام میں اے ای ایس سے ہونے والی اموات کی تعداد سال 2012 میں جہاں 100 تھی تو وہیں 2017 میں یہ گھٹکر 58 رہ گئی۔
وہیں، ہرشوردھن نے وزارت کو ہدایت دی کہ ریاست کو تمام طرح کی امداد اور تعاون مہیا کرایا جائے۔انہوں نے کہا، ‘ میں حالات پر قریبی نظر رکھ رہا ہوں۔ وزارت صحت آسام حکومت کے ساتھ ملکر جاپانی انسفلائٹس کی روک تھام کے انتظام کے لئے کام کر ر ہی ہے، تاکہ ریاست میں اس کے معاملے نہیں بڑھے۔ ‘
وزیر نے بتایا کہ مرکزی وزارت صحت اس بیماری کی شناخت اور اس پر نظر رکھنے سے متعلق تمام طرح کی تکنیکی کٹ اور ضروری چیزیں ریاستی حکومت کو مہیا کرا رہی ہے۔ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ایڈیشنل سکریٹری سنجیو کمار کی قیادت میں نیشنل ویکٹر بورن ڈیزیز کنٹرول پروگام، نئی دہلی کے افسروں کی ایک ٹیم آسام روانہ ہوئی ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)