دہلی تشدد: جب ہندو مسلمان ایک دوسرے کے لیے ڈھال بن گئے

06:28 PM Feb 28, 2020 | دی وائر اسٹاف

تشدد کےبیچ  شادی ہوئی اور دولہے کے پہنچتے ہی مسلمان پڑوسی وہاں ڈھال بن کر کھڑے ہوگئے ۔ساوتری نے بتایا کہ ،حالاں کہ کچھ ہی دوری پر پوری گلی جنگ کے میدان میں تبدیل  ہوچکی تھی اور دکانیں جلادی گئی تھیں۔

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی : نارتھ-ایسٹ دہلی کے کئی علاقوں میں شہریت قانون کی حمایت اور مخالفت میں ہو رہے مظاہرے کے دوران تشددشروع ہوا تھا۔جس نے بعد میں فرقہ وارانہ فساد کی صورت اختیار کر لی۔ تشدد اور جھڑپوں میں اب تک 42لوگوں کی موت ہو چکی ہے جبکہ 300 سے زیادہ  لوگ زخمی  ہوئے ہیں۔زخمیوں  کا ہاسپٹل میں علاج چل رہا ہے۔مرنے والوں میں دہلی پولیس کے ایک ہیڈ کانسٹبل اور آئی بی کے ایک افسر بھی شامل ہے۔

دریں اثنا ہندو مسلمان اتحاداور بھائی چارے کی کہانیاں بھی سامنے آرہی ہیں۔این بی ٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق، جمعہ کو اپنے رشتہ داروں  کا حال چال جاننے جی ٹی بی ہاسپٹل پہنچیں تبسم اور ایشوری نے بتایا کہ کیسے ہندو فیملی نے گلی کے تقریباً10 مسلم فیملی کو فسادیوں کی بھیڑ سے بچایا۔

دو دن تک اپنے گھر پر پناہ دی اور پھر ہیومن چین بناکر محفوظ طریقے سے رشتہ داروں  کے گھر تک پہنچایا۔تبسم بتاتی ہیں،یہ 24 اور 25 فروری کی رات کی بات ہے۔ اس دن ہماری گلی میں اچانک ہی بھیڑ گھس آئی۔ کچھ کے سر پر ہیلمیٹ تھے۔ کچھ ہتھیار لیے ہوئے تھے۔ میری گلی والوں نے ہمیں اپنے گھروں میں چھپا لیا۔ ہمارے بچوں کو کھانا کھلایا۔ ہم سب تقریباً سو پچاس لوگ تھے۔ انہوں نے پوری رات ہماری حفاظت کی۔’

تبسم آگے بتاتی ہیں،انہوں نے ہمیں نکالنے کے لیے لائن بنائی۔ ہمارا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا، پہلے ہم ہیں… پہلے ہم پر حملہ ہوگا۔ گھبراؤ مت۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہماری مسجد ہے۔ وہاں تک ہمارے لیے لائن بنائی اور باہر نکالا۔تبسم اور ایشوری ان کے علاقے میں تشدد کے لیے باہر والوں کو ذمہ دار مانتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ‘ہمارے ہندو بھائیوں نے ہمیں وہاں سے نکالا ہے۔ ایسا بھائی چارہ  سبھی رکھیں۔ ہندو اور مسلم سب ایک ہیں۔ بس محبت سے رہنے کی ضرورت ہے۔ جو باہر کے لوگ آتے ہیں، سب ایک ہوکر انہیں نکال دیں۔’

وہیں خبررساں ایجنسی رائٹرس کے مطابق، نارتھ –ایسٹ دہلی میں تشدد کے دوران مسلم اکثریتی علاقے میں رہنے والی ایک ہندو فیملی تشدد کے دوران اس بات کے لیے مجبور ہوچکے تھے کہ وہ  شادی کی تقریب کو ملتوی کردیں۔ 23 سالہ ساوتری پرساد نے بتایا کہ ، وہ شادی کا جوڑا پہنے گھر  میں بیٹھی رو رہی تھی۔ ایک ماب ان کے گھر کے باہر موجود تھی ۔ڈر اور دہشت کے بیچ ساوتری کے والد نے شادی کی تقریب کو ملتوی نہیں کرنے کے بارے میں اس کو بتایا اور کہاکہ ان کے مسلمان پڑوسی  وہاں کھڑے ہوکرشادی کی تقریب کو مکمل کروائیں گے ۔

حالاں کہ چاند باغ علاقے میں تشدد کی وجہ سے شادی ایک دن کے لیے ٹال دی گئی تھی ۔25 فروری کو ہونے والی یہ شادی 26 فروری کو ہوئی جس میں مسلمان پڑوسی ساتھ میں کھڑ ے رہے۔ساوتری کے والد نے کہا ، مسلمان پڑوسیوں کی وجہ سے ان کو سکون محسوس ہوا۔

ساوتری نے رائٹرس کو بتایا کہ ، مجھے میرے مسلمان بھائیوں نے بچالیا اور پڑوسی ڈھال بن کر کھڑے رہے۔اس طرح ساوتری کے چاند باغ واقع گھر میں تمام رسوم کی ادائیگی کی گئی ۔حالاں کہ کچھ ہی دوری پر پوری گلی جنگ کے میدان میں تبدیل  ہوچکی تھی اور دکانیں جلادی گئی تھیں۔غور طلب ہے کہ دہلی تشدد میں اب تک 42 لوگوں کی جان جاچکی ہےاور 300 سے زیادہ لوگ زخمی ہوچکے ہیں۔

ساوتری کے والد نے بتایا کہ ، ہم جب سیڑھیوں پر گئے تو ہر طرف دھواں ہی دھواں تھا۔یہ دل دہلادینے والا تھا ۔ ہمیں سکون چاہیے ۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اس علاقے میں مسلمانوں کے ساتھ سالوں سے مل جل کر رہ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ، ہمیں نہیں معلوم اس تشدد کے پیچھے کون ہے، لیکن مجھے یہ معلوم ہے کہ ان سب میں میرے پڑوسی نہیں ہیں ۔ یہاں ہندو مسلمان میں کوئی جھگڑا نہیں ہے۔

شادی سے پہلے کی رسم کے بارے میں بتاتے ہوئے ساوتری نے کہا کہ ، باہر ہنگامہ ہورہا تھا، لیکن میں نے مہندی لگائی تھی اس امید میں کہ شاید کل کا دن بہتر ہو گا۔لیکن حالات اور بدتر ہوگئے اس لیے ساوتری کے والد نے لڑکے والوں سے یہ بھی کہاتھا کہ ، یہاں آنا خطرناک ہے۔

ان کی پڑوسی ثمینہ بیگم کا کہنا ہے کہ ، ہمارا دل اس بچی کے لیے رنجیدہ تھا۔ جب اس کے گھر خوشیوں کا موقع تھا وہ اپنے گھر پر بیٹھی رو رہی تھی۔ساوتری کی چچا زاد بہن پوجا نے کہا کہ ، ہندو ہو یا مسلمان سب انسان ہیں ۔انہوں نے کہا یہ مذہب کی لڑائی نہیں تھی ، لیکن اس کو مذہب کا جھگڑا بنا دیا گیا۔

ان سب کے بیچ  شادی ہوئی اور دولہے کے پہنچتے ہی مسلمان پڑوسی وہاں جمع ہوئے اورڈھال بن کر کھڑے ہوگئے ۔اس طرح  تمام رسوم کی  ادائیگی  کی گئی ۔ان کے پڑوسی  عامر ملک نے بتایا کہ ، ہم اپنے ہندو بھائیوں کے ساتھ سکون سے رہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ، ہم ان کے لیے سب کچھ ہیں ۔ اس لئے ہم یہاں موجود تھے۔

رسم کی ادائیگی کے بعد ساوتری اور اس کے شوہر کو پڑوسیوں نے اپنی نگرانی میں گلیوں سے باہر نکالا اور ان کے گھر تک حفاظت سے پہنچایا۔ساوتری کے والد نے کہا کہ ، ہماری بیٹی کی شادی میں کوئی رشتہ دار شامل نہیں ہوسکا ، لیکن یہاں ہمارے مسلمان پڑوسی ہیں اور یہی ہمارے رشتہ دار ہیں۔