آنکھیں پرنم ہوگئیں اور بے اختیار لوح مزار کو بوسہ دے کر اس حسرت کدے سےرخصت ہوا۔یہ سماں اب تک ذہن میں ہے اور جب کبھی یاد آتا ہے تو دل کو تڑپاتا ہے۔
آموں کی کشش ،کشش علم سے کچھ کم نہیں ،یہ بات بلامبالغہ عرض کرتا ہوں کہ کھانے پینے کی چیزوں میں صرف آم ہی ایک ایسی شے ہے ،جس سے مجھے محبت ہے ‘۔اس طرح کی بہت سی باتیں ہیں ،لیکن یہاں دلی کی روداد علامہ کی زبانی ملاحظہ فرمائیے ؛
]دہلی کے[ ریلوے اسٹیشن پر خواجہ سید حسن نظامی اور شیخ نذر محمد صاحب اسسٹنٹ انسپکٹر مدارس موجود تھے۔تھوڑی دیر کے لیے شیخ صاحب موصوف کے مکان پر قیام کیا ۔ازاں بعد حضرت محبوب الہیٰ کے مزار پر حاضر ہوا اور تمام دن بسر کیا ۔اللہ اللہ ! حضرت محبوب الہیٰ کا مزار بھی عجیب جگہ ہے ۔بس یہ سمجھ لیجیے کہ دہلی کی پرانی سوسائٹی حضرت کے قدموں میں مدفون ہے ۔خواجہ حسن نظامی کیسے خوش قسمت ہیں کہ ایسی خاموش اور عبرت انگیز جگہ میں قیام رکھتے ہیں ۔شام کے قریب ہم اس قبرستان سے رخصت ہونے کو تھے کہ میر نیرنگ نے خواجہ صاحب سے کہا کہ ذرا غالب مرحوم کے مزار کی زیارت بھی ہوجائے کہ شاعروں کا حج یہی ہوتا ہے۔خواجہ صاحب موصوف ہم کو قبرستان کے ایک ویران سے گوشے میں لے گئے جہاں وہ گنج معانی مدفون ہے ،جس پر خاک دہلی ہمیشہ ناز کرے گی ۔حسن اتفاق سے اس وقت ہمارے ساتھ ایک نہایت خوش آواز لڑکا ولایت نام تھا،اس ظالم نے مزار کے قریب بیٹھ کر ۔۔۔۔۔دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی ۔۔۔۔۔۔کچھ ایسی خوش الحانی سے گائی کہ سب کی طبیعتیں متاثر ہوگئیں ،بالخصوص جب اس نے یہ شعر پڑھا: وہ بادہ شبانہ کی سرمستیاں کہاں اٹھیے بس اب کہ لذت خواب سحر گئی تو مجھ سے ضبط نہ ہوسکا ،آنکھیں پرنم ہوگئیں اور بے اختیار لوح مزار کو بوسہ دے کر اس حسرت کدے سےرخصت ہوا۔یہ سماں اب تک ذہن میں ہے اور جب کبھی یاد آتا ہے تو دل کو تڑپاتا ہے۔ اگرچہ دہلی کے کھنڈر مسافر کے دامن دل کو کھینچتے ہیں ،مگر میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ ہر مقام کی سیر سے عبرت اندوز ہوتا ۔شہنشاہ ہمایوں کے مقبرے پر فاتحہ پڑھا ،دارشکوہ کے مزار کی خاموشی میں دل کے کانوں سے ھوالموجود کی آواز سنی اور دہلی کی عبرتناک سرزمین سے ایک ایسا اخلاقی اثر لے کر رخصت ہوا،جو صفحہ دل سے کبھی نہ مٹے گا۔3ستمبر کی صبح کو میر نیرنگ اور شیخ محمد اکرام اور باقی دوستوں سے دہلی میں رخصت ہوکر بمبئی کو روانہ ہوااور 4ستمبر کو خدا خدا کرکے اپنے سفر کی پہلی منزل پر پہنچا۔یہ مضمون 9نومبر 2017کو شائع کیا گیا تھا۔