آسام: گزشتہ 3 سالوں میں ڈٹینشن سینٹرمیں غیر ملکی قرار دیے گئے 24 لوگوں کی موت

آسام کے پارلیامنٹری افیئرس منسٹر چندرموہن پٹواری نے اسمبلی میں بتایا کہ اس سال اب تک ڈٹینشن سینٹروں میں غیر ملکی قرار دیے گئے سات لوگوں کی جان جا چکی ہے۔

آسام کے پارلیامنٹری افیئرس منسٹر چندرموہن پٹواری نے اسمبلی میں بتایا کہ اس سال اب تک ڈٹینشن سینٹروں میں غیر ملکی قرار دیے گئے سات لوگوں کی جان جا چکی ہے۔

آسام کی 10 ضلع جیلوں میں ڈٹینشن سینٹر بنائے گئے ہیں۔ گولپاڑا ضلع جیل (فوٹو : عبدالغنی)

آسام کی 10 ضلع جیلوں میں ڈٹینشن سینٹر بنائے گئے ہیں۔ گولپاڑا ضلع جیل (فوٹو : عبدالغنی)

نئی دہلی:آسام کی جیلوں میں بنے ڈٹینشن سینٹروں میں سال 2011 سے اب تک 25 لوگوں کی موت ہو چکی ہے، جن کو فارینرس ٹریبونل کے ذریعے غیر ملکی قرار دے دیا گیا تھا۔ ان میں سے 24 اموات پچھلے تین سالوں میں ہوئی ہیں۔ریاست کے پارلیامنٹری افیئرس منسٹر چندرموہن پٹواری نے  اسمبلی میں یہ جانکاری دی۔ ڈکن ہیرالڈ کی خبر کے مطابق ،اس سال اب تک ڈٹینشن سینٹروں میں غیر ملکی قرار دیے گئے سات لوگوں کی موت ہوئی  ہے۔

پٹواری نے بتایا کہ جب ان کی موت ہوئی، تب وہ ہاسپٹل میں بھرتی تھے۔ حالانکہ ان کا دعویٰ ہے کہ ان لوگوں کی موت بیماریوں کی وجہ سے  ہوئی، لیکن کچھ کے رشتہ داروں کا الزام ہے کہ یہ اموات اس لئے ہوئیں کیونکہ جیل میں ان کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا اور جیل میں ان کا استحصال کیا گیا۔

وہیں، حزب مخالف کے رہنماؤں نے یہ سوال اٹھایا کہ کیونکہ ان لوگوں کو ‘ غیر ملکی ‘ یا ‘ غیر قانونی مہاجر ‘ قرار دیا گیا تھا تو ان کی لاش بنگلہ دیش کیوں نہیں بھیجی گئی۔ اس پر پٹواری نے جواب دیا، ‘ ایسی اموات میں شہریت نہیں دیکھی جاتی۔ لیکن اگر فیملی ان کی لاش لینے سے انکار کر دیتی ہے تب اصول کے مطابق ان کی آخری رسومات ادا کر دی جاتی ہے۔ ‘

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ریاست کے چھ ڈٹینشن سینٹروں میں 11145 لوگ بند ہیں۔ بتا دیں کہ ریاست میں غیر ملکی قرار دیے جا چکے یا مشتبہ غیر ملکی کو ریاست کی چھ جیلوں-تیج پور، ڈبروگڑھ، جورہاٹ، سلچر، کوکراجھار اور گول پاڑہ میں بنے ڈٹینشن سینٹر میں رکھا جاتا ہے۔خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق ،پٹواری نے یہ بھی بتایا کہ اس سال 31 مارچ تک فارینرس ٹریبونل نے 117164 غیر ملکی لوگوں کی پہچان کی تھی۔ 1985 سے 30 جون 2019 کے درمیان 29855 غیر ملکی کو باہر نکالا گیا۔

غورطلب ہے کہ 1985 میں آسام میں آل آسام اسٹوڈینٹس یونین کی قیادت میں چلا آسام آندولن آسام سمجھوتہ پر ختم ہوا تھا، جس کے مطابق، 25 مارچ 1971 کے بعد ریاست میں آئے لوگوں کو غیر ملکی مانا جائے‌گا اور واپس ان کے ملک بھیج دیا جائے‌گا۔ سمجھوتہ کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ 1966 سے 1971 کے درمیان جن لوگوں کے نام ووٹر لسٹ میں ہوں‌گے، ان کو ڈیلیٹ کرتے ہوئے اگلے 10 سالوں تک ان کا ووٹ کرنے کا حق چھین لیا جائے‌گا۔

اسی بنیاد پر این آر سی تیار کیا گیا تھا، جس کو اب اپ ڈیٹ کیا جا رہا ہے۔ اس کے مطابق، ریاست کا کوئی بھی باشندہ اگر یہ ثابت نہیں کر سکا کہ اس کے آباواجداد 24 مارچ 1971 سے پہلے یہاں آکر نہیں بسے تھے، اس کو غیر ملکی قرار دے دیا جائے‌گا۔پٹواری نے بتایا کہ مرکز کی طرف سے اپڈیشن کے پروسیس کے لئے 1288.13  کروڑ روپے دئے تھے، جس میں سے اب تک  1243.53 روپے خرچ کئے جا چکے ہیں۔ حالانکہ انہوں نے سپریم کورٹ کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے اس اپ ڈیٹ سے جڑی کوئی بھی جانکاری دینے سے انکار کیا۔ آئندہ 31 اگست کو این آر سی کی فائنل لسٹ شائع ہونی ہے۔

غور طلب ہے کہ گزشتہ سال جولائی میں شائع این آر سی کے مسودہ میں کل 3.29 کروڑ درخواستوں میں سے 2.9 کروڑ لوگوں کے نام شامل ہوئے تھے، جبکہ 40 لاکھ لوگوں کو اس فہرست سے باہر کر دیا گیا تھا۔اس کے بعد گزشتہ جون مہینے میں این آر سی مسودہ کی نئی  (Exclusion)  فہرست جاری ہوئی،جس میں 102462 لوگوں کو باہر کیا گیا ہے۔اس فہرست میں جن لوگوں کے نام ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے نام گزشتہ سال 30 جولائی کو جاری این آر سی  کے مسودہ میں شامل تھے لیکن بعد میں وہ اس کے لئے اہل  نہیں پائے گئے۔