قومی کمیشن برائے خواتین نے بی جے پی آئی ٹی سیل کے چیف امت مالویہ، کانگریس رہنما دگوجئے سنگھ اور سورا بھاسکر سےوضاحت طلب کی ہے اور ایسے پوسٹ فوراً ہٹانے اور شیئر کرنے سے بچنے کو کہا ہے۔
امت مالویہ، سورا بھاسکر اور دگوجئے سنگھ۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک/پی ٹی آئی)
نئی دہلی: قومی کمیشن برائے خواتین نے اتر پردیش کے ہاتھرس ضلع میں 19سالہ لڑکی کے ساتھ مبینہ گینگ ریپ اور پھر اس کی موت کے معاملے میں اس کی پہچان سوشل میڈیا پر اجاگر کرنے کے الزام میں بی جے پی آئی ٹی سیل کےچیف امت مالویہ، کانگریس رہنما دگوجئے سنگھ اور سورا بھاسکر سے وضاحت طلب کی ہے۔
کمیشن نے ان سے پہچان اجاگر کرنے سے متعلق پوسٹ فوراًہٹانے اور مستقبل میں ایسے پوسٹ شیئرکرنے سے بچنے کو بھی کہا ہے۔
کمیشن نے منگل کو ٹوئٹ کیا کہ قومی کمیشن برائے خواتین نے امت مالویہ، دگوجئے سنگھ اور سورا بھاسکر کو ہاتھرس کی متاثرہ کی پہچان اجاگر کرنے سےمتعلق ان کے ٹوئٹر پوسٹ پر نوٹس دےکروضاحت طلب کی ہے اور فوراً یہ پوسٹ ہٹانے کی ہدایت دی ہے۔ ساتھ ہی مستقبل میں ایسے پوسٹ شیئر کرنے سے بچنے کو کہا ہے۔
سورا بھاسکر، امت مالویہ اور دگوجئے سنگھ کو بھیجے الگ الگ نوٹس میں کمیشن نے کہا ہے کہ اس کےنوٹس میں آیا ہے کہ ایسے کئی ٹوئٹر پوسٹ ہیں، جن میں مبینہ گینگ ریپ متاثرہ کی تصویر کا استعمال کیا گیا ہے۔
کمیشن نے نوٹس میں کہا، ‘آپ کو اس نوٹس کے ملنے پر کمیشن کوتسلی بخش وضاحت دینی ہے اور سوشل میڈیا پر ایسی تصویروں/ویڈیو کو ہٹانا ہے اور ان کے ٹیلی کاسٹ سے بچنا چاہیے، کیونکہ انہیں آپ کے فالوورس بڑے پیمانے پر نشر کرتے ہیں، جس کی موجودہ قانون میں اجازت نہیں ہے۔’
بی جے پی آئی ٹی سیل چیف امت مالویہ نے اتر پردیش کے ہاتھرس کی 19سالہ دلت لڑکی کے ساتھ ریپ نہیں ہونے کی بات ثابت کرنے کے لیے اس کا چہرہ دکھانے والا ایک ویڈیو ٹوئٹ کیا تھا۔
گزشتہ دو اکتوبر کو 48 سیکنڈ کےویڈیو کو ٹوئٹ کرتے ہوئے بی جے پی رہنما مالویہ نے کہا تھا، ‘اے ایم یو(علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)کے باہر ایک رپورٹر کے ساتھ ہاتھرس متاثرہ کی بات چیت؛ جہاں اس نے دعویٰ کیا کہ اس کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس میں سے کسی سے بھی جرم کی بربریت کم نہیں ہو جائےگی، لیکن اسے کسی اور رنگ میں رنگنا اور ایک کے خلاف دوسرے سنگین جرم کی نوعیت کو کم کرنا غلط ہے۔’
بتادیں کہ 19سالہ لڑکی سے گزشتہ14 ستمبر کو
گینگ ریپ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے ساتھ بری طرح مارپیٹ بھی کی گئی تھی۔ ان کی ریڑھ کی ہڈی میں شدید چوٹیں آئی تھیں۔ ملزمین نے ان کی زبان بھی کاٹ دی تھی۔ ان کا علاج علی گڑھ کے ایک اسپتال میں چل رہا تھا۔تقریباً10دن کے علاج کے بعد انہیں دہلی کے صفدرجنگ اسپتال میں بھرتی کرایا گیا تھا۔
واقعہ کے 9 دن بیت جانے کے بعد 21 ستمبر کو لڑکی ہوش میں آئی تو اپنے ساتھ ہوئی آپ بیتی اپنے گھروالوں کو بتائی۔ اس کے بعد 23 ستمبر کو انہوں نے پولیس کے سامنےبیان دیا تھا۔متاثرہ پانچ بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔
29 ستمبر کو لڑکی نے علاج کے دوران دم توڑ دیا تھا۔ اس کے بعد گھر والوں نے پولیس پر ان کی رضامندی کے بغیر آناًفاناً میں29 ستمبر کو ہی دیر رات آخری رسومات کی ادائیگی کا الزام لگایا تھا۔ حالانکہ، پولیس نے اس سے انکار کیا ہے۔
لڑکی کے بھائی کی شکایت پرچار ملزمین سندیپ (20)،اس کے چچا روی(35)اور دوست لوکش (23)اور رامو (26)کوگرفتار کیا گیا ہے۔ان کے خلاف گینگ ریپ اور قتل کی کوشش کے علاوہ ایس سی/ایس ٹی ایکٹ کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
اس بیچ ہاتھرس کے ضلع مجسٹریٹ پروین کمار لکشکار کے ذریعے متاثرہ کے والدکو مبینہ طور پر دھمکی دینے کا ایک ویڈیو بھی سامنے آیا تھا، جس کے بعد معاملے کو لےکر پولیس اور انتظامیہ کے رول کی تنقید ہو رہی ہے۔
لڑکی کی موت کے بعدجلدبازی میں آخری رسومات کی ادائیگی کے معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے نوٹس لیتے ہوئے ریاستی سرکار کو نوٹس جاری کیا ہے۔نیشنل وومین کمیشن (این سی ڈبلیو)نے اتر پردیش پولیس سے جلدبازی میں رسومات کی ادائیگی پر جواب مانگا ہے۔
وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ہاتھرس کے واقعہ کی جانچ کے لیے ایس آئی ٹی ٹیم بنائی تھی۔ ایس آئی ٹی کی رپورٹ ملنے کے بعد لاپرواہی اورلاپرواہی کے الزام میں دو اکتوبر کوایس پی وکرانت ویر، سرکل آفیسررام شبدٹ، انسپکٹر دنیش مینا، سب انسپکٹر جگ ویر سنگھ، ہیڈ کانسٹبل مہیش پال کوسسپنڈ کر دیا گیا تھا۔معاملے کی جانچ اب سی بی آئی کو دے دی گئی ہے۔
اس کے ساتھ ہی ریاستی پولیس نے کم سے کم 19 شکایتیں درج کی ہیں، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اتر پردیش سرکار کو بدنام کرنے اور ذات پات کی بنیاد پرکشیدگی کو بڑھانے کے لیے ایک بین الاقوامی سازش کی گئی ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)