کشمیرقومی شاہرا ہ پربندش: عصبیت کی بدترین مثال

ہندوستان کی موجودہ قیادت بھی فی الحال کشمیر میں ظلم و جبر کے ہتھیار کا استعمال کرکے اس کو انتخابات میں بھنارہی ہے۔ کشمیریو ں کو اپنے ہی خطہ میں اپنی ہی راہوں سے بیگانہ کروانا ، سفری عصبیت کا بدترین مظاہرہ ہے۔

ہندوستان  کی موجودہ قیادت بھی فی الحال کشمیر میں ظلم و جبر کے ہتھیار کا استعمال کرکے اس کو انتخابات میں بھنارہی ہے۔ کشمیریو ں کو اپنے ہی خطہ میں اپنی ہی راہوں سے بیگانہ کروانا ، سفری عصبیت کا بدترین مظاہرہ ہے۔

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

سیاسی کارکن، مؤرخ اور قلمکار آنجہانی بلراج پوری کے بقول کشمیری پنڈتوں کے ایک وفد نے ڈوگرہ مہاراجہ رنبیر سنگھ(1856-1885)کے دربار میں فریادکی  کہ ان کی کمیونٹی کو آخر فوج میں بھرتی کیوں نہیں کیا جاتا ہے؟ڈوگرہ فوج میں راجپوت، جاٹ یا پنجابی برہمن ہی اکثر بطور سپاہی بھرتی کئے جاتے تھے۔فریاد سن کر مہاراجہ نے فوجی سربراہ کے نام کشمیر ی پنڈتوں پرمشتمل ایک بٹا لین قائم کرنے کا حکم نامہ جاری کیا۔ سرینگر کی بادامی باغ چھاؤنی میں جہاں آجکل ہندوستانی فوج کی 15ویں کور کا ہیڈکوارٹر ہے، اس بٹالین کی پریڈ و حرب و ضرب استعمال کرنے کی ٹریننگ شروع ہوئی۔تربیت مکمل کرنے کے بعد بٹالین کو حکم ہوا کہ مارچ کرکے ڈوگرہ فوج کے ہیڈکوارٹر ادھمپور میں رپورٹ کریں۔

بانہال پاس، بٹوٹ کے بلند و بالا پہاڑوں ، خونی نالہ ا ور شیطان نالہ کے درو ں سے گزرتی یہ قومی شاہراہ آج بھی پر خطر ہے۔ اس زمانے میں اس شاہراہ پر نہتے مسافروں و لاریوں کو لوٹنے کی وارداتیں بھی ہوتی تھیں۔ملٹری حکم کے باوجود بادامی باغ چھاونی سے بٹالین نے کوئی حرکت نہیں کی۔ کئی یاداشتوں کے بعد بھی جب فوج نے مارچ نہیں کیا، تو ان سے وضاحت طلب کی گئی۔بلراج پوری کے مطابق بٹالین کمانڈر کا جواب آیا ’’کہ کئی ماہ سے وہ پولیس کو درخواست دے رہے ہیں، کہ بٹالین کو مارچ کے دوران تحفظ فراہم کرایا جائے، مگر پولیس کوئی جواب نہیں دے رہی ہے۔ بٹالین مارچ کرنے کے لیے تیار ہے، مگر اس کی حفاظت کے لیے خاطر خواہ انتظامات کے لیے پولیس کو حکم دیا جائے۔ ‘‘ فوجی سربراہ نے یہ وضاحت مہاراجہ کے گوش گزار کی، جس نے فی الفور اس بٹالین کو تحلیل کرنے کا فرمان جاری کیا۔

بالکل اسی طرز پر جمو ں و کشمیر کی گورنر انتظامیہ نے جموں –سرینگر-بارہمولہ قومی شاہراہ پر ہفتے میں د و دن یعنی اتوار اور بدھ کو سیولین ٹریفک و نقل و حمل پر پابندی عائد کر کے یہ ثابت کردیا، کہ سیکورٹی فورسز جن کا کام ہی سیولین آبادی کو تحفظ دینا ہے، خو د ہی کس قدر عدم تحفظ کا شکار ہے۔ اس تغلقی فرمان کے کارندوں کا کہنا ہے کہ یہ قدم پلوامہ جیسے سانحہ کے سدباب کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ اب ہفتے میں دو دن صرف سیکورٹی فورسز ہی اس شاہرا ہ کو استعمال کریں گی۔ جب اس آمرانہ حکم کے خلاف ہمہ گیر پیمانے پر ردعمل سامنے آیا ، تو نئی دہلی میں وزارت داخلہ کے ایک افسر نے بیان داغا کہ چند شورش پسند عناصر افواہیں پھیلا رہے ہیں۔ ان کا کہناتھا کہ سولین نقل و حمل کے لیے دیگر متبادل راستے اور ان کے بقول پرانی قومی شاہراہ کھلی ہے ، جس کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دہلی منتقل ہونے سے قبل میں نے کشمیر میں ہی بچپن اور کالج کے ایام گزارے ہیں ۔

اس پرانی قومی شاہراہ کی دریافت کب ہوئی؟ کس قریہ یا قصبہ سے ہوکر گزرتی ہے کسی کو اس کے بارے میں علم نہیں ہے۔ کشمیر میں توسرینگر -مظفر آباد-راولپنڈی روڑ کو ہی پرانی قومی شاہراہ کہا جاتا ہے۔ کیا ہندوستانی  وزارت داخلہ اسی شاہراہ کو استعمال کرنے کی ترغیب دے رہی تھی؟ وادی کشمیر کے اکثر علاقوں کو ہی نہیں بلکہ ڈوڈہ و رام بن اضلاع کے قریوں کو جوڑنے کیلئے بھی بس یہی ایک شاہرا ہ ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے دورہ کے دوران میں نے دیکھا ہے کہ یروشلم یا القدس اور اور بحیرہ مردار کے درمیان جو علاقے فلسطینی علاقے مغربی کنارہ کی بارڈر پر ہیں، وہاں عام شاہرا ہ پر فلسطینیوں کو سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ سفری عصبیت کے اس ننگے اور بدترین مظاہرے کے باوجود اسرائیلیوں نے کم از کم فلسطینیوں کے لئے متبادل شاہراہیں تعمیر کی ہیں۔ کشمیر میں تو قاضی گنڈ سے سرینگر یا بارہمولہ ، سوپور اور کپواڑہ جانے کے لیے اس راستے کو استعمال کئے بغیر کوئی اورچارہ ہی نہیں ہے۔

گزشتہ  بدھ کو جس دن یہ راستہ سولین ٹریفک کے لیے بند تھا، ایمرجنسی ڈیوٹی دینے کے لیے ایک ڈاکٹر کو سرینگر سے سوپور تک تقریباً50کلومیٹر کا سفر سائیکل پر طے کرنا پڑا۔ جبکہ یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ میڈیکل ایمرجنسی اور دیگر کئی ضروری معاملات پر اس فیصلے کا اطلاق نہیں ہوگا ۔ایمر جنسی کی نوعیت کا فیصلہ کرنے کے لیے مجسٹریٹوں کو تعینات کیا گیا ہے۔ اننت ناگ سے ڈوڈہ جانے کے لیے ایک دولہا کو 12افراد بذریعہ قومی شاہراہ بارات میں لیجانے کے لیے باضابطہ سرکاری حکم نامہ لانا پڑا۔ کئی جگہوں پر مجسٹریٹوں نے کاغذ کے بجائے شاہراہ استعمال کرنے کی راہداری کا اجازت نامہ مع مہر و دستخط سائل کے ہاتھ پر ہی ثبت کیا۔ صرف جیلوں میں ہی اب تک ملاقاتیوں اور قیدیوں کی شناخت کے لیے بازو یا ہاتھ پر مہر لگائی جاتی تھی، کہ کہیں اجازت نامہ کسی اور کو منتقل نہ ہو جائے۔

سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی حکومت سے یہ سوال کیا کہ، کیا اتوار اور بدھ کے علاوہ ہفتے کے باقی پانچ دن ایسے حفاظتی انتظامات کی ضرورت نہیں ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے، جس نے یقینی طور پر حکومت کو لاجواب کردیا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو مشکلات درپیش آرہی ہیں۔ خاص کر ملازم طبقہ، جنہیں وقت کی پابندی کے ساتھ نوکریوں پر حاضر ہونا لازمی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تجارت پیشہ لوگوں کو زبردست مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور اس پابندی سے کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے جو پہلے ہی کشمیر کی کی بگڑی ہوئی معیشت کے لئے مزید بگاڑ کا سبب بن سکتا ہے ، جبکہ سرینگر جموں شاہراہ کی حالت انتہائی خراب ہے اور موسم کی معمولی خرابی کی وجہ سے کئی کئی دونوں تک شاہراہ پر ٹریفک کی آمد و رفت بند ہونا ایک معمول بن گیا ہے ۔ ایک سابق فوجی سربراہ جنرل وید پرکاش ملک نے بھی فیصلے کو ‘احمقا نہ’ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا فیصلہ عوام کے دلوں کو جیتنے کے بنیادی ایجنڈے کی خلاف ورزی ہے، جو کبھی بھی سود مند نہیں ہوسکتا۔مگر مودی حکومت جس طرح انتخابات میں کشمیریوں پر سختی اور پاکستان کا استعمال کرکے قوم پرستی کا ہواکھڑا کرکے ووٹ بٹورنے میں مصروف ہے، شاید ہی کوئی اس سابق فوجی افسر کی بات پر دھیان دیگا۔

ویسے بھی دہائیوں سے کشمیر میں عوام کو ہی سیکورٹی فورسز کی کانوائیوں کو تحفظ دینے کے لیے زبردستی ڈیوٹی پر لگایا جاتارہا ہے۔ یہ وبا خاص طور پر 1990ء سے2003ء تک شمالی کشمیر کے گاؤں و قصبوں میں عام تھی۔ مجھے یاد ہے کہ دیہاتوں میں حتیٰ کہ معزز اور معمر افراد کو بھی رات کے تین بجے ہاتھوں میں لالٹین لے کر مقررہ مقام پر جمع ہونا پڑتا تھا۔ گاؤں کے ایک سرے سے شروع کرکے ہر گھر سے ایک فرد کو اپنی باری پر حاضر ہوناپڑتاتھا۔ گاؤں جس قدر بڑا یا چھوٹا ہو تا تھا اسی قدر دیہی باشندوں کی باری جلدی یا دیر سے آیا کرتی تھی۔اس آپریشن کا نام ‘کانوائے ڈیوٹی’ رکھا گیا تھا۔ پروگرام کے مطابق آدھی رات یا صبح کے تین بجے پہلے سے مقررہ مختلف مقامات پر برلب سڑک لگ بھگ 200افراد ایک ہاتھ میں لمبا ڈنڈا اور دوسرے ہاتھ میں لالٹین لے کر فوجی پارٹی کا انتظار کرتے تھے۔کشمیر اسمبلی کے ممبر انجینئر رشید، جنہیں خود یہ کانوائے ڈیوٹی دینے کےلیے 13سال تک مجبور کیا گیا، کہتے ہیں کہ لنگیٹ تحصیل میں واقع ان کے گاؤں کا کوئی بھی گھرسوائے سرکاری بندوق برداروں کے ‘کانوائے ڈیوٹی’سے مستثنیٰ نہیں تھا۔

سڑک کے دونوں طرف گندی نالی ہو یا کوئی کھیت کھلیان ، جنگل ہو یا قبرستان ،باریک بینی سے کھوج لگانی پڑتی تھی کہ کہیں جنگجوؤں نے بارودی سرنگ تو بچھا کے نہ رکھی ہے۔ ایسا شاید دنیا کے کسی بھی خطہ میں نہیں ہوتا ہو گا کہ وردی پوش جس کا کام ہرحال میں شہریوں کی حفاظت کرناہوتاہے ، اپنی حفاظت کے لئے اْلٹا بدنصیب شہریوں کو ہی اپنے آگے انسانی ڈھال کے طور استعمال کرے۔بہرحال ہرگاؤں کی’کانوائے ڈیوٹی’والا قافلہ ہتھیار بند پارٹی کو اپنے اگلے نزدیک ترین گاؤں تک رہنمائی کرتا اور پھر وہاں اْس گاؤں کا بدنصیب قافلہ اہلکاروں کی حفاظت کے لئے ذمہ داری سنبھال لیتا۔ اس طرح یہ سلسلہ لگ بھگ 20دیہی بستی سے ہوتا ہوا علاقے کے آخری گاؤں تک جاملتا تھا۔ ۔ فوجی کانوائے جونہی گزرجاتی تودیہاتیوں کی جان میں جان آتی۔ان کی شامت تب آتی جب کبھی کانوائے راستے میں کسی حادثے یا جنگجوؤں کے حملے کی وجہ سے دیر تک نمودار نہیں ہوتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ برلب سڑک وہ لرزتے ہاتھ، اللہ سے بس کانوائے کے صحیح سلامت گزرنے کی تمنا کرتے ، تاکہ ان کی گلو خلاصی ہوجائے۔ اگر بانہال سے لے کر ہندوارہ تک کسی جگہ آرمی کانوائے کے اوپر کوئی معمولی سا بھی پتھر پھینکا جاتا تھا تو نزلہ ان دیہاتیوں پر گرایا جاتا تھا۔

اندازہ لگائے کہ اگر کبھی کانوائے شام گئے دیر تک شکل نہ دکھاتی تو اس دن جن گھرانوں کا کوئی فرد ’کانوائے ڈیوٹی‘ پر تعینات ہوتا اس کے اہل خانہ پر کیا گزرتی تھی ۔ ڈیوٹی بس یہیں ختم نہیں ہوتی۔ واپسی پر اس گروپ کو اپنے گاؤں کی فوجی پوسٹ پر حاضری دینی ہوتی تھی۔ اس کے بعد اگر متعلقہ فوجی افسر کا موڈ ٹھیک ٹھاک ہوتا اور گرد ونوا ح میں جنگجوؤں کی موجودگی کا خطرہ بھی نہ ہوتا تو بیگار پر گئے بدنصیب دیہاتیوں کو صبح کا ناشتہ کرنے کے لئے آدھے گھنٹے کے لئے گھرجانے کی اجازت ملتی تھی، مگر کیمپ میں اپنے شناختی کارڈ جمع کروانے ہوتے تھے۔ ناشتے کے بعد کوئی حوالدار لوگوں کو مختلف ٹکریوں میں بانٹ کر مختلف کام انجام دینے کے لئے ڈیپوٹ کردیتا تھا۔ اگر علاقے میں جنگجوؤں کی موجودگی یا ان کے حملے کاذرہ بھر بھی خدشہ ہوتا تو پھر گاؤں کے آرمی پوسٹ پر موجود جوانوں کے اردگرد پورے دن چاق وچوبند رہ کر پہراہ دینا پڑتاتھا۔

جموں وکشمیر کے طول وعرض میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران ایسے لاتعداد المناک واقعات رونما ہوئے ہیں جنہیں بیان کرنے یا ضبط تحریر میں لانے سے زبان اورقلم کوخوف کی آندھیوں کا سامناکرناپڑتاہے ، عالمی میڈیا تو دور کی بات، بھارت و پاکستان کے میڈیا میں بھی کشمیر میں شورش کے حوالے سے اور دیہاتو ں میں عام آبادی کے کرب پر بہت کم رپورٹنگ ہوئی ہے۔ یہ خط بہت سے سربستہ رازوں کو اگلنے کے لیے کسی تفتیشی مصنف و صحافی کا منتظر ہے۔ ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد سیکورٹی فورسز کو بدنام کرنا ہے نہ ہی ان کے حوصلوں کو پست کر نا ہے۔ جموں اورکشمیر کے دیرینہ حل طلب مسئلے کے حوالے سے جو قہر ڈھائے گئے ہیں، اس کی زیادہ تر ذمہ داری سیاسی قیادت پر ہے۔فورسز نے سیاسی قیادت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے کشمیر ی عوام کے ساتھ جو کچھ بھی کیا، اس کے نزدیک وہ قومی مفادکے لئے کرنا ناگزیر تھا۔ہندوستان  کی موجودہ قیادت بھی فی الحال کشمیر میں ظلم و جبر کے ہتھیار کا استعمال کرکے اس کو انتخابات میں بھنارہی ہے۔ کشمیریو ں کو اپنے ہی خطہ میں اپنی ہی راہوں سے بیگانہ کروانا ، سفری عصبیت کا بدترین مظاہرہ ہے۔

(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اوران کا کالم بدھ کے روز شائع ہوتا ہے۔ پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔)