میں 17 سال تک ووٹ نہیں دے سکی کیونکہ ہم لگاتار بھاگ رہے تھے۔ آج میں نے اپنا ووٹ دیا ہے اور میرا ووٹ ملک کی یکجہتی کے لئے ہے… میں اپنے ملک کے جمہوری نظام میں یقین کرتی ہوں اور انتخاب کےعمل پر میرا بھروسہ ہے۔
بلقیس بانو کی یہ تصویر دیکھیے۔ برقع میں، چہرہ کھلا اور آنکھیں کیمرے کو سیدھے دیکھتی ہوئیں، اور ایک انگلی اٹھی ہوئی جس پر ایک نشان ہے جو مٹتا نہیں۔ وہ نشان جو ہندوستان کا ہر شہری ایک تمغے کی طرح پہنتا ہے ایک روز پانچ سال میں۔ وہ اس کا ثبوت ہے کہ وہ ان کروڑوں میں ایک ہے جس میں طاقت ہے اپنے ملک کے حال اور مستقبل کا راستہ طے کرنے کی۔ وہ ہندوستان کی ایک ووٹر ہے، ہندوستان کے آئین کے پہلے صفحے پر لکھے ان الفاظ کا حصہ ؛ہم ہندوستان کے لوگ۔
میں 17 سال تک ووٹ نہیں دے سکی کیونکہ ہم لگاتار بھاگ رہے تھے۔ آج میں نے اپنا ووٹ دیا ہے اور میرا ووٹ ملک کی یکجہتی کے لئے ہے… میں اپنے ملک کے جمہوری نظام میں یقین کرتی ہوں اور انتخاب کےعمل پر میرا بھروسہ ہے۔
بلقیس بانو اکیلی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ اس کا شوہر یعقوب ہے اور چار سال کی بچی ہے۔
ہندوستان کی راجدھانی سے کوئی 900 کلومیٹر دور گجرات کے داہود ضلع کے دیوگڑھ باریہ کے پولنگ بوتھ کے باہر یہ جو عورت کھڑی ہے، وہ صرف اپنے لئے نہیں بلکہ ہم سب کے لئے۔ وہ صرف اپنے حق رائے دہی کا استعمال نہیں کر رہی، ہمیں بتا رہی ہے کہ ہندستانیت یوں ہی نہیں مل جاتی۔ اس کو حاصل کرنا پڑتا ہے۔ خون اور پسینہ کی قیمت کے ساتھ۔کس نے بلقیس کو 17سالوں تک اس کی حق رائے دہی سے محروم رکھا؟ کون تھا گجرات کا مکھیا اور کس کے ہاتھ ہندوستان کی حکومت تھی؟ اور کیوں سالوں سال بلقیس اپنے کنبے کے ساتھ بھٹکتی رہی پورے ہندوستان، جگہ بدلتی ہوئی، خفیہ زندگی گزارتی ہوئی؟ کیوں وہ محفوظ نہیں تھی وہاں جس کو وہ اپنا وطن کہتی ہے؟
آج وہ اپنے چار بچوں اور شوہر کے ساتھ ایک کمرے کی پناہ گاہ میں ہے۔ اس ریاست میں جس کو ہندوستان کے تمام طاقتور لوگوں نے ترقی کا آدرش ٹھہرایا ہے۔ اس ریاست میں جس کو ایک بار آکر محسوس کرنے کی دعوت وہ دیتا نظرآتا ہے جس کو صدی کا ہیرو کہا جاتا ہے۔ جب وہ اپنی پرکشش مسکان کے ساتھ یہ دعوت نامہ دے رہا تھا، تب کیا وہ سوچ پایا ہوگا کہ ایک بلقیس ہے جس کے لئے یہ دعوت ایک جال ہو سکتی ہے!
