ایودھیا میں رام مندر کے بننے سے خوش طبقہ بھی پران-پرتشٹھا کی تقریب کو سیاسی قرار دیتے ہوئے اس پر سوال اٹھا رہا ہے۔
گوالیار: 22 جنوری، 2024 کو اتر پردیش کے ایودھیا میں واقع رام مندر میں رام للا کی مورتی کی پران -پرتشٹھا کی تقریب وزیر اعظم نریندر مودی انجام دینے والے ہیں۔ اس تقریب کے لیے ملک اور بیرون ملک کی ہزاروں نامور شخصیات کو مدعو کیا گیا ہے، جن میں لیڈر، اداکار، صنعتکار وغیرہ شامل ہیں۔ مہینوں پہلے سے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے وابستہ تنظیمیں وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور بجرنگ دل وغیرہ عام لوگوں کے گھر-گھر جا کر انہیں بڑی تعداد میں رام مندر آنے کی دعوت دے رہی ہیں ۔
دوسری طرف، اس ‘تاریخی’ لمحے کا گواہ بننے کی خواہش رکھنے والے جن لوگوں نے ایودھیا اور اس کے آس پاس ہوٹلوں کی بکنگ کروائی تھی، وہ تمام بکنگ انتظامیہ کے اشارے پررد کر دی گئی ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ پران-پرتشٹھا کی تقریب میں شرکت کے لیے ایودھیا نہ آئیں، اپنے گھروں میں ہی چراغاں کریں۔
تاہم، تنازعات کی بنیاد پر کھڑے رام مندر کا یہ وقت بھی تنازعات سے اچھوتا نہیں ہے۔ ہندو/ سناتن دھرم کے چار ستون سمجھے جانے والے چاروں مٹھوں کے شنکراچاریہ نے اس میں شامل ہونے کی دعوت کو قبول نہیں کیا ہے۔
گووردھن پیٹھ کے جگدگرو شنکراچاریہ نشچلانند سرسوتی نے وزیر اعظم کے ذریعے پران-پرتشٹھاپر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا، ‘جب مودی جی افتتاح کریں گے، مورتی کو چھوئیں گے، پھر میں وہاں کیا تالیاں بجاؤں گا… اگر وزیر اعظم ہی سب کچھ کر رہے ہیں تو ایودھیا میں ‘دھرم اچاریہ’ کے لیے کیا باقی رہ گیا ہے؟’
وہیں، جیوتش پیٹھ کے شنکراچاریہ ایوی مکتیشورانند سرسوتی نے کہا کہ جزوی طور پر تعمیر شدہ مندر کا افتتاح صرف سیاسی فائدے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ سیاست دانوں کو مذہبی رہنما بنایا جا رہا ہے۔ یہ روایات کے خلاف ہے اور سیاسی فائدے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ تعمیراتی کام مکمل ہونے سے پہلے کسی بھی مندر میں پران-پرتشٹھا نہیں ہو سکتی۔ ایسے میں پران-پرتشٹھا ہندو مذہب کی روایات کے مطابق نہیں ہے۔
مسلم تنظیم ‘جماعت اسلامی ہند‘ نے بھی افتتاحی تقریب کو ‘سیاسی پروپیگنڈہ’ اور ‘انتخابی فائدہ حاصل کرنے کا ذریعہ’ بننے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
مرکزی اپوزیشن پارٹی کانگریس نے تقریب میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے اسے بی جے پی-سنگھ کا سیاسی پروجیکٹ قرار دیا ہے اور شنکراچاریوں کی ہمنوائی میں کہا ہے کہ صرف انتخابی فائدہ حاصل کرنے کے لیے آدھے ادھورے بنے مندر کا افتتاح کیا جا رہا ہے۔
اس سے قبل، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) اور ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) نے بھی سیاسی فائدے کے لیے مذہب کا استعمال کرنے کا الزام لگاکر اس تقریب کا بائیکاٹ کر چکے ہیں۔ اب سی پی آئی نے بھی اسے سیاسی پروگرام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس میں حصہ نہیں لے گی۔
کیا سوچتے ہیں عام لوگ؟
دریں اثنا، دی وائر نے ملک کے مختلف حصوں سے ہندو مذہب کو ماننے والے کچھ عام لوگوں سے بات کی اور جاننا چاہا کہ آخر وہ اس پوری تقریب کو کس طرح دیکھتے ہیں۔
اتر پردیش کے ضلع گورکھپور سے تعلق رکھنے والے طالبعلم روشن پرتاپ سنگھ رام مندر بنائے جانے کے حق میں تو ہیں، لیکن ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ رام کے نام پر ہو رہی سیاست کی وجہ سے بڑھتی ہوئی شدت پسندی طویل عرصے میں ہندوستان کے لیے نقصاندہ ثابت ہوگی۔
وہ کہتے ہیں، ‘بھگوان رام کے تئیں ہندوؤں کی اکثریت میں عقیدت مندی اچھی بات ہے۔ رام مندر کا بننا بھی اچھی بات ہے۔ لیکن مندر کے نام پر جو سیاست کی جا رہی ہے اس کی وجہ سے شدت پسندی میں آہستہ آہستہ اضافہ ہو رہا ہے، جس سے ہندوستان کی سائنسی سوچ اور معیشت کو کہیں نہ کہیں طویل عرصے میں نقصان پہنچے گا۔ پاکستان اس کی روشن مثال ہے۔ وہاں شدت پسندی زیادہ ہے، مذہب حاوی ہے، اس لیے معیشت اور سائنسی سوچ غائب ہے۔’
مدھیہ پردیش میں درس و تدریس سے وابستہ جینت سنگھ تومراس تقریب کو خالصتاً سیاسی اور بی جے پی کے ایجنڈے کو پورا کرنے والا قرار دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ‘بی جے پی کے شروع سے تین ایجنڈے تھے – آرٹیکل 370، رام جنم بھومی اور یکساں سول کوڈ۔ لوک سبھا انتخابات سے پہلے مرکزی حکومت بتانا چاہتی ہے کہ ہم نے دو مسئلے حل کر لیے ہیں، اب ہم تیسرے (یکساں سول کوڈ) پر آنے والے ہیں۔ اس طرح وہ لوک سبھا انتخابات جیتنے کی کوشش کریں گے۔ اس لیے اتر پردیش ہدف میں ایک اہم ریاست ہے، اس لیے وہاں ماحول بنانا سب سے اہم ہے، جس سے پارٹی کو فائدہ ہوگا۔ سب کچھ حکمت عملی کے تحت کیا جا رہا ہے۔’
وہ مزید کہتے ہیں، ‘پوری قواعد مذہبی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ لوک سبھا انتخابات کے اعلان سے عین قبل مندر کے افتتاح کی ٹائمنگ اس پر مہر لگاتی ہے۔ بس اتنا ہے کہ عوامی جذبات کی اکثریت رام مندر سے جڑی ہوئی ہے۔ اگر وجہ سیاسی نہ ہوتی تو رام جنم بھومی تحریک شروع کرنے والے لال کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کو دعوت سے محروم نہ کیا جاتا۔ ایسا اس لیے کیا گیا کیوں کہ پارٹی کی جن کے پاس باگ ڈور ہے وہ نہیں چاہتے کہ پرانے لیڈر آکر اس ماحول کا سارا کریڈٹ لے جائیں۔’
بہار کے ایک سرکاری ٹیچر نیلیش (بدلا ہوا نام) کہتے ہیں، ‘رام جی آرہے ہیں، اس میں کوئی دقت نہیں ہے۔ لیکن مودی مندر کا افتتاح کیوں کریں، آپ وزیراعظم ہیں، پران-پرتشٹھا کرانا ہے تو سادھو-سنتوں سے کراؤ۔ جب آپ دیکھ رہے ہو کہ دو ماہ بعد لوک سبھا کے انتخابات ہیں، تو آئینی نقطہ نظر سے آپ کو خود ہی اپنا نام آگے نہیں بڑھانا چاہیے تھا۔ وہ سیدھا-سیدھا ووٹ بینک کے لیے رام کے نام کو کیش کرا رہے ہیں۔’
طالبعلم روشن پرتاپ بھی کہتے ہیں کہ ‘آئین میں درج ہے کہ حکومت سیکولرازم کی بات کرے گی۔ اگر مودی ایودھیا میں رام جنم بھومی پر رام مندر کا افتتاح کر رہے ہیں تو انہیں دھنی پور میں بن رہی مسجد کا بھی افتتاح کرنا چاہیے۔اس کی تعمیر بھی ایک ٹرسٹ بنا کر شاندار طریقے سے کی جانی چاہیے۔وزیراعظم توتمام مذاہب کے ہوتے ہیں، لیکن اگر وہ صرف ایک مذہب کے لیے وقف ہیں تو وہ اپنی ذمہ داریوں سے بھاگ رہے ہیں۔ دراصل یہ کام شنکراچاریہ کا ہی تھا۔ انہیں بلا کر افتتاح کرنا چاہیے تھا، لیکن یہ خالصتاً ہندوتوا کی سیاست ہے۔’
آسام کے ایک اسپورٹس کوچ مندر کی تعمیر سے بہت خوش ہیں اور اسے سناتن کی جیت قرار دیتے ہیں۔ وہ اس کا کریڈٹ مودی حکومت کو ہی دیتے ہیں، لیکن اس تقریب کی سیاسی وابستگی کا بھی اعتراف کرتے ہیں۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ‘ہاں، اس تقریب کے پیچھے سیاست اور لوک سبھا انتخابات بھی ایک وجہ ہے، لیکن سیاستدان تو سیاست کریں گے ہی ۔ اگر ان کی جگہ کانگریس ہوتی تو وہ بھی سیاست کرنے سے باز نہ آتی۔ اب جو بھی ہے، جیسے بھی ہے، ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ مندر بن گیا ہے۔’
بتادیں کہ اس عظیم الشان تقریب میں ہندوستان اور بیرون ملک سے 11000 سے زیادہ وی وی آئی پی شرکت کرنے والے ہیں۔اعتراضات اس پر بھی ہیں۔
یوپی کے کشی نگر ضلع سے تعلق رکھنے والے ایک پی ایچ ڈی کے طالبعلم گورو کہتے ہیں، ‘شنکراچاریہ کا احتجاج بالکل جائز ہے کیونکہ ادھورے مندر میں پران-پرتشٹھا کی جا رہی ہے۔ ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے کہ چند دنوں میں انتخابات ہونے والے ہیں اور مودی مہمان خصوصی بن گئے ہیں۔وہیں، مذہبی رسومات میں میاں بیوی کا ساتھ بیٹھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ مندر کی تعمیر کے لیے قربانیاں دینے والے لوگوں کو مدعو کرنے کے بجائے وہ ایسے لوگوں کو مدعو کر رہے ہیں جو مقبولیت میں سرفہرست ہیں اور جن کا رام مندر سے کوئی تعلق نہیں ہے، جیسے کہ بالی ووڈ کے لوگ، صنعتکار اور دیگر وی وی آئی پی۔ اڈوانی-جوشی جیسے لوگوں کو اس لیے مدعو نہیں کیا گیا کہ مودی نرگسیت کے شکار ہیں، ان لوگوں کے آنے سے ان کی تصویر کی چمک پھیکی پڑ جاتی۔’
وہ سوال کرتے ہیں،’جن لوگوں کو دعوتیں بھیجی گئی ہیں، کیا ان میں رام کی ایک بھی خوبی ہے؟ آپ ان کو مدعو کیجیے جن کے خاندان والوں نے 90 کی دہائی میں جانیں قربان کیں۔ لیکن بات یہ ہے کہ مثال کے طور پر وہ بالی ووڈ والوں کو بلائیں گے، پھر وہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے تصاویر پوسٹ کریں گے، جس سے ان (مودی اور بی جے پی) کا پرچار ہوگا۔ کروڑوں فالوورز والے ان لوگوں سے اگر 5 لاکھ ووٹر بھی متاثر ہو گئے تو یقیناً انتخابات میں فائدہ ہوگا۔ نرگسیت کے شکار مودی جی کو رام سے کوئی مطلب نہیں ہے۔’
نیلیش کہتے ہیں، ‘جن لوگوں نے رام مندر کے لیے لڑائی لڑی اور رام میں بے پناہ عقیدہ رکھتے ہیں، انہیں گھر بیٹھنے کو کہا جا رہا ہے۔ صنعتکاروں کو اس لیے بلایا جا رہا ہے کہ انتخابی چندہ تو ان سے ہی ملے گا۔ وہیں، جب آپ سناتن دھرم کی بات کر رہے ہیں تو پھر ایسے لوگوں کا بائیکاٹ کیوں نہیں کر پا رہے ہو جو بیف کھاتے ہیں؟’
ان کا اشارہ اداکار رنبیر کپور اور اداکارہ عالیہ بھٹ کو دی گئی دعوت کی جانب ہے۔ قابل ذکر ہے کہ کپور کے آنجہانی والد اداکار رشی کپور نے کھلے عام بیف کھانے کی بات کہی تھی ۔ وہیں، کچھ عرصہ قبل عالیہ بھٹ کے والد اور فلمساز مہیش بھٹ کے خلاف وی ایچ پی نے ہندو جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام لگا کر محاذ کھول دیا تھا ۔ دونوں موقعوں پر سنگھ سے منسلک تنظیموں کی طرف سے سخت مخالفت کی گئی تھی۔
روشن پرتاپ کہتے ہیں، ‘اگر کانگریس کی حکومت ہوتی تو اس معاملے کو خوب ہائی لائٹ کیا جاتا کہ بیف کھانے والے رشی کپور کے بیٹے کو رام مندر کی پران-پرتشٹھا میں مدعو کر رہے ہیں۔’
اس کے لیے وہ بی جے پی حکومت کے زیر انتظام میڈیا کو بھی نشانہ بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بی جے پی سے اختلاف کرنے والی آوازوں کو دبایا جاتا ہے اور انہیں آگے نہیں آنے دیا جاتا۔ اگر کوئی دوسری پارٹی حکومت میں ہوتی تو ایسے معاملات اور شنکراچاریہ کی ناراضگی دن رات میڈیا کی سرخیوں میں رہتی۔
تاہم، بی جے پی نے عوامی طور پر اس تقریب کو مذہبی قرار دیا ہے اور اسے سیاسی قرار دینے کی مخالفت کی ہے۔ تاہم، مدھیہ پردیش میں پارٹی کے ہی ایک سینئر کارکن نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے اس تقریب کے سیاسی ہونے کا اعتراف کیا ۔
وہ کہتے ہیں، ‘تمام اپوزیشن پارٹیاں پچھتا رہی ہوں گی کہ انہوں نے ایسے وقت میں قومی سطح پر اتحاد (انڈیا) کا اپنا آخری داؤ چلا، کیونکہ رام مندر کے آگے اب یہ ناکام ہو جائے گا۔ کانگریس ذات پر مبنی مردم شماری کا منصوبہ بھی بنا رہی تھی، اب رام کے نام پر تمام ہندو متحد ہیں۔’
تاہم، مودی پر اپنی تنقید میں وہ یہ بھی کہتے ہیں، ‘شنکراچاریہ کو پران-پرتشٹھا کے کام میں شامل نہ کرنا غلط ہے۔ اگر مودی چاروں شنکراچاریوں کو اپنے ساتھ شامل کر لیتے تو کیا بگڑ جاتا؟ وہ خوش بھی ہو جاتے ، اور یہ ان کا حق بھی ہے۔ ‘
چھتیس گڑھ کے سماجی کارکن دھیریندر ساہو کہتے ہیں، ‘یہ لوگ گھر- گھر جا کر لوگوں کو مندر میں مدعو کر رہے ہیں، جو دراصل انتخابی عوامی رابطہ مہم معلوم ہوتی ہے۔ بی جے پی-سنگھ کے لوگ گھومیں تو گھومیں لیکن اسکول کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو تو ان سب سے دور رکھیں، لیکن انہیں بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ اسکولوں میں رام دھن گانے کے احکامات جاری کر رہے ہیں۔ وہیں، پہلے تو آپ لوگوں کے گھر- گھر جا کر ایودھیا چلنے کو کہہ رہے ہیں، اور پھر وہاں جن کی ہوٹل بکنگ ہے، انہیں خالی کرا رہے ہیں۔ رام تو سب کے ہیں، وہ بھی چاہتے ہیں کہ اس لمحے کے گواہ بنیں۔’
ان کا مزید کہنا ہے کہ ‘ رام مندر کے نام پر کب تک ووٹ لیں گے، یہ 2024 میں بن گیا۔ اس کے بعد کیا کریں گے؟ اس لیے لوگوں کے مسائل کو حل کرنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ پوجا پاٹھ تو لوگ اپنے شہر میں یا اپنے گھر میں بھی کر سکتے ہیں۔ ‘
نیلیش بھی حکومت سے رام مندر سے پہلے بے روزگاری کا مسئلہ حل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ حال ہی میں ٹیچر کے طور پر ان کی تقرری ہوئی ہے۔ اس سے پہلے وہ برسوں روزگار کی تلاش میں ریاست در ریاست بھٹک کر بے روزگاری کی مار برداشت کر چکے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ‘بے روزگاری اور صحت سب سے بڑا ایشو ہونا چاہیے۔ ملک میں کہیں بھی سرکاری ہسپتال اس لائق نہیں ہیں کہ ہم علاج کرا سکیں۔ بہار کے وزیر تعلیم نے بھی پوچھا ہے کہ اگر بیمار پڑوگے تو اسپتال جاؤگے یا مندر؟ پہلے آپ بنیادی سہولیات فراہم کریں، مندر میں ہم بھیک مانگنے نہیں جائیں گے۔ جب روزگار کی بات آتی ہے تو پکوڑے بیچنے کا مشورہ دے کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔’
مدھیہ پردیش کے کسان ستیش رائے کہتے ہیں، ‘یہ ایک خاص پارٹی کا خالصتاً سیاسی پروگرام ہے، جو رام کو کیش کر رہی ہے۔ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے عجلت میں منعقد کی جانے والی یہ تقریب بالکل بھی مذہبی نظر نہیں آتی۔ دراصل یہ ایشو اس لیے تیار کیا گیا تھا کہ اس سے سیاسی فائدہ اٹھایا جا سکے۔ آج اس کا پھل نظر آرہا ہے۔ مندر بن رہا ہے، اس کی خوشی ہے۔ لیکن بھگوان اگر رام خود ہوتے تو وہ اس طرح کی تقریب کی خواہش نہیں کرتے۔ ‘
عجلت سے ستیش کا مطلب شنکراچاریہ کی وہ مخالفت ہے جہاں انہوں نے شاستروں کا حوالہ دیتے ہوئے رام مندر کی پران-پرتشٹھا کوپوش کے مہینے کی نامبارک اورآدھے اھورے بنے مندر میں کیے جانے کو نامناسب قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کام کے لیے سب موزوں وقت بھگوان رام کا جنم دن ‘رام نومی’ہوتا۔
بتادیں کہ رام نومی 17 اپریل 2024 کو ہے اور اس وقت تک لوک سبھا انتخابات کے لیے ضابطہ اخلاق نافذ ہو چکا ہوگا، اس لیے اس وقت تقریب کی صورت میں تو مودی خود کو آگے کرکے اس کا سیاسی فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ اس لیے شنکراچاریہ نے بھی اس پورے پروگرام کو سیاسی قرار دیتے ہوئے اس میں شرکت سےانکار کر دیا ہے۔
وہیں، بی جے پی خواہ اس تقریب کو کتنا ہی مذہبی کیوں نہ کہے، لیکن اس کے سوشل میڈیا ہینڈل پر چل رہا 22 جنوری کا کاؤنٹ ڈاؤن اور لگاتار پوسٹ اس کے سیاسی امکانات کے لیے اس تقریب کی اہمیت کو اجاگر کردیتے ہیں۔