سال2010 سے افغانستان کے صوبہ فاریاب کی نمائندگی کرنے والی ایم پی رنگینہ کار گر نے کہا ہے کہ طالبان کے قبضہ کے پانچ دن بعد 20 اگست کو وہ استنبول سے دہلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ہوائی اڈے پہنچی تھیں، لیکن انہیں وہیں سے واپس بھیج دیا گیا۔
رنگینہ کارگر۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
نئی دہلی: ایک افغان خاتون ایم پی نے کہا ہے کہ انہیں 20 اگست کو نئی دہلی سے استنبول(ترکی کی راجدھانی)بھیج دیا گیا تھا، جبکہ ان کے پاس آفیشیل/ڈپلومیٹک پاسپورٹ تھا، جو بنا ویزا کےبغیرسفر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
سال2010 سے افغانستان کے صوبہ فاریاب کی نمائندگی کرنے والی وولیسی جرگہ(افغان پارلیامنٹ کے ایوان زیریں )کی رکن رنگینہ کار گر نے کہا کہ طالبان کے قبضے کے پانچ دن بعد 20 اگست کو وہ استنبول سے دہلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ہوائی اڈے پہنچی تھیں، لیکن انہیں وہیں سے واپس بھیج دیا گیا۔
انہوں نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مہاتما گاندھی کے ہندوستان سے ایسی امید نہیں تھی۔
انہیں ایسے وقت پر ہندوستان میں داخلہ سے منع کیا گیا ہے، جب ایک دن پہلے ہی وزیر خارجہ ایس جئےشنکر نے کہا تھا کہ ہندوستان افغانستان اور اس کے لوگوں کے ساتھ اپنےتعلقات کو بنائے رکھنے پر توجہ مرکوز کرےگا۔
کار گر نے
انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ وہ اسی پاسپورٹ پر کئی بار ہندوستان کادورہ کر چکی ہیں اور وہ اس بات کو لےکرحیران ہیں کہ اس بار ہندوستان نے انہیں منع کر دیا۔
قابل ذکر ہے کہ 36سالہ کار گر نے کہا، ‘انہوں نے مجھے ڈپورٹ کر دیا، میرے ساتھ ایک مجرم جیسا سلوک کیا گیا۔ مجھے دبئی میں میرا پاسپورٹ نہیں دیا گیا۔ بعد میں استنبول میں میرا پاسپورٹ واپس کیا گیا۔ انہوں نے میرے ساتھ جو کیا وہ اچھا نہیں تھا۔ کابل میں حالات بدل گئے ہیں اور مجھے امید ہے کہ حکومت ہند افغان خواتین کی مدد کرےگی۔’
استنبول سےفون پر دی وائر سے بات کرتے ہوئے کار گر نے کہا کہ جب وہ 20 اگست کو صبح قریب چھ بجے دہلی پہنچی تھیں تو ان کے پاس 23 اگست کی واپسی کا ٹکٹ بھی تھا۔ انہوں نے کہا، ‘میں ڈپلومیٹک پاسپورٹ پر ہندوستان پہنچی تھی، جو ہمیشہ ویزافری رہا ہے۔’
وہ21 اگست کو میکس اسپتال میں ایک اپائنٹمنٹ کو لےکر ہندوستان آئی تھیں۔ ان کےشوہر اور تین بچے استنبول میں تھے، جہاں وہ جولائی کی شروعات میں گئی تھیں اور اگست کے وسط تک پورے ملک پر طالبان نے قبضہ کر لیا تھا۔
ویسےحکومت ہند نے یہ نہیں بتایا ہے کہ آخر کیوں انہیں واپس بھیجا گیا تھا، لیکن انہوں نے کہا کہ ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ کابل میں سیاسی صورتحال تبدیل ہوگئی ہے اور سلامتی بھی اس کی وجہ ہو سکتی ہے۔
کار گر نے کہا کہ انہوں نے حکام سے کہا تھا کہ ہندوستان اور افغانستان ‘پرانے دوست’ہیں اور ایک افغانی رہنما کو واپس بھیجنا اچھا نہیں ہوگا۔
رات10بجے فلائٹ سے ڈپورٹ کیے جانے سے پہلے کار گر 16 گھنٹے ایئرپورٹ پر تھیں۔ وہ اپنے اہل خانہ اور دوستوں سے بھی رابطہ نہیں کر پائی تھیں، کیونکہ وائی فائی نیٹ ورک کام نہیں کر رہا تھا۔
گھنٹوں انتظار کرنے کے بعد پولیس نے انہیں بتایا،‘وزارت نے کہا ہے کہ وہ کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔’
افغانی ایم پی نے کہا کہ وہ ہندوستان کے اس رویے سے حیران ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘میں نے گاندھی جی کے ہندوستان سے اس کی کبھی امید نہیں کی تھی۔ ہم ہمیشہ سےہندوستان کے دوست ہیں، ہندوستان کے ساتھ ہمارےاسٹریٹجک تعلقات ہیں،ہندوستان کے ساتھ ہمارے تاریخی تعلقات ہیں۔ لیکن اس صورتحال میں انہوں نے ایک خاتون اور ایک ایم پی کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہے۔ انہوں نے مجھے ہوائی اڈے پر کہا معاف کریں، ہم آپ کے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔’
انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے اپنی سرحد افغان شہریوں کے لیے کھول دی ہے، جبکہ افغان شہریوں کے لیے ہندوستان سے ویزا حاصل کرنا ابھی بھی بہت مشکل ہے۔
افغانی ایم پی نے کہا، ‘ابھی کوئی بھی پاکستان سفارت خانے جا سکتا ہے اور ویزاحاصل کر سکتا ہے۔ لیکن ہندوستان کا ایمرجنسی ای-ویزا صرف نام کا ہے۔ مجھے پتہ ہے کیونکہ میں نے 19 تاریخ کو اپنی چھوٹی بیٹی کے لیےدرخواست دی تھی، لیکن اس کا ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا ہے۔’
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