امیدواروں کے انتخاب کے لحاظ سے دیکھیں تو لالو کی غیر موجودگی میں کہیں سے ایسا نہیں لگا کہ تیجسوی کی قیادت میں کوئی نیا آر جے ڈی سامنے آ رہا ہے۔ ایک طرف سنگین جرم میں قصوروار قرار دئے گئے رہنماؤں کی بیویوں (سیوان اور نوادہ)کو ٹکٹ ملا تو دوسری طرف امیدواروں میں جوان چہرے تقریباً غائب رہے۔
فوٹو : تیجسوی یادو فیس بک پیج
منگل 2 اپریل کو وزیر اعظم نریندر مودی نے جموئی میں عوامی جلسہ کو خطاب کر کے بہار میں اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا۔ جموئی لوک سبھا حلقے سے مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان کے بیٹے اورایم پی چراغ پاسوان ایک بار پھر سے این ڈی اے کے امیدوار ہیں جبکہ مہاگٹھ بندھن میں یہ سیٹ اپیندر کشواہا کی رہنمائی والی آر ایل ایس پی کے کھاتے میں گئی ہے۔
نریندر مودی نے 2 اپریل کو ہی اپنا دوسرا عوامی جلسہ گیا میں کیا، جہاں سے بہار کے سابق وزیراعلیٰ جیتن رام مانجھی مہا گٹھ بندھن کے امیدوار ہیں۔ اس جلسہ میں بہار کے وزیراعلی نتیش کمار نے بھی نریندر مودی کے ساتھ منچ شیئر کیا اور اس طرح نتیش کمار نے بھی اپنی تشہیر کا آغاز کیا۔ راہل گاندھی اور امت شاہ صوبے میں پہلے ہی انتخابی تشہیر شروع کر چکے ہیں۔ تیجسوی قریب قریب ہر روز ایک ساتھ کئی جلسے کر رہے ہیں۔ اس طرح ہولی کے بعد ہی سہی بہار پر الیکشن کا رنگ بڑی تیزی سے چڑھ رہا ہے۔
اس کے پہلے ہولی کے بعد بہار میں دونوں اتحاد نے اپنے-اپنے امیدواروں کا اعلان کیا تھا۔ یہ کام جہاں این ڈی اے نے منظم طریقے سے کیا وہیں مہا گٹھ بندھن نے گرتےپڑتے کیا۔ مہا گٹھ بندھن ابھی تک اپنے 8 امیدواروں کا اعلان نہیں کر پایا ہے جبکہ این ڈی اے نے کھگڑیا کو چھوڑ کر اپنے سارے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے۔ ایسے میں آئیے دیکھتے ہیں کہ صوبے کے دونوں اہم اتحاد عوامی جلسے کے لحاظ سے اور امیدواروں کے اعلان کے بعد کتنے پانی میں اور کیوں ہیں؟
انتخابی لڑائی میں فی الحال دونوں اتحاد کی برابر کی حیثیت دکھائی دے رہی ہے۔ دونوں کا پلڑا یکساں دکھائی دے رہا ہے۔ سماجی مساوات کی بنیاد پر دیکھیں تو این ڈی اے نے قریب دو سال پہلے نتیش کمار کو اپنے ساتھ واپس جوڑکر اضافہ ضرور کیا تھا مگر وقت کے ساتھ مہاگٹھ بندھن نے جیتن رام مانجھی اور اپیندر کشواہا کو این ڈی اے سے توڑ کر اپنے ساتھ ملاکر اور پھر بالی ووڈ سیٹ ڈیزائنر سے رہنما بنے مکیش ساہنی کو اپنے ساتھ جوڑکر اس کی بھرپائی کرنے کی کوشش کی ہے۔ ساتھ ہی آر جے ڈی نے سی پی آئی-ایم ایل کے لئے ایک سیٹ چھوڑکر ایک حد تک بائیں بازو کی بھی حمایت حاصل کی ہے۔
اتحاد کے مظاہرے میں پچھڑا مہاگٹھ بندھن
گٹھ بندھن کے اندر سیٹ بٹوارے کے آئینے میں دیکھیں تو این ڈی اے نے اکتوبر میں ہی اس سمت میں عوامی طور پر اعلان کر لیڈ لینے کی کوشش کی تھی لیکن اس نے اعلان پہلے کیا تو اس کی اندرونی کھینچا تانی بھی پہلے سامنے آئی اور نتیجہ یہ ہوا کہ بیتے سال دسمبر میں بہار میں این ڈی اے ایک بار پھر تب ٹوٹا جب اپیندر کشواہا کی آر ایل ایس پی،این ڈی اے سے الگ ہو گئی۔ آر ایل ایس پی کے بعد رام ولاس پاسوان کی ایل جے پی نے بھی آنکھیں تریریں، مگر مول۔بھاؤکے بعد اپنے لئے 6 لوک سبھا اور 1 راجیہ سبھا سیٹ حاصل کر وہ این ڈی اے میں بنی رہی۔
اس کھینچ تان کے بعد مہا گٹھ بندھن کے پاس ایک بہتر تیاری کے ساتھ عوام کے سامنے آنے کا موقع تھا۔ اگر وہ وقت پر، پوری یکجہتی دکھاتے ہوئے ایک ساتھ اپنے تمام امیدواروں کا اعلان کرتے تو وہ اپنی ایسی امیج پیش کر سکتے تھے۔ لیکن ایسا ہوا نہیں اور اس کی اتحادی پارٹیوں نے گرتےپڑتے سیٹوں اور امیدواروں کا اعلان کیا۔ ابھی تک8 سیٹوں پر اس کے امیدواروں کا نام طے ہونا باقی ہے۔ مجموعی طور پر دیکھیں تو این ڈی اے نے اتحاد بنانے، سیٹ بٹوارے سے لےکر امیدواروں کے اعلان کرنے میں بہار سمیت پورے ملک میں بہتر تیاری دکھائی ہے۔ بی جے پی اس معاملے میں زیادہ کشادہ دل اور مصلحت پسند دکھی۔ اس معاملے میں اپوزیشن پورے ملک سمیت بہار میں بھی پچھڑا۔
‘ تیسرے’ کی موجودگی نے بڑھائی فکر
جہاں تک سیٹ بٹوارے اور امیدواروں کے اعلان کے بعد رہنماؤں کی بغاوت کی بات ہے تو دونوں اتحاد کو تھوڑا بہت اس سے جوجھنا پڑ رہا ہے۔ این ڈی اے کو بیگوسرائے، پٹنہ صاحب، بانکا، کٹیہار جیسی سیٹوں پر اس سے دو-چار ہونا پڑا تو وہیں مہاگٹھ بندھن کے سامنے دربھنگہ، کھگڑیا، شیوہر، اورنگ آباد، سیتامڑھی میں ایسے چیلنج پیش آئے۔ لیکن انتخاب کے ماحول میں ایسی ناراضگی اور توقعات کا سامنے آنا فطری ہے اور اتحاد کے دور میں اس کو پورا کرنا کسی بھی پارٹی یا اتحاد کے لئے ممکن نہیں ہے۔
وہی انتخابی میدان میں کچھ سیٹوں پر ‘ تیسرے’ کی موجودگی نے بھی دونوں اتحاد کی فکر بڑھائی ہے۔ بیگوسرائے میں سی پی آئی سے کنہیا کمار جہاں دونوں اتحاد کو چیلنج دے رہے ہیں۔ بانکا میں بی جے پی خاتون رہنما اور سابق رکن پارلیامان پتل کماری اتحاد کے ذریعے امیدوار نہیں بنائے جانے کی وجہ سے آزاد امید وار کے طور پرمیدان میں ہیں اور اس سے این ڈی اے امیدوار کی پریشانی بڑھی ہے۔ اسی طرح مدھےپورہ سے پپو یادو نے وہاں کی لڑائی کو سہ طرفہ بنا دیا ہے جبکہ جہان آباد سے موجودہ ایم پی ارون کمار کا این ڈی اے سے الگ ہوکر انتخاب لڑنا وہاں کے جے ڈی یو امیدوار کے لئے مشکلیں کھڑی کرےگا۔ اسی طرح دربھنگہ، مدھوبنی، کھگڑیا، شیوہر، سیتامڑھی، بیتیا سیٹوں پر بھی سہ طرفہ مقابلے کا امکان ہے مگر پوری تصویر نامزدگی کے بعد صاف ہوگی۔
کس پارٹی نے کس کو اپنایا، کس کو چھوڑا