بلقیس کا قصہ ہر ہندوستانی کو سننا اور اس کوسمجھنا ضروری ہے۔ اور 23 اپریل کی اہمیت کو بھی درج کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اس روز ملک کی سب سے بڑی عدالت نے بلقیس کے ساتھ ہوئی ناانصافی کا ایک حساب کیا ہے۔ یاد رہے صرف ایک حساب!اس نے 2002 کی 3 مارچ کو بلقیس کے ساتھ گینگ ریپ کے لئے گجرات حکومت کی جوابدہی طے کی ہے۔ اس کو بلقیس بانو کو 50 لاکھ روپے، ایک نوکری اور اس کی پسند کی رہنے کی جگہ دینے کا حکم دیا ہے۔
بلقیس سب سے بڑی عدالت کے پاس دوبارہ آئی تھی۔ اس نے گجرات حکومت کے پانچ لاکھ کے معاوضے کو ٹھکرا دیا اور عدالت کو کہا کہ اس کے ساتھ جو ناانصافی ہوئی ہے یہ معاوضہ اس کی سنگینی کے لحاظ سے معمولی ہے۔ عدالت نے اس کی بات سمجھی، اس کی ہمیں تسلی ہونی چاہیے۔بلقیس کا قصہ آنسو لانے کو اور آپ کے رحم پیداکرنے کے لئے نہیں بلکہ اس کے صبر، بقا اور جدو جہد کو سمجھنے کے لئے جاننا ضروری ہے جس کے بنا شہریت کا حق رکھا نہیں جا سکتا۔اس لمبے جدو جہد میں بلقیس اکیلی نہ تھی۔ اس آدیواسی خاتون اور اس کی فیملی کو یاد کیجئے جس نے بلقیس کو کپڑے دئے، اس کو پناہ دی اور جو اس کے ساتھ ہوئے ظلم کی گواہ کے طور پر ٹکی رہی۔ گجرات میں خاص طور پر ایسے معاملوں میں گواہی پر ٹکے رہنا کوئی معمولی دل گردہ کی بات نہیں۔
قاتل سے بھاگتی بلقیس کو احمد آباد، بڑودا، ممبئی، لکھنؤ، دہلی میں جنہوں نے اپنے ساتھ رکھا، ان کو بھی یاد کیجئے۔ ان کو، جنہوں نے بلقیس کے انصاف کے لئے لڑنے کے حوصلے کو زندہ رکھا، اس کا ہاتھ تھاما اور بار بار خونیوں کی نگاہ کے سامنے سے اس کو عدالت کی دہلیز پار کرنے میں مدد کی۔یہ ضرور یاد رکھیے کہ نہ ان کا اس سے خون کا رشتہ تھا، نہ ذات کا اور نہ جو اس کے ہم مذہب ہی تھے۔ وہ لیکن خود کو اس کی ہم شہری مانتی تھی۔ انہوں نے انصاف کی اس جدو جہد میں صرف بلقیس کو اپنی شہریت برقرار رکھنے میں مدد نہ دی، اپنی شہریت ثابت کی اور اس کا حق ادا کیا۔
شہریت اکیلے نہیں، ساتھ حاصل کی جاتی ہے۔ قومیت بھی ایسے ہی رچی جاتی ہے۔آئین کی تمہید میں جو چوتھا اور اہم وعدہ ہے جو ہم ہندوستان کے لوگ خود سے کرتے ہیں ہندوستانیت دستیاب کرنے کے لئے وہ ہے بھائی چارہ حاصل کرنے کا۔ اس بھائی چارہ کے بغیر ہم باقی تین وعدے، آزادی، برابری اور انصاف حاصل کرنے کے پورے نہیں کر سکتے۔بلقیس نے جو ووٹ ڈالا ہے وہ کس کے لئے ہے، ہمیں معلوم نہیں، لیکن وہ یقینی طور پر اس کے خلاف ہے جس نے گجرات کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں ہونے کے باوجود بلقیس کے شہری حقوق کی حفاظت نہ کی۔ یہ چوک نہیں تھی، یہ اس کا ایک فیصلہ تھا۔ اس کو اس کی شرم نہیں کہ اس کی ریاست کے ایک باشندے کو کہنا پڑا کہ اس کو انصاف اس ریاست کی عدالت میں بھی نہیں مل سکتا، کہ وہ اس کو حفاظت کا احساس دلا نہ سکا اور جس نے اس کے انصاف کی تلاش میں اس کا ساتھ نہ دیا۔
بلقیس کا ووٹ ایسے حکمراں کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ ہے۔ یہ ہمارا امتحان ہے۔ ہم بلقیس کے ساتھ ہیں یا اس کو بےگھرکرنے والوں کے؟23 اپریل،2019 کے دن کو آنے میں وقت لگا ہے۔ ایک دن آئےگا جب اس کو پنڈتا راما بائی کے جنم دن کے ساتھ بلقیس بانو کے نام کو درج کیا جائےگا، جب ان دنوں تک پہنچنے کے سفر کی کہانی ہندوستان کے اسکول کی پولیٹکل سائنس اور ادب کی ہر کتاب میں ضروری سبق کے طور پر لکھی اور پڑھی جائےگی۔
جب ہماری آنے والی نسلیں اس کہانی کو پڑھیں تو ان کو گگن سیٹھی کی وہ اداس مسکراہٹ بھی یاد رہے کہ اور جانے کتنی بلقیس تھیں، جو اس انصاف کی راہ میں رہیں۔ وہ اس ہندوستانیت کی قیمت ہے جو ہماری ہے لیکن چکائی انہوں نے ہے جن کے نام ہم نہیں جانتے۔ہماری بچیوں اور ان کی بچیوں کو ایسی کتابیں ضرور ملیںگی۔ ہم ہندوستان کو ضرور واپس حاصل کر سکیںگے۔ ابھی تو ہمیں صرف یہ نعرہ لگانا ہے : بلقیس بانو زندہ آباد!
(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔)