سپریم کورٹ میں داخل عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اتر پردیش میں بی جےپی کی قیادت والی یوگی آدتیہ ناتھ سرکارمظاہرین کی جائیداد ضبط کرکے، سرکاری املاک کو ہوئے نقصان کا بدلہ لینے کے وزیر اعلیٰ کے وعدے پر آگے بڑھ رہی ہے تاکہ اقلیتی کمیونٹی سے سیاسی وجوہات کے لیے بدلہ لیا جا سکے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے اتر پردیش سرکار سے جمعہ کو اس عرضی پر جواب مانگا جس میں ریاست میں شہریت قانون (سی اےاے)کے خلاف احتجاج کے دوران سرکاری املاک کو ہوئے نقصان کی ادائیگی کے لیے مبینہ مظاہرین کو بھیجی گئی نوٹس کو رد کرنے کی گزارش کی گئی ہے۔جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس کے ایم جوزف کی بنچ نے ریاستی سرکار کو نوٹس جاری کرکے چار ہفتے کے اندر اپنا جواب دائر کرنے کی ہدایت دی ہے۔
عدالت اس عرضی پرشنوائی کر رہی تھی جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ اتر پردیش میں یہ نوٹس ایک شخص کے خلاف من مانے طریقے سے بھیجی گئی جس کی 94 کی عمر میں چھ سال پہلے موت ہو چکی ہے اور ساتھ ہی دودوسرے لوگوں کو بھی نوٹس بھیجے گئے جن کی عمر 90 سال سے زیادہ ہے۔معاملے میں عرضی گزاراور وکیل پرویز عارف ٹیٹو نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے ان نوٹس پر روک لگانے کی گزارش کی ہے کہ یہ ان افراد کو بھیجے گئے ہیں جن کے خلاف کسی اہتمام کے تحت معاملہ درج نہیں ہوا اور نہ ہی ان کے خلاف کسی ایف آئی آریا جرم کا ریکارڈ دستیاب کرایا گیا ہے۔
وکیل نیلوفرخان کے ذریعے دائر عرضی میں کہا گیا کہ یہ نوٹس 2010 میں دیے گئے الہ آبادہائی کورٹ کے فیصلے پر مبنی ہیں، جو 2009 میں عدالت کے ذریعےدیےگئے فیصلے کی ہدایات کی خلاف ورزی ہے۔ ان ہدایات کی2018 کے فیصلے میں دوبارہ تصدیق کی گئی تھی۔اس میں کہا گیا ہے، ‘تضادیہ ہے کہ سپریم کورٹ نے 2009 میں نقصان کےاندازے اورملزمین سے نقصان کی ادائیگی کی ذمہ داری ہر ریاست کے ہائی کورٹ کو سونپی تھی جبکہ الہ آباد ہائی کورٹ نے 2010 کے فیصلے میں ہدایات جاری کئے تھے کہ ریاستی سرکار کو نقصان کی ادائیگی کرنے سے متعلق کارروائی کا ذمہ لینے دیں، جس کے سنگین مفادہیں۔’
اس میں کہا گیا ہے، ‘عدالتی نگرانی/عدالتی سکیورٹی من مانی کارروائی کے خلاف سکیورٹی نظام کے برابر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بہت ممکن ہے کہ ریاست کی حکمراں پارٹی اپنی دشمنی نکالنے کے لیے سیاسی حریفوں یا پارٹی کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف اس کا استعمال کر سکتی ہے۔’ساتھ ہی اس عرضی میں اتر پردیش سرکار کے لیے ایسےمظاہرے کے دوران سرکاری املاک کو ہوئے نقصان کی ادائیگی کے لیے عدالت کے 2009 اور 2018 کی ہدایات کی پیروی کرنے کاحکم دینے کی بھی گزارش کی گئی ہے۔
