مرکز نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے حوالے سے سماعت کررہی سپریم کورٹ کی آئینی بنچ سے کہا ہے کہ اے ایم یو ایک ‘قومی نوعیت’ کا ادارہ ہے اور اسے اقلیتی ادارہ نہیں مانا جا سکتا، بھلے ہی یہ سوال بنا رہے کہ اسےاقلیتوں نے قائم کیا تھا یا نہیں، یہ ان کے زیر انتظام تھا یا نہیں۔
(تصویر بہ شکریہ: Wikimedia Commons)
نئی دہلی: مرکز نے منگل کو سپریم کورٹ سے کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) اپنی ‘قومی نوعیت’ کے پیش نظر اقلیتی ادارہ نہیں ہو سکتا۔ سپریم کورٹ اے ایم یو کے اقلیتی کردار کے سوال پر شنوائی کر رہی ہے۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق ، عدالت عظمیٰ میں دائر اپنے تحریری دلائل میں سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے کہا کہ یونیورسٹی ہمیشہ سے قومی اہمیت کا حامل ادارہ رہا ہے، حتیٰ کہ آزادی سے پہلے بھی۔ یونیورسٹی 1875 میں قائم ہوئی تھی۔
دستاویز میں کہا گیا ہے،’اس لیے حکومت ہند کے مطابق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک قومی نوعیت کا ادارہ ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام سے متعلق دستاویزوں کاایک سروے اور یہاں تک کہ اس وقت کی موجودہ قانونی حیثیت سے پتہ چلتا ہے کہ اے ایم یو ہمیشہ سے قومی نوعیت کا ادارہ تھا۔’
دستور ساز اسمبلی کی بحث کا حوالہ دیتے ہوئے اس میں کہا گیا ہے، یہ واضح ہے کہ ایک یونیورسٹی جوواضح طور پر قومی اہمیت کا ادارہ تھا اور ہے، اسے ایک غیر اقلیتی یونیورسٹی ہونا چاہیے۔
مہتہ نے کہا، ‘ملک اور آئین کی واضح طور پر سیکولر فطرت اور مزاج کی وجہ سے، اس حقیقت پر غور کرتے ہوئے کہ اے ایم یو تعلیمی طور پر ‘قومی کردار’ کا ایک ادارہ ہے، اسے اقلیتی ادارہ نہیں مانا جا سکتا، چاہے یہ سوال قائم رہے یہ اس کے قیام کے وقت اقلیتوں کے ذریعے قائم کیا گیا تھا نہیں اور ان کے زیر انتظام تھا یا نہیں۔’
انہوں نے کہا کہ اے ایم یو ایک مسلم یونیورسٹی کے طور پر کام کرنے والی یونیورسٹی نہیں ہے کیونکہ یہ اقلیتوں کے ذریعہ قائم کردہ اور ان کےزیر انتظام نہیں ہے۔
مہتہ نے اپنے تحریری جواب میں کہا، ‘علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کسی خاص مذہب یا مذہبی فرقے کی یونیورسٹی نہیں ہے اور نہ ہو سکتی ہے کیونکہ کوئی بھی یونیورسٹی جسے آئین ہند نے قومی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے، اس کی تعریف کے مطابق، اقلیتی ادارہ نہیں ہو سکتا۔’
اے ایم یو کو ‘اقلیتی ادارہ’ قرار دینے کے اثرات پر انہوں نے کہا کہ ایک اقلیتی تعلیمی ادارے کو مرکزی تعلیمی ادارے (داخلہ میں ریزرویشن) ایکٹ-2006 (2012 میں ترمیم) کی دفعہ 3 کے تحت ریزرویشن پالیسی نافذ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔
مہتہ نے کہا کہ مذکورہ رعایت کا نتیجہ ‘سخت’ ہوگا کیونکہ اے ایم یو ایک بہت پرانا اور بڑا ادارہ ہے، جس کے پاس بہت زیادہ اثاثہ ہے اور مختلف کورسز میں پڑھنے والے طالبعلموں کی ایک بڑی تعداد ہے۔
انہوں نے کہا، ‘علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسے بڑے قومی ادارے کو اپنا سیکولرازم برقرار رکھنا چاہیے اور پہلے ملک کے وسیع تر مفاد میں کام کرنا چاہیے۔’
اے ایم یو ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے سالیسٹر جنرل نے کہا کہ قانون میں ترمیم کے پورے عمل کے دوران اے ایم یو کے قومی اور غیر اقلیتی کردار کی سمجھ واضح ہو گئی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘لہذا، تمہید سے ‘قیام’ لفظ کو ہٹانے اور یونیورسٹی کی تعریف میں ‘ہندوستان کے مسلمانوں کے ذریعے قائم کردہ’ کا اضافہ کرنے محض سے، علی گڑھ مسلم (یونیورسٹی) ایکٹ کی دفعہ 2(l) اس تاریخی حقیقت کو نہیں بدل سکتی ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام حکومت سمیت ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی کوششوں سے کیا گیا تھا، جن کا کوئی مذہب نہیں تھا اور ہندوستانی قانون ساز کونسل کے ایک ایکٹ کے ذریعے قائم کی گئی تھی جس نے یونیورسٹی کو غالب اقلیتی کردار نہیں دیا تھا۔’
کیا ہے معاملہ
اے ایم یو کے اقلیتی کردار کا مسئلہ گزشتہ کئی دہائیوں سے سوالوں کے دائرے میں ہے۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق 1967 میں ایس عزیز باشا بنام یونین آف انڈیا کیس میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے کہا تھا کہ چونکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک مرکزی یونیورسٹی ہے، اس لیے اسے اقلیتی ادارہ نہیں مانا جا سکتا۔
تاہم، 1875 میں قائم ہونے والے اس باوقار ادارے کو اس وقت اقلیتی درجہ واپس مل گیا جب پارلیامنٹ نے 1981 میں اے ایم یو (ترمیمی) ایکٹ پاس کیا۔
جنوری 2006 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے 1981 کے قانون کی اس شق کو رد کر دیا جس میں یونیورسٹی کو اقلیتی درجہ دیا گیا تھا۔ تب مرکز میں کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی۔ یونیورسٹی نے بھی اس کے خلاف علیحدہ عرضی دائر کی تھی۔
بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت نے 2016 میں سپریم کورٹ کو بتایا کہ وہ سابقہ یو پی اے حکومت کی جانب سے دائر کی گئی اپیل کو واپس لے لے گی۔ اس نے ایس عزیز باشا کیس میں عدالت عظمیٰ کے 1967 کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے کیونکہ یہ ایک مرکزی یونیورسٹی ہے جسے حکومت کی طرف سے مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے۔
اب چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی صدارت والی سات رکنی آئینی بنچ اس معاملے کی سماعت کر رہی ہے۔