اے جی نورانی: علم کا بہتا دریا خاموش ہوگیا

05:21 PM Sep 05, 2024 | افتخار گیلانی

مضامین اور کتابوں میں نورانی حوالہ جات سے اپنے دلائل کی عمارت اتنی مضبوط کھڑی کر دیتے تھے کہ اس کو ہلانا یا اس میں سیندھ لگانا نہایت ہی مشکل تھا۔ وہ اپنے پیچھے ایک عظیم ورثہ چھوڑ کر گئے ہیں، جس کے لیے صدیوں تک ان کا شکریہ ادا کیا جائے گا۔

اے جی نورانی (1930-2024) کی فائل فوٹو۔ تصویر: شاہد تانترے۔

ہندوستانی دارالحکومت نئی دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں ایک بار مؤقر اخبار دی ہندو کے ڈائریکٹر اور معروف صحافی این رام نے ایک کتاب کی رونمائی کے دوران کہا کہ ان کے دفتر میں لائبریری اور ریفرنس کے شعبہ میں تقریبا پچاس افراد کام کرتے ہیں، مگر ایڈیٹوریل لکھتے وقت جب ان کو کسی حوالہ کی ضرورت پڑتی ہے، تو وہ بغلیں جھانکنے لگتے ہیں یا اتنا وقت لگاتے ہیں کہ اخبار کا ایڈیشن پریس میں چلا گیا ہوتا ہے۔

اس لیے جب بھی ان کو حوالہ جات کی ضرورت ہوتی ہے، تو وہ اے جی نورانی کو ممبئی میں ان کی رہائش گاہ پر فون کرتے ہیں، تو وہ اس حوالہ کی بازیابی میں ایک منٹ سے بھی کم وقفہ لیتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ بس فون ہولڈ کرکے رکھو اور جھٹ سے حوالہ نکال کر پڑھتے ہیں یا ان کو فیکس کردیتے ہیں۔

دستاویزات یا کتابیں جمع کرنے سے زیادہ، وقت پر ان کی بازیافت کسی بھی محقق کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ یہ قصہ نورانی کی اس علمی استعداد کا لُب لباب ہے، جس کی وجہ سے وہ بس ایک شخصیت نہیں، بلکہ ایک ادارہ، چلتے پھرتے کتب خانہ اور مستنند محقق کے طور پرعلمی حلقوں میں جانے جاتے تھے۔

اس نابغہ روزگار کا 29 اگست کو ممبئی میں 94 برس کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ وہ پاکستان کے ایک سابق وزیر خارجہ زین نورانی کے برادر اصغر تھے۔

انتیس (29) اگست کی دوپہر ان کے خادم وسیم کا فون بار بار آرہا تھا، مگر وہ بات نہیں کر پا رہا تھا، یا لائن میں کچھ خرابی تھی۔ اس کے پانچ منٹ بعد ہی دہلی سے قربان علی کا فون آیا۔

دسمبر 1992 کو انہوں نے بی بی سی کے نامہ نگار کی حیثیت سے پوری دنیا کو بابری مسجد کی شہادت کی خبر سنائی تھی، آج انہوں نے ایسے شخص کی وفات کی خبر سنائی، جو بذات خود ایک عہد تھا، اور جس نے بابری مسجد کے حوالے سے دو جلدوں پر مشتمل کتاب تحریر کرکے اس کو تاریخ کی کتابوں میں امر کر دیا، چاہے مادی طور پر اس کا نشان مٹ چکا ہو۔

پندرہ روز قبل میں نے نورانی صاحب کو فون کیا تھا، تو وہ بہتر محسوس کر رہے تھے۔ ان کی آواز کی لرزش بھی ختم ہو چکی تھی۔ وہ کہہ رہے تھے؛

میں اب قلم ہاتھ میں پکڑ پاتا ہوں اور مجھ پر دو کتابوں کا قرض ہے۔ میں سپریم کورٹ کے بابری مسجد سے متعلق فیصلہ پر کتاب مکمل کروں گا، اس کے سبھی دستاویزات میرے پاس آچکے ہیں اور اسی کے ساتھ ’انڈین آرمی اور کشمیر‘ بھی مکمل کرکے کتابیں لکھنے سے ریٹائرمنٹ لوں گا۔ پبلشرز انڈیا-چین باؤنڈری ڈسپیوٹ کی دوسری جلد لکھنے پر زور دے رہے ہیں، مگر اب یہ میری دسترس سے باہر ہے۔

میں ان کی دلجوئی کر ہی رہا تھا کہ تھوڑی دیر بعد انہوں نے شکوہ کیا؛

افتخار صاحب، آپ کے جانے سے میرے ہاتھ کٹ گئے ہیں۔ کس کو دستاویزات جمع کرنے اور پھر ان کو مہیا کروانے کے لیے کہوں؟ صاحب فراش تو ہوں ہی، مگر کئی کام آپ کے جانے کی وجہ سے رک گئے۔

میں نے دہلی میں اپنے قیام کے دوران اور جب سے ان سے شناسائی ہوئی، ان کی پانچ اہم کتابوں کے لیے بطور ریسرچر کام کیا تھا۔ ان کی وساطت سے نیشنل آرکائیوز تک رسائی حاصل ہوگئی تھی اور دستاویزات کو ڈھونڈنے اور ان کو استعمال کرنے کا طریقہ سیکھنے کا موقع بھی ملا تھا۔

ذہن کے دریچوں پر زور دیتے ہوئے میں یاد کرنے کوشش کررہا تھا کہ نورانی صاحب سے کب شناسائی ہوئی تھی۔ چند برس قبل انہوں نے ہی مجھے یاد دلایا تھا۔ مارچ 1992 میں جب کشمیری رہنما سید علی گیلانی، پروفیسر عبدالغنی بھٹ، عباس انصاری، عبدالغنی لون، کم و بیش ساڑھے تین سال بعد جیل سے رہا ہوئے تھے تو کچھ عرصہ کے بعد وہ دہلی تشریف لائے۔ صحافتی زندگی کے ابتدائی دن تھے۔ میرے ایک روم میٹ، جن کا تعلق بھی سوپور سے ہی تھا اور گیلانی صاحب کے بڑے معتقد تھے، مجھے چانکیہ پوری میں واقع کشمیر ہاؤس ساتھ لے جا کر ملاقات کروانے کے لیے لے گئے۔ تب تک ان سے بس اتنا تعلق تھا کہ وہ سوپور سے ایم ایل اے رہ چکے تھے اوربطور ایک عام فرد جلسہ گاہ میں ان کی تقریریں سنتا آیا تھا۔

 ان سے ملاقاتیوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ ہم وہیں سرینگر سے ان کے ہمراہ آئے اسٹاف کا ہاتھ بٹانے لگے۔ اسی دوران ایک تیز و طرار شخصیت وارد ہوئی، ہمارے علاوہ انہوں نے سب کو کمرے سے باہر نکلنے کو کہا۔ چونکہ ہم چائے وغیرہ سرو کر رہے تھے، اس لیے ہم پر ان کا دھیان نہیں گیا۔ جانے سے قبل انہوں نے گیلانی صاحب سے کہا کہ وہ کسی ایسے شخص کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھنا چاہتے ہیں، جو مضامین وغیرہ  لکھنے میں مدد کرے اور ان کو کشمیر کے حالات سے باخبر رکھے۔

میں اور میرے روم میٹ ایک کونے میں بیٹھے تھے۔ گیلانی صاحب نے اشارے سے مجھے بلایا اور میرا ان سے تعارف کروایا۔ اگلے دن ہی انہوں نے مجھے انڈیا انٹرنیشنل سینٹر کے کمرہ نمبر 38 میں مدعو کیا۔ وہ جب بھی دہلی آتے تھے، اسی کمرے میں ٹھہرتے تھے۔ میرے پاس چونکہ فون نہیں تھا، اس لیے انہوں نے مجھے تاکید کی تھی کہ اتوار کو 11 بجے کے آس پاس ان کو فون کیا کروں۔

میں پورے ہفتے نوٹس بناکر اس دن فون پر ان کو گوش گزار کرتا تھا۔ جب وہ دہلی آتے، تو اپنی ڈائری نکال کر بتاتے تھے کہ میں نے کتنی کال کی ہیں اور اگر پوسٹ سے کچھ بھیجا ہوتا، تو اس کا حساب کرکے پیسے دیتے تھے۔ وہ معاملات کے بہت پکے تھے، اور پیسے لینے سے منع کرنا جیسے ان کے قہر کو آواز دینا تھا۔

انہوں نے ممبئی کی گورنمنٹ لاء یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی تھی اور 1950 کی دہائی میں بمبئی ہائی کورٹ میں قانون کی پریکٹس شروع کی۔

جموں و کشمیر اور ہندوستان- پاکستان امور پر وہ ایک طرح سے حرف آخر تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کانگریس کی باغی رہنما اور نامور سائنسدان وکرم سارا بائی کی بہن مردولا سارا بائی نے کشمیر سے ان کو متعارف کروایا تھا۔

سارا بائی جموں و کشمیر کے پہلے وزیر اعظم شیخ عبداللہ کی پرجوش حامی تھیں اور ان کے ساتھ اپنی پارٹی کے سلوک سے نالاں تھیں۔ جب شیخ عبداللہ کو 1958 میں کشمیر سازش کے مقدمے کے تحت دوبارہ گرفتار کیا گیا تو برطانوی وکیل بیرسٹر ڈینگل فٹ نے پاکستان کے کہنے پر مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم ،نئی دہلی نے واضح کیا تھا کہ وہ کسی بھی غیر ملکی وکیل کو ہندوستانی عدالت میں پیش ہونے کی اجازت نہیں دے گی۔

سارا بائی نے ممبئی کے نوجوان وکیل نورانی کی خدمات حاصل کیں۔ اس طرح وہ پہلی بار 1962 کو جموں وارد ہوئے، جہاں اسپیشل جیل میں شیخ عبداللہ اور ان کے رفقاء قید تھے۔

اس واقعہ نے اس خطے کے ساتھ ان کی زندگی بھر کی وابستگی کو جنم دیا۔ انہوں نے اس وابستگی کو خوب نبھایا۔ کشمیر کے تقریباً  تمام لیڈران، چاہے وہ کسی بھی خیمہ سے تعلق رکھتے ہوں، ان کے ساتھ ان کا تعلق اور احترام کا جذبہ تھا۔

نورانی صاحب بسا اقات بڑے ہی منہ پھٹ اور بغیر لاگ لپیٹ کے بات کرنے کے عادی تھے۔ ایک بار دہلی میں مرحوم عبدالغنی لون کی معیت میں ان سے ملنے گیا تھا۔

بات چیت کے دوران لون صاحب نے ان سے چند ذاتی نوعیت کی جانکاری معلوم کرنے کی کوشش کی۔ تو وہ بھڑک گئے۔ تمام آداب وغیرہ کو بالائے طاق رکھ کر ان کو کمرے سے نکل جانے کے لیے کہا۔ ہم خاموشی کے ساتھ چلے گئے۔

ایک ہفتہ کے بعد لون صاحب نے مجھے حریت کے دفتر بلاکر پوچھا کہ کیا نورانی صاحب ابھی دہلی میں ہی ہیں یا چلے گئے ہیں۔ میرا دل بھی ان کے رویہ سے دکھی تھا، اس لیے میں نے اب نورانی صاحب سے ترک تعلق کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ میں نے لون صاحب سے کہا کہ،’آپ اس بدتمیز اور مغرور شخص سے پھر ملنا چاہتے ہیں۔ وہ اس قابل نہیں ہے کہ اس کے ساتھ کوئی تعلق رکھا جائے۔‘

 مگر لون صاحب نے نصیحت کی کہ وہ علم کا سمندر ہیں، ایسے شخص کے بارے میں ایسی سوچ نہیں رکھنی چاہیے، بلکہ ان کی قدر کرنی چاہیے اور ان کا یہ رویہ دل پر نہیں لینا چاہیے۔ جتنی دیر وہ اپنی محفل میں بیٹھنے دیں، سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے۔