اب یہ دیکھا جائے کہ کس اتحاد نے کس کمیونٹی کو کس طرح سے سادھنے کی کوشش کی ہے اور اس کا کیا اثر ابھی دکھائی دے رہا ہے۔ مانا جاتا ہے کہ اشرافیہ کہی جانے والی ذاتوں کی حمایت بڑے پیمانے پر حال کے سالوں یا دہائیوں میں بی جے پی کو ملی ہے۔ بہار میں ان ذاتوں میں بھومی ہار ذات سب سے بیباک مانی جاتی ہے مگر بی جے پی نے اس بار محض ایک بھومی ہار امیدوار گریراج سنگھ کو میدان میں اتارا ہے جبکہ اس نے راجپوت سے پانچ اور دو برہمن امیدوار اتارے ہیں۔ ایسے میں زمینی حالات بتاتے ہیں کہ ابھی بھومی ہار بی جے پی سے تھوڑے ناراض چل رہے ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ گریراج سنگھ کے بیگوسرائے سے انتخاب لڑنے میں شروعاتی عدمِ دلچسپی کی ایک وجہ ان کی کمیونٹی کی یہ ناراضگی بھی رہی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بیگوسرائے اور مونگیر جن سیٹوں پر بھومی ہار امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے وہاں این ڈی اے کو دقت ہو سکتی ہے۔
وہیں بی جے پی نے ایک بھی امیدوار کشواہا (کوئری) کمیونٹی سے نہیں دیا ہے جو کہ پسماندہ طبقے سے آنے والی ذاتوں میں یادو کے بعد سب سے زیادہ آبادی والی کمیونٹی ہے۔ اپیندر کشواہا کے بی جے پی سے الگ ہو جانے کی حالت میں بی جے پی کا یہ فیصلہ کوئری کمیونٹی کو این ڈی اے سے اور دور کر سکتا ہے۔ حالانکہ جے ڈی یو نے کشواہا (کوئری) کمیونٹی سے تین امیدوار دئے ہیں لیکن اس پر بڑا سوالیہ نشان ہے کہ اپیندر کشواہا کے الگ ہونے کے بعد نتیش کے نام پر کشواہا این ڈی اے کے ساتھ پہلے کی طرح بنے رہیںگے۔
گزشتہ سال کانگریس نے مدن موہن جھا کے طور پر جب ایک برہمن کو بہار ریاستی صدر بنایا تھا تو تب اسے اشرافیہ ووٹروں کی پھر سے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کے طور پر بھی دیکھا گیا تھا۔ مگر کانگریس کو سیٹ بٹوارے میں اتنی سیٹ ہی نہیں ملی ہے کہ وہ بڑی تعداد میں اشرافیہ امیدوار اتارکر بی جے پی کا بڑا حامی طبقہ مانے جانے والے اشرافیہ رائےدہندگان میں سیندھ لگا سکے۔ برہمن کو ریاستی صدر بنانے والی پارٹی کا حال یہ ہے کہ وہ اب تک ایک بھی برہمن کو ٹکٹ نہیں دے پائی ہے۔ مدن موہن جھا جس متھلانچل کے حلقے سے آتے ہیں اور جہاں میتھلی برہمن عام طور پر تمام سیٹوں پر اثر رکھتے ہیں اور کچھ سیٹوں پر فیصلہ کن ہوتے ہیں، اس حلقے میں بھی کانگریس سمیت مہاگٹھ بندھن کی کسی جماعت نے کوئی برہمن امیدوار نہیں دیا ہے۔
اب بات آر جے ڈی کی
امیدواروں کے انتخاب کے لحاظ سے دیکھیں تو لالو کی غیر موجودگی میں کہیں سے ایسا نہیں لگا کہ تیجسوی کی قیادت میں کوئی نیا آر جے ڈی سامنے آ رہا ہے۔ ایک طرف سنگین جرم میں قصوروار قرار دئے گئے رہنماؤں کی بیویوں (سیوان اور نوادہ)کو ٹکٹ ملا تو دوسری طرف امیدواروں میں جوان چہرے تقریباً غائب رہے۔ اپنی پرانی سوچ-سمجھ اور حکمت عملی کے تحت ہی اس بار بھی آر جے ڈی نے اپنے کھاتے میں آئی قریب آدھی سیٹوں پر یادو امیدوار اتارے ہیں۔ اپنے کھاتے کی 20 سیٹوں میں سے اس نے 9 سیٹوں پر (آرا سیٹ پر حمایت سمیت)یادو ہی امیدوار اتارے ہیں۔
کدھر جائیںگی غیریادو پسماندہ کمیونٹی
بہار میں گزشتہ کچھ اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات (2015 کے اسمبلی انتخاب کو چھوڑ) میں آر جے ڈی کے خلاف غیریادویعنی پسماندہ کمیونٹی کی صف بندی ہوتی رہی ہے جس کے مرکز میں نتیش کمار رہے ہیں۔ لالو یادو کے پاس اس بار اس پولرائزیشن کو روکنے کا موقع تھا کیونکہ وہ اقتدار میں نہیں ہیں اور جیل جانے کی وجہ سے لالو کے تئیں ہمدردی بھی ہے۔ ان سب باتوں کو اپنی حمایت میں منظم کرنے کے لیے لالو کے پاس موقع تھا لیکن یہ کام محض نعروں اور تقریروں سے ممکن نہیں ہے۔ اس کے لئے آر جے ڈی کو انتخاب سمیت پوری پارٹی میں غیریادو پسماندہ اور مہا دلتوں کو مناسب نمائندگی دینے کی ضرورت پڑتی۔ فی الحال یادو کمیونٹی کی امیدواری کم کرکے اور غیریادو پسماندہ اورمہادلت کو زیادہ ٹکٹ دےکر لالو ایسا کر سکتے تھے۔ مگر لگتا ہے کہ اس میں وہ چوک گئے۔ اس بڑے طبقے سے محض ایک امیدوار کو انہوں نے بھاگلپور سے ٹکٹ دیا ہے اور اس بڑے اور فیصلہ کن طبقے کو نمائندگی دینے کی پوری ذمہ داری اپنی معاون جماعت پر ڈال دی ہے۔ آر جے ڈی کی معاون جماعت کل ملاکر زیادہ سے زیادہ دس سیٹوں (اب تک پانچ سیٹ)پر غیریادو پسماندہ مہادلت طبقے کے امیدواروں کو ٹکٹ دینے کی حالت میں ہیں جبکہ این ڈی اے نے اس بڑے طبقے سے سات مہادلت امیدواروں سمیت 14 کو امیدوار بنایا ہے۔
اس سب کے بعد بھی ایسا مانا جا رہا ہے کہ امیدواروں کے انتخاب میں مہاگٹھ بندھن نے احتیاط اور سمجھداری کا ثبوت دےکر مقابلے کو برابری پر لا دیا تھا۔ ملاحوں کی مہادلتوں میں بڑی آبادی مانی جاتی ہے اور وی آئی پی پارٹی صدر مکیش سہنی ابھی اس کے بڑے رہنما کے طور پر ابھرے ہیں۔ یوں تو اس کمیونٹی کی آبادی یادو کی طرح تقریباً پورے بہار میں ہے مگر مظفرپور، کھگڑیا، سمستی پور، بھاگلپور، دربھنگہ، مدھوبنی جیسے علاقوں میں یہ انتخاب میں اہم کردار نبھاتے ہیں۔ ایسے میں مکیش سہنی سمیت ملاح کمیونٹی کے دو امیدوار اتارے جانے سے اس بڑی کمیونٹی کی اس بار حمایت مہاگٹھ بندھن کو ملنے کی بات کہی جا رہی ہے۔ غور طلب ہے کہ اس کمیونٹی نے 2014 میں بڑے پیمانے پر این ڈی اے کے لئے ووٹ کیا تھا۔
اسی طرح مہاگٹھ بندھن کے ذریعے راجپوتوں کا گڑھ کہے جانے والے اورنگ آباد اور نتیش کمار کے آبائی ضلع نالندہ کی سیٹ پر مہا دلت طبقے کے امیدواروں کو اتارکر بھی اس بڑی اور فیصلہ کن کمیونٹی کو پیغام دینے کا کام لیا ہے۔
انتخابی تشہیر
جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے انتخابی تیاری کے لحاظ سے بی جے پی آگے دکھائی دے رہی ہے، چاہے معاملہ تیاری، وسائل، کارکنان کا ہو یا اسٹار مبلغین کا۔ لالو یادو کے جیل میں ہونے کی وجہ سے مہاگٹھ بندھن کے سامنے اسٹار مبلغین کی کمی رہےگی۔ مہاگٹھ بندھن سے منسلک جماعتوں کے ہر اول رہنما کو چھوڑ کر ان کا کوئی رہنما شاید ہی عوام کے درمیان خاص کشش رکھتا ہو۔ شتروگھن سنہا کا کانگریس میں شامل ہونا مہاگٹھ بندھن کو ایک اسٹار مبلغ دے سکتا ہے مگر ابھی یہ صاف نہیں ہے کہ وہ پوری ریاست میں کتنے فعال ہوںگے۔ وہیں این ڈی اے کے پاس نریندر مودی اور نتیش کمار کی رہنمائی میں مقبول عام مبلغین کی لمبی لسٹ ہے۔
(منیش شانڈلیہ پٹنہ میں مقیم آزاد صحافی اور مترجم ہیں۔)