انڈمان نکوبار کے ایک آزاد صحافی زبیر احمد نے ٹوئٹر پر مقامی انتظامیہ سے پوچھا تھا کہ کووڈ 19 کے مریض سے فون پر بات کرنے پر لوگوں کو کورنٹائن کیوں کیا جا رہا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ غلط جانکاری پھیلا رہے تھے۔
نئی دہلی: سرکار کے ذریعے پریس اورصحافیوں پر شکنجہ کسنے کے الزامات کے بیچ ایک صحافی کو غلط خبرپھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔معاملہ انڈمان نکوبار کا ہے، پولیس نے ایک آزاد صحافی کو ایک ٹوئٹ کی بنیادپر حراست میں لیا ہے، جہاں انہوں نے مقامی انتظامیہ کے ذریعےاپنائے جا رہے ‘عجیب’ کورنٹائن ضابطہ کے بارے میں سوال کیا تھا۔
گزشتہ 27 اپریل کو انڈمان میں کام کرنے والے زبیر احمد نے ٹوئٹر پر انڈمان انتظامیہ کو ٹیگ کرتے ہوئے سوال کیا تھا کہ جن لوگوں نے کووڈ 19 مریضوں سے صرف فون پر بات کی ہے، انہیں کورنٹائن کے لیے مجبور کیوں کیا جا رہا ہے۔
Can someone explain why families are placed under home quarantine for speaking over phone with Covid patients? @MediaRN_ANI @Andaman_Admin
— Zubair Ahmed (@zubairpbl) April 26, 2020
اس کے بعد پولیس نے زبیر پر انتظامیہ کے کووڈ 19 سے نپٹنے کے لیے کی جا رہی کوششوں میں خلل ڈالنے کے مقصد سے غلط جانکاری پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے ان پر کئی غیرضمانتی دفعات میں معاملہ درج کیا ہے۔انڈمان کے ڈی جی پی دیپیندر پاٹھک نے د ی وائر کو بتایا کہ زبیر نے اپنے ٹوئٹ میں کورنٹائن کے ضابطوں کو لےکر جو دعویٰ کیا ہے، وہ درست نہیں ہے۔
پورٹ بلیئر سے نکلنے والے اخبار دی انڈمان کرا نیکل کے مطابق، زبیر کو اس ٹوئٹ کی وجہ سے پوچھ تاچھ کے لیے بلایا گیا تھا۔ خبر کے مطابق ٹوئٹ کی بنیاد پر زبیر کو پولیس اسٹیشن بلایا گیا تھا اور پھر حراست میں لیا گیا۔زبیر ایک آزاد صحافی کے بطور کام کرتے ہیں اور اپنے بلاگ پر لکھتے ہیں۔ بلاگ کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس ریاست کی سیاست اورانتظامیہ کے تئیں تنقیدی رویہ رکھتے ہیں۔
ان کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے انڈمان نکوبار پولیس نے ایک بیان میں کہا ہے، ‘ایک خود اعلانیہ صحافی زبیر احمد کے خلاف اجتماعی ہم آہنگی میں خلل ڈالنے، سرکاری حکم کی خلاف ورزی اور عوامی طور پر ڈر پیدا کرنے کے لیے بھڑکاؤ، جھوٹے اور بھڑ کانے والے ٹوئٹ پوسٹ کرنے پر قانونی کارروائی کی گئی ہے… آروپی بیمبوفلیٹ علاقے کے رہنے والے ہیں، جہاں اکثر حصوں کو کو رونا کے کئی معاملے سامنے آنے کے بعد کنٹینمینٹ زون قرار دیا گیا ہے…’
‘تکلیف دہ سوال کرنے کی وجہ سےکیا گیا گرفتار’
زبیر احمد پر آئی پی سی کی دفعہ 188، 269، 270 اور 505 (1)کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ان پر ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ کی دفعہ 51 اور 54 کے تحت الزام بھی ہیں۔زبیر کو منگل کو ضمانت مل گئی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ انہیں ‘تکلیف دہ ’ سوال کرنے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔
دی پرنٹ کی رپورٹ کے مطابق، سوموار کی رات حراست میں لیے گئے زبیر کو منگل کو عبوری ضمانت مل گئی ہے، جس کے بعد انہوں نے کہا، ‘مقامی افسر ٹوئٹر پر سوالوں کا جواب تب تک دیتے ہیں جب تک وہ تکلیف دہ سوال کا سامنا نہیں کرتے۔ اگر آپ نے کوئی سوال پوچھا جو ان کی سہولیت کے مطابق نہیں ہیں تب وہ آپ پر افواہ پھیلانے کا الزام لگا دیتے ہیں۔’
زبیر نے یہ بھی کہا کہ پولیس نے پہلے انہیں ان کے کورنٹائن ضابطوں پر سوال والے ٹوئٹ کو لےکر ‘دھمکانے’ کی کوشش کی تھی۔وہ آگے کہتے ہیں، ‘ایسی خبریں تھیں کہ ان لوگوں کو بھی ہوم کورنٹائن میں رکھا جا رہا ہے جنہوں نے اپنے ان رشتہ داروں سے فون پر بات کی ہے جو کو رونا پازیٹو پائے گئے ہیں۔ لیکن یہ فیملی کسی بھی طرح مریض کے جسمانی رابطے میں نہیں آئے تھے، تب انہیں کورنٹائن میں کیوں رکھا جا رہا ہے؟’
انہوں نے بتایا کہ انہیں پہلے بیمبوفلیٹ تھانے لے جایا گیا اور پھر ابیردین۔ زبیر نے بتایا،‘ایسا لگ رہا تھا کہ وہاں سب مجھے گرفتار کرنے کو تیار تھے۔ ورنہ وہ ایک تھانے سے دوسرے تھانے میں پھیری میں کیوں لےکر جاتے ؟ مجھے ایک ریڈزون تھانے یعنی بیمبوفلیٹ، جو میرے گھر سے تقریباً چار کیلومیٹر دور ہے، سے ابیردین لے جایا گیا جو کنٹینمینٹ زون میں نہیں ہے۔’
انہوں نے آگے بتایا، ‘مجھ سے کہا گیا کہ ایس پی مجھ سے پوچھ تاچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ وہ اور کچھ نہیں، بس مجھے سبق سکھانا چاہتے تھے۔’حالانکہ اس سے پہلے بھی زبیر نے کوروناوائرس کو لےکر ٹوئٹ کیا تھا۔ 26 اپریل کو ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کووڈ 19 کے مریضوں سے اپیل کی تھی کہ وہ اپنےجاننے والوں کو کال نہ کریں کیونکہ فون کال کی بنیاد پر لوگوں کو کورنٹائن کیا جا رہا ہے۔
زبیر کا کہنا ہے کہ ان کا ٹوئٹ محض ایک سوال تھا، جو انہوں نے سرکار سے کیا تھا، کیونکہ انہوں نے ایسی میڈیا رپورٹ پڑھی تھی جہاں ایک کال کی بنیاد پر ایک فیملی کو 28 دنوں تک کورنٹائن کرنے کے بارے میں لکھا تھا۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے جب سوشل میڈیا پر سوال پوچھنے کو لےکر انہیں مقامی انتظامیہ کے ذریعے ‘نشانہ بناکر روکنے کی کوشش کی گئی۔
وہ آگے جوڑتے ہیں،‘وہ یہ بات نہیں سمجھتے ہیں کہ اگر وہ ایسا کرتے رہے تو لوگ کبھی کووڈ 19 کے ٹیسٹ کے لیے سامنے نہیں آئیں گے۔ ایسے میں وہ وائرس کو پھیلنے سے کیسے روکیں گے؟ فون کال کی بنیادپر لوگوں کو 28 دنوں تک کورنٹائن کرنے سے صرف ڈر پھیلےگا۔’انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں عدالت کی شنوائی کا کوئی سمن نہیں ملا ہے، لیکن ان کا فون پولس کے ذریعے ضبط کر لیا گیا ہے۔
پولیس نے گرفتاری کوصحیح ٹھہرایا
دی وائر سے بات کرتے ہوئے ریاست کے ڈی جی پی دیپیندر پاٹھک نے کہا کہ زبیر کے خلاف قانونی کارروائی اس لیے ہوئی کیونکہ وہ کووڈ 19 سے نپٹنے کے لیے کئے جا رہے انتظامیہ کی کوششوں کو لےکر غلط خبر پھیلا رہے تھے۔ان کے مطابق اس سےفرقہ وارانہ کشیدگی ہو سکتی تھی۔ انہوں نے کہا، ‘ہمارے کوششوں کو کچھ لوگوں کے ذریعے، جو ایک خاص کمیونٹی کو نشانہ بنانے کی بات کہہ رہے ہیں،خلل ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سے کمیونٹی کے بیچ ان بن ہو سکتی ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی۔’
انہوں نے یہ بھی جوڑا کہ ایسے جرائم کے لیے سرکاری حکام کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے فون کال کی بنیاد پر لوگوں کو کورنٹائن کرنے کی بات سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا نہیں ہوا ہے۔انتظامیہ سائنسی طریقے سے کانٹیکٹ ٹریسنگ کر رہی ہے۔ڈی جی پی نے یہ بھی کہا کہ زبیر کی گرفتاری کو بولنے اور اظہار رائے کی آزادی کی خلاف ورزی کی طرح نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ قانون کمیونٹی ، پیشہ اور جنس کی بنیاد پرفرق نہ کرتے ہوئے اپنے مطابق کام کرتا ہے۔