ان کے دفتر سے نکل کر آفس کی طرف جاتے ہوئے میں نے انڈیا انٹرنیشنل سینٹر کے ریسپشن سے معلوم کیا، تو پتہ چلا کہ نورانی صاحب ابھی کمرے میں ہی ہیں۔ میں نے انٹر کام سے نمبر ملایا، تو نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ جواب دیا۔

میں نے کہا کہ لون صاحب ملنا چاہتے ہیں، تو اسی وقت اگلے روز کا نہ صرف  وقت دیا، بلکہ ان کو سلام پہنچانے کے لیے بھی کہا۔

نیشنل کانفرنس کے عبدالرحیم راتھر اور پروفیسر سیف الدین سوز بھی ان کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ کشمیر میں اگر ان کو کسی اور شخص کے ساتھ قربت تھی وہ سابق ڈائریکٹر ٹورازم سلیم بیگ تھے، جو خود ایک وسیع المطالعہ شخص اور اتھارٹی ہیں۔

اے جی نورانی، فوٹو: وکی پیڈیا / شنکر چکرورتی

نورانی صاحب ان کی موجودگی میں جیسے کھلتے تھے۔ شیخ عبداللہ اوران کے دست راست مرزا محمد افضل بیگ سے متعلق کہانیوں اور قصوں کے دفتر کھل جاتے تھے۔ یہ دونوں لیڈران جب بمبئی آتے تھے، توجنوبی بمبئی میں مالابار ہل کے پاس ان کے فلیٹ میں ہی رکتے تھے۔

نورانی صاحب کا کہنا تھا کہ کشمیر کے مسئلہ کے علاوہ جس چیز نے ان کو اس خطے کے ساتھ جوڑے رکھا وہ کشمیر کے پکوان یعنی وازوان ہے۔

شیخ عبداللہ جب 1975 میں وزارت اعلیٰ کی کرسی پر فائز ہوئے، تو ان دنوں ہفتے یا پندرہ روز کے بعد بمبئی سے سرینگر براہ راست فلائٹ ہوتی تھی۔ وہ اس دن نورانی کے لیے وازوان کی ڈشز پکوا کر ان کو پارسل میں بھیجتے تھے۔

یہ شیخ صاحب کی لاجواب سخاوت تھی، ورنہ وہ کسی کے لیے بھی رواداری برتنے کے عادی نہیں تھے۔ دہلی میں وہ کشمیری باورچی احد وازہ کے آؤٹ لیٹ پر ضرور جاتے تھے اور ٹن میں پیک کرکے کھانا اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔

کھانوں کے شوقین ہونے کے باوجود وہ خود نہایت ہی قلیل خوراک لیتے تھے اور اپنے ساتھ لوگوں کو کھلاکر کر خوش ہوجاتے تھے۔

کشمیر کی انفرادیت کے حوالے سے وہ اتنے حساس تھے کہ ایک بار انہوں نے کہا کہ دہلی کی نظام الدین بستی میں کشمیری پکوانوں کی ایک دکا ن کھلی ہے اور وہاں ڈنر کے لیے جانا ہے۔ ایک چھوٹی سی دکان تھی اور بیٹھے ہی انہوں نے رستہ، گشتابہ، قورمہ وغیر کا ایک لمبا چوڑ ا آرڈر دیا۔

نظام الدین علاقہ دہلی کا ایک طرح سے دل ہے اوریہ باہر سے آئے زائرین اور سیاحوں سے بھرا رہتا ہے۔ جنوبی ہندوستان کی کوئی فیملی بھی اسی دوران ہمارے بغل کی میز پر برا جمان ہوگئی۔

ظاہر سی بات ہے کہ وہ کشمیری پکوانوں سے نابلد تھے اور مینو سے ان کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ انہوں نے باہر چکن کو تندور میں پکتے دیکھا تھا، تو انہوں نے اسی کا آرڈر دیا۔

جب ان کا آرڈر آگیا، تو نورانی صاحب کو طیش آیا کہ کشمیری ہوٹل میں کیسے کوئی غیر کشمیری ڈش کھانے آسکتا ہے۔ پہلے تو انہوں نے برداشت کیا، پھر ان کی میز پر جاکر ان کو خوب سنائی۔

وہ حیران و پریشان۔ ہوٹل کا منیجر میرے پاس آکر کہنے لگا، ان کو سنبھالو، یہ میرے گاہک بھگا رہے ہیں۔ میں نے اس کو مشورہ دیا کہ اس فیملی کو رستہ یا گشتابہ کی ایک پلیٹ دے دو، اور ہمارے بل میں اس کو جوڑ دینا۔

خیر جب ان کی میز پر کشمیری پکوان آگئے، تو ان کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ انہوں نے جو لمبا چوڑا آرڈر دیا تھا، وہ بھی ان کو کھلایا۔


یہ بھی پڑھیں: اے جی نورانی: ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے


کشمیری کھانے ان کی کمزوری تو تھے ہی، مگر انہوں نے کبھی کشمیر میں شادی وغیرہ کی تقریب میں تازہ اور مستند پکوان جس طرح پروسے جاتے ہیں، سے لطف نہیں اٹھایا تھا۔ 2006 میں ان کو میں اپنے ایک کزن کے ولیمہ میں ساتھ لے گیا۔ کشمیر میں محفل میں کھانا زمین پر بیٹھ کر کھایا جاتا ہے اور چار آدمی ایک بڑی سی پلیٹ کے ارد گرد بیٹھتے ہیں۔

گھٹنوں کے درد کی وجہ سے ان کے لیے ایک کرسی اور ٹیبل کا انتظام کرنا پڑا۔ وہاں محفل کے آداب بڑی سختی سے نبھائے جاتے ہیں اور باورچی ترتیب کے ساتھ مختلف ڈشز سرو کرتا رہتا ہے۔ چونکہ ان کی پہلی ڈش کے ختم ہونے سے پہلے ہی باورچی دوسری ڈش پلیٹ میں ڈالنے کے لیے آتا تھا، تو وہ اس کو کو روک دیتے تھے۔

پوری محفل ہاتھ روکے انتظار کرتی تھی۔ پھر ایک ڈش ان کو زیادہ پسند آگئی، تو انہوں نے وہ دوبار منگوائی اورپارٹی میں سبھی دوسو افراد کو بھی دوسری بار دینے کے لیے کہا۔

اس کی اپنی مقدار ہوتی ہے۔ میرے ماموں، جن کا ابھی حال ہی میں انتقال ہوا، نے حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خیمہ کا دوسرا دورازہ کھلواکر باورچی کے لیے محفل میں کھانا پروسنے کے لیے راستہ بنایا اور ترتیب برقرار رکھی۔

پاکستانی صدر پرویز مشرف نے کشمیر پر اپنے چار نکاتی فارمولہ کا اعلان نورانی کے ساتھ فرنٹ لائن جریدہ کے لیے انٹرویو میں ہی کیا۔ اس سے قبل اپنی کئی تحریروں اور ٹریک ٹو میٹنگوں میں نورانی نے اس قضیہ کو زمینی کے بجائے انسانی بنیادوں پر حل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اسلام آباد روانگی سے قبل وہ وزیر اعظم منموہن سنگھ سے اکیلے میں ملے تھے اور انٹرویو سے قبل مشرف کے ساتھ دس منٹ ون ٹو ون میٹنگ بھی کی تھی۔

اس لیے بتایا جاتا ہے کہ یہ فارمولہ مشرف کے بجائے ہندوستان کی طرف سے آیا تھا، بس پاکستانی صدر کے ذریعے اس کو پبلک کرایا گیا۔

یہ انٹرویو بذات خود ایک کہانی بن گیا۔ ان کو بتایا گیا تھا، صدر کے علاوہ تین اور افراد یعنی وزیر خارجہ، سکریٹری خارجہ اور فوج کے آئی ایس پی آر کے سربراہ بھی انٹرویو کے دوران موجود ہوں گے۔ مگر کمرے میں غیر متوقع طور پر چوتھا شخص بھی تھا۔ انہوں نے مشرف سے کہا کہ ان کو بتایا گیا تھا کہ تین افراد موجود ہوں گے، مگر یہاں چار افراد ہیں۔

مشرف نے اشارہ سے چوتھے شخص کو باہر جانے کے لیے کہا، جس کے بعد انٹرویو شروع ہوگیا۔ چوتھا شخص، کوئی اور نہیں، جنرل اشفاق پرویز کیانی تھے۔ جو اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ تھے اور بعد میں فوج کے سربراہ مقرر ہوئے۔ وہ مشرف فارمولہ کے زبردست حامی تھے۔ اس کی وجہ سے ان کی گیلانی صاحب سے ناچاقی بھی ہوئی اور اپنی تحریروں میں ان کے خلاف سخت الفاظ بھی استعمال کیے۔

انہی دنوں فیڈرل ازم پر کشمیر میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہو رہی تھی۔ وہ اس میں مدعو تھے۔ میں بھی ان دنوں سرینگر میں ہی تھا۔اس کانفرنس کے دوران انہوں نے درخواست کی کہ چونکہ وہ سرینگر میں ہیں، اس لیے  بطور ادب و اخلاق وہ گیلانی صاحب سے ملنا چاہتے ہیں۔ خیر اپائنٹمنٹ طے ہوئی تو ڈرائنگ روم میں بیٹھتے ہی کہا؛

گیلانی صاحب میں قہوہ پینے اور کباب کھانے یہاں آیا ہوں۔ آپ کے ساتھ بات کرنا تو فضول ہے۔ آپ بھی اس دوران کوئی سیاسی بات نہ کریں ۔

 گیلانی صاحب نے  مسکرا کر ان سے کہا؛

آپ درویش ہیں، آپ کی کسی بات کاہم برا نہیں مناتے ہیں۔ ہم کشمیری درویشوں کا بڑا ادب کرتے ہیں۔

نومبر 2008 کو جب پی چدمبرم نے وزارت داخلہ کا قلمدان سنبھالا تو ان کو وزیر اعظم کی طرف سے ہدایت تھی کہ وہ نورانی سے ملیں اور ان سے کشمیر کے سلسلے میں بریفنگ لیں۔ اپنے وزیر ہونے کے زعم میں انہوں نے اپنے کسی افسر کو نورانی سے رابطہ کرنے اور ان کو دہلی لانے کے لیے کہا۔ نورانی نے جواب میں کہا کہ وہ وزارت داخلہ کی میزبانی قبول نہیں کریں گے۔ جب ان کو اپنے کام سے دہلی آنا ہوگا، تو وہ مطلع کریں گے۔

خیر شاید کئی ماہ بعد وہ دہلی آئے۔ شام کو پانچ بجے کے آس پاس وزارت داخلہ میں مختلف ڈویژنوں کے سربراہان یا ہوم سکریٹری میڈیا کو بریفنگ دیتے تھے۔ اس لیے دیگر رپورٹر کے ساتھ میں بھی اس وقت وزارت داخلہ کے کوریڈورز میں موجود تھا کہ ہم نے وزیر کے کمرے سے نورانی صاحب کو نمودار ہوتے ہوئے دیکھا۔

پی چدمبرم ان کو لفٹ تک چھوڑنے ساتھ آئے تھے۔ وزیر کی کوریڈور میں موجودگی سے ہلچل مچ گئی۔ سبھی رپورٹرز یا افسران ان کے ارد گرد جمع ہوگئے۔ لفٹ کے پاس پہنچ کر چدمبرم نے خود ہی بٹن دبایا اور ان کو الوداع کرنے ہی والے تھے کہ نورانی صاحب نے لقمہ دیا؛

مسٹر ہوم منسٹر، بہت بہت شکریہ یہ میٹنگ آپ کے لیے اور میرے لیے وقت کا زیاں تھا۔

 پریس اور تمام افسران کی موجودگی میں چدمبرم ہکا بکا رہ گئے۔ چدمبرم گو کہ ہندوستان کے بہتر وزیر داخلہ تھے، مگر ان کو زعم تھا کہ وہ سب کچھ جانتے تھے۔ نورانی صاحب ان کو عقل کل کہتے تھے۔

