ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ہندوستان میں ہونے والی ‘بلڈوزر’کارروائیوں کے بارے میں دو رپورٹ جاری کرتے ہوئےمسلمانوں کے گھروں، کاروباروں اور عبادت گاہوں کی بڑے پیمانے پر اور غیر قانونی مسماری کو فوراً روکنے کی اپیل کی ہے۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی مقتدرہ مدھیہ پردیش میں ‘سزا کے طور پر’ سب سے زیادہ 56 بلڈوزر کارروائیاں ہوئیں۔
جولائی 2023 میں ہریانہ کے نوح میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد علاقے میں ہوئی بلڈوزر کارروائی۔ (تصویر: دی وائر)
نئی دہلی: انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ہندوستان میں مسلمانوں کے گھروں، کاروباروں اور عبادت گاہوں کی بڑے پیمانے پر اور غیر قانونی مسماری کو فوری طور پر روکنے کی اپیل کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، تنظیم نے بدھ (7 فروری) کو دو رپورٹ – ‘اف یو اسپیک اپ،یور ہاؤس ول بی ڈیمالشڈ: بلڈوزر ان جسٹس ان انڈیا’ (اگر آپ آواز اٹھائیں گے تو آپ کا گھر گرا دیا جائے گا: بھارت میں بلڈوزر ناانصافی ) اور ‘ان اردنگ اکاؤنٹبلٹی: جے سی بیز رول اینڈ رسپانسبلٹی ان بلڈوزر ان جسٹس ان انڈیا’ (ہندوستان میں بلڈوزر ناانصافی میں جے سی بی کا کردار اور ذمہ داری) جاری کی ہیں۔
رپورٹ میں ہندوستان کی کم از کم پانچ ریاستوں میں جے سی بی—برانڈ کے بلڈوزر کا استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کی جائیداد کو سزا کے طور پر مسمار کرنے کی کارروائیوں کو درج کرتے ہوئے اسے ‘اقلیتی برادری کے خلاف نفرت انگیز مہم’ قرار دیا گیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سکریٹری جنرل اگنیس کیلامارڈ نے شدیدتشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ‘ہندوستانی حکام کی جانب سے مسلمانوں کی جائیدادوں کی غیر قانونی مسماری جسے ‘بلڈوزر جسٹس’ کہا جاتا ہے، سفاک اور خوفناک ہے۔ اس طرح کی نقل مکانی اور بے دخلی انتہائی غیر منصفانہ، غیر قانونی اور امتیازی ہے۔ وہ خاندانوں کو تباہ کر رہے ہیں اور انہیں فوراً رکنا چاہیے۔
تنظیم نے ایک پریس نوٹ جاری کرتے ہوئے حکومت سے اپیل کی کہ وہ ‘ماورائے عدالت سزا کے طور پر لوگوں کے مکانات کو گرانے کے چلن کو فوراً روکیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ جبری بے دخلی کی وجہ سے کوئی بھی بے گھر نہ ہو۔’ اس کے ساتھ ہی تنظیم نے کہا ہے کہ انہدام کی کارروائیوں سے متاثر ہونے والے تمام لوگوں کو مناسب معاوضہ دیا جانا چاہیے۔
ایمنسٹی کی تحقیقات کے مطابق، اپریل اور جون 2022 کے درمیان پانچ ریاستوں میں سرکاری افسران نے فرقہ وارانہ تشدد یا امتیازی سلوک کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے بعد ‘سزا’ کے طور پر بلڈوزر کی کارروائیاں کیں۔
رپورٹ میں جن 128 واقعات کی تفصیلات دی گئی ہیں، ان میں سے کم از کم 33 ایسے واقعات ہیں جن میں جے سی بی کمپنی کے بلڈوزر استعمال کیے گئے۔ بتایا گیا ہے کہ ان کارروائیوں کی وجہ سے 617 افراد متاثر ہوئے، جو یا تو بے گھر ہوگئے یا اپنی روزی روٹی سے محروم ہوگئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی مقتدرہ مدھیہ پردیش میں ‘سزا کے طور پر’ سب سے زیادہ 56 بلڈوزر کارروائیاں کی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق، اکثر غیر قانونی تعمیرات کو ہٹانے کی آڑ میں کی جانے والی کارروائی اور مسماری قومی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون میں مذکور مناسب عمل کی خلاف ورزی میں ہوتی ہیں۔ انہوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ توڑپھوڑ کی ان کارروائیوں میں مسلم اکثریتی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا، جہاں مسلمانوں کی جائیداد کو نشانہ بناکر گرایا گیا اور آس پاس میں ہندوؤں کی جائیداد کو چھوڑ دیا گیا۔
اس کے ساتھ ہی ان کارروائیوں میں استعمال ہونے والے جے سی بی بلڈوزر ایک پسندیدہ برانڈ بن گئے ہیں، جس کی کمپنی کو دائیں بازو کے میڈیا اور لیڈران ‘جہادی کنٹرول بورڈ’ جیسے ناموں سے پکارتے نظرآرہے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے قبل ازیں اس معاملے پر جے سی بی کو خط لکھا تھا۔ اس کے جواب میں کمپنی کے ترجمان نے کہا کہ ان کی مصنوعات کو کس طرح استعمال کیا جاتا ہے اس پر ان کا کوئی کنٹرول یا ذمہ داری نہیں ہے۔
تاہم، ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ کاروبار اور انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے رہنما اصولوں کے مطابق، جے سی بی کی ذمہ داری ہے کہ وہ انسانی حقوق کا احترام کرے اور اس ک کاموں سے منسلک انسانی حقوق کے منفی اثرات کی نشاندہی، روک تھام اور ان کو کم کرنے کے لیے مناسب کام کرے۔
کیلا مارڈ نے کہا، ‘بین الاقوامی معیارات کے تحت جے سی بی یہ ٹریک کرنے کے لیے ذمہ دار ہے کہ تیسرے فریق کے خریدار اس کئ آلات کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ کمپنی کو آنکھیں بند کرنا بند کر دینا چاہیے کیونکہ جے سی بی مشینوں کا استعمال مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنانے اور سزا دینے کے لیے کیا جاتا ہے، جبکہ لوگ ان بلڈوزروں پر چڑھ کر مسلم مخالف نعرے لگاتے ہیں۔ جب اس کی مشینیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے لیے بار بار استعمال ہو رہی ہوں تو جے سی بی اپنی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتی۔’