جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے خلاف سپریم کورٹ میں جاری سماعت میں عرضی گزاروں کے وکیل کپل سبل نے مرکز پر صوبے کے لوگوں کی خواہش کو سمجھنے کی کوشش کیے بغیر ہی ‘یکطرفہ’ فیصلہ لینے کا الزام لگایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ جب آپ جموں و کشمیر سے اس طرح کے خصوصی تعلقات کو توڑنا چاہتے ہیں تو لوگوں کی رائے لینی ہوگی۔
نئی دہلی: چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے کہا کہ ہندوستان میں بریگزٹ جیسے ریفرنڈم کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے یہ تبصرہ جموں و کشمیر سے ہٹائے گئے آرٹیکل 370 کے معاملے کو چیلنج کرنے والے عرضی گزاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کیا، جنہوں نے کہا تھا کہ ریاست میں آرٹیکل 370 کو لوگوں کی خواہشات پر غور کیے بغیر ہٹایا گیا تھا۔
منگل 8 اگست کو مسلسل تیسرے دن کیس کی سماعت کرتے ہوئے سی جے آئی نے کہا کہ ہندوستان جیسی آئینی جمہوریت میں پارلیامنٹ جیسےاداروں کے ذریعےعوام کی رائے طلب کی جاتی ہے۔
دی ہندو نے سی جے آئی چندرچوڑ کے حوالے سےلکھا ہے، ‘عوام کی رائے کے لیے کوئی بھی اقدام قائم اداروں کے ذریعےہی تلاش کیا جانا چاہیے۔ آپ بریگزٹ جیسے ریفرنڈم کا تصور بھی نہیں کر سکتے… یہ برطانیہ میں اس وقت کی حکومت کے ذریعے لیا گیاسیاسی فیصلہ تھا…لیکن ہمارے جیسے آئین کے اندر ریفرنڈم کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔
سینئر وکیل کپل سبل نے عرضی گزاروں کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے مرکزی حکومت پر جموں و کشمیر کے لوگوں کی خواہشات کو سمجھنے کی کوشش کیے بغیر دفعہ 370 کو یکطرفہ طور پر ہٹانے کا الزام لگایا تھا۔
سبل نے دلیل دی تھی،جب آپ جموں و کشمیر کے ساتھ اس طرح کے خصوصی تعلقات کو توڑنا چاہتے ہیں، تو آپ کو بالآخر لوگوں کی رائے لینی ہوگی۔ اس فیصلے کے مرکز میں عوام کی مرضی تھی۔ یہ سیاسی فیصلہ ہونا چاہیے تھا…بریگزٹ میں کیا ہوا؟ ریفرنڈم کا کوئی آئینی اہتمام نہیں تھا۔ پھر بھی، انہوں نے عوام کی رائے مانگی۔
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل کو ‘ایکٹس آف دی ایگزیکٹیو’ کے ایک سلسلے کے ذریعے منسوخ کر دیا گیا تھا،جس کی شروعات جموں و کشمیر اسمبلی اور ریاستی حکومت کے کے گرنے سے ہوئی تھی۔ اخبار کے مطابق، سبل نے کہا کہ اس کے بعد اس وقت کی ریاست میں صدر راج نافذ کیا گیا تھا اور آرٹیکل 370(3) کی ایک شق کو تبدیل کیا گیا تھا تاکہ ‘دفعہ 370 کو غیر فعال قرار دینے سے پہلے، اب ختم ہو چکی جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی’کی سفارش حاصل کرنے کی پیشگی شرط کو در کنار کیا جاسکے۔’
انہوں نے کہا،‘آپ نے (ہندوستانی حکومت) آئین کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔’یہ کہتے ہوئے کہ اس طرح کے اقدام کے لیے ریاست اور اس کے عوام کی رضامندی کی ضرورت ہوتی ہے، سبل نے دلیل دی کہ مرکزی حکومت اور ریاست جموں و کشمیر کے درمیان تعلقات ‘خالصتاً وفاقی تھے اور دوسری ریاستوں کی طرح ‘نصف وفاقی’ نہیں تھے۔
عدالت میں بحث کے دوران سی جے آئی نے درخواست گزاروں سے یہ بھی پوچھا کہ یہ کیسے مانا جا سکتا ہے کہ آرٹیکل 370 نے آئین میں ایک مستقل کردار حاصل کر لیاتھا۔
سی جے آئی نے سوال کیا،’کیا ہندوستانی آئین میں 370 کی ‘عارضی’ نوعیت کو ہٹانےاور اسے مستقل بنانے کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت تھی یا کیا اسے صرف اس بنیاد پر مستقل سمجھا جا سکتا ہے کہ جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی نے 1957 میں تحلیل ہونے سے پہلے ہی اس کو منسوخ نہیں کیا تھا؟’