اسی طرح ایک بار شمالی کشمیر کے موجودہ ممبر پارلیامنٹ انجینئر رشید، جو ان دنوں لنگیٹ حلقہ سے ممبر اسمبلی تھے، نے ان کو اپنے حلقہ میں آنے کیلے مدعو کیا۔

لنگیٹ تحصیل کے ایک خوبصورت مقام ریشی واری میں انہوں نے لنچ کا اہتمام کیا تھا۔ سرسبز جنگلوں اور پہاڑی نالوں سے پُر اس وادی میں داخل ہوتے ہی تقریباً 30 کلومیٹر تک سڑک سے ملحق سبھی گھروں کی دوسری منزل پر ہمیں فوجی جوان نظر آئے۔

معلوم ہوا کہ گھروں کے مکین تو پہلی منزل پر رہتے ہیں اور دوسر ی منزل فوج کے لیے مخصوص ہے۔ ہمارے آنے سے قبل فوج کے مقامی بریگیڈیر کمانڈر نے جب نورانی صاحب کی آمد کے بارے میں سنا تو اصرار کیا کہ چائے وہ بریگیڈ ہیڈ کوارٹر میں نوش کریں۔

ان کو جب بتایا گیا، تو انہوں نے خشم آلود لہجے میں منع کر دیا۔ لنچ وغیرہ سے فراغت کے بعد دیکھا کہ ریسٹ ہاؤس کے باہر آرمی کی گاڑیاں ہیں اور بریگیڈیر صاحب خود ہی ملنے آن پہنچے ہیں۔

سلام وغیرہ کے بعد انہوں نے نورانی صاحب کو یاد دلانے کی کوشش کی کہ وہ ان کے استاد ہیں، کیونکہ جب وہ ملٹری اکیڈمی لیکچر دینے آئے تھے، تو وہ سامعین میں تھے اور امتحانات کی تیاری کے لیے بھی وہ ان کے کالم اور کتابیں پڑھتے رہے ہیں۔

نورانی صاحب نے ان کی طرف دیکھے بغیر کہا کہ،”جو کچھ میں یہاں دیکھ رہا ہوں، وہ تو میں نے کبھی نہیں پڑھایا۔“

چند منٹوں کے بعد ہی بریگیڈیر کو احساس ہوا کہ وہ ناپسندیدہ شخصیت ہیں، اور اپنے لاو لشکر کے ساتھ واپس چلے گئے۔ مگر نورانی صاحب کا مزاج بگڑ چکا تھا۔

 ان کے ساتھ کئی لٹریری میلوں میں بھی جانے کا موقع ملا۔ کیرل لٹریری فیسٹیول میں ان کی کتاب دی کشمیر ڈسپیوٹ پر ایک سیشن تھا۔ مجھے اس کی نظامت کے لیے مد عو کیا گیا تھا۔

جب تک وہ اسٹیج پر رہتے تھے، کسی بھی سوال کا برا نہیں مناتے تھے۔ بحث و مباحثہ کو خوب انجوائے کرتے تھے۔ اپنے نام کے ساتھ القاب لگانا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔

کشمیر کے ایک لیڈر محمد یوسف تاریگامی سے بس اس لیے خفا تھے کہ انہوں نے ان کو کسی دن جناب، محترم جیسے لمبے چوڑے القاب سے یاد کیا تھا۔ وہ اس کو چھچھورا پن کہتے تھے۔

ان کی تقریر کے دوران اگر کسی کیمرہ مین نے فلیش لائٹ چلائی یا تقریب کے بعد لوگ ان کے ارد گرد آکر اپنا تعارف کرانے لگے تو جھلا جاتے تھے۔ پہلے تو وہ کتاب کے آٹو گراف سے بھی منع کرتے تھے۔ مگر بعد میں پبلشرز کے اصرار پر اور دستوں کے مشورہ کی وجہ سے آٹو گراف دینے لگے تھے۔

اسٹیج سے اترتے ہی ان کو ہجوم سے دور کسی خاموش کارنر میں لے جانا پڑتا تھا، ورنہ کسی نہ کسی کی شامت آنی تھی۔ میں نے اس تقریب میں اسٹیج سے کئی بار سامعین کو گوش گزار کروایا کہ جو بھی سوالات ہیں وہ ابھی پوچھیں۔ مگر جب ہم ایک کونے میں لنچ کر رہے تھے، مدھیہ پردیش کی کسی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر پہنچے اور اپنا کارڈ دے کر کوئی سوال پوچھا، جو ان پر قہر ٹوٹا، وہ شاید ابھی تک اس کو بھول نہیں پائیں ہوں گے۔


یہ بھی پڑھیں: آر ایس ایس کے بارے میں ہم کتنا جانتے ہیں؟


حامد انصاری کو 2007 میں نائب صدر کے عہدے پر فائز کروانے میں ان کا رول رہا ہے۔ ان دنوں لیفٹ فرنٹ کی حمایت سے کانگریس کی حکومت ٹکی ہوئی تھی۔ جب ایک خاتون پرتیبھا پاٹل کو صدر بنایا گیا تو نائب صدر کے لیے تلاش چل رہی تھی۔ کانگریس نے چند نام تجویز کیے تھے، جیسے ڈاکٹر کرن سنگھ وغیرہ، جن کو لیفٹ فرنٹ نے مسترد کردیا تھا۔

ایک روز جب انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں مقررہ وقت پر میں ان سے ملنے پہنچا، تو دیکھا کہ حامد انصاری، جو ان دنوں قومی اقلیتی کمیشن کے سربراہ تھے، ان کے کمرے سے باہر آرہے تھے۔ میں نے انہیں گوش گزار کیا کہ انصاری صاحب نائب صدر کے عہدے کے لیے موزوں شخص ہیں، اگر کوئی ان کا نام کانگریس یا لیفٹ کے زعما تک پہنچا دے۔

میں چونکہ کانگریس پارٹی کور کرتا تھا، معلوم ہوا تھا وہ کسی پڑھے لکھے سلجھے ہوئے مسلمان امیداوار کو ڈھونڈ رہے ہیں، کیونکہ انہوں نے سائنسدان اے پی جے عبدالکلام کو صدارت کی دوسری ٹرم نہیں دی تھی، اس لیے اس کی بھر پائی کے لیے ان کو ویسا ہی نائب صدر چاہیے تھا۔

میری ملاقات کا وقت ختم ہونے والا تھا کہ انہوں نے کہا کہ چند لمحے اور بیٹھوں۔ کمیونسٹ پارٹی مارکسسٹ کے جنرل سکریٹری پرکاش کرات کے ملنے کا وقت تھا۔ کرات، جب ان کے کمرے میں براجمان ہوئے، تو انہوں نے میری طرف اشارہ کرکے کہا کہ،”افتخار کچھ کہہ رہے تھے۔“

مجھے حامد انصاری کے تعلق سے دہرانے کو کہا۔ کرات نے کہا کہ نام تو کانگریس کی طرف سے آنا چاہیے،ہمارا کام تو ”ہاں“ یا ”نا“ کرنا ہے۔

خیر انہوں نے نورانی صاحب سے کہا کہ سنا کہ آپ کل میڈم یعنی کانگریس صدر سونیا گاندھی سے مل رہے ہیں، وہاں یہ تجویز دے دیں۔ اگر کانگریس نے یہ نام دیا، تو ہماری پارٹی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ایک ہفتے بعد ہی اعلان ہوا کہ حامد انصاری حکمران اتحاد کے نائب صدر کے امیدوار ہیں۔ وہ دس سال اس عہدے پر فائز رہے۔

 کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے بارے میں نورانی صاحب کچھ نہیں جانتے تھے۔ وہ ٹائپ رائٹر کا استعمال بھی نہیں جانتے تھے اور اپنے تمام مضامین ہاتھ سے لکھتے تھے۔ ان کا بنیادی تحقیقی مواد بہت سارے مضامین پر اخباری تراشوں پر مشتمل تھا، یہ عادت انہوں نے 1940 کی دہائی میں اسکول سے ہی شروع کی تھی اور ان کی لائبریری میں مختلف موضوعات پر فائلوں میں لاتعداد اخباری تراشے موجود تھے۔

ہاتھ سے لکھنے کے بعد ان کا اسٹینو اس کو ٹائپ کرتا تھا اور پھر وہ فیکس یا کورئیر سے اخبار کے دفتر بھیجتے تھے۔

این رام نے ان کو ایک کمپیوٹر تحفہ میں دیا تھا۔ مگر انہوں نے اس کا استعمال کبھی نہیں کیا۔ ہاں ان کا اسٹینو اب ٹائپ رائٹر کے بجائے کمپیوٹر پر ٹائپ کرکے پرنٹ آؤٹ لیتا تھا۔

رائٹنگ ٹیبل کا انہوں نے کبھی استعمال نہیں کیا۔ ان کے اسٹڈی روم میں ایک 2 فٹ اونچی چارپائی تھی جس پر بیٹھ کر ٹیک لگائے وہ مضامین لکھتے تھے۔

ایک بار ڈان اخبار کے لیے انہوں نے مضمون لکھا تھا اور دہلی میں کسی کو اس کو ٹائپ کرنے کے لیے ڈھونڈ رہے تھے۔ میں نے کہا کہ میں لیپ ٹاپ ان کے کمرے میں لاکر ٹائپ کرتا ہوں۔ وہ ڈکٹیٹ کرا رہے تھے، کیونکہ ان کی لکھائی کو پڑھنا میرے بس کا روگ نہیں تھا۔

ٹائپ کرنے کے بعد وہ اس کا پرنٹ آؤٹ مانگنے لگے۔ میں نے اسکرین پر فانٹ بڑا کرکے ان کو پڑھوایا اور ڈونگل لگا کر ای میل سے ڈان اخبار کو بھیجا۔ ان کو یقین نہیں ہور ہا تھا۔ انہون نے فون کرکے اطمینان کیا، اور پھر مجھے جانے کی اجازت دی۔

وقت کے اتنے پابند تھے کہ اگر انہوں نے دس بجے کا وقت ملنے کے لیے دیا ہے، تو اس کے ایک منٹ بعد اگر آپ پہنچے، تو ان کا موڈ خراب ہوجاتا تھا۔ دیر سے آنے والے کو وہ بلیک لسٹ کر دیتے تھے۔

جاوید نقوی اور ان کے برادر اکبر سعید نقوی کے ساتھ ان کو خدا واسطے کا بیر تھا۔ دونوں بھائیوں نے کئی بار ثالثوں کے ذریعے صلح صفائی کی کوشش کی، مگر وہ ان کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ایک بار سعید بھائی سے ہی پوچھا کہ آخر ان سے کیا خطا سرزد ہوئی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ تقریباً بیس برس قبل ان کو پرانی دہلی کی کسی گلی میں کسی گمنام ہوٹل میں نورانی صاحب کو لے کر نہاری کھانے جانا تھا۔ بس کچھ ایسا ہوا کہ دماغ سے نکل گیا۔ بس وہ دن اور آج کا دن، انہوں نے ہمیں اپنی ناپسند مخلوق قرار دے کر اپنی زندگی سے خارج کردیا ہے۔

ایک بار رات گئے جب میں آفس سے گھر کی طرف روانہ ہو رہا تھا کہ ان کا ممبئی سے فون آیا کہ جاوید نقوی کو سلام کہنا اور بتانا کہ آج ڈان میں بہت ہی اچھا آرٹیکل لکھا ہے۔ میں خوش ہوا کہ برف پگھل گئی ہے اور کل یہ خوشخبری جاوید نقوی کو سناؤں گا اور باضابطہ ان سے پارٹی کرواؤں گا۔ بیس منٹ بعد جب میں اب گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا کہ ان کا پھر فون آیا، اور پوچھنے لگے کہ میں نے ان کاپیغام پہنچایا تو نہیں۔

میں گھبرا گیا کہ کیا یہ اتنا ضروری پیغام تھا۔ میں نے کہا کہ شاید وہ سو گئے ہوں گے، کل صبح ہی پہنچا دوں گا۔ کہنے لگے۔ نہیں بالکل نہیں، سلام نہیں کہنا، بس یہ کہنا کہ آرٹیکل بہت اچھا تھا۔ اسی طرح ایک محفل میں ایک اسکالر جو مسلم ایشوز کے بارے میں قومی اخبارات میں لکھتے تھے، ان کے پاس آکر کہنے لگے، نورانی صاحب آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی، تو انہوں نے جواب دیا کہ ان کو کوئی خوشی نہیں ہوئی، آپ نے فلاں دن، فلاں اخبار میں اپنے آرٹیکل کی اٹھارہویں لائن میں کیا اناپ شناپ لکھا تھا۔ وہ رائٹر اس آرٹیکل کو خود بھول چکا تھا، مگر نورانی صاحب کے ذہن میں گرہ لگ چکا تھا۔

ممبئی کے فیشن ابیل علاقے کے فلیٹ میں وہ اکیلے ہی رہتے تھے۔ انہوں نے شادی نہیں کی تھی۔ خوشونت سنگھ کی زیر ادارت الیسٹریٹڈ ویکلی کے وہ کالم نویس تھے۔ بقول خوشونت سنگھ انہوں نے ایک اور کالم نویس انیس جنگ کے ساتھ ان کی نسبت کی بات چلائی تھی۔

دونوں نے اوبرائے ہوٹل میں ملنے پر رضامندی ظاہرتو کی، مگر اس عالیشان ہوٹل کے کس ریستوراں میں ملنا ہے وہ طے نہیں کیا تھا۔ نورانی وقت پر پہنچ کر ایک ریستوراں میں بیٹھ گئے، انیس جنگ دوسرے ریستوراں میں برا جمان ہوگئیں۔ پندرہ منٹ تک دونوں ایک دوسرے کا انتظار کرکے اٹھ گئے اور دونوں کی ملاقات لفٹ کے پاس ہوئی، اور دونوں کو یقین تھا کہ دوسرا فریق دیر سے آرہا ہے۔ لفٹ کے پاس ان کی جھڑپ ہوئی، تو ہوٹل کے ملازموں نے بیچ بچاؤ کیا۔ یہ متوقع شادی انجام تک پہنچنے سے قبل ہی ختم ہوگئی۔ دونوں پھر زندگی بھرکنوارے ہی رہے۔

مضامین اور کتابوں میں وہ حوالہ جات سے اپنے دلائل کی عمارت اتنی مضبوط کھڑی کردیتے تھے کہ اس کو ہلانا یا اس میں سیندھ لگانا نہایت ہی مشکل امر ہوتا تھا۔

اپنی کتاب آرٹیکل 370: کانسٹی ٹیوشنل ہسٹری آف جموں و کشمیر میں انہوں نے بڑی عرق ریزی سے آرٹیکل 370 کی تدوین اور ان تمام دستاویزات اور اس کے متعلق دیگر ایشوز کا مبسوط احاطہ کیا ہے جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ریاست کو ہندوستان کے ساتھ مشروط الحاق کے وقت جو ضمانتیں اور آئینی تحفظات فراہم کیے گئے تھے، ان کو کس طرح روندا گیا ہے۔

یہ کتاب بی جے پی کے لیے سوہان روح تھی۔ کیونکہ اس میں دستاویزی حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جن سنگھ کے بانی شیاما پرساد مکھرجی نے جن کا نام آرٹیکل 370 کی مخالفت کرتے وقت بی جے پی اچھالتی ہے، اس کی مکمل حما یت کی تھی۔ بی جے پی اس وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل کا نام بھی اس پروپیگنڈہ کے لیے استعمال کرتی ہے کہ انہوں نے اس مسئلہ پر پنڈت جواہر لعل نہرو کی مخالفت کی تھی۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ پٹیل نے بھی اس دفعہ کی مکمل تائید کی تھی۔

اسی طرح اپنی کتاب انڈیا چائنا باؤنڈری پرابلم(1846-1947)  میں انہوں نے ثابت کردیا کہ ہندوستان اور چین کے درمیان سرحدی تنازع ایک مفروضے کے سوا کچھ نہیں، جس کوہندوستانی سفارت کاری نے گزشتہ تین دہائیوں سے فریب اور دھوکہ دہی کے ذریعے بڑی کامیابی سے دنیا کے سامنے پیش کر رکھا ہے۔ اس جھوٹے پروپیگنڈہ کا آغاز کسی اور نے نہیں بلکہ ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے خود کیا تھا۔ 27 اکتوبر 1947 کو جس وقت ہندوستانی فوجیں کشمیر میں داخل ہوئیں، تو ریاست جموں و کشمیر کا رقبہ 82258 مربع میل دکھایا گیا۔

ہندوستانی وزیر داخلہ سردار پٹیل نے جب ریاستوں سے متعلق ایک وائٹ پیپر جاری کیا، تو اس میں بھی یہی رقبہ دکھایا گیا۔ 1891 میں پہلی مردم شماری کے وقت ریاست کا رقبہ 80900 مربع میل دکھایا گیا تھا۔ مگر 1911 کی مردم شماری میں رقبہ بڑھا کر 84258 مربع ریکارڈ کیا گیا۔مردم شماری کے کمشنر کی رائے پر 1941میں اس رقبہ کو گھٹا کر 82258 مربع میل کردیا گیا۔1951 میں پہلی مردم شماری کے وقت اسی کو دہرایا گیا۔ البتہ 1961کی مردم شماری میں ریاست کے رقبہ کو بڑھا کر 86024 مربع میل دکھایا گیا۔

یہ جغرافیہ کہاں سے حاصل ہوا، ایک معمہ ہے۔ اس دوران کوئی جنگ بھی نہیں ہوئی تھی۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ہندوستان نے جموں و کشمیر کے رقبہ میں 3766 مربع میل کا اضافہ 1960 میں پاکستان کے صدر ایوب خان کے ساتھ کراچی میں تاریخی سندھ طاس آبی معاہدہ پر دستخط کرکے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے وطن لوٹنے کے فوراََ بعد کیا۔

ہندوستانی خارجہ پالیسی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان چاہتا ہے کہ خطے کے ممالک اس کو انکل سمجھیں اور بڑی طاقتیں اس کو بھائی مانیں۔ نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد یہ سوچ کچھ زیادہ ہی پختہ ہوگئی ہے۔

کتاب ڈسٹرکشن آف بابری مسجد:اے نیشنل ڈس آنرمیں بھی انہوں نے کئی حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس کے اندرا گاندھی کے دور اقتدارمیں ہی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے لیے وشو ہندو پریشد کے ساتھ ایک ڈیل ہوئی تھی۔گوکہ پریشد نے اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد اپنی تحریک روک دی مگر راجیو گاندھی نے اس ڈیل کو پھر زندہ کیا تاہم، اس سے پہلے وہ مسلمانوں پر کوئی احسان کرنا چاہتے تھے۔

اس کے لیے ان کے حواریوں نے ایک مسلم مطلقہ خاتون شاہ بانو کا قضیہ کھڑا کیا اور پارلیامنٹ سے ایک قانون پاس کروایا کہ مسلم پرسنل لاء میں عدالت کوئی ترمیم نہیں کر سکتی۔مصنف کے بقول انہوں نے راجیو گاندھی کو مشورہ دیا تھا کہ اس قضیہ کو کھینچنے کا کو ئی فائدہ نہیں ہے، اور اس کو اینگلو محمڈن قانون کے بجائے شرعی قانون کے مطابق حل کیا جاسکتا ہے، مگر وہ مسلمانوں کو سیاسی طور پر بیوقوف بنانے پر تلے ہوئے تھے تاکہ پریشد کے ساتھ ڈیل کو آگے بڑھایا جاسکے۔

اور یہی ہوا ۔کانگریس کے علاوہ دیگر سیکولر جماعتوں نے جب وہ اتر پردیش میں حکومت کر رہی تھی، نے بابری مسجد کی مسماری کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ حتیٰ کہ ایک معمولی نوٹیفکیشن تک کا اجراء نہیں کرسکیں جس سے خصوصی عدالت میں ان افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا۔

معروف صحافی سدھارتھ وردراجن کے مطابق، کسی بھی دوسرے ملک میں، نورانی جیسے عوامی دانشور کی ایک قابل احترام قومی خزانہ کے بطور عزت افزائی کی گئی ہوتی۔

حیر ت کی بات یہ ہے کہ خود مسلمانوں کی تنظیموں اور دانشورں نے بھی ان سے بے اعتنائی برتی۔ اگر ہندی اخبار دینک بھاسکرکو ان کے کالم شائع کرنے سے کوئی عار نہیں تھا، تو اردو کا کوئی اخبار ان کو کیوں شائع نہیں کرتا تھا؟ یہ ایک بڑا سوال ہے، جو اردو اخبارات کے مالکان اور مدیروں کو اپنے ضمیر سے پوچھنا چاہیے۔

حیدر آباد کا سیاست، انقلاب یا راشٹریہ سہارا تو ان کے کالم کے متحمل ہوسکتے تھے۔

مسلم دانشوروں میں ڈاکٹرمنظور عالم واحد شخص ہیں، جنہوں نے ان کو انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز کی طرف سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ تفویض کرکے اس ایوارڈ کو رونق بخش دی۔

اور مسلم سیاستدانوں میں اسد الدین اویسی واحد شخصیت ہیں، جو ان سے رابطہ  میں رہے اور آخری وقت میں وہی ان کا خیال رکھتے تھے۔

پچھلے چار سالوں سے نورانی صاحب علیل تھے۔ گھٹنوں کے درد کی وجہ سے وہ پہلے ہی وہیل چیئر پرمحدود ہو گئے تھے۔ چونکہ ان کی اپنی کوئی فیملی نہیں تھی، اس عرصے کے دوران ان کے ہاتھ میں لرزش آگئی تھی۔ وہ کالم لکھ نہیں پا رہے تھے۔

بتا رہے تھے کہ ان کی آمدن اب تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ بس اکتوبر میں کتابوں کی رائلٹی آتی ہے اسی کا انتظار رہتا ہے۔ اس دوران وہ باتھ روم میں گر گئے تھے، جس سے ان کی ٹانگ میں فریکچر آگیا تھا۔

اویسی صاحب کا اللہ بھلا کرے کہ انہوں نے ایک ملازم رکھوا دیا تھا، جو ان کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ مگر وہ خود دار بھی اتنے تھے کہ ان کو کوئی امداد دینا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا۔ اس لیے اس ملازم کی تنخواہ ان کی حیدر آباد پر لکھی ہوئی کتاب کی رائلٹی سے دی جاتی تھی۔ اویسی صاحب نے خود ہی اس کتاب کی سینکڑوں کاپیاں خریدی تھیں۔

 اس بلند پایہ شخصیت کو الوداع کہتے ہوئے دکھی من سے تحریر کرنا پڑتا ہے کہ ان کی ویسی قدر نہیں ہوئی، جس کے وہ حقدار تھے۔ وہ ایک عظیم ورثہ چھوڑ کر گئے ہیں، جس کے لیے صدیوں تک ان کا شکریہ ادا کیا جائے گا۔

ان کی کتابیں اور نگارشات اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ انصاف کے لیے ان کا عزم ان لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں زندہ رہے گا جو ان کے نظریات کو برقرار رکھنے کے خواہش مند ہیں۔

سیاسی نظریہ سے قطع نظر جو اکیڈمک کام انہوں نے کشمیر پر کیا، یہ احسان کبھی چکایا نہیں جا سکتا ہے۔

اے جی نورانی سکون سے رہیں۔ آپ کی میراث برقرار ہے۔