الہ آباد ہائی کورٹ نے ڈاکٹر کفیل خان کےخلاف درج چارج شیٹ اور کاگنیجنس آرڈر کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لیےحکومت کی اجازت نہیں لی گئی تھی۔ 29 جنوری 2020 کو یوپی-ایس ٹی ایف نے شہریت قانون کے خلاف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دسمبر 2019 میں مبینہ طور پر ہیٹ اسپیچ کے معاملے میں کفیل خان کو ممبئی ہوائی اڈے سے گرفتار کیا تھا۔ وہاں وہ سی اے اےمخالف ریلی میں حصہ لینے گئے تھے۔
ڈاکٹر کفیل خان (فوٹو: پی ٹی آئی)
اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کو جھٹکا دیتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ نے ڈاکٹر کفیل خان کے خلاف فوجداری کارر وائی کو رد کر دیا ہے۔
دراصل 12 دسمبر 2019 کوشہریت قانون (سی اے اے)کےخلاف مظاہروں کے دوران علی گڑھ مسلم یونیورسٹی(اے ایم یو)میں کفیل خان نے
تقریر کی تھی، جس کو لےکر ان کے خلاف یوپی سرکار نے ایف آئی آر درج کی تھی۔
الہ آباد ہائی کورٹ کےجسٹس گوتم چودھری کی سنگل بنچ نے کفیل خان کے خلاف درج چارج شیٹ اورکاگنیجنس آرڈرکو رد کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لیےحکومت کی اجازت نہیں لی گئی تھی۔ بنچ نے کہا کہ سی آر پی سی کی دفعہ196(اے)کے تحت مرکز اور ریاستی سرکاروں سے ضلع مجسٹریٹ نے اس کے لیے اجازت نہیں لی تھی۔
علی گڑھ کے سول لائنس پولیس تھانے میں13 دسمبر 2019 کو کفیل خان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
ان کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ153اے (مذہب کی بنیادپر پر مختلف گروپوں کے بیچ تعصب کو بڑھانا)کے تحت معاملہ درج کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان کی تقریر سے کمیونٹی کے بیچ کی ہم آہنگی متاثر ہوئی اورنظم ونسق کا مسئلہ پیدا ہو سکتا تھا۔
یوپی-ایس ٹی ایف نے 29 جنوری 2020 کوکفیل خان کو ممبئی ہوائی اڈے سے گرفتار کیا تھا۔ وہ 30 دسمبر 2020 کو ممبئی سی اے اے کے خلاف مظاہرہ میں حصہ لینےپہنچے تھے۔
بعد میں ان کے خلاف درج ایف آئی آر میں بعد میں دفعہ153بی(قومی یکجہتی اورقومی سالمیت پر منفی اثر ڈالنے کے الزام)اور 505(2) (مختلف طبقوں کے بیچ عداوت، اور نفرت کو بڑھاوا دینا)بھی جوڑی گئی۔
اس کے بعدعلی گڑھ کےچیف جوڈیشیل مجسٹریٹ نے پولیس کی جانب سے دائر چارج شیٹ پر نوٹس لیتے ہوئے انہیں معاملے میں ٹرائل کا سامنا کرنے کے لیےطلب کیا تھا۔
پھر کفیل خان سی آر پی سی کی دفعہ482 کے تحت ہائی کورٹ گئے اور فوجداری کارر وائی اور کاگنیجنس آرڈر کو رد کرنے کی مانگ کی تھی۔
اتر پردیش سرکار نے کفیل خان کے خلاف این ایس اے کےتحت معاملہ درج کیا تھا۔ حالانکہ ستمبر 2020 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے این ایس اے کے تحت خان کی گرفتاری کو رد کر دیا تھا۔
ہائی کورٹ نے لمبے وقت تک خان کو جیل میں رکھنے کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے ضمانت پر ان کی فوراًرہائی کے حکم دیےتھے، لیکن آئی پی سی کے تحت ان کے خلاف فوجداری کارر وائی کو جاری رکھا تھا۔
