افغانستان: شمالی اتحاد اور ہندوستان کے روابط کی کہانی

احمد شاہ مسعود کے ساتھ متواتر ملاقاتوں کے بعد متھو کمار نے نئی دہلی میں حکمرانوں کومتنبہ کیا تھا کہ کسی بھی صورت میں کبھی بھی افغانستان میں براہ راست مداخلت یا فوج بھیجنے کی غلطی نہ کی جائے۔ ہندوستان ابھی بھی اس پالیسی کو تھامے ہوئے ہے، […]

احمد شاہ مسعود کے ساتھ متواتر ملاقاتوں کے بعد متھو کمار نے نئی دہلی میں حکمرانوں کومتنبہ کیا تھا کہ کسی بھی صورت میں کبھی بھی افغانستان میں براہ راست مداخلت یا فوج بھیجنے کی غلطی نہ کی جائے۔ ہندوستان ابھی بھی اس پالیسی کو تھامے ہوئے ہے، کیونکہ افغان قوم غیر ملکی افواج کو اپنی زمین پر برداشت نہیں کرتی ہے۔

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

چھبیس (26)ستمبر، 1996کو جب طالبان نے برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعود کی افواج کو شکست دےکر کابل پر قبضہ کرکے سابق صدر نجیب اللہ کو ہلاک کردیا، اس کے ایک ہفتے بعد تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں رات گئے ہندوستانی سفیر بھرت راج متھو کمار کے گھر پر فون کی گھنٹی بجی۔

دوسری طرف معزول شدہ کابل انتظامیہ کے دوشنبہ میں نمائندے اور افغانستان کے موجودہ نائب صدر امر اللہ صالح لائن پر تھے۔ انہوں نے سفیر سے گزارش کی کہ’کمانڈر'(احمد شاہ مسعود) چند لمحے قبل دوشنبہ پہنچ گئے ہیں اور وہ ہندوستان کے سفیر سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔

ویسے تو دوشنبہ میں موجود سبھی ممالک کے سفراء کابل کے حالات کسی عینی شاہد سے سننے کے لیے بے تاب تھے، مگر کمار نے میٹنگ کی حامی بھرنے سے قبل نئی دہلی میں سینئر حکام سے اجازت طلب کرنے کے لیے مہلت مانگی۔ اگلے ہی دن بذریعہ تار ایک مختصر سا جواب آیا کہ’غور سے سنو، ایمانداری کے ساتھ واپس رپورٹ کرو اور رول بک میں جائے بغیر اپنی صوابدید پر فیصلہ کرو۔’

بتایا گیا کہ وزیر خارجہ اندر کمار گجرال نے خود  اس ملاقات کی منظوری دی تھی۔لہذا اسی شام کو احمد شاہ مسعود دوشنبہ میں موجو داپنی رہائش گاہ کے ڈرائنگ روم میں خشک میووں اور چائے سے ہندوستانی سفیر کی تواضع کر کے ان کو بتا رہے تھےکہ طالبان کے خلاف جنگ میں ان کو ہندوستان  کی مدد درکار ہے۔ امراللہ صالح مسعود کی گفتگو کا انگریزی میں ترجمہ کر رہے تھے۔

یہ یقین کرنے کے لیے کہ صالح ترجمہ ایمانداری کے ساتھ کر رہے ہیں، ہندوستانی سفیر اپنے نائب ڈاکٹر ایس اے قریشی کو ساتھ لےکر گئے تھے، جو پشتو، دری اور فارسی بخوبی جانتے تھے۔ وہ ایک کونے میں گفتگو سن رہے تھے اور ان کو ہدایت تھی کہ غلط ترجمہ کی صورت میں وہ سفیر کو بعد میں خبردار کردیں۔

اسی پہلی ہی میٹنگ میں مسعود نے اپنی چترالی ٹوپی میز پر رکھ کر سفیر کو بتایا کہ وہ اس ٹوپی کے برابر زمین بھی طالبان اور ان کے غیر ملکی اتحادیوں کو دینے کے روادار نہیں ہیں اور وہ افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے تک جدوجہد کرتے رہیں گے۔ متھو کمار نے واپس دہلی  پیغام بھیجا کہ شمالی اتحاد تو ہندوستان کی ہی جنگ لڑ رہا ہے، اس لیے ان کی حمایت کرنا ملکی مفاد میں ہے۔ ‘طالبان کے ساتھ جنگ کا مطلب پاکستان کے ساتھ جنگ ہے۔ یہ دراصل ہماری ہی جنگ ہے، جو احمد شاہ مسعود لڑ رہا ہے۔’

خیر دہلی نے شمالی اتحاد کی مدد کی حامی بھر لی او ر روس کی مدد سے تاجکستان میں فراخور اور بعد میں آئینی مستقر ہندوستانی فضائیہ کے لیے مہیا کئے گئے۔ مسعود کے مطالبات کی فہرست طویل ہوتی گئی، مگر ہندوستانی سفیر نے ان کو متنبہ کیا کہ نئی دہلی ایک حد تک ہی مدد کرسکتا ہے۔ متھو کمار نے اعلیٰ افسران کو ایک پیغام میں بالی ووڈ کا مشہور ڈائیلاگ بھیج کر یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ شمالی اتحاد کو کامیابی کے لیے ہندوستان کی اشد مدد درکار ہے۔

سفیر نے پیغام دیا؛’ہم نے اس کو (احمد شاہ مسعودکو) لیکوڈ (مائع) آکسیجن میں ڈبو دیا ہے۔ لیکوڈ اس کو زندہ نہیں رہنے دےگا، آکسیجن اس کو مرنے نہیں دیگا۔’تب تک اندر کمار گجرال کا تختہ پلٹ گیا تھا اور وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی مخلوط حکومت بر سراقتدار آگئی تھی۔

اس حکومت میں وزیر خارجہ جسونت سنگھ تاجکستان سے آئے پیغامات کو خود ہی ڈیل کرتے تھے۔ ان کا حکم تھا کہ آدھی رات گئے بھی اگر کوئی پیغام آئے، تو ان کو جگا کر مطلع کیا جائے۔ بھاری ہتھیاروں کے بغیر ہندوستان نے توپ و مارٹروں کے لیے ایمونیشن، کشمیر کے عسکریت پسندوں سے ضبط کی گئی بندوقیں و کلاشنکوف و دیگر اسلحہ، گرم کپڑے، جوتے، ادویات وغیرہ کی ترسیل متواتر بذریعہ تاجسکستان روانہ کی۔ تاہم احمد شاہ مسعود کو رقوم لندن میں ان کے برادر ولی مسعود کے ذریعے پہنچائی جاتی تھی۔

تاجک کسٹم حکام فراخور سے افغانستان کی بارڈ کے اس پار ساز و سامان لے جانے میں مدد کرتے تھے۔مسعود کی افواج کے پاس 10ہیلی کاپٹر بھی تھے۔ جن کی مرمت اور پرزے مہیا کروانے کی ذمہ داری ہندوستان نے لی تھی۔ 1996سے 1999کے دوران بھارت نے دو ایم آئی۔8ہیلی کاپٹر شمالی اتحاد کو گفٹ کئے۔ لیکن شمالی اتحاد کیلئے سب سے اہم مدد فراخور میں ہندوستان کی طرف سے قائم ملٹری اسپتال تھا۔ جس پر ہندوستان نے 7.5ملین ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی تھی۔ ا

س میں 30بیڈ کے علاوہ آٹھ مریضوں کے لیے آئی سی یو کی بھی سہولیت دستیاب تھی۔ اس اسپتال کے صحن میں ہی ایک ہیلی پیڈ بھی بنایا گیا تھا، تاکہ زخمیوں کو جلد علاج و معالجہ کی سہولیت فراہم کی جاسکے۔ جنوری 1999میں ویت نام کے دورہ سے واپسی پر وزیراعظم واجپائی کے اصرار پر تاجکستان کے صدر ایمامولی رحمون دہلی میں لنچ کے لیے رکے۔

واجپائی نے ان سے فراخور کے علاوہ آئینی فضائی مستقر ہندوستان کو دینے کی گزارش کی جو منظور کی گئی۔ یہ ہوائی اڈہ سویت یونین کے دور میں خاصی اہمیت کا حامل تھا، مگر اس کا اب کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ گو کہ ہندوستان نے اس بیس پر اپنے جہاز تو نہیں رکھے ہیں، مگر وہاں ایک گروپ کیپٹن اور چار دیگر افسران کو متعین کیاہوا ہے۔

فراخور کے ہی اسپتال میں احمد شاہ مسعود نے 9ستمبر 2001کو آخری سانس لی۔ افغانستان کے تکہار صوبہ کے خواجہ بہاوالدین میں جب مسعود پر خود کش حملہ کیا گیا تو ہیلی کاپٹر میں ان کو فراخور کے ہندوستانی اسپتال ہی لے جایا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کی موت ہیلی کاپٹر میں ہی واقع ہوئی تھی اور ہندوستانی ڈاکٹرو ں نے اس کی بس تصدیق ہی کی۔

تب تک متھو کمار دوشنبہ سے ٹرانسفر ہوکر بیلا روس کے دارالحکومت منسک پہنچ گئے تھے۔امر اللہ صالح نے ان کو فون پر مسعود پر حملہ سے آگاہ کرکے مدد کی درخواست کی۔ اسی دن متھو کمار شادی کے بندھن میں بندھنے والے تھے اور تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ مہمان وغیرہ آچکے تھے، کہ یہ خبر سن کر کوئی وجہ بتائے بغیر انہوں نے تقریب منسوخ کردی۔

اس کے کئی روز بعد مسعود کی ہلاکت کا اعلان کیا گیا۔ افغانستان پر امریکی فوج کشی کے بعد فراخور میں موجود اس اسپتال کو بند کرکے مزار شریف منتقل کردیا گیا۔

اپنی موت سے پانچ ماہ قبل احمد شاہ مسعود چار روزہ دورہ پر نئی دہلی وارد ہو گئے تھے۔ ان کا یہ دور انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا۔ اپنی کتاب اے کال ٹو آنر میں جسونت سنگھ رقم طراز ہیں کہ یہ دورہ نہایت حساس تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ شمالی اتحاد کو ہندوستانی مدد کے کئی اسرار ابھی بھی پردہ راز میں ہیں۔

متھو کمار کے مطابق احمد شاہ مسعود طالبان سے زیادہ غیر ملکی عسکریوں سے نفرت کا اظہار کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کا پورا مسئلہ ہی غیر ملکیوں کی موجودگی کی وجہ سے ہے اور ان کا مقصد ان کو باہر نکالنا ہے۔ مزار شریف میں1998میں طالبان کی طرف سے ایرانی سفارت کاروں کے قتل کے بعد ایران نے دو لاکھ 50ہزار فوج افغانستان کی سرحدوں پر جمع کی اور انہوں نے سفارت کاروں کے خون کا بدلہ لینے کے لیے فوج کشی کی پوری تیاری کر دی تھی۔

مگر ہندوستانی سفیر کے مطابق احمد شاہ مسعود کی مداخلت کی وجہ سے ہی ایران نے فوج کشی سے احتراز کیا۔ مسعود نے طہرا ن میں حکمرانوں تک پیغام پہنچایا کہ چونکہ وہ خود غیر ملکی عسکریوں سے بر سرپیکار ہیں، اس لیے وہ ایرانی مداخلت کی حمایت نہیں کر سکتے ہیں۔

احمد شاہ مسعود کے ساتھ متواتر ملاقاتوں کے بعد متھو کمار نے نئی دہلی میں حکمرانوں کومتنبہ کیا تھا کہ کسی بھی صورت میں کبھی بھی افغانستان میں براہ راست مداخلت یا فوج بھیجنے کی غلطی نہ کی جائے۔ ہندوستان ابھی بھی اس پالیسی کو تھامے ہوئے ہے، کیونکہ افغان قوم غیر ملکی افواج کو اپنی زمین پر برداشت نہیں کرتی ہے۔

مگر کیاامریکہ کی مدد کرکے اور بدستور اس کو اپنے ملک میں رہنے کی درخواست کرنے والے افغان حکمران بشمول امراللہ صالح اپنے استاد یا مربی احمد شاہ مسعود کا سبق بھول نہیں گئے ہیں؟  ان کے کردار اور امریکی آشیر واد کے اندر پنپتی اقربا پروری اور بد عنوانی کے ریکارڈ کو دیکھ کر کمانڈر کی روح تڑپتی ہوگی۔

کیاہی  اچھا ہوتا کہ طالبان سمیت افغانستان کے سبھی فریق اس ملک کے باسیوں کی فلاح و بہبود کے نام پر یکجا ہوکر واقعی اس ملک کو ایشاء کا دل و نقیب بنانے میں واقعی اپنا کردار ادا کریں۔

Next Article

پارلیامنٹ میں آدھی رات کے بعد بھی بحث، وقف ترمیمی بل راجیہ سبھا سے پاس

راجیہ سبھا نے وقف ترمیمی بل 2025 کو بحث کے بعد منظور کر لیا، اپوزیشن نے اسے مسلم مخالف اور اقلیتوں کے حقوق پر حملہ قرار دیا۔ بی جے پی نے اسے شفافیت میں اضافہ کرنے والا بتایا۔ ڈی ایم کے نے بل کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے۔

نئی دہلی: راجیہ سبھا میں وقف ترمیمی بل 2025 کو پاس کرانے کے لیے مسلسل دوسرے دن پارلیامنٹ آدھی رات کے بعد بھی چلی۔ یہ بل 4 اپریل کی رات 2:35 پر منظور کیا گیا، جس کے حق میں 128 اور مخالفت میں 95 ووٹ پڑے۔ لوک سبھا میں یہ 3 اپریل کو رات کے 2 بجے حق میں 288 اور مخالفت میں 232 ووٹوں کے ساتھ پاس ہوا تھا۔

اپوزیشن کی مخالفت

جمعرات (3 اپریل) کو حزب اختلاف کے کئی ارکان پارلیامنٹ نے کالے کپڑے پہن کر بل کے خلاف احتجاج کیا۔ تاہم، بی جے پی کے اتحادیوں- تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) اور جنتا دل (یونائیٹڈ) (جے ڈی یو) نے  راجیہ سبھا میں بھی بل کی حمایت کی۔ دوسری طرف بیجو جنتا دل (بی جے ڈی) اور وائی ایس آر کانگریس (وائی ایس آر سی پی) نے احتجاج  توکیا، لیکن اپنے ارکان پارلیامنٹ کو ووٹ ڈالنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا۔

بل پر زوردار بحث

لوک سبھا میں بحث بغیر کسی رکاوٹ کے چلی، لیکن راجیہ سبھا میں حکمراں پارٹی اور اپوزیشن کے درمیان گرما گرم بحث ہوئی۔ حزب اختلاف کے اراکین پارلیامنٹ نے اس بل کو ‘مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی سازش’، ‘اقلیتوں کے حقوق پر حملہ’ اور ‘زمینوں پر قبضے کا منصوبہ’ قرار دیا۔ وہیں، حکمراں پارٹی نے کہا کہ یہ بل وقف املاک کے انتظام میں شفافیت لانے کے لیے لایا گیا ہے۔

مرکزی وزیر کرن رجیجو کا بیان

اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نے کہا کہ اس بل کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ صرف وقف املاک کے انتظام سے متعلق ہے۔ انہوں نے کہا، ‘یہ کہنا غلط ہے کہ مسلمانوں کا نقصان ہوگا۔ یہ بل غیر آئینی یا غیر قانونی نہیں ہے۔’

کانگریس نے فرقہ وارانہ پولرائزیشن کا الزام لگایا

کانگریس کے رکن پارلیامنٹ سید نصیر حسین نے کہا کہ بی جے پی نے 1995 کے وقف ایکٹ اور 2013 میں کی گئی ترامیم کی حمایت کی تھی، لیکن اب اچانک اس کو ‘عوام مخالف’ بتاکر ترمیم کیوں کی جا رہی ہے؟ انہوں نے الزام لگایا کہ ‘بی جے پی 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں 400 سیٹوں کا دعویٰ کر رہی تھی، لیکن وہ صرف 240 سیٹوں پر رہ گئی۔ اب یہ بل لا کر وہ اپنا ووٹ بینک واپس حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

اپوزیشن ارکان کا سوال- یہ ترمیم کیوں؟

حزب اختلاف کے سینئر رکن پارلیامنٹ کپل سبل نے سوال کیا کہ اس بل میں صرف مسلمانوں کو ہی وقف املاک کو عطیہ کرنے کی اجازت کیوں دی گئی ہے۔ ‘اگر میرے پاس جائیداد ہے اور میں اسے خیرات میں دینا چاہتا ہوں تو آپ کون ہوتے ہیں مجھے روکنے والے؟’

حکمراں پارٹی نے اس پر اعتراض کیا جب سبل نے یہ بھی کہا کہ ‘ملک میں 8 لاکھ ایکڑ وقف جائیدادیں ہیں، جبکہ صرف چار جنوبی ریاستوں (تمل ناڈو، آندھرا پردیش، تلنگانہ اور کرناٹک) میں ہندو مذہبی جائیدادوں کا رقبہ 10 لاکھ ایکڑ ہے۔’

‘حکومت اقلیتوں کی سماجی و اقتصادی حالت بہتر بنانے میں ناکام رہی ہے’

کانگریس لیڈر ملیکارجن کھڑگے نے کہا کہ اقلیتی امور کی وزارت کے بجٹ میں کٹوتی کی گئی ہے اور اقلیتوں کی تعلیم اور معاشی طور پر بااختیار بنانے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘آپ مدرسوں کی تعلیم، مفت کوچنگ، مولانا آزاد اسکالرشپ جیسی اسکیموں کو بند کر رہے ہیں اور پھر بھی کہہ رہے ہیں کہ آپ اقلیتوں کے مفاد میں کام کر رہے ہیں؟’

‘کیا گھروں اور مساجد میں سی سی ٹی وی لگائے جائیں گے؟’

کانگریس کے رکن پارلیامنٹ سید نصیر حسین نے اس بل کی اس شق کی مخالفت کی جس میں وقف املاک کو عطیہ کرنے والے شخص کے لیے کم از کم پانچ سال تک اسلام کا پیروکار ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔

انہوں نے طنزیہ انداز میں پوچھا کہ اب یہ کیسے ثابت ہو گا کہ میں مسلمان ہوں؟ کیا مجھے ٹوپی پہننی ہوگی، داڑھی رکھنی ہے؟ کیا میرے گھر اور مساجد میں سی سی ٹی وی لگائے جائیں گے؟’

‘کیا یہ بل بلڈوزر سیاست کو قانونی شکل دینے کی کوشش ہے؟’

راجیہ سبھا میں اس بل پر بحث کے دوران آر جے ڈی کے رکن پارلیامنٹ منوج جھا نے کہا کہ اگر اس بل کے ذریعے غیر مسلموں کو شامل کیا جا رہا ہے تو سیکولرازم کے اس جذبے کو دوسرے مذاہب تک بھی پھیلایا جانا چاہیے۔

انہوں نے پوچھا، ‘اگر آپ واقعی سیکولرازم کے اس جذبے کو پورے ملک میں پھیلاتے ہیں اور ہر مذہبی ادارے میں دوسرے مذاہب کو شامل کرتے ہیں – چاہے وہ سکھ، مسلم یا عیسائی ہوں  – تو میں آپ کی تعریف کروں گا۔ یا آپ نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ تمام تجربہ صرف مسلمانوں کے ذریعے ہی ہو گا؟’

انہوں نے مزید الزام لگایا کہ یہ بل ‘بلڈوزر سیاست کو قانونی شکل دینے’ کی کوشش بھی ہو سکتا ہے۔

انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ‘کیا یہ بل بلڈوزر کے لیے قانونی ڈھال بنا رہا ہے؟ یہ  بات ایک شہری کے طور پر مجھے ڈراتی ہے۔ شہروں میں مسلمان گھیٹو میں رہنے پر مجبور ہیں، اگر وہ گاؤں میں جاتے ہیں  تو انہیں  درانداز کہاجاتا ہے۔ ان کی تنظیموں کو شک کے دائرے میں رکھا جاتا ہے اور انہیں سازشی قرار دیا جاتا ہے۔ لوگوں کو الگ تھلگ کرنے کے لیے ڈاگ-وہسل  کی سیاست کا استعمال کرناٹھیک نہیں ہے۔’

حکومت کا جواب

مرکزی وزیر کرن رجیجو نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سینٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی تعداد محدود رکھی گئی ہے اور ان کی مداخلت صرف تجاویز تک محدود رہے گی۔

انہوں نے واضح کیا کہ ‘کسی بھی مذہبی معاملے میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔ سینٹرل وقف کونسل کے کل 22 ارکان ہوں گے جن میں سے صرف چار غیر مسلم ہوں گے۔ وہ صرف اپنی رائے دے سکتے ہیں، لیکن وہ اکثریت میں نہیں ہوں گے۔’

‘ بل کارپوریٹس کو وقف املاک فروخت کرنے کا منصوبہ’

کانگریس کے ایم پی عمران پرتاپ گڑھی نے کہا، ‘آپ نے اس بل کا نام ‘امید’ رکھا ہے لیکن ملک کی ایک بڑی آبادی اب مایوس ہے کیونکہ آپ ان کی زمینیں لوٹ کر کارپوریٹس کو بیچنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔’

اپوزیشن نے وقف املاک کو بدنام کیا: بی جے پی ایم پی

عآپ کے رکن پارلیامنٹ سنجے سنگھ نے حکومت پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ جو حکومت مسلمانوں کو بااختیار بنانے کی بات کر رہی ہے، اس کی اپنی پارٹی کے پاس لوک سبھا میں ایک بھی مسلم رکن نہیں ہے اور راجیہ سبھا میں صرف ایک ہے۔

انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم مسلمانوں کی بھلائی کے لیے یہ قانون لا رہے ہیں، لیکن آپ کی پارٹی میں ایک بھی مسلم ایم پی نہیں ہے، صرف ایک غلام علی ہیں۔ آپ نے مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین کی سیاست ہی ختم کر دی۔ کیا آپ واقعی مسلمانوں کی بھلائی کر رہے ہیں؟’

بی جے پی کے اکلوتے مسلم ایم پی،غلام علی، جوجموں و کشمیر سے نامزد رکن ہیں،نے آدھی رات کے قریب بل پر بحث میں حصہ لیا اور کانگریس پر وقف ایکٹ میں ایسی دفعات شامل کرنے کا الزام لگایا جس سے مسلمانوں کو بدنام کیا گیا اور تجاوزات کی حوصلہ افزائی ہوئی۔

کانگریس پر حملہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘آپ نے وقف ایکٹ میں ایسی دفعات شامل کیں جن سے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش  ہوئی۔’

ترامیم کے خلاف عدالت جائے گی ڈی ایم کے

جمعرات (3 مارچ) کو اسٹالن سیاہ بیج پہنے  اسمبلی پہنچے  اور لوک سبھا میں بل کی منظوری کے خلاف احتجاج کیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ تمل ناڈو حکومت اس بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔

اسٹالن نے ایوان میں کہا ،  ‘ یہ ایکٹ مذہبی ہم آہنگی کو متاثر کرتا ہے ۔ اس بات کو اجاگر کرنے کے لیے ہم آج اسمبلی میں سیاہ بیج لگا کر شرکت کر رہے ہیں ۔ ‘

انہوں نے مزید کہا، ‘اس متنازعہ ترمیم کے خلاف ڈی ایم کے کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جائے گی ۔ تمل ناڈو اس مرکزی قانون کے خلاف لڑے گا کیونکہ یہ وقف بورڈ کی خود مختاری کو مجروح کرتا ہے اور اقلیتی مسلم کمیونٹی کے لیے خطرہ ہے ۔’

ڈی ایم کے کا پارلیامنٹ میں احتجاج

راجیہ سبھا میں ڈی ایم کے ایم پی تروچی شیوا نے بھی حکومت پر حملہ کیا اور الزام لگایا کہ بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت جان بوجھ کر مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنا رہی ہے۔

‘ایک مخصوص کمیونٹی کوکیوں نشانہ بنایاجا رہا ہے؟ حکومت کی منشابدنیتی پر مبنی اورقابل مذمت۔وہ ‘سب کاساتھ ، سب کاوشواس ‘ کی بات کرتے ہیں لیکن مسلمانوں کےبارے میں ان کی پالیسی امتیازی سلوک اورحاشیے پر دھکیلنے کی ہے۔یہ آئین کےخلاف ہے۔

اسٹالن کا وزیر اعظم مودی کو خط

جب لوک سبھا میں اس بل پر بحث ہو رہی تھی،اسی دوران  سی ایم  اسٹالن نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط بھیج کر وقف ترمیمی بل کی مخالفت کی ۔

انھوں نے لکھا، ‘ ہندوستانی آئین ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کا حق دیتا ہے اور اس حق کی حفاظت کرنا منتخب حکومتوں کا فرض ہے ۔ لیکن مجوزہ ترمیم اقلیتوں کو دیے گئے آئینی تحفظات کو نظر انداز کرتی ہے ۔اس سے مسلم کمیونٹی کے مفادات کو شدید نقصان پہنچے گا۔’

تمل ناڈو اسمبلی میں بل کے خلاف تحریک

اسٹالن نے 27 مارچ کو تمل ناڈو اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کی ، جس میں اس بل کو ملک اور مسلم کمیونٹی کی مذہبی ہم آہنگی کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔

Next Article

مسجد، قبرستان اور یتیم خانہ پر سیاست: وقف کا مستقبل کیا ہے؟

وقف ترمیمی بل کو پارلیامنٹ کی  منظوری مل گئی  ہے، لیکن اپوزیشن جماعتوں اور مسلم کمیونٹی کے نمائندوں کے سوال اب بھی باقی ہیں۔ اس بل پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر ایس کیو آر الیاس اور سینئر صحافی عمر راشد کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری۔

Next Article

روزہ یا پیسے کا جھگڑا: رمضان میں ’تبدیلی مذہب‘ کے الزام میں یوپی کی مسلم خاتون گرفتار

اتر پردیش کے جھانسی میں رمضان کے دوران ایک 40 سالہ مسلم خاتون کونابالغ ہندو لڑکی کا’مذہب تبدیل’ کروانےکے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ لیکن خاتون کا کہنا ہے کہ پڑوسی ہندو خاندان  نے ان سے لیا گیا قرض واپس کرنے سے بچنے کے لیے ‘فرضی کہانی’ بنائی ہے۔

نئی دہلی: ملک بھر میں رمضان کا مقدس مہینہ عام طور پر پرامن طور پر گزرا اور حال ہی میں عید الفطر منائی گئی۔ لیکن اتر پردیش کے جھانسی کے ایک محلے میں مبینہ طور پر روزہ رکھنے کا معاملہ ایک مجرمانہ معاملے کا موضوع بن گیا ہے۔

الزام ہے کہ پڑوس کی ایک مسلم خاتون نے مبینہ طور پر ایک نابالغ ہندو لڑکی کو اسلام قبول کرنے کے لیے بہلایا۔ اس معاملے میں 40 سالہ مسلم خاتون شہناز کو گرفتار کیا گیا ہے۔

دی وائر کی جانب سے دیکھے گئے دستاویزوں کے مطابق، اس خاتون نے بعد میں ایک مقامی عدالت میں دعویٰ کیا کہ تبدیلی مذہب  کا پورا معاملہ ایک مالی تنازعہ کی وجہ سے بنایا گیا ہے ۔

کیاہے معاملہ؟

جھانسی میں ایک ایف آئی آر 13 مارچ کو درج کی گئی،  جب ایک ہندو شخص نے الزام لگایاکہ اس کی 16 سالہ بیٹی کو اس کے پڑوس کی دو مسلم خواتین نے رمضان کے دوران روزہ رکھنے کے لیےبہلایا،  تاکہ اسے اسلام قبول کرنے کے لیے آمادہ کیا جا سکے۔

باپ نے کہا،’انہوں نے میری بیٹی کو بہلا پھسلا کریہ یقین دلایا کہ اگر وہ روزہ رکھے گی تو اس کے گھر میں برکت آئے گی۔ وہ امیر ہو جائے گی اور وہ اسے مناسب مدد فراہم کریں گے۔’

ہم اس شخص کی شناخت ظاہر نہیں کر رہے ہیں کیونکہ اس سے ان  کی نابالغ بیٹی کی پرائیویسی متاثر ہو سکتی ہے۔

لڑکی کے والد کا الزام ہے کہ ان کی بیٹی نے تین چار روزے رکھے اور نماز بھی پڑھی۔

شکایت کنندہ کے مطابق،  13 مارچ کوکلیدی ملزم شہناز زبردستی ان کے گھر میں داخل ہوئی اور ایک کمرے کو اندر سے بند کر کے پھانسی لگا کر خودکشی کرنے کی کوشش کی۔ یہ کمرہ شکایت کنندہ کے بھائی کا تھا۔ جب ہندو خاندان نے پولیس کو بلانے کے لیے 112 پر کال کی تو خاتون وہاں سے بھاگ گئی، لیکن جانے سے پہلے  ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کرنے کی دھمکی دی۔ اسی دوران کچھ ہندو دائیں بازو کے کارکن بھی وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے مسلم خواتین پر جبری تبدیلی مذہب کا الزام لگایا۔

اس کے بعد، شہناز اور کشناما نامی دو خواتین کے خلاف اتر پردیش کے غیر قانونی تبدیلی مذہب کی روک تھام کے قانون 2021 کی دفعہ 3 اور 5 (1) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ تحقیقات کے دوران پولیس نے بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کی دیگر دفعات بھی شامل کیں، جن میں جان سے مارنے کی دھمکی، املاک کو تباہ کرنے کی دھمکی اور  جان بوجھ کر توہین کرنا تاکہ امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو، شامل ہے۔

شہناز کا کیا کہنا ہے؟

شہناز نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ مقامی عدالت میں دائر اپنی ضمانت کی درخواست میں انہوں  نے کہا کہ ہندو خاندان نے انہیں پھنسانے کے لیے ‘فرضی کہانی’ بنائی ہے کیونکہ وہ ان سے لیے گئے قرض کی ادائیگی سے بچنا چاہتے تھے۔

شہناز کے مطابق، کچھ عرصہ قبل جب ہندو شخص بیمار ہوا تو اس کی اہلیہ نے شہناز سے 50 ہزار روپے ادھار لیے اور 10 دن میں واپس کرنے کا وعدہ کیا۔ لیکن رقم واپس نہ ہونے پر شہناز کئی بار ان  کے گھر گئی اور رقم واپس مانگی۔ انہوں  نے کہا، ‘ان  کی بیوی نے ہمیشہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیتی تھی۔’

شہناز نے الزام لگایا کہ 13 مارچ کو صبح 10 بجے جب وہ ان کے گھر پیسے مانگنے گئی تو پڑوس کا بھائی، جو اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ اسی گھر میں رہتا تھا، نے اسے ایک کمرے میں بند کر دیا اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی۔

‘میں نے زور سے چلایا تو پڑوسی جمع ہو گئے۔’ انہوں نے کہا۔

شہناز نے الزام لگایا کہ لڑکی کے والد نے دائیں بازو کی تنظیموں کے لوگوں کو بلایا، جنہوں نے پولیس کو بلایا اور انہیں بچانے کے لیے جھوٹی کہانی بنا دی ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس نے ان کی شکایت درج کرنے سے انکار کر دیا۔

انہوں نے واضح طور پر اس بات کی تردید کی کہ انہوں  نے نابالغ لڑکی کو اسلام قبول کرنے کو کہا یا اسے روزے رکھنے اور نماز پڑھنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے یہ بھی دلیل دی کہ لڑکی کے گھر میں اس کے والدین، بہن بھائی اور چچا اور چچی سمیت کئی لوگ رہتے ۔ ‘اگر لڑکی نے واقعی روزہ رکھا ہوتا تو اس کے گھر والوں کو ضرور معلوم ہوتا۔’ انہوں نے کہا۔

روزے کے عمل میں آدمی کو سورج نکلنے سے پہلے کھانا کھانا پڑتا ہے اور پھر سارا دن روزہ رکھنے کے بعد غروب آفتاب کے وقت افطار کرنا پڑتا ہے۔ شہناز نے کہا،’اگر لڑکی ایک بھی  روزہ  رکھتی تو گھر والوں کو ضرور پتہ چل جاتا’۔

شہناز کی درخواست ضمانت مسترد

گزشتہ 26 مارچ کو جھانسی کے ایڈیشنل سیشن جج وجئے کمار ورما نے شہناز کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔ عدالت نے کہا کہ شہناز متاثرہ کی پڑوسی ہیں  اور وہ گواہوں یا شواہد پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )

Next Article

وقف ترمیمی بل: اہم تبدیلیاں، تنازعات اور ہندوستانی مسلمانوں پر اس کے اثرات

مرکزی وزیر کرن رجیجو نے جمعرات کو راجیہ سبھا میں وقف بل  پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل وقف بورڈ کو مضبوط بنانے کے ساتھ  خواتین، بچوں اور پسماندہ طبقات کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے ارادےسے بنایا گیا ہے۔ بدھ کی رات دیر گئے لوک سبھا میں بل کے حق میں 288 اور مخالفت میں 232 ووٹ پڑے تھے۔

نئی دہلی: مرکزی حکومت نے اپوزیشن کے تمام اعتراضات اور احتجاج کے باوجود لوک سبھا میں وقف ترمیمی بل 2024 منظور کر ا لیا ہے۔ بل کی منظوری میں 12 گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگا۔

بزنس ایڈوائزری کمیٹی نے بل پر بحث کے لیے آٹھ گھنٹے کا وقت مختص کیا تھا، لیکن حکمران اور اپوزیشن دونوں جماعتوں کے گرما گرم دلائل کی وجہ سے بحث طول پکڑ گئی۔ بحث بدھ (2 اپریل) کی دوپہر 12 بجے شروع ہوئی اور جمعرات (3 اپریل) کو 12:06 بجے ووٹنگ کے لیے پیش کیا گیا۔

ووٹنگ کے ذریعے بل کو پاس ہونے میں رات 2 کے  بج گئے۔ بل کے حق میں 288 اور مخالفت میں 232 ووٹ پڑے۔ اس بل کی حمایت بی جے پی کے اتحادیوں، ٹی ڈی پی، جے ڈی (یو) اور ایل جے پی نے کی۔ جہاں حکومت نے ان ترامیم کو شفافیت بڑھانے، بدانتظامی کو روکنے اور وقف املاک کے بہتر نظم و ضبط کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔ جبکہ اپوزیشن جماعتوں کا ماننا ہے کہ یہ مسلم کمیونٹی کی مذہبی خود مختاری میں مداخلت ہے۔

حکومت  کاکیا کہنا ہے؟

گزشتہ 2 اپریل کو پارلیامانی امور اور اقلیتی امور کے مرکزی وزیر کرن رجیجو نے متنازعہ وقف (ترمیمی) بل 2024 لوک سبھا میں پیش کیا اور حکومت کی جانب سے بحث کا آغاز کیا۔ اپنے خطاب کے دوران، رجیجو نے بل کی مخالفت کرنے والے اپوزیشن پر سخت حملہ کیا اور بتایا کہ تجویز کردہ ترامیم کو لاگو کرنا کیوں ضروری ہے۔

رجیجو نے یہ کہتے ہوئے شروعات کی ، ‘ہم نے بل میں مشترکہ پارلیامانی کمیٹی (جے پی سی) کی طرف سے دی گئی کئی تجاویز کو قبول کیا ہے اور ایک اہم ترمیم پیش کی ہے۔ اس سے ‘امید’ ملے گی کہ ایک نئی صبح آنے والی ہے۔ اس وجہ سےنئے ایکٹ کوامید (یونیفائیڈ وقف مینجمنٹ، امپاورمنٹ، ایفیشنسی، اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ) کا نام بھی دیا گیا ہے۔’

انہوں نے دعویٰ کیا کہ مسلم کمیونٹی ان ترامیم کا خیر مقدم کر رہی ہے، ‘مسلم برادری کھلے دل سے اس بل کا خیر مقدم کر رہی ہے۔ یہاں کچھ لوگ اس کی مخالفت ضرور کر رہے ہیں، لیکن میں انہیں اپنے گھر بلانا چاہتا ہوں تاکہ وہ خود دیکھ سکیں کہ مسلم وفد مجھ سے مل رہے ہیں اور اس بل کی حمایت کر رہا ہے۔ اس سے ان کی سوچ بدل جائے گی۔ انہیں اندازہ نہیں ہے کہ اس بل کو مسلم کمیونٹی میں کتنی پذیرائی مل رہی ہے۔’

رجیجو نے مزید کہا، ‘ہم نے شیعہ، سنی، پسماندہ مسلمانوں، خواتین اور غیر مسلم ماہرین کو وقف بورڈ میں شامل کرنے کی اجازت دی ہے… اس میں دو غیر مسلم  ہوسکتے ہیں، اور اس میں دو خواتین بھی ہونی چاہیے۔ اب تک وقف بورڈ میں خواتین کہاں تھیں؟’

انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت کانگریس کی غلطی کو ٹھیک کررہی ہے۔ رجیجو نے کہا، ‘2013 میں، ایک اہتمام  کیا گیا تھا کہ کوئی بھی شخص، کسی بھی مذہب کا، وقف بنا سکتا ہے۔ اس سے اصل ایکٹ کمزور ہو گیا۔ پھر یہ اہتمام  لایا گیاکہ شیعہ وقف بورڈ میں صرف شیعہ ہوں گے اور سنی وقف بورڈ میں صرف سنی ہوں گے۔ ایک اور شق لائی گئی کہ وقف بورڈ کسی بھی قانون سے بالاتر ہوگا۔ یہ کیسے قابل قبول ہے؟’

انہوں نے کہا کہ حکومت کسی مذہبی سرگرمی میں مداخلت نہیں کر رہی ہے۔ یہ صرف جائیدادوں کے انتظام کا معاملہ ہے، ‘یو پی اے حکومت کی جانب سے وقف ایکٹ میں کی گئی ترامیم نے اسے دوسرے قوانین پر ترجیح دی تھی، اس لیے نئی  ترامیم ضروری تھیں۔’

اس دوران رجیجو نے مارچ 2014 میں اس وقت کی یو پی اے حکومت کےذریعے  دہلی کی 123 بڑی جائیدادوں کو وقف بورڈ کے حوالے کرنے کے فیصلے کا ذکر کیا۔ رجیجو نے یہاں تک کہا کہ اگر ان کی حکومت یہ ترمیمی بل پیش نہیں کرتی تو جس عمارت میں ہم بیٹھے ہیں اس پر بھی وقف کا دعویٰ کیا جا سکتا تھا۔

انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، مارچ 2014 میں عام انتخابات کے ضابطہ اخلاق کے نافذ ہونے سے ایک رات قبل 123 جائیدادیں وقف بورڈ کو سونپ دی گئی تھیں۔ ان میں سے زیادہ تر جائیدادیں دہلی کے اہم علاقوں میں واقع ہیں، جیسے: کناٹ پلیس، متھرا روڈ، لودھی روڈ، مان سنگھ روڈ، پنڈارا روڈ، اشوک روڈ، جن پتھ، پارلیامنٹ ہاؤس علاقہ، قرول باغ ، صدر بازار،دریا گنج، جنگ پورہ۔

سال 2014 میں این ڈی اے حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد مرکزی حکومت نے ان جائیدادوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ بعد میں، ایک دو رکنی پینل تشکیل دیا گیا، جس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ دہلی وقف بورڈ کا ان جائیدادوں پر کوئی حق نہیں ہے۔

سال 2023 میں مرکزی حکومت نے ان 123 جائیدادوں کو دوبارہ اپنے اختیار میں لے لیا، جس کے بعد دہلی وقف بورڈ نے اس فیصلے کے خلاف دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ یہ معاملہ فی الحال عدالت میں زیر سماعت ہے۔

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی رجیجو کی بات کو دوہراتے ہوئے کہا کہ یو پی اے حکومت نے 2013 میں لوک سبھا انتخابات سے قبل وقف ایکٹ کو ‘اپیزمنٹ’ کے لیے تبدیل کر دیا تھا۔ اگر 2013 میں یہ تبدیلی نہ کی جاتی تو آج اس بل کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔

شاہ نے پوچھا ، ‘1913 سے 2013 تک، وقف بورڈ کے پاس کل 18 لاکھ ایکڑ زمین تھی۔ 2013 سے 2025 کے درمیان جب نیا قانون نافذ ہوا تو وقف املاک میں 21 لاکھ ایکڑ اراضی شامل کی گئی۔ لیز پر دی گئی جائیدادیں پہلے 20000 تھیں لیکن 2025 میں یہ تعداد صفر ہو گئی… یہ جائیدادیں کہاں گئیں؟ کیا انہیں فروخت کیا گیا؟ کس کی اجازت سے؟’

‘وہ (اپوزیشن) کہہ رہے ہیں کہ اس پر توجہ نہ دیں… یہ پیسہ ملک کے غریب مسلمانوں کا ہے، نہ کہ کسی امیر دلالوں کے لیے۔ اس کو بند کرنا ہوگا… اور ان کے دلال یہاں بیٹھے ہیں، وہ اونچی آواز میں بات کررہے ہیں… وہ (اپوزیشن) سمجھتے ہیں کہ اس بل کی مخالفت کرکے وہ مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کریں گے اور اپنا ووٹ بینک مضبوط کریں گے۔ لیکن انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔’ شاہ نے کہا۔

انہوں نے دہرایا، ‘حکومت وقف میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی۔’ بی جے پی قائدین نے اپوزیشن پر اقلیتوں کے اپیزمنٹ، آئین کے خلاف جانے اور وقف املاک کے نام پر بڑے پیمانے پر بدعنوانی کو فروغ دینے کا الزام لگایا۔

سرکار کےدعوے پر اپوزیشن نے کیا کہا؟

کانگریس ایم پی گورو گگوئی نے کانگریس کی طرف سے کمان سنبھالی ۔ انہوں نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ وقف (ترمیمی) بل 2024 کا استعمال آئین کو کمزور کرنے، اقلیتی برادریوں کو بدنام کرنے، ہندوستانی سماج کو تقسیم کرنے اور اقلیتوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

بحث کے دوران سب سے سخت احتجاج اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے درج کرایا اور انہوں نے ترامیم کو ‘مسلمانوں کے عقیدے اور مذہبی روایات پر حملہ’ قرار دیا۔ انہوں نے علامتی طور پر بل کو پھاڑ دیااور اپنے قدم کا موازنہ مہاتما گاندھی کی غیر منصفانہ قوانین کے خلاف مزاحمت سے کیا۔

بحث کے دوران اویسی نے کہا، ‘یہ وقف ترمیمی بل مسلمانوں کے عقیدے اور عبادت کے طریقے پر حملہ ہے۔’ انہوں نے دلیل دی کہ یہ قانون مسلم کمیونٹی کے حقوق کو مجروح کرتا ہے۔

اویسی نے آرٹیکل 14 (جو تمام شہریوں کو قانون کے سامنے برابری کا حق دیتا ہے) کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا، ‘مسلمانوں کو وقف املاک پر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ تجاوزات کرنے والا راتوں رات مالک بن جائے گا۔ اس کامینجمنٹ کوئی غیر مسلم کرے گا – یہ آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہے۔’

اس بل کی ضرورت پر سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی طرف سے کرائی گئی یقین دہانیوں کی یاد دلائی۔ امت شاہ نے کہا تھا کہ وقف بورڈ اور کونسل مسلمانوں کی مذہبی روایات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر یہ قانون لانے کی کیا ضرورت تھی؟’ اویسی نے کہا۔

حیدرآباد کے رکن پارلیامنٹ اویسی نے الزام لگایا کہ یہ بل مسلمانوں کو وقف املاک کے انتظامی کنٹرول سے محروم کرتا ہے۔ انہوں نے دلیل دی، ‘ہندو، سکھ، جین اور بدھ برادریوں کو ان کے مذہبی اداروں کو چلانے کا حق دیا گیا ہے۔ پھر مسلمانوں سے یہ حق کیوں چھینا جا رہا ہے؟ یہ آرٹیکل 26 کی سنگین خلاف ورزی ہے۔’

بحث کے دوران اویسی نے مرکزی وزیر کرن رجیجو سے اس بل میں ‘پریکٹسنگ مسلم’ کی تعریف پر سوال کیا۔ ‘کیا داڑھی رکھنا اس کی شرائط میں سے ایک ہوگا، یا پھر اسے آپ کی  طرح کلین شیو ہونا چاہیے؟’ انہوں  نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔

بی جے پی حکومت پر مسلمانوں کو حاشیہ پر دھکیلنے کا الزام لگاتے ہوئے اویسی نے کہا، ‘یہ بل مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کے لیے لایا گیا ہے۔’

غیر منصفانہ قوانین کے خلاف مہاتما گاندھی کی مزاحمت کا موازنہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا، ‘جب گاندھی جی کو ایک ایسے قانون کا سامنا کرنا پڑا جسے وہ قبول نہیں کر سکتے تھے، تو انھوں نے کہا تھا، ‘میں اس قانون کو نہیں مانتا اور اسے پھاڑ دیتا ہوں۔’ ٹھیک اسی طرح میں اس قانون کو بھی پھاڑ رہا ہوں۔’

اس کے بعد انہوں نے احتجاجاً اسٹیپل والے صفحات کو الگ کر دیا۔ اویسی نے الزام لگایا کہ ‘یہ غیر آئینی ہے۔ بی جے پی مندر اور مسجد کے نام پر سماج میں دشمنی پھیلانا چاہتی ہے۔’

کیا بدل جائے گا؟

ان مباحث کو جاننے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دونوں ایوانوں میں ترامیم کی منظوری کے بعد کیا تبدیلی آئے گی ؟

ہندوستان میں وقف نظام نے تاریخی طور پر مذہبی، تعلیمی اور سماجی بہبود کے اداروں کی حمایت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ موجودہ قانون کے تحت، وقف ایک خیراتی بندوبستی ہے جس میں جائیداد مذہبی یا فلاحی مقاصد کے لیے عطیہ کی جاتی ہے، جس کی ملکیت ہمیشہ کے لیے اللہ کے سپرد ہوتی ہے، اور اس کی آمدنی مساجد، مدارس، یتیم خانوں اور دیگر فلاحی اقدامات کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ 1995 کے وقف ایکٹ اور اس کی 2013 کی ترمیم نے ان جائیدادوں کو چلانے کے لیے قانونی ڈھانچہ تشکیل دیا اور ریاستی وقف بورڈ قائم کیے، جو ان کی نگرانی کے ذمہ دار ہیں۔ تاہم، مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ وسیع پیمانے پر بدانتظامی، فراڈ اراضی کے دعووں اور قانونی تنازعات کی وجہ سے انتظامیہ میں وضاحت اور جوابدہی لانے کے لیے وقف ایکٹ میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔

نئی ترامیم سے سب سے بڑی تبدیلی یہ ہوگی کہ اب ہر کوئی وقف کو جائیداد عطیہ نہیں کر سکے گا۔ جائیداد عطیہ کرنے والوں کے لیے اہلیت کے سخت معیار ہوں گے۔اب تک جو  قانون لاگو ہے اس کے تحت، کوئی بھی شخص، بلا لحاظ مذہب، وقف مقاصد کے لیے جائیداد عطیہ کر سکتا ہے۔ تاہم، نئی ترامیم اس حق کو صرف ان لوگوں تک محدود کرتی ہیں جو کم از کم پانچ سال سے اسلام پر عمل کر رہے ہوں۔

ترمیم شدہ بل کے مطابق، جائیداد دینے والے شخص کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ کم از کم پانچ سال سے اسلام کا پیروکار ہے۔ حکومت کے مطابق، یہ اہتمام  من مانی یا دھوکہ دہی سے وقف دینے والے  کو روکنے کے لیے ضروری ہے۔ تاہم، ناقدین کا خیال ہے کہ یہ شق ایک غیر ضروری مذہبی امتحان عائد کرتی ہے اور وقف میں حصہ ڈالنے کے خواہشمند افراد پر غیر ضروری پابندیاں عائد کرتی ہے۔

اس کے علاوہ، ترمیم شدہ بل وقف املاک کی شناخت اور انتظام پر حکومتی نگرانی کو بھی بڑھاتا ہے۔ فی الحال، وقف سروے وقف سروے کمشنروں کے ذریعے کیا جاتا ہے، جو وقف اراضی کے ریکارڈ کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ ترمیم شدہ قانون کے تحت ضلع کلکٹر کو ایسی جائیدادوں کا سروے کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ مزید یہ کہ اگر وقف کا دعویٰ سرکاری اراضی سے متعلق ہے تو ترمیم میں تجویز کیا گیا ہے کہ کلکٹر کے عہدے سے اوپر کا ایک افسر اس دعوے کی تحقیقات کرے گا اور ریاستی حکومت کو رپورٹ پیش کرے گا۔

ترمیم شدہ بل کے سب سے متنازعہ پہلوؤں میں سے ایک وقف بورڈ میں غیر مسلم ممبران کو شامل کرنے کی شرط ہے۔ نئے بل کے تحت، سینٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ میں کم از کم دو غیر مسلم ارکان کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ وقف بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کے لیے مسلمان ہونے کی شرط کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وقف انتظامیہ کو مزید جامع اور شفاف بنانے کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ تاہم، مسلم مذہبی تنظیموں نے اس شق پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وقف اسلامی قانون کے تحت ایک مذہبی وقف ہے، اور اس کے انتظام میں غیر مسلموں کو شامل نہیں کیا جانا چاہیے۔

اس ترمیم میں وقف املاک کو وقف کرنے سے پہلے خواتین کے وراثتی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک نئی شق بھی شامل کی گئی ہے۔ بل میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ خاندانی وقف بنانے سے پہلے وقف کرنے والے شخص کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ تمام قانونی ورثاء بالخصوص خواتین کو جائیداد میں ان کا صحیح حصہ مل گیا ہے۔

اس کے علاوہ بل اس کو بھی لازمی بناتاہے کہ تمام متولی (وقف جائیدادوں کے منتظمین) چھ ماہ کے اندر مرکزی حکومت کے پورٹل پر جائیداد کی تفصیلات درج کریں۔ اس کے علاوہ، وقف ادارے جن کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ روپے سے زیادہ ہے، اب انہیں ریاست کے مقرر کردہ آڈیٹرز سے لازمی طور پر آڈٹ کرانا ہوگا۔

Next Article

الہ آباد: سپریم کورٹ نے غیر قانونی طور پرتوڑے گئے مکانات کے مالکان کو دس-دس لاکھ روپےکا معاوضہ دینے کو کہا

ملک کی سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ پریاگ راج ڈیولپمنٹ اتھارٹی، ان چھ لوگوں کو 10-10 لاکھ روپے کا معاوضہ ادا کرے گی، جن کے گھر2021 میں غیر قانونی طور پر توڑے گئے تھے۔عدالت کا کہنا ہے کہ یہ واحد راستہ ہے، جس سے حکام ہمیشہ مناسب قانونی عمل کی پیروی کرنا یاد رکھیں گے۔

نئی دہلی: 1 اپریل کو ایک سخت فیصلے میں سپریم کورٹ نے الہ آباد، اتر پردیش کی پریاگ راج ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے) کو حکم دیا کہ وہ  ان چھ لوگوں کو دس دس  لاکھ روپے کا معاوضہ ادا کرے ،جن کے مکانات غیر قانونی طور پر گرائے گئے تھے۔

یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ حکومت ‘بلڈوزر جسٹس’ کا دفاع کر رہی ہے، جس میں عام طور پر مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ملزمین کی جائیدادوں کو منہدم کیا جا رہا ہے۔

دی وائر نے پہلےرپورٹ کیا تھا  کہ توڑے گئے مکانات میں سے ایک  مکان ریٹائرڈ اردو پروفیسر علی احمد فاطمی کا تھا۔ یہ کارروائی  ان کے لیے معاشی اور سماجی طور پر تباہ کن ثابت ہوا۔ انہوں  نے دی وائر کو بتایا،’میں اسے (مکان) دیکھنے کا حوصلہ بھی نہیں کر سکا۔’

پی ڈی اے نے ان کی بیٹی نائلہ فاطمی کے گھر کو بھی مسمار کر دیا تھا، اس کے ساتھ ہی وکیل ذوالفقار حیدر اور دیگر دو افراد کی جائیدادوں کو منہدم کر دیا تھا۔

لائیو لاء کے مطابق ، جسٹس ابھئے ایس اوکا اور اجول بھوئیاں کی بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یہ کارروائی قانونی عمل کی خلاف ورزی تھی۔

سپریم کورٹ نے اور کیا کہا؟

آئین کا آرٹیکل 21 شہریوں کی زندگی اورشخصی آزادی کا تحفظ کرتا ہے اور یہ من مانے ڈھنگ سے ذریعہ معاش سے محروم کرنے سے کو روکتا ہے۔

عدالت نے کہا، ‘انتظامیہ اور خاص طور پر ڈویولپمنٹ اتھارٹی کو یاد رکھنا چاہیے کہ رہائش کا حق بھی آرٹیکل 21 کا ایک اہم حصہ ہے… چونکہ یہ غیر قانونی توڑ پھوڑآرٹیکل 21 کے تحت درخواست گزاروں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے، اس لیے ہم پی ڈی اے کو متاثرین  کو 10 لاکھ روپے کا معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں۔’

جسٹس اوکا نے کہا، ‘ان معاملوں نے ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اپیل کنندگان کے گھروں کو زبردستی اور غیر قانونی طور پر مسمار کیا گیا… رہائش کا حق ہوتا ہے، قانونی عمل نام کی  بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔’

قابل ذکر ہے کہ دی وائر کی رپورٹ میں ذکر کیا گیا تھا کہ فاطمی کو کبھی یہ سمجھ نہیں پائیں  کہ ان کا گھر کیوں گرایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کے پاس ان کے خلاف کوئی وجہ نہیں ہے، ‘ہم ہاؤس ٹیکس اور پانی کا بل باقاعدگی سے ادا کرتے تھے۔’

سپریم کورٹ نے اس سے قبل 13 نومبر 2023 کو بھی فیصلہ سنایا تھا کہ ‘کسی شخص کے گھر کو بغیر کسی قانونی کارروائی کے صرف اس لیے گرانا مکمل طور پر غیر آئینی ہے کہ وہ ملزم یا مجرم قرار دیا گیا ہے۔’

نوٹس چسپاں کرنا کافی نہیں

عدالت نے اس بات پر بھی برہمی کا اظہار کیا کہ افسران نے صرف گھروں پر نوٹس چسپاں کیا، جبکہ انہیں ذاتی طور پر یا ڈاک کے ذریعے نوٹس دینا چاہیے تھا۔ جسٹس اوکا نے کہا، ‘نوٹس چسپاں کرنے کا یہ رواج بند ہونا چاہیے۔ اس کی وجہ سے لوگوں نے اپنے گھروں سے محروم ہوگئے۔’

عدالت نے اس عمل میں سنگین خامیوں کو بھی نوٹ کیا۔وجہ  بتاؤ نوٹس 18 دسمبر 2020 کو اتر پردیش ٹاؤن پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ کی دفعہ 27 کے تحت جاری کیا گیا تھا۔ اسی دن نوٹس بھی چسپاں کر دیے گئے۔ مسمار کرنے کا حکم 8 جنوری 2021 کو جاری کیا گیا تھا، لیکن اسے رجسٹرڈ ڈاک کے ذریعے نہیں بھیجا گیا۔

ڈاک 1 مارچ 2021 کو بھیجی گئی اور 6 مارچ 2021 کو موصول ہوئی۔ متاثرہ افراد کو اپیل کرنے یا جواب دینے کا کوئی موقع فراہم کیے بغیر، اگلے ہی دن مکانات مسمار کر دیے گئے۔

افسران کو سبق سکھانے کا طریقہ-معاوضہ

عدالت نے کہا، ‘ہم اس پورے عمل (گھر کو مسمار کرنے) کو غیر قانونی سمجھتے ہیں۔ متاثرین  کودس دس لاکھ روپے کا معاوضہ دیا جائے گا۔ اس اتھارٹی کے لیے یہ یاد رکھنے کا واحد طریقہ ہے کہ قانونی عمل کی پیروی کرنا ضروری ہے۔’

اس فیصلے سے واضح  ہے کہ قانون پر عمل کیے بغیر مکان گرانا نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ شہریوں کے بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ سپریم کورٹ کے اس حکم کو ‘بلڈوزر جسٹس’ کے خلاف ایک بڑی وارننگ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