اس میں اتر پردیش میں شہریت قانون (سی اےاے)اور این آرسی کے خلاف مظاہرے کے دوران ہوئے معاملوں کی آزادانہ جوڈیشیل جانچ کی مانگ کی گئی ہے جیسا کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے کیا ہے۔عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اتر پردیش میں بی جےپی قیادت والی یوگی آدتیہ ناتھ سرکار مظاہرین کی جائیداد ضبط کرکے،سرکاری املاک کو ہوئے نقصان کا بدلہ لینے کے وزیر اعلیٰ کے وعدے پر آگے بڑھ رہی ہے تاکہ اقلیتی کمیونٹی سے سیاسی وجہوں کے لیے بدلہ لیا جا سکے۔
اس میں الزام لگایا گیا ہے کہ اتر پردیش میں پرتشدد مظاہروں کے معاملے میں اب تک گرفتارتقریباً925 لوگوں کو تب تک آسانی سے ضمانت نہیں ملے گی جب تک کہ وہ نقصان کی ادائیگی نہیں کرتے کیونکہ انہیں رقم جمع کرانے کے بعد ہی مشروط ضمانت دی جائےگی۔عرضی میں الزام لگایا گیا ہے کہ اتر پردیش سرکار اور اس کی انتظامیہ جمہوری سرکار کے طور پر کام نہیں کر رہی، کیونکہ اس نے سی اےاے/این آرسی کے خلاف مظاہرین پر کارروائی کی۔ پولیس نے اتر پردیش حکومت کی ہدایات پربہت زیادہ طاقت کااستعمال کیا اور جوابدہی سے انکار کیا۔
سی اےاے مخالف مظاہرے کی تفصیل دیتے ہوئے عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اتر پردیش میں قانون کی کوئی حکومت نہیں رہ گئی ہے اورآئین کے تحت حاصل بنیادی حقوق کی پوری طرح سے خلاف ورزی ہو رہی ہے۔واضح ہو کہ پچھلے سال 20 دسمبر کو اتر پردیش میں فیروزآباد کے پولیس تھانہ (جنوبی) نے قریب 200 لوگوں کو بدامنی کے معاملے میں نامزد کیا تھا۔ اس میں ایک مرحوم شخص بنے خان کا نام شامل کر دیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ پولیس نے شہر کے کوٹلہ محلہ کے 93 سال کے فصاحت میر خان اور کوٹلہ پٹھان کے 90 سالہ صوفی انصار حسین کو بھی پولیس کی جانب سے نوٹس بھیجا گیا تھا۔اہل خانہ کا کہنا تھا کہ دونوں بزرگ اب بنا مدد کے چل پھر بھی نہیں سکتے ہیں۔فیروزآباد پولیس نے نامزد سبھی لوگوں کو دس لاکھ روپے کی ضمانت اور اتنی ہی رقم کا نجی مچلکہ داخل کرنے کے لیے نوٹس جاری کیا تھا۔
یہ گڑبڑی سامنے آنے کے بعد ایک داروغہ اور دو سپاہیوں کو لائن حاضر کر دیا گیا تھا۔اتنا ہی نہیں گزشتہ30 جنوری کو کانپور پولیس نے شہر کے 66 مظاہرین کو نوٹس بھیج کر دودو لاکھ روپے کا بانڈ بھرنے کی ہدایت دی ہے۔یہ نوٹس کانپور شہر کے محمد علی پارک میں خواتین کے احتجاج کے سلسلے میں جاری کی گئی ہے۔اس نوٹس کے بارے میں میں کانپور پولیس کا کہنا ہے کہ مردعورتوں کو نعرےبازی کے لیے بھڑکا سکتے ہیں یا پھر نظم ونسق کے لیے مسئلہ پیدا کر سکتے ہیں، اس لیے انہیں نوٹس بھیجا گیا ہے۔
اس بیچ بجنور کی ایک سیشن کورٹ نے پولیس کے دعووں کو خارج کرتے ہوئے تشدد میں مبینہ طور پر شامل کچھ لوگوں کو ضمانت دے دی۔ بجنور پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ مظاہرین نے تشددکے دوران پولیس پر گولی چلائی تھی۔فیصلہ دیتے ہوئے کورٹ نے کہا تھا کہ انہوں نے (پولیس) ایسا کوئی ثبوت نہیں دکھایا جس سے پتہ چلے کہ ملزم گولی باری یا آگ زنی میں شامل تھے یا پولیس نے ملزمین سے کوئی ہتھیار ضبط کیا ہو یا کوئی پولیس اہلکار گولی سے زخمی ہوا ہو۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)