کفیل خان کے خلاف الزامات کو رد کرنے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد دی وائر سے بات چیت میں ان کے وکیل منیش سنگھ نے کہا، ‘فوجداری کارر وائی رد کرنا ریاستی حکومت کی طرف سےخان کے خلاف این ایس اے کی کارر وائی شروع کرنے کے لیےبنیاد بنا، جسے بعد میں ایک ستمبر 2020 کو ہائی کورٹ نے رد کر دیا۔ اس آرڈر کے خلاف ریاستی حکومت کی جانب سےاجازت کے لیےایک خصوصی عرضی دائر کی گئی، جسے سپریم کورٹ نے 17 دسمبر 2020 کو خارج کر دیا۔ عدالت نے کہا کہ ان کے (کفیل)بیانات میں اصل میں قومی یکجہتی کی اپیل کی گئی تھی۔’
انہوں نے کہا، ‘ہائی کورٹ نے سی آر پی سی کی دفعہ482 کے تحت دائر ہماری عرضی کو منظوری دی۔ کفیل خان کے خلاف معاملے میں پوری کارروائی آئی پی سی کی دفعہ153اے، 153بی، 505(2)، 109 کے تحت کی گئی، جو علی گڑھ کے چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ کی عدالت کے سامنے زیر التواتھی اور کاگنیجنس آرڈر کو رد کر دیا گیا تھا۔’
سنگھ نے یہ بھی بتایا کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے اس ہدایت کے ساتھ معاملے کو واپس علی گڑھ کے چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ کی عدالت کے پاس بھیج دیا کہ سی آر پی سی کی دفعہ196کے اہتماموں کے تحت کفیل خان کے خلاف کاگنیجنس استغاثہ کی پیشگی اجازت کے بعد ہی مرکزی حکومت، ریاستی حکومت یا ضلع مجسٹریٹ کے ذریعے لی جا سکتی ہے۔
اس فیصلے کے بعدکفیل خان نے دی وائر سے بات چیت میں اسے ان لوگوں کے لیےتاریخی فیصلہ بتایا، جوہندوستانی عدلیہ اورجمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘جو ملک میں تفرقہ پھیلانے والے ایجنڈے کو نافذکرنا چاہتے ہیں ،وہ قومی اتحاد اور قومی سالمیت پر مبنی میری تقریرکوہیٹ اسپیچ کے طورپرپیش کرکےعلی-بجرنگ بلی اورشمشان-قبرستان جیسےبیانات کے ذریعےمذہب کے نام پر رائے دہندگان کا پولرائزیشن کرنا چاہتے ہیں۔’
انہوں نے کہا، ‘میرا ملک کی عدلیہ میں مکمل یقین ہے اور امید ہے کہ اتر پردیش سرکار کی جانب سے دائر کیے گئے دوسرے جھوٹے معاملوں میں بھی مجھے انصاف ملےگا۔’
معلوم ہو کہ لگ بھگ سات مہینے کی جیل کے بعد کفیل خان دو تین ستمبر 2020 کی آدھی رات کو متھرا جیل سے باہر آئے تھے، لیکن گورکھپور اپنے گھر جانے کے بجائے وہ اتر پردیش سے باہر چلے گئے تھے۔
ڈاکٹر کفیل خان کے گھروالوں نےاس اندیشے کا اظہار کیا تھا کہ اگر وہ گھر لوٹتے ہیں تو ریاستی پولیس ان پر نئےالزام لگاکر انہیں دوبارہ جیل بھیج سکتی ہے۔
خان نے کہا کہ ریاستی سرکارکی جانب سے انہیں معاملوں میں پھنسائے جانے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگست 2017 میں گورکھپور کے بی آرڈی میڈیکل کالج میں آکسیجن کی کمی سے دم توڑ چکے نوزائیدہ بچوں کے معاملے میں ان پر لگائے گئے تمام الزام غلط ثابت ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ جانچ میں انہیں کلین چٹ دی گئی لیکن ریاستی سرکار نے اس سے انکار کیا۔
بتا دیں کہ آکسیجن کی کمی سے گورکھپورکے بی آرڈی میڈیکل کالج میں لگ بھگ 60 نوزائیدہ بچوں کی موت کے بعد 22 اگست 2017 کو کفیل خان کو برخاست کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے اسپتال سے برخاستگی کے آرڈر کو بھی ہائی کورٹ کے سامنے چیلنج دیا ہے، جس پر شنوائی ہونی ہے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)