گزشتہ 6 جون کو بہار کی گیا پولیس نے تین نکسلیوں کو جلیٹن اسٹک اور الکٹرانک ڈیٹونیٹر کے ساتھ گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
روپیش کمار سنگھ(فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)
گزشتہ 6 جون کو بہار کی گیا پولیس نے ایک پریس کانفرنس کر کے تین نکسلیوں کو جلیٹن اسٹک اور الکٹرانک ڈیٹونیٹر کے ساتھ گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا۔اگلی صبح بہار کے ہندی اخباروں میں’ ہتھیار کے ساتھ نکسلی گرفتار ‘ کےعنوان سے خبر چھپی۔ یہ خبر اپسا شتاکچھی کے پاس پہنچی، تو وہ صدمے میں آ گئیں۔ پولیس نے جن نکسلیوں کو ہتھیار کے ساتھ گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا، ان میں سے ایک ان کے شوہر صحافی روپیش کمار سنگھ بھی ہیں۔ پولیس نے پریس کانفرنس میں کہا کہ روپیش کمار سنگھ، متھلیش سنگھ سمیت تین لوگوں کو گیا کے ڈوبھی سے نیشنل ہائی وے نمبر دو سے گرفتار کیا گیا۔
پریس کانفرنس کو خطاب کرنے والے گیا کے اسسٹنٹ پولیس سپرٹنڈنٹ (نکسل مہم) نوین کمار سنگھ اور ڈی ایس پی رویش کمار نے دعویٰ کیا کہ تینوں جھارکھنڈ کے ہزاری باغ سے ہتھیاروں کی کھیپ گیا کے ڈمریا علاقے کے چھکربندھا لا رہے تھے، جہاں نکسلیوں کو اس کی سپلائی ہونی تھی۔ڈوبھی تھانہ کے ایس ایچ او راہل رنجن کی طرف سے تھانہ میں دئے گئے بیان کی بنیاد پر تینوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔ بیان میں راہل رنجن نے موقع پر کسی سوتنتر ساکشی کے نہیں ہونے کا ذکر کرتے ہوئے خود کو اور سی آر پی ایف کے ایک جوان کو چشم دید بنایا ہے۔بیان میں لکھا گیا ہے کہ ان کی گاڑی سے 15 بنڈل الکٹرانک ڈیٹونیٹر ، 32 جلیٹن اسٹک ملے۔ بیان میں آگے لکھا گیا ہے کہ اس کے علاوہ لفافے میں کمیونسٹ پارٹی (ماؤوادی) مرکزی کمیٹی لکھا ہوا پریس بیان اور نکسلی ادب جس میں ملک مخالف باتیں لکھی گئی ہیں، بر آمد کی گئیں۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ روپیش نے یہ قبول کیا ہے کہ وہ ممنوعہ نکسلی تنظیم ای آر بی سی سی ٹیک میں ایس اے سی کے عہدے پر ہیں اور اس عہدے پر ان کی تقرری گزشتہ سال مئی میں ہوئی تھی۔تینوں پر انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 414/120 (بی)، آرمس ایکٹ کی دفعہ 3 اور 4 اور یو اے پی اے کی دفعہ 10/13/18/20/38 اور 39 لگائی گئی ہے۔ پولیس کے ان دعووں کو روپیش کی بیوی اپسا شتاکچھی نہ صرف خارج کرتی ہیں بلکہ روپیش سے جیل میں ملاقات اور ان سے بات چیت کے حوالے سے وہ پولیس کی کارروائی میں گہری سازش دیکھ رہی ہیں۔
گرفتاری کی اطلاع سے پہلے کیا ہوا تھا
پولیس نے پریس کانفرنس میں 6 جون کی صبح تقریباً 10:30 بجے تینوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ خبر اپسا کے پاس ان کے ایک دوست کی معرفت پہنچی۔ اپسا نے کہا، ‘ صبح میں ایک دوست کا میسیج آیا کہ وہ گرفتار ہو گئے ہیں۔پربھات خبر میں ایسی خبر چھپی ہے۔ میں نے ان سے پیپر میں چھپی خبر کی تصویر بھیجنے کو کہا۔ انہوں نے تصویر بھیجی، تو مجھے پتہ چلا کہ گیا پولیس نے ان کو گرفتار کر لیا ہے۔ ‘ اپسا نے بتایا کہ چار جون کی صبح تقریبا آٹھ بجے روپیش اکیلے گھر سے نکلے تھے۔ اپسا نے کہا، ‘ انہوں نے جلدی سے ناشتہ لگانے کے لئے کہا تھا۔ ناشتہ لگاکر میں دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ ناشتہ کر کے وہ گھر سے نکل گئے اور کہا کہ وہ آ رہے ہیں۔ ‘
اپسا کے مطابق، کچھ دیر بعد متھلیش کی جان-پہچان والوں نے بتایا کہ روپیش اور متھلیش ایک ساتھ نکلے ہیں۔ روپیش اور متھلیش آپس میں رشتہ دار ہیں۔متھلیش کا آبائی مکان اورنگ آباد میں ہے۔ متھلیش کے رشتہ داروں کے مطابق، وہ روپیش کے ساتھ اورنگ آباد کے لئے نکلے تھے۔چار جون کی صبح تقریباً 10 بجے متھلیش کے رشتہ داروں نے ان کو کال لگایا، لیکن ان کی کال لگ نہیں رہی تھی، تو انہوں نے کچھ وقت انتظار کرنا مناسب سمجھا اور اگلے دن پانچ جون کو رام گڑھ تھانہ میں گمشدگی کی ایک شکایت درج کرائی گئی۔ اپسا کہتی ہیں کہ چھے جون کی دوپہر ایک بجے کے تقریباً متھلیش کی کال میرے دیور(روپیش کے بھائی)کے موبائل پر آتی ہے کہ وہ ٹھیک ہیں۔ میرے دیور ان سے روپیش کے بارے میں پوچھتے ہیں، تو وہ بتاتے ہیں کہ وہ بھی ٹھیک ہیں اور جلد ہی لوٹیںگے۔ اور کچھ پوچھتے کہ متھلیش کا فون کٹ جاتا ہے۔
اپسا کا کہنا ہے کہ اسی دن یعنی چھے جون کی شام کو وہ لوگ اپنے گھر میں تھے، تو تین لوگ ان کی رہائش گاہ کے آس پاس نظر آئے۔ان کے ہاؤبھاؤ سے وہ مشکوک لگ رہے تھے۔ جب اپسا کے بھائی نے تینوں کا پیچھا کیا، تو وہ چار پہیہ گاڑی سے بھاگ گئے۔سات جون کی صبح گرفتاری کی اطلاع ملنے کے کچھ وقت بعد ہی گیا پولیس کے تین افسر ان کے رام گڑھ رہائش گاہ پر پہنچے۔ اپسا نے بتایا، ‘ تینوں افسر پورے گھر میں گھومتے رہے۔ پھر پوچھا کہ روپیش کیا کرتے ہیں۔ میں نے بتایا کہ وہ آزاد صحافی ہیں، تو انہوں نے پوچھا کہ پھر تو لیپ ٹاپ بھی رکھتے ہوںگے۔ پولیس نے لیپ ٹاپ منگوایا اور اپنے پاس رکھ لیا۔ ‘
اپسا کے مطابق، پولیس نے ان کی اور روپیش کی پڑھائی سے لےکر خاندانی پس منظر اور کام وغیرہ کے بارے میں بھی تفصیل سے پوچھا۔ اس کے بعد انہوں نے بوکارو واقع گھر کی تلاشی لینے کی بات کہی۔یہاں یہ بھی بتا دیں کہ روپیش بنیادی طور پر بھاگلپور کے رہنے والے ہیں۔ اپسا نے بوکارو میں بی ایڈ میں داخلہ لے لیا تھا، اس لئے پچھلے تین سال سے وہ اپسا کے ساتھ بوکارو میں رہ رہے ہیں۔ رام گڑھ میں روپیش کی بہن کی شادی ہوئی ہے اور متھلیش روپیش کی بہن کے دیور ہیں۔
6 جون کو پریس کانفرنس میں گرفتاری کی جانکاری دیتے گیا پولیس کے افسر۔
بوکارو کی رہائش گاہ سے پولیس نے ایک نوٹ پیڈ، مارکس کی کتاب، پھنیشورناتھ رینو کا ناول میلا آنچل، اپسا کی ذاتی ڈائری اور سیمیانتر میگزین کے کچھ شمارے ضبط کئے۔ وہیں، رام گڑھ سے ایک ٹیب اور ایک لیپ ٹاپ ضبط کر لیا۔ اپسا نے کہا، ‘ پولیس نے کوئی سیجر لسٹ نہیں دی اور نہ ہی سرچ وارنٹ ہی دکھایا۔ ‘ ساتھ ہی پولیس اپسا کے والد اور بہنوئی کو بھی ساتھ لے گئی اور کافی دیر بعد ان کو چھوڑا۔
روپیش نے کیا کہا
9جون کو اپسا نے شیرگھاٹی جیل میں پہلی بار روپیش سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں روپیش نے جو کہانی بتائی، اس سے پولیس کی پوری کارروائی پر کئی سوال اٹھتے ہیں۔ اپسا کے مطابق، روپیش نے بتایا کہ پولیس نے ان کو 6 جون کو گیا سے نہیں بلکہ 4 جون کو جھارکھنڈ سے گرفتار کیا تھا۔ اپسا نے روپیش سے بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے جو کہا، وہ کچھ یوں ہے؛
چار جون کی صبح تقریبا آٹھ بجے روپیش اپنے گھر سے نکلتے ہیں۔ متھلیش کے ساتھ 9:30 بجے وہ ہزاری باغ کے پدما پہنچتے ہیں۔ پدما میں وہ ٹوائلٹ کرنے کے لئے گاڑی سائڈ میں لگاتے ہیں اور گاڑی سے باہر نکلتے ہیں۔ اسی وقت ان کو پکڑ لیا جاتا ہے اور ان کے بال کھینچے جاتے ہیں۔ ان کے دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑی اور آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی ہے۔روپیش اس کی مخالفت کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ وہ لوگ کون ہیں اور ان کی آنکھوں پر پٹی کیوں باندھی جا رہی ہے۔ کچھ دیر بعد پولیس والے پٹی ہٹا دیتے ہیں اور ان کو زبردستی گاڑی میں بٹھا دیتے ہیں۔ وہاں سے روپیش اور ان کے رشتہ دار متھلیش کو گیا کے باراچٹی کے برواڈیہ میں کوبرا کیمپ میں لایا جاتا ہے۔کیمپ میں ان کو سونے نہیں دیا جاتا ہے۔ ان سے بار بار پوچھا جاتا ہے کہ وہ دلتوں اور آدیواسیوں کے لئے کیوں لکھتے ہیں؟ آپ آدیواسیوں میں اتنی دلچسپی کیوں لیتے ہیں؟ آپ کو اور کچھ ہی ملتا ہے، لکھنے کو؟ آپ ہمیشہ حکومت کی مخالفت میں کیوں لکھتے ہیں؟ آدیواسیوں کی زمین-ومین میں کچھ بھی نہیں ملےگا۔ پڑھےلکھے ہو، اچھے سے کماؤکھاؤ۔ فیملی کو دیکھو۔
اپسا کے مطابق، گیا پولیس جب چھاپےماری کرنے ان کے گھر گئی تھی، تو وہاں بھی یہی سب پوچھا تھا۔ انہوں نے کہا، ‘ ایک پولیس والے نے مجھ سے پوچھا تھا کہ روپیش کیا کرتے ہیں۔ جب میں نے بتایا کہ وہ آزاد صحافی ہیں، تو انہوں نے کہا کہ آزاد صحافی ہیں، تو منفی صحافت کیوں کرتے ہیں؟ میں نے پوچھا کہ منفی صحافت کا کیا مطلب ہے، تو انہوں نے کہا کہ حکومت کی تنقید کیوں کرتے ہیں۔ ‘
اپسا کی مانیں، تو پولیس والوں نے روپیش سے یہ بھی کہا کہ وہ جو کچھ بھی لکھتے ہیں، اس سے نکسلیوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
‘ کوبرا کیمپ میں رکھی گاڑی میں جلیٹن اسٹک اور ڈیٹونیٹر ‘
اپسا نے بتایا کہ روپیش کے سامنے پولیس والے آپس میں جو بات چیت کر رہے تھے، اس سے ان کو پیغام مل رہا تھا کہ کہیں وہ ان کا انکاؤنٹر نہ کر دیں۔پانچ جون کو ان کو سونے کے لئے چار گھنٹے کا وقت دیا گیا۔ روپیش نے اپسا کو بتایا کہ پانچ جون کی شام کو کوبرا بٹالین کے کیمپ میں ہی ان کے سامنے گاڑی میں جلیٹن کی اسٹک اور ڈیٹونیٹر گیا تھا۔ اپسا کے مطابق، روپیش نے جب اس کی مخالفت کی، تو وہاں موجود ڈی ایس پی رویش کمار نے کہا، ‘ ارے، روپیش جی، آپ کو پکڑے ہیں، تو ایسے ہی چھوڑ دیںگے؟ اپنی طرف سے مقدمہ کو مضبوط بھی تو کریںگے۔ مضبوطی میں کوئی کسر نہیں چھوڑیںگے۔ ‘
روپیش کے مطابق، گاڑی میں دھماکہ خیز مادہ لوڈ کرکے پولیس 6 جون کو ان کو برواڈیہ سے شیرگھاٹی تھانہ میں لاتی ہے اور پریس کانفرنس کرتی ہے۔ پریس کانفرنس کرنے کے بعد ان کو ڈوبھی تھانہ میں بند کر دیا جاتا ہے۔ سات جون کو ڈوبھی تھانہ سے نکالکے ان کو شیرگھاٹی کے چیف جوڈشیل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔
روپیش کمار سنگھ کی بیوی اپسا شتاکشی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ روپیش اور ان کے ساتھ گرفتار لوگوں کو سی جے ایم کی عدالت میں نہیں بلکہ ان کی رہائش گاہ پر پیش کیا جاتا ہے اور شیرگھاٹی جیل میں بھیج دیا جاتا ہے۔چار جون کو گرفتار کرنے اور کوبرا بٹالین کے کیمپ میں گاڑی میں ڈیٹونیٹر اور جلیٹن کی اسٹک رکھنے کے روپیش کے الزامات کو لےکر ڈی ایس پی رویش کمار کو کال کرکے پوچھا کہ روپیش اور ان کی بیوی نے پولیس پر سنگین الزام لگائے ہیں، تو انہوں نے ٹالنے کے لہجے میں کہا، ‘ ہم لوگوں کو کوئی جانکاری نہیں ہے۔ ‘جب ان سے کہا کہ ان کی بیوی نے نامہ نگار کو کافی چیزیں بتائی ہیں، تو انہوں نے کہا، ‘ سب کوئی بتاتا ہے اپنا۔ ہمیں بھی بہت کچھ بتایا ہے ایسا تھوڑے ہے۔ ‘
چار جون کو گرفتاری اور کوبرا بٹالین کے کیمپ میں گاڑی میں دھماکہ خیز مادہ رکھنے کے روپیش کے دعویٰ پر دوبارہ پوچھنے پر انہوں نے کہا، ‘اس بارے میں ہم لوگ کچھ نہیں بتا سکتے ہیں۔ بولنے کے لئے تو کوئی کچھ بھی بول سکتا ہے بولنے کا ہم کیا کریں۔ ‘ اس سے آگے اور کچھ پوچھا جاتا کہ انہوں نے فون کاٹ دیا۔
کون ہیں روپیش کمار سنگھ
روپیش کمار سنگھ بنیادی طور پر بھاگلپور کے رہنے والے ہیں۔ انہوں نے تلکا مانجھی یونیورسٹی سے پڑھائی کی۔ وہ 2003 سے 2007 تک آئیسا اور اس کے بعد دو-تین سال تک مالے سے جڑے رہے۔ انہوں نے ایونٹ مینجمنٹ کی ایک کمپنی بھی کھولی تھی، جس کو ایک سال ہی چلا پائے۔ سال 2014 سے انہوں نے فل ٹائم فری لانسنگ شروع کی تھی۔ اپسا بتاتی ہیں،’وہ کئی ویب پورٹلس میں باقاعدہ طور پر لکھتے تھے۔ اس کے علاوہ فی الحال، تلاش، دستک نئے سمئے کی اور دیش ودیش نام کے رسالہ میں بھی لکھ رہے تھے۔ ‘ اپسا نے کہا، ‘وہ آدیواسی، غریب، مزدور جیسے حاشیے پر رہنے والے کمیونٹی کے حق اور حقوق پر کھلکر لکھتے تھے۔ ‘
گزشتہ سال جون میں انہوں نے ‘ جن چوک ‘ میں ‘
جھارکھنڈ کے مزدور رہنماؤں پر ستا کا دمن ‘ نام سے لمبی رپورٹ لکھکر حکومت سے تیکھے سوال پوچھے تھے۔ گزشتہ سال اپریل میں انہوں نے جن جوار ویب پورٹل میں’ ماؤوادی خاتمے کے نام پر آدیواسیوں کو بھوک سے مارنے کی تیاری میں جھارکھنڈ سکرار’کے نام سے مضمون لکھا تھا۔ اس میں انہوں نے بتایا تھا کہ ماؤوادیوں کے خلاف حفاظتی دستوں کے آپریشن کے چلتے آدیواسیوں کو صحیح سے راشن نہیں مل رہا ہے جس سے ان کے سامنے بھوک مری کی نوبت آ گئی ہے۔
روپیش پچھلے تین سال سے بوکارو میں اپنی بیوی اپسا شتاکشی کے ساتھ رہے تھے۔ گیا پولیس نے اپنے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ روپیش جھارکھنڈ سے نکلنے والی لال ماٹی نام کا رسالہ کے مدیر ہیں۔ لیکن اپسا نے بتایا کہ ایسی کوئی میگزین جھارکھنڈ سے نہیں نکلتی ہے اور وہ کسی میگزین کے مدیر ہیں، ایسا کبھی بتایا نہیں۔ اپسا نے یہ بھی کہا کہ جیل میں جب روپیش سے ملاقات ہوئی، تو روپیش نے بھی اس میگزین کا نام سنکر حیرانی ظاہر کی کیونکہ ایسی کسی میگزین سے ان کا کوئی واسطہ ہی نہیں تھا۔
روپیش کی بیوی کی گاڑی میں جی پی ایس لگانے کا الزام
سات جون کو روپیش کی گرفتاری کی اطلاع ملنے کے بعد اپسا اور ان کے رشتہ دار 9 جون کو روپیش سے ملنے گیا آئے تھے۔ اپسا نے بتایا کہ وہ گاڑی نیچے پارک کرکے ہوٹل میں تھیں۔ کچھ وقت بعد ان کو یاد آیا کہ گاڑی میں ایک سامان چھوٹ گیا ہے۔ سامان لینے کے لئے وہ گاڑی میں گئیں، تو ڈرائیور سیٹ کے سامنے نیچے کی طرف جی پی ایس ڈیوائس لگا ہوا تھا۔ اپسا کے بھائی نے ڈیوائس دکھاتے ہوئے کہا، ‘ چارجنگ پوائنٹ سے جی پی ایس ڈیوائس کو کنیکٹ کیا ہوا تھا۔ جی پی ایس ڈیوائس میں کیمرا اور سم کارڈ بھی لگا ہوا تھا۔ ہم نے فوراً اس کو ضائع کر دیا۔ ‘
اپسا کو شک ہے کہ پولیس نے ہی جی پی ایس ڈیوائس لگایا ہوگا، تاکہ ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکے۔ اپسا کے بھائی نے بتایا،’سات جون کو ایک حادثہ میں گاڑی کا ایک حصہ ٹوٹ گیا تھا۔ اس کو ٹھیک کرانے کے لئے ہم نے گاڑی کو رام گڑھ کے ایک ورکشاپ میں دے دیا تھا۔ آٹھ جون کی شام کو گاڑی لایا۔ مجھے لگتا ہے کہ وہیں پر یہ ڈیوائس لگایا گیا ہوگا کیونکہ ڈیوائس لگانے میں کم سے کم 1-2 گھنٹہ لگا ہی ہوگا اور اتنی دیر ہماری گاڑی بنا لاک کے کہیں نہیں رہی سوائے ورکشاپ کے۔ ‘اس بارےمیں اپسا نے پولیس میں کوئی شکایت درج نہیں کرائی ہے۔
‘ پولیس کی کہانی سچ سے پرے ‘
اپسا نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ پولیس نے روپیش پر جو بھی الزام لگایا ہے، اس کا سچ سے دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ روپیش خاموش رہیں یا ان کو دیکھکے اور لوگ خاموش ہو جائیں، اس لئے ان کے ساتھ ایسا کیا گیا۔انہوں نے نکسلیوں سے رابطہ ہونے کے سوال پر کہا کہ کبھی بھی ان کا رویہ مشکوک نہیں رہا، جس سے لگے کہ وہ نکسلیوں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ پولیس سراسر جھوٹ بول رہی ہے۔روپیش کی ماں ہیم لتا دیوی نے کہا، ‘ میرا بیٹا سچ کے ساتھ ہے اور صحیح راہ پر ہے۔ اور اس لئے اس نے اپنی جان تک داؤ پر لگا دی ہے۔ پولیس کا الزام جھوٹا ہے۔ میرا بیٹا صحیح ہے اور اس کو انصاف چاہیے۔ ‘
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)