بے قصور افراد کی اسیری اور یادیں تہاڑ جیل کی

انسداد دہشت گردی کے نام پر پچھلی کئی دہائیوں سے ہندوستانی سکیورٹی ایجنسیوں نے جو کھیل کھیلا ہے، اس کی وجہ سے لاتعداد مسلم نواجوانوں کی زندگیاں تباہ و برباد ہوگئی ہیں۔ برسوں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے رہنے اور اس دوران مسلسل اذیت سے گذرنے کے بعد ان میں سے اکثر ملزمین کو عدالتوں نے بے قصور قرار دے کر رہا کردیاہے۔

انسداد دہشت گردی کے نام پر پچھلی کئی دہائیوں سے ہندوستانی سکیورٹی ایجنسیوں نے جو کھیل کھیلا ہے، اس کی وجہ سے لاتعداد مسلم نواجوانوں کی زندگیاں تباہ و برباد ہوگئی ہیں۔ برسوں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے رہنے  اور اس دوران مسلسل اذیت سے گذرنے کے بعد ان میں سے اکثر ملزمین کو عدالتوں نے بے قصور قرار دے کر  رہا کردیاہے۔

علامتی فوٹو: رائٹرس

علامتی فوٹو: رائٹرس

انسداد دہشت گردی کے نام پر پچھلی کئی دہائیوں سے انڈین سکیورٹی ایجنسیوں نے جو کھیل کھیلا ہے، اس کی وجہ سے لاتعداد مسلم نواجوانوں کی زندگیاں تباہ و برباد ہوگئی ہیں۔ برسوں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے رہنے  اور اس دوران مسلسل اذیت سے گذرنے کے بعد ان میں سے اکثر ملزمین کو عدالتوں نے بے قصور قرار دے کر  رہا کردیاہے۔ اسی کھیل کی تازہ کڑی کے طور پر حال ہی میں پانچ  کشمیر ی نوجوانوں کو 23سال بعد رہا کر دیا گیا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ 1996میں دہلی کے لاجپت نگر علاقے اور راجستھان کے جئے پور میں ہوئے دھماکوں میں ملوث تھے، جس کو عدالت میں استغاثہ  ثابت نہیں کر سکی۔ کیس کی خاص بات یہ تھی، کہ عدالت نے دوران سماعت استغاثہ کی اس دلیل سے اتفاق کیا تھا، کہ دو کیسوں کی سماعت ایک ساتھ نہیں ہوسکتی ہے۔ اس لئے دہلی کے کیس کے فیصلہ کے بعد ہی جئے پور، راجستھان کیس کی سماعت ہوگی۔

 شاید استغاثہ کو معلوم تھا کہ اس کیس کا کوئی سر پیر ہی نہیں ہے، بس ان بے قصور نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ دیر تک پس زندان رکھنا تھا۔ یہ  نوجوان دس سال قبل دہلی کی عدالت سے بری ہوچکے تھے۔ اس کے بعد ان کو جئے پور منتقل کرنے کے بعد  وہاں کی عدالتی کارروائی شروع ہوگئی، جہاں سے وہ پچھلے ہفتے بری ہوکر 23 سالوں کے بعد گھر پہنچے۔ مجھے یاد ہے کہ 2002اور 2003کے درمیان جب میں دہلی کی تہاڑ جیل میں قید تھا، تو یہ افراد بھی وہاں بند تھے۔سرینگر کے لطیف احمد وازہ اور چناب ویلی میں بھدروا کے عبدالغنی گونی کی رہائی کی تصویریں دیکھ کر،مجھے ایام اسیری کا ایک دلچسپ واقع یاد آیا۔

دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل دراصل آٹھ مختلف جیلوں کا مجموعہ ہے، جس میں سب سے بڑی تین نمبر جیل ہے۔ ایک جیل خواتین کے لیے مخصوص ہے۔ یہ ایک طرح سے چھوٹا موٹا ٹاون شپ ہے، جہاں 15سے 17ہزار افراد سلاخوں کے پیچھے زندگی گذارتے ہیں۔ ہر سال اکتوبر میں جیلوں کے درمیان مختلف کھیلوں کے مقابلے ہوتے ہیں، جن کو تہاڑ اولمپکس کہتے ہیں۔اگست سے ہی ان کی تیاریا ں شروع ہوتی ہیں۔ کھلاڑیوں کے سلیکشن سے لے کر، کوچنگ اور پریکٹس وغیرہ کروانے کیلئے جیل حکام سرگرم ہو جاتے ہیں۔ ہر جیل کا کسی نہ کسی مخصوص کھیل کے شعبہ میں دبدبہ ہوتا ہے۔ میرے قیام کے دوران جیل نمبر تین کرکٹ کیلئے مشہور تھی، اورپچھلے کئی برسوں سے وہ کرکٹ کا کپ لےکر آتی تھی۔

 اسی طرح ایک نمبر جیل، والی بال کیلئے مشہور تھی۔ یہی حال دیگر جیلوں کا بھی تھا۔ جیل نمبر تین کی کرکٹ ٹیم میں پانچ پاکستانی قیدی کھلاڑی تھے۔اس لئے اس کو پاکستانی ٹیم کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا تھا۔ جیل حکام کوچنگ کیلئے باہر سے بھی ماہرین کو بلاتے تھے۔ کرکٹ کوچنگ کیلئے ایک بار مشہور کرکٹر سچن تنڈولکر بھی جیل میں آئے اور ٹیم کو اپنے مشوروں سے نوازا۔ اس جیل کے ملاحظہ وارڑ میں ان کے نام سے ایک بیرک بھی موسوم کی گئی۔ اگست2002میں جب اولمپک کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہو گئی تھیں، کہ وزارت داخلہ نے کسی انٹلی جنس رپورٹ کا حوالہ دے کر جیل حکام کو خبردار کیا، کہ پاکستانی قیدی کوئی شورش برپا کر سکتے ہیں یا جیل توڑ کر فرار ہونے کا راستہ تلا ش کر رہے ہیں، اس لئے ان کوشدید حفاظتی انتظامات کے تحت رکھا جائے۔ اگلے ہی دن پاکستانی قیدیوں کو انتہائی نگہداشت یعنی ہائی سکیورٹی وارڈ میں منتقل کیا گیا، جو جیل کے اندر ایک جیل ہے۔

 اس کا براہ راست خمیازہ کرکٹ ٹیم کو بھگتنا پڑا۔ بیک وقت اس کے پانچ کھلاڑی نااہل قرار دئے گئے۔ اولمپک میں میڈل اور میچ جیتنا جیل کی عزت و وقار کا مسئلہ ہوتا ہے، اور اس کے لئے جیل حکام کسی بھی حد تک جاتے ہیں۔ ان پاکستانی کھلاڑیوں کا متبادل تلاش کرنا ٹیڑھی کھیر ثابت ہو رہا تھا۔ خیر کسی نے جیل حکام کو بتایا کہ پچھلے سات سالوں سے ہائی سکیورٹی وارڈ میں بند لاجپت نگر بم بلاسٹ کیس میں ملوث،لطیف احمد وازا، نہایت ہی اچھا فاسٹ بالر ہے۔ بس اب کیا تھا، کہ جیل افسران نے لطیف کے کردار اور جیل میں اس کی اصلاح و حسن سلوک کے حوالے سے ایک فائل بناکر اعلیٰ حکام کو بھیجی، جس میں اس کو جنرل وارڈ میں منتقل کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ اجازت ملنے پر اس کو وارڈ نمبر 11، جہاں عام طور پر اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی میں زیر تعلیم قیدیوں کو رکھا جاتا ہے، منتقل کیا گیا۔ یہ ایک ایسا وارڈ ہے، جہاں تعلم یافتہ افراد یا سفید پوش ملزمین رکھے جاتے ہیں اور یہاں کا ماحول بھی دیگر وارڈں کے برعکس اتنا تناؤ والا نہیں ہوتا ہے۔ ایک طرح سے تقریباً ہوسٹل جیسا ماحول ہوتا ہے۔ یہاں کئی کلاس رومز اور لائبریری بھی موجود ہے۔ باہر سے جب بھی کوئی وی آئی پی، جیل کے دورہ پر آتا ہے، تو اسی وارڈ میں اس کو لایا جاتا ہے، اور وہ سمجھتا ہے کہ پوری جیل ایسی ہی ہے۔

 کئی روز کی تگ و دو کے بعد لطیف کو اس وارڈ میں منتقل کیا گیا۔ ان کھیلوں کے اختتام تک،یا ٹیم کی ہار تک، کھلاڑیوں پر نوازشوں کی بارش ہوتی ہے۔ ان کے لیےصبح  ناشتے میں انڈے، بریڈ، مکھن، دودھ، اور لنچ و ڈنر کیلئے لنگر سے اسپیشل چاول اور سویا بین پک کر آتے تھے۔ سات سال تک ہائی سکیورٹی وارڈ میں قید تنہائی کی زندگی گذارنے کے بعد لطیف اس جنرل وارڈ میں حیران و پریشان تھا۔ برسوں بعد پہلی بار اپنے ارد گرد مجمع دیکھ کر اس کا جی گھبرا نے لگا۔ وہ شور اور باتیں سننے کا اب عادی نہیں تھا۔ وہ اس حد تک پریشان ہوگیا کہ اس نے ایک اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کو واپس ہائی سکیورٹی میں لے جانے کیلئے رشوت کی پیش کش کی۔ مگر چونکہ جیل حکام کو میچ اور جیل کے وقار کی فکر تھی، اس لئے انہوں نے اس کیلئے کونسلنگ کا انتظام کیا، چند قیدیوں کو بھی ہدایت دی گئی، کہ اس کا خاص خیال رکھ کر اس کی دلجوئی کا سامان فراہم کیا کریں۔ جیسا مجھے یاد ہے کہ کوچنگ اور پریکٹس کے مراحل سے گذرنے کے بعد ٹیم نے شاید فائنل یا سیمی فائنل تک رسائی حاصل کر لی تھی۔ ٹیم کا کپتان امت کمار ڈکیتی کے الزام میں پچھلے آٹھ سال سے بند تھا۔

اس کے کیس کی عدالتی کارروائی ایک سال قبل ختم ہوچکی تھی اور جج نے اس کا فیصلہ محفوظ  رکھا ہوا تھا۔ ستم تو یہ ہوا، کہ اہم میچ کے ایک دن قبل امت کا عدالت سے بلاوا آگیا، کہ اس کے کیس کا فیصلہ سنایا جائے گا۔ صبح اس کو عدالت روانہ کرتے وقت، جیل حکام و قیدی،اس کی قید کی مد ت میں اضافہ کی دعا کر رہے تھے۔ مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ سیشن جج شیونارائن ڈنگرہ نے  اس کو تمام الزامات سے بری کرکے رہائی کا حکم دے دیا۔ ملزم، جو ٹیم کا کپتان تھا، نے آخری حربہ کے طور پر کورٹ روم میں جج سے درخواست کی کہ اس کو کچھ اور دن جیل میں گذارنے کی اجازت دی جائے۔ ڈنگرہ صاحب کا موڈ اس دن انتہائی خراب تھا۔ وہ اس درخواست سے اکھڑ گئے اور امت کو فی الفور عدالت کے کمرے سے ہی رہا کرنے کے احکامات جاری کئے، اور بتایا کہ یہ لڑکا جیل میں شاید کسی گینگ کا حصہ ہے اور حصہ بٹائی کیلئے جیل واپس جانا چاہتا ہے۔ جیل حکام کو حکم دیا گیا، کہ اس کا سامان وغیرہ، اس کے گھر پہنچایا جائے اور وہ کسی بھی صورت میں جیل کے آس پاس بھی پھٹکنے نہ دیا جائے۔ بغیر کپتان کی ٹیم کا اگلے روز وہی حشر ہوا، جس کا اندیشہ تھا۔

ٹیم بری طرح پٹ کر ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئی۔ کرکٹ گراؤنڈ جیل نمبر ایک میں واقع تھا۔ جب ٹیم واپس آگئی، تو اس پر لعن و طعن کی ایسی بارش ہو رہی تھی، کہ پاکستانی یا ہندوستانی  ٹیم کو بھی ہار کر ایسی خفت نہیں اٹھانی پڑتی ہوگی۔ان کو مختلف وارڈوں میں گھمایا گیا، جہاں  وارڈوں کے صحن میں ان کو کٹہرے میں کھڑا کرکے ان پر قیدیوں نے جوتے، لاتیں و تھپڑ برسائے۔ ناشتہ اور کھانے میں سبھی نوازشیں بند ہوگئیں۔ اگلے دو روز کے اند ر سبھی کھلاڑیوں کو الگ الگ وارڈوں میں بکھیر کر احساس دلایا گیا کہ وہ قید میں ہیں اور جیل کی عزت و وقار ان کی وجہ سے مٹی میں مل گئی ہے۔ لیکن جیل کی متاثر کن شخصیت بھدرواہ کے عبدالغنی گونی کی تھی۔ پیشہ سے استاد گونی صاحب ایک تبلیغی جماعت کے ساتھ گجرات دورے پر گئے تھے کہ گجرات پولیس نے ان کو گرفتار کرکے، راجستھان پولیس کے حوالے کیا، جنہوں نے ان کو دہلی پولیس کے سپرد کرکے بم بلاسٹ کیس میں فٹ کرکے تہاڑ جیل پہنچا دیا۔

 ٹھنڈے مزاج کے حامل گونی صاحب انتہائی اشتعال انگیز حالات میں بھی غصہ کو قابو میں رکھنے کا فن بخوبی جانتے تھے۔ قیدیوں کی اصلاح کا کام، جو  جیل حکام لاکھوں روپے خرچ کرنے پر بھی نہیں کر پاتے تھے، غنی صاحب چٹکیوں میں کرتے تھے۔ عادی مجرمان، جیب کترے، چور اور دیگر الزامات میں ملوث افراد ان کی صحبت میں ایسے بد ل جاتے تھے، کہ یقین نہیں آتا تھا۔ وہ خود جیل میں آنے والے افراد کی تعلیم کا بندو بست کرتے تھے، اوران کی صلاحیت کو دیکھ کر کسب سکھانے کا بھی انتظام کرتے تھے، تاکہ جیل کے باہر جاکر وہ رزق حلال کما سکیں۔ نئے آنے والے قیدیوں کیلئے تولیہ و صابن مہیا کروانا، ان کو ہمت دلاناو ان کی کاؤنسلنگ کرنا، انتہائی غریب قیدیوں کیلئے جیل کے اندر قانونی امداد مہیا کروانا وغیرہ، غنی صاحب کا خاصہ تھا۔

  وہ ہندو قیدیوں میں بھی خاصے مقبول تھے۔ کئی قیدیوں نے ان کے کردار و اخلاص کی بدولت ان کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا تھا۔ سنگین جرائم میں ملوث بڑے بڑے مجرمین و ملزمین، جن سے جیل سپرنٹنڈنٹ بھی پناہ مانگتا تھا، غنی صاحب کے سامنے سر جھکائے معصوم بچوں کی طرح کھڑے ہوجاتے تھے۔ جیل حکام بھی قیدیوں کے جھگڑے نپٹانے کیلئے ان کی خدمات حاصل کرتے تھے۔ ان کے جیل جانے کے پیچھے شاید قدرت کی یہی منشا تھی۔ اپنی جوانی اور زندگی کی قربانی دے کر، انہوں نے سینکڑوں افراد کی زندگی بدل کر ان کے مستقبل اور عاقبت کو سنوار دیا۔ ہزاروں مجرموں کو راہ راست پر لانے اور ان کو رزق حلال کمانے پر تیار کیا۔ امید ہے ان کی رہائی کے بعد اب حکومت، عوامی و نجی ادارے غنی صاحب کی اس بصیرت سے فائدہ اٹھا کرباز آباد کاری میں ان کا تعاون کرکے،سماجی خدمات کے شعبے میں ان کے تجربہ کا بھر پور استعمال کریں گے۔ ایسے ہی افراد کے لیے شاید اقبال نے کہا تھا:

ہے اسیری اعتبار افزا جو ہو فطرت بلند

 قطرہ نیساں ہے، زندان صدف سے ارجمند

ہر کسی کی تربیت کرتی نہیں قدرت مگر

کم ہیں وہ طائر کہ ہیں دام قفس سے بہرہ مند

Next Article

دو ہزار چھ کے ممبئی ٹرین دھماکے: جو برسوں پہلے جیل گئے یا بری کر دیے گئے، پولیس آج بھی ان کے خاندان کو ’تنگ‘ کرتی ہے

سال 2006کے ممبئی ٹرین دھماکہ کیس میں جن لوگوں کو عدالت نے مجرم قرار دیا  یا بری کر دیا ،  ان کے خاندانوں کو اب بھی پولیس کی مسلسل پوچھ گچھ اور نگرانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ بری کر دیے گئے لوگ بھی خود کوریاست کی نظر میں اب تک مجرم جیسا محسوس کرتے ہیں۔

السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر

ممبئی: 11 جولائی 2006 کو ممبئی ٹرین بلاسٹ معاملے میں مبینہ رول کی وجہ سے جب شیخ محمدعلی عالم شیخ کوگرفتار کیا گیا تھا، تب ان کے بچے اسکول میں پڑھتےتھے ۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک جب ممبئی کی اسپیشل مہاراشٹر کنٹرول آف آرگنائزڈ کرائم ایکٹ (مکوکا) عدالت میں مقدمہ چلتا رہا ، تب مختلف محکموں کی پولیس ہر جمعرات کو علی کے گھر جا کر اس کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتی تھی۔

‘میرے والد ان کی حراست میں تھے، پھر بھی وہ ہر ہفتے ہمارے گھر آتے اور فضول سوالات کرتے۔’ علی کے بیٹوں میں سےایک کہتے ہیں۔ 2015 میں جب مکوکا کورٹ نے علی اور دیگر 11 افراد کو مجرم قرار دیا اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی ۔ تب کہیں جاکر یہ دورے دھیرے دھیرے کم ہوگئے۔

لیکن تقریباً ایک دہائی بعد جب علی کے ایک بیٹے نے اپنی تعلیم مکمل کر کے شہر میں نوکری شروع کی، تو پولیس کے دورے دوبارہ شروع ہو گئے۔ ممبئی پولیس کمشنر کو دی گئی شکایت میں علی کی اہلیہ سعیدالنسا نے بتایا کہ کچھ نامعلوم پولیس اہلکار ان کے گھر آتے ہیں اور علی کے بارے میں پوچھتے ہیں، حالانکہ وہ گزشتہ 20 سال سے جیل میں ہیں۔

اب یہ ہراسانی مزید بڑھ گئی ہے – پولیس علی کے بیٹوں سے بھی رابطہ کرتی ہے اور ان سے بار بار وہی سوال کرتی ہے۔ علی کے بڑے بیٹے کہتے ہیں،’یہ  سوال  ہمیں سمجھ نہیں آتے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ پولیس کی طرف سے ایک اشارہ ہے کہ ہم ہمیشہ ان کی نگرانی میں ہیں۔’

پریشانیاں اور نگرانی

نگرانی صرف محمد علی کے خاندان تک محدود نہیں ہے۔ یہ کیس سے جڑے تقریباً ہر فرد تک پھیلا ہوا ہے، جن میں عبدالواحد شیخ بھی شامل ہیں — جنہیں تمام الزامات سے بری کر دیا گیا تھا اور 2015 میں رہا کر دیا گیا تھا۔

واحد شیخ اب جنوبی ممبئی کے ایک پرانے اردو اسکول میں استاد ہیں اور حال ہی میں انہوں نے قیدیوں کے حقوق پر پی ایچ ڈی کا مقالہ جمع کیا ہے۔ وہ بتاتے  ہیں کہ بری ہونے کے باوجود انہیں اور ان کے خاندان کو مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے۔

‘ہر چند دن بعد پولیس میرے دروازے پر دستک دیتی ہے یا مجھے فون کرتی ہے۔ میں سمن کے بغیر بات کرنے سے انکار کرتا ہوں – جو وہ کبھی نہیں لاتے۔’ شیخ کہتے ہیں۔

شیخ نے ہر بار کی اس طرح کی پولیس کارروائی کو دستاویزی شکل دی ہے اور بتاتے ہیں کہ انہوں نے کمشنر کے دفتر میں کتنی بار شکایت کی ہے اس کی گنتی بھی اب یاد نہیں ہے۔ شیخ مزیدکہتے ہیں،’شکایات اوپر تک جاتی ہیں، ہراسانی چند مہینوں کے لیے بند ہو جاتی ہے، پھر دوبارہ شروع ہو جاتی ہے۔’

شیخ نے نو سال سے زیادہ عرصہ جیل میں گزارا اور بری ہونے کے بعد سے وہ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ دہشت گردی کے اس مقدمے میں سزا پانے والے 12 افراد بے قصور ہیں۔ انہوں نے ‘انوسنس نیٹ ورک’ کے نام سے ایک مہم شروع کی ہے۔

قصوروار ٹھہرائے گئے 12 لوگوں  میں سے 5 – کمال انصاری، محمد فیصل عطا الرحمان شیخ، احتشام قطب الدین صدیقی، نوید حسین خان اور آصف خان کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔ باقی سات افراد – تنویر احمد محمد ابراہیم انصاری، محمد ماجد محمد شفیع، شیخ محمد علی عالم شیخ، محمد ساجد، مرغوب انصاری، مزمل عطا الرحمان شیخ، سہیل محمود شیخ اور ضمیر احمد لطیف الرحمان شیخ کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

سزا سنائے جانے کے فوراً بعد تمام مجرموں نے بامبے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ استغاثہ نے ان پانچوں مجرموں کی سزائے موت کی توثیق کے لیے ایک اپیل بھی دائر کی ہے – جو یہ ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ کیس ‘ریئرسٹ آف دی ریئر’ کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ اپیلیں ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں اور ان کے فیصلے اگلے ماہ متوقع ہیں۔

سال 2006 میں گرفتاری کے بعد سے تمام 12افرادجیل میں ہیں۔ انہیں گزشتہ دو دہائیوں میں صرف چند مواقع پر عارضی ضمانت دی گئی ہے، جیسے کہ جب کسی قریبی رشتہ دار کی موت ہوئی ہو۔ باقاعدہ پیرول یا چھٹی، جو عام طور پر قیدیوں کو ملتی ہے، عدالتوں کی طرف سے مسلسل مسترد کی جاتی رہی ہے۔

ہمیں سوالوں کی ایک فہرست تھما دی جاتی ہے

‘اتنے سالوں تک ان لوگوں کو حراست میں رکھنے کے بعد آپ اور کیا جاننا چاہتے ہیں؟’ ضمیر کے بڑے بھائی شریف پوچھتے ہیں۔

گرفتاری کے وقت ضمیر کی عمر 31 سال تھی اور اب وہ جلد ہی 50 سال کے ہو جائیں گے۔ 2006 کے سیریل بالسٹ کے واقعے میں قصوروار ٹھہرائے گئے ضمیر، جن پر 189لوگوں کی موت اور 824 کو زخمی کرنے کا الزام ہے، گزشتہ دو دہائیوں میں صرف ایک بار جیل سے باہر آئے – وہ بھی چند گھنٹوں کے لیے – جب چند سال قبل ان کی والدہ کا انتقال ہوا تھا۔ ‘اس کے باوجود پولیس آج تک ہمارے پاس آتی ہے اور اسی کیس کے بارے میں سوالات کرتی ہے جسے وہ خود پچھلے 20 سال سے دیکھ رہے ہیں۔’ شریف کہتے ہیں۔

پانچ سال پہلے تک شریف کے خاندان کو بھی پولیس کے ان بار بار دوروں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ‘وہ ضمیر کے بارے میں پوچھتے تھے، پھر میری ذاتی زندگی کے بارے میں بھی۔ میں کئی سالوں تک صبروتحمل کا مظاہرہ کرتارہا، لیکن جب انہوں  ہماری بہنوں اور ان کے خاندان کے بارے میں جانکاری مانگنی شروع کی  تو میں نے احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا،’ وہ بتاتےہیں۔

شریف نے کرائم برانچ کے ایک سینئر افسر کے خلاف شکایت درج کرائی، جس کے باعث کچھ وقت کے لیے پولیس کا آنا بند ہو گیا۔ تاہم، گزشتہ ہفتے جمعہ (30 مئی) کو دو پولیس اہلکار سادہ لباس میں دوبارہ ان کے گھر آئے اور وہی پرانے سوالات کرنے لگے۔

ان بے بنیاد پوچھ گچھ کے ذریعے جہاں پولیس ان خاندانوں کو مسلسل ہراساں کرتی رہی ہے، وہیں کچھ پولیس اہلکار دی وائر سے بات کرتے ہوئے اپنا دفاع کیا اور کہا کہ وہ  توصرف ‘اوپر سے آنے والے احکامات کی پیروی کر رہے ہیں۔’

‘ہمیں سوالات کی ایک فہرست تھما دی جاتی ہے، اور ہم صرف جا کر پوچھ لیتے ہیں،’ ٹرین بلاسٹ کے ایک مجرم کے گھر حال ہی میں گئے ایک سپاہی نے کہا۔

مسلسل ہراسانی

ممبئی ٹرین دھماکوں کے کیس میں قصوروار ٹھہرائے گئے افراد کے گھروں کا پولیس کا حالیہ دورہ شہر میں جاری پولیس کی وسیع تر پروفائلنگ مہم کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔

شیخ کا کہنا ہے کہ انہیں ممبئی کے مختلف حصوں سے ایسے لوگوں کے فون آتے ہیں جنہوں نے ممنوعہ اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) یا دیگر دہشت گردی کے مقدمات میں ٹرائل کا سامنا کیا ہے، لیکن عدالتوں سے انہیں بری کر دیا گیا ہے۔ ‘وہ بحالی کے لیے کوئی ڈیٹا بیس تیار نہیں کر رہے ہیں، بلکہ یہ ساری مشق بے گناہ لوگوں کے مجرمانہ پروفائل تیار کرنے کے لیے ہے۔ عدالت سے بری ہونے کے بعد بھی ریاست انہیں بے گناہ ماننے سے انکاری ہے۔’ شیخ نے اصرار کیا۔

اس طرح کی مسلسل ہراسانی سے تنگ آکر شیخ اور ان جیسے کئی دوسرے سابق قیدیوں نے اپنے گھروں کے ارد گرد سی سی ٹی وی کیمرے نصب کر وا دیے ہیں۔

سال 2023میں دی وائر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں  شیخ نے کہا  تھاکہ یہ مجبوری میں اپنایا گیا راستہ ہے تاکہ خود کو اور اپنے خاندان کو پولیس سے محفوظ رکھاجا سکے، اور سب سے اہم – کسی طرح کے جھوٹے مقدمے میں پھنسایا نہ  جا سکے۔ دی وائر نے ملک بھر میں کئی ایسے سابق قیدیوں کا انٹرویو کیا تھا، جنہوں نے پولیس کی مداخلت سے بچنے کے لیے اپنے گھروں میں کیمرے لگوائے ہیں۔

شیخ کہتے ہیں کہ مشکلات ختم نہیں ہوئیں۔ اکتوبر 2023 میں، نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا، یہ الزام لگاتے ہوئے کہ وہ ممنوعہ تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف ائی) سے منسلک ایک معاملے میں مشتبہ ہیں۔ بعد میں انہیں لکھنؤ بلایا گیا، پوچھ گچھ کی گئی اور چھوڑ دیا گیا۔ ‘لیکن انہوں نے میرے گھر پر اس طرح چھاپہ مارا جیسے میں شہر میں چھپا ہوا کوئی بڑا دہشت گرد ہوں۔’

برسوں پہلے، جب دہلی ٹربیونل – جو وقتاً فوقتاً سمی پر پابندی کا جائزہ لینے کے لیے قائم کیا جاتا ہے – نے مہاراشٹر کا دورہ کیا تھا، تب  ریاستی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ شیخ سمی کا حصہ تھے۔ اس کے علاوہ انہیں ‘دہشت گردی کے معاملے میں قصوروار’ بھی کہاگیا، جو مکمل طور پر غلط تھا۔ شیخ کو اس غلط معلومات کو ہٹوانے کے لیے دہلی ہائی کورٹ جانا پڑا۔

‘عدالت نے مجھے تمام الزامات سے بری کر دیا ہے، میرے خلاف کوئی مقدمہ زیر التوا نہیں ہے، پھر بھی ریاست مجھے ایک قانونی شہری کے طور پر قبول کرنے کو تیار نہیں ہے’۔ شیخ کہتے ہیں۔

( انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

مولانا آزاد فیلو شپ کی ادائیگی میں تاخیر، اقلیتی طلبہ پریشان

مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کے تحت پی ایچ ڈی کر رہے اقلیتی کمیونٹی کے سینکڑوں ریسرچ اسکالرکو دسمبر 2024 سے اب تک اسکالرشپ نہیں ملی ہے۔ یہ اسکالرشپ وزارت اقلیتی امور کی طرف سے دی جاتی ہے۔ طلبہ کا الزام ہے کہ حکومت جان بوجھ کر اسکالر شپ روک رہی ہے۔

مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کا آغاز 2009 میں اقلیتی امور کی وزارت نے کیا تھا۔

نئی دہلی: مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ پر انحصار کرنے والے پی ایچ ڈی اسکالر ایک بار پھر اسکالرشپ کی ادائیگی میں تاخیر کے مسئلےسے دوچار ہیں۔ زیادہ تر ریسرچ اسکالر کو دسمبر 2024 سے اب تک (مئی 2025) تک اپنا وظیفہ نہیں ملا ہے۔ کچھ طلبہ کو اس سے پہلے کا وظیفہ بھی نہیں ملا ہے۔

وزارت اقلیتی امور کے زیر انتظام مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ ان ریسرچ اسکالر کو مالی مدد فراہم کرتی ہے، جو ہندوستان میں چھ مطلع شدہ اقلیتی برادریوں (مسلم، عیسائی، سکھ، بدھ، جین اور پارسی) سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن ادائیگی میں تاخیر کے باعث اس اسکالرشپ پر انحصار کرنے والے طلبہ کو مالی مشکلات کے ساتھ ساتھ ذہنی اذیت کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

کچھ طلبہ قرض لے کر کام چلا رہے ہیں۔ تحقیقی سرگرمیاں ٹھپ ہو کر رہ گئی ہیں۔ کتابوں اور فیلڈ ورک کے لیے پیسے نہیں بچے ہیں۔

حکومت کی خاموشی کو دیکھتے ہوئےطلبہ کو لگتا ہے کہ اس فیلوشپ کو جان بوجھ کر روکا جا رہا ہے۔  کچھ طلبہ نے دعویٰ کیا کہ وزارت کے حکام نے انہیں فیلوشپ چھوڑنے اور کسی اور اسکیم کے لیے درخواست دینے کا مشورہ دیا  ہے۔

اس صورتحال کے پیش نظر تین ممبران پارلیامنٹ (ضیاء الرحمن- سنبھل، محمد جاوید- کشن گنج اور ٹی سمتی- چنئی ساؤتھ) نے اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو کو خط لکھ کر فوری نوٹس لینے کو کہا ہے۔

پانچ سال تک ملنے والی اس اس اسکالرشپ کے پہلے دو سال کوجے آر ایف (جونیئر ریسرچ فیلوشپ) کہا جاتا ہے، جس کے تحت 37000 روپے ماہانہ دیے جاتے ہیں۔ آخری تین سالوں کو ایس آر ایف (سینئر ریسرچ فیلوشپ) کہا جاتا ہے، جس کے تحت 42000 روپے ماہانہ دیے جاتے ہیں۔   دسمبر 2023 میں اس فیلوشپ سے مجموعی طور پر 1466 طلبہ فائدہ اٹھا رہے تھے۔ ان میں سے جے آر ایف پانے والوں کی تعداد 907 تھی اور ایس آر ایف پانے  والوں کی تعداد 559 تھی۔

سال 2022-23 میں حکومت نے اس فیلوشپ کو بند کر دیا تھا۔ 2025-26 کے بجٹ میں  مرکزی حکومت نے اس فیلوشپ کے لیے مختص رقم کو 4.9 فیصد کم کر دیا تھا، یعنی 45.08 کروڑ روپے سے کم کر کے 42.84 کروڑ روپے کر دیا تھا۔

طلبہ کی پریشانی

دی وائر نے ملک کی مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ سے بات کی ہے۔ کولکاتہ کی پریسیڈنسی یونیورسٹی میں ہندی ڈپارٹمنٹ کے ریسرچ اسکالر کالو تمانگ کہتے ہیں، ‘میں تقریباً چھ ماہ سے اس پریشانی سےدوچار ہوں۔ مالی بوجھ کی وجہ سے تحقیق کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔’ تمانگ کو اس فیلوشپ کے لیے سال 2021 میں منتخب کیا گیا تھا۔ تمانگ بدھ مت سے آتےہیں۔ کرن رجیجو سے ان کا مطالبہ ہے کہ فیلو شپ کو جلد از جلد ریلیزکیا جائے۔

دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے ایک پی ایچ ڈی اسکالر نے کہا، ‘پی ایچ ڈی کا چوتھا سال چل رہا ہے اور فیلوشپ آنا بند ہو گئی ہے۔ مالی مشکلات نے ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ کرایہ ادا کرنے سے قاصر ہوں۔ میں نے دوستوں سے پیسے ادھار لیے اور یہ کہہ کر ٹال رہا  ہوں کہ آج کل  میں ادا کروں گا۔’

یہ ریسرچ اسکالر نارتھ -ایسٹ کا رہنے والا ہے اور اس کا تعلق بدھ کمیونٹی سے ہے۔

رضیہ خاتون، جو کلکتہ یونیورسٹی کے شعبہ فزیالوجی سے پی ایچ ڈی کر رہی ہیں، نے کہا کہ باربار فریادکرنے کے باوجود حکام کی طرف سے کوئی جواب نہیں مل رہا ہے۔ ‘متعدد طلبہ  کو مسلسل مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ مسلسل تناؤ کی وجہ سے میری طبعیت خراب ہو چکی ہے۔’

منی پور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہی سلیمہ سلطان کو بھی دسمبر 2024 سے فیلوشپ نہیں ملی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ‘مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ اقلیتی برادری کے طلبہ کے لیے واحد امید ہے۔ اس سے ہم اپنی تحقیق کے اخراجات کو پورا کر تے ہیں۔ ہماری اکیڈمک زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ فیلو شپ طلبہ کا حق ہے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس فیلو شپ کو دیگر فیلوشپ کی طرح احسن طریقے سے چلایا جائے۔’

طلبہ کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی فیلو شپ آنے میں تاخیر ہوتی رہی ہے۔ لیکن پہلے اس کی وجہ پہلے بتائی جاتی تھی۔ اس بار ایسا نہیں کیا جا رہا ہے۔ اس تذبذب کی وجہ سے طلبہ زیادہ پریشان  ہیں۔

اقلیتی امور کی وزارت نے زیر التواء فیلوشپ کے جاری ہونے کے بارے میں کوئی وضاحت پیش نہیں کی ہے۔

طلبہ کی ناکام کوششیں

فیلو شپ ریلیز کرنے کی مانگ کو لے کر طلبہ کا ایک گروپ 15 مئی کو اقلیتی امور کی وزارت کے پاس گیا تھا۔ جامعہ کے ایک ریسرچ اسکالر نے بتایا کہ حکام نے ان سے ملنے سے بھی انکار کردیا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک ریسرچ اسکالر نے آر ٹی آئی کے ذریعے جاننا چاہا کہ اسکالرشپ کب جاری کی جائے گی، لیکن وزارت نے واضح  جواب نہیں دیا۔

آر ٹی آئی کا جواب: وزارت نے یہ نہیں بتایا کہ وظیفہ کب دیا جائے گا۔

یہ فیلوشپ کس کو ملتی ہے؟

مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ اقلیتی برادریوں کے ان طلبہ کو دی جاتی ہے جو ہندوستانی یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اس کے لیے قومی اہلیت ٹیسٹ (نیٹ) پاس کرنا لازمی ہے۔ یہ فیلو شپ ان محققین کو دی جاتی ہے جن کے خاندان کی سالانہ آمدنی چھ لاکھ روپے سے کم ہو۔

مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ وزارت اقلیتی امور کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔ اکتوبر 2022 سے اس کی نوڈل ایجنسی قومی اقلیتی ترقی اور مالیاتی کارپوریشن (این ایم ڈی ایف سی) ہے۔ یہ زیر التواء ادائیگی اور انتظامی امور کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ پہلے یہ ذمہ داری یو جی سی (یونیورسٹی گرانٹس کمیشن) کے پاس تھی۔ طلبہ کا خیال ہے کہ رفاقت یو جی سی کے تحت زیادہ آسانی سے چل رہی تھی۔

‘یو جی سی کے ساتھ اچھی بات یہ تھی کہ اگر فیلوشپ میں تاخیر ہوتی ہے تو وہ اس کی وجہ بتاتی تھی اور جانکاری شیئر کرتی ۔ لیکن این ایم ڈی ایف سی ہاتھ کھڑے کر دیتی  ہے،’ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک ریسرچ اسکالر نے کہا۔

این ایم ڈی ایف سی اور وزارت کیا کہتے ہیں؟

دی وائر نے وظیفہ میں تاخیر کی وجہ جاننے کے لیےاین ایم ڈی ایف سی کے ڈپٹی جنرل منیجر (پلاننگ)/کمپنی سکریٹری نکسن ماتھ سے رابطہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ‘ہمارا کام پیسہ تقسیم کرنا ہے۔ لیکن وزارت سے فنڈہی نہیں آیا ہے۔ معاملہ ابھی پروسس میں ہے۔ فنڈز آتے ہی طلبہ کو فیلوشپ مل جائے گی۔’ ماتھر نے یہ بھی بتایا کہ آخری بار وزارت سے فنڈ اکتوبر-نومبر 2024 میں آیا تھا۔

دی وائر ہندی جوائنٹ سکریٹری (ایجوکیشن) رام سنگھ سے یہ جاننے کے لیے رابطہ کیا کہ وزارت فنڈ جاری میں کیوں تاخیر کر رہی ہے۔ اقلیتی امور کی وزارت میں کام کر رہے رام سنگھ پری میٹرک اسکالرشپ، پوسٹ میٹرک اسکالرشپ اسکیموں، پڑھو پردیش اور مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کی نگرانی کرتے ہیں۔ ان کا جواب ابھی تک نہیں آیا ہے۔

ایک بندہوچکی اسکیم: مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ

مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کا آغاز 2009 میں اقلیتی امور کی وزارت نے کیا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد اقلیتی طلبہ کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دینا اور ان کی راہ میں مالی رکاوٹوں کو کم کرنا تھا۔

لیکن دسمبر 2022 میں حکومت ہند نے اس فیلوشپ کو بند کر دیا۔ لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں اقلیتی امور کی وزارت نے واضح طور پر کہا تھا ، ‘چونکہ مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ (ایم اے این ایف) اسکیم اعلیٰ تعلیم کے لیے بہت سی دیگر فیلوشپ اسکیموں سے اوورلیپ ہے، اس لیے حکومت نے اسے 2022-23 سے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔’

تاہم، اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ‘جو طلبہ پہلے سے ہی یہ فیلوشپ حاصل کر رہے ہیں وہ مقررہ مدت تک اسے حاصل کرتے رہیں گے۔’ مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ کی نوڈل ایجنسی این ایم ڈی ایف سی نے بھی اپنے نوٹس میں اس کا ذکر کیا تھا۔

Next Article

گھر-گھر سیندور بانٹنے کے منصوبے پر ہر طرف سے تنقید کا سامنا کرنے والی بی جے پی نے اس خبر کو ہی فرضی بتا دیا

اس ہفتے کی شروعات میں کچھ میڈیا رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ بی جے پی گزشتہ 11 سالوں میں اپنی حکومت کی حصولیابیوں کا جشن منانے کے لیے ایک پروگرام کے تحت ہر گھر خواتین کو سیندوربھیجے گی۔ اس پرسخت تنقید کا سامنا کرنے کے چند دنوں بعد پارٹی نے اس خبر کو ہی فرضی بتا دیا ہے۔

بی جے پی رہنما اگنی مترا پال اور بنگا ناری شکتی کے دیگر اراکین کولکاتہ میں ‘آپریشن سیندور’ کی کامیابی کا جشن منانے کے لیے ‘ابھینندن یاترا’ میں شرکت کرتے ہوئے۔ (تصویر؛پی ٹی آئی)

نئی دہلی:  بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے جمعہ (30 مئی) کو اس بات کی تردید کی کہ پارٹی ‘آپریشن سیندور’ کی کامیابی کو عوام کے درمیان پہنچانے کے اپنے منصوبے کے تحت خواتین کو سیندور تقسیم کرے گی۔ پارٹی نے اس سلسلے میں شائع ہونے والی خبروں  کو ہی  ‘فرضی’ قرار دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، یہ خبر اس وقت آئی، جب بی جے پی نے گزشتہ 11 سالوں میں اپنی حصولیابیوں کا جشن منانے کے لیے آؤٹ ریچ پروگرام کا اعلان کیا، جو  9  جون کو شروع ہونے والا ہے۔ اسی دن وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی تیسری مدت کے لیے حلف لیا تھا۔

اگرچہ پارٹی نے اپنے منصوبوں کی کوئی تفصیلات باضابطہ طور پر شیئر نہیں کی ہیں، لیکن بتایا گیا ہے کہ ایک ماہ تک جاری رہنے والے اس پروگرام میں مرکزی وزراء اور ممبران پارلیامنٹ سمیت بی جے پی قیادت کی ‘پدایاترا’ کا منصوبہ ہے، جس میں دیگر حصولیابیوں کے علاوہ آپریشن سیندور اور ذات پر مبنی مردم شماری کے بارے میں مرکز کے فیصلے پر روشنی ڈالی جائے گئی۔

معلوم ہو کہ اس ہفتے کی  شروعات میں کچھ میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس پروگرام کے تحت بی جے پی ہر گھر خواتین کو سیندور بھیجے گی اور مرکزی حکومت کی حصولیابیوں کو اجاگر کرنے والے پمفلٹ بھی تقسیم کیے جائیں گے۔

تاہم، بی جے پی نے اب اس کی تردید کی ہے اوردینک بھاسکر کی رپورٹ کو اپنے آفیشل ہینڈل سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر شیئر کرتے ہوئے، اسے ‘فرضی’ قرار دیا ہے۔

اس میں لکھاگیا ہے، ‘دینک بھاسکر میں شائع ہونے والی یہ خبر پوری طرح سے جھوٹی اور دھوکہ دہی پر مبنی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے گھر گھر جا کر سیندور بانٹنے کا کوئی پروگرام نہیں رکھا ہے۔’

بی جے پی کی جانب سے سیندور بانٹنے کی منصوبہ والی کی خبروں پر اپوزیشن نے سخت رد عمل ظاہر کیا تھا

قابل ذکر ہے کہ بی جے پی کے سیندور بانٹنے کے منصوبے کی خبروں پر اپوزیشن لیڈروں نے سخت رد عمل ظاہر کیا تھا۔

کانگریس کی ترجمان راگنی نائک نے اس رپورٹ کو پارٹی کی طرف سے ‘اپنی سیاسی اور سفارتی ناکامی کو چھپانے’ کی کوشش قرار دیا۔

دی ہندو کے مطابق، کانگریس ہیڈکوارٹر میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا، ‘یہ انتہائی شرم کی بات ہے کہ مودی حکومت اپنی سیاسی اور سفارتی ناکامی کو چھپانے کے لیے سیندور کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے۔ مودی حکومت مسلح افواج کی جاں بازی اور بہادری کا کریڈٹ لینے کے لیے کس حد تک گر سکتی ہے؟’

راگنی نائک نے دعویٰ کیا، ‘جب نریندر مودی ملک کے ہر ضلع اور ہر کونے میں آپریشن سیندور کے بڑے بڑے پوسٹر لگانے سے مطمئن نہیں ہوئے، جن پر ان کی تصویر لگی ہوئی تھی،فوج کی وردی پہنے ہوئے… اب بی جے پی نے اعلان کیا ہے کہ وہ گھر- گھر جا کر ‘سیندور’ تقسیم کرے گی۔’

معلوم ہو کہ حالیہ دنوں میں بی جے پی اور وزیر اعظم مودی کو آپریشن سیندور کی واضح سیاست کاری  کو لے کر مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

دریں اثنا، بی جے پی آئی ٹی سیل کے سربراہ امت مالویہ نے ان رپورٹوں کی تردید کی ہے، اور مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی پر الزام لگایا ہے کہ وہ ‘بے بنیاد رپورٹ کو سیاست کے لیے ٹرول کی طرح استعمال کر رہی ہیں’اور اسے سامنے لانے کے لیے کانگریس  کے ترجمان کو ‘ہلکے لوگ’ کہا ہے۔

مالویہ نے ایکس پر لکھا، ‘دینک بھاسکر میں شائع ہونے والی اس فرضی خبر کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن اصل مضحکہ خیزی اس وقت شروع ہوئی جب مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ نے آفیشیل سرکاری پلیٹ فارم سے اس بے بنیاد رپورٹ پر سیاست کرنا شروع کر دی۔’

انہوں نے کہا، ‘ممتا بنرجی کو اپنی ریاست کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے اور قومی سلامتی جیسے حساس مسائل پر مضحکہ خیز بیانات دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ مغربی بنگال فرقہ وارانہ کشیدگی کی آگ میں جل رہا ہے، خواتین محفوظ نہیں ہیں، بے روزگاروں کے پاس کوئی روزگار نہیں ہے – یہ ممتا بنرجی کی ترجیحات ہونی چاہیے۔’

انہوں نے کہا، ‘جہاں تک کانگریس کے ترجمانوں کا تعلق ہے – وہ ہلکے لوگ ہیں۔ ان سے بہتر کی توقع رکھنا بے معنی ہوگا۔’

اگرچہ بنرجی نے اس رپورٹ کا براہ راست حوالہ نہیں دیا تھا، لیکن انہوں نے پی ایم مودی پر آپریشن کے نام کے ساتھ ‘سیاسی ہولی ‘ کھیلنے کا الزام لگایا اور پوچھا تھاکہ وہ اپنی بیوی کو سیندور کیوں نہیں دیتے۔

وزیر اعظم کےآپریشن سیندور کےسیاسی استعمال کے خلاف  کسی بھی اپوزیشن لیڈر کی طرف سے  یہ  عوامی طور پر پہلی مذمت تھی۔

ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بنرجی نے کہا، ‘آپریشن سیندور کا نام ایک سیاسی مقصد کے ساتھ دیا گیا ہے۔ لیکن میں اس بارے میں کچھ نہیں کہوں گی۔ جب تمام اپوزیشن لیڈر بیرون ملک مادروطن کے لیے بول رہے ہیں ، اس وقت  وزیراعظم سیاسی ہولی کھیلنے آئے ہیں- یہ وزیراعظم کو زیب نہیں دیتا۔’

بنرجی نے کہا، آپریشن سیندور کے بارے میں، اگرچہ میرے پاس کوئی تبصرہ نہیں ہے، براہ کرم یاد رکھیں کہ ہر عورت احترام  کی مستحق ہے۔ وہ اپنے شوہروں سے سیندور لیتی ہیں۔ پی ایم مودی کسی کے شوہر نہیں ہیں، آپ  پہلےاپنی بیوی کو سیندور کیوں نہیں دیتے؟ ‘

دریں اثنا، کانگریس کی ترجمان سپریا شرینتے نے بھی مالویہ کے تبصروں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بی جے پی تنقید کی وجہ سے اپنی مہم واپس لینے پر مجبور ہوئی۔

انہوں نے ایکس پر لکھا،’اب وہ سستی اسکیم کو فرضی خبربتارہے ہیں ۔’

قابل ذکر ہے کہ وزیر اعظم نے گزشتہ دو ہفتوں میں کئی ریلیوں اور عوامی جلسوں سے خطاب کیا ہے، جہاں انہوں نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے کے لیے سیندور لفظ  کااستعمال کیا ہے۔

تاہم، انہوں نے ابھی تک اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ پہلگام حملے کے مجرم ابھی تک کیوں نہیں پکڑے گئے، یا حملے کی تحقیقات کی کہاں تک پہنچی ہے۔

Next Article

تجارتی دباؤ اور نظریاتی غلامی کے شکنجے میں جکڑا ہندوستانی میڈیا

دنیا کے کئی میڈیا اداروں نے حالیہ دنوں میں اندرونی ایڈوائزیز جاری کرکے اپنے صحافیوں کو ہندوستانی میڈیا کا حوالہ دےکر خبریں فائل کرتے وقت انتہائی محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے۔

Illustration: The Wire, with Canva

تقریبا تین دہائیوں تک ہندوستان کے مین اسٹریم میڈیا کا حصہ رہنے کے بعد اس کی تنزلی کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔

حالیہ ہندوپاک کشیدگی کے دوران جھوٹی خبروں کی یلغار کرکے ہندوستانی میڈیا  نے ایسے منظرنامے کی تصویر کشی کی  جو تجارتی دباؤ، نظریاتی غلامی، اور نمائشی تماشے کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔

 معلوم ہوا ہے کہ دنیا کے کئی میڈیا اداروں نے حالیہ دنوں میں اندرونی ایڈوائزیز جاری کرکے اپنے صحافیوں کو ہندوستانی میڈیا کا حوالہ دےکر خبریں فائل کرتے وقت انتہائی محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے۔

 صحافی ہونے کے علاوہ میں ہندوستان میں میڈیا سے متعلق کئی اداروں سے بھی وابستہ رہا ہوں۔ پارلیامنٹ کی پریس ایڈوائزری کمیٹی کا ڈپٹی چیئرمین، سینٹرل پریس ایکریڈیٹیشن کمیٹی کا ممبر پریس کونسل کے ساتھ وابستگی کے علاوہ میں نے برکس میڈیا فورم میں ہندوستان کی نمائندگی بھی کی ہے۔

اس کے علاوہ پریس کلب آف انڈیا، پریس ایسوسی ایشن اور دہلی یونین آف جرنلسٹس کا بھی عہدیدار رہا ہوں۔ان تجربات کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ ہندوستان میں کبھی بھی میڈیا ایک آزاد اور خود مختار ادارہ نہیں تھا، مگر آزادی کی ایک ظاہری اور موہوم شکل موجود تھی۔

میڈیا کو  جمہوریت کا چوتھا استون تو کہا جاتا ہے، مگر اس کو چلانے والے صحافیوں یا نان-صحافیوں کے نان و نفقہ کا کوئی ڈھانچہ کبھی بھی کھڑا نہیں ہو پایا ہے۔ پہلے تین ستون یعنی پارلیامنٹ، ایگزیکٹو، عوامی ٹیکس کے دم پر ایک سسٹم کے تحت چلتے ہیں  ۔ مگر میڈیا جیسے اہم شعبہ کو اشتہاری اور تجارتی اجارہ داری کے مگرمچھ کے حوالے کردیا گیا ہے۔

ہندوستان میں اس وقت ایک لاکھ پچاس ہزار کے قریب اخبارات شائع ہوتے ہیں، اس کے علاوہ ملک کے طول و عرض میں  850 سے زائد ٹی وی نیوز چینلز ہیں۔

ہندوستان میں اشتہاری معیشت کا حجم نوسو بلین کے لگ بھگ ہے۔ یہ معیشت اس وسیع میڈیا کو سنبھال نہیں سکتی ہے۔ دیکھا جایے تو میڈیا کی آمدن کا کوئی پائیدار ماڈل موجود ہی نہیں ہے۔ اس پر طرہ کہ ٹی آر پی نظام  شفافیت سے مبرا ہے۔

ہندوستان کے ایک سابق وزیر اطلاعات و نشریات منیش تیواری کے بقول اس خامی سے ہی سنسنی خیزی کی دوڑ شروع ہو جاتی ہے، جس کو مقابلہ جاتی غیرذمہ داری کا بھی نام دیا گیا ہے۔  جب پورا نظام ہی اشتہارات اور ٹی آر پی پر منحصر ہو، تو سچ کی ہی سب سے پہلے قربانی دی جائےگی۔

اس کے عالاوہ ہندوستان میں میڈیا ملکیت کا پیٹرن بھی اس کا ذمہ دارہے۔ جنوبی ہندوستان کے بنگلور میں دکن ہیرالڈ گروپ کے علاوہ باقی سبھی قومی میڈیا کے ادارے ایک مخصوص طبقہ یعنی بنیا یا ویشیہ کی ملکیت ہیں۔ ان کے دیگر کاروبار ہیں ۔

 ہندوستان ٹائمز کے مالکان ہندوستان موٹرس اور کئی دیگر کمپنیاں چلاتے ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کے مالکان دالمیا گروپ آف انڈسٹریز کے بھی مالکان ہیں۔ زی نیوز، ویان اور ڈی این اے کے مالک سھاش چندرا نامی گرامی بلڈر ہونے کے ناطے ایس ایل گروپ کے مالک ہونے کے علاوہ تیس سے زائد کمپنیوں کے مالک ہیں۔

 ان کمپنیوں کے مقابلے میڈیا ادراوں سے ان کو نہایت ہی کم منافع حاصل ہوتا ہے، چند ادارے تو نقصان میں ہی چلائے جاتے ہیں۔ مگر وہ اس کو اپنی طاقت کے بطور استعمال کرکے دیگر بزنس اداروں کےلیے اکثر و بیشتر مراعات حاصل کرتے ہیں۔

میڈیا کے زوال کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے، تو پتہ چلتا ہے کہ قومی سلامتی کے حوالے سے ہندوستانی میڈیا میں ہمیشہ ہی حکومت کے ورژن کو ہی حرف آخر تصور کیا جاتا رہا ہے۔ مگر پھر بھی کسی وقت رگ صحافت پھڑک ہی جاتی تھی۔ کرگل جنگ کے وقت مجھے یاد ہے  کہ انڈیا ٹوڈے کی ہریندر باویجا نے وہاں ناگا بریگیڈ کے کیمپ کے گیٹ پر پاکستانی سپاہیوں کے سروں کو بطور وار ٹرافی لٹکانے کی واردات کو رپورٹ کیا تھا۔

 اس کے بعد ایک عرصہ تک ان کو کرگل جانے سے منع کر دیا گیا تھا۔ مگر اس کےلیے انہوں نے اپنے صحافتی اقدار کا سودا نہیں کیا۔ جبکہ اس کو رپورٹ کرنے کی سختی سے ممانعت کی گئی تھی۔

کم و بیش بڑی حد تک اس جنگ کی رپورٹنگ متوازن ہی تھی۔ لیکن 2014 کے بعد خوف، نظریاتی جبر، اور تجارتی دباؤ نے ادارتی آزادی کو نگل لیا ہے۔جس سے  آج کا میڈیا دراصل ‘پرفارمیٹو جرنلزم’بن گیا ہے ۔

یہاں تک کہ نیٹ فلکس جیسے عالمی پلیٹ فارم بھی اب ہندوستان میں خود کو سینسر کر رہے ہیں۔ کوئی نہیں کہتا، مگر خوف اندر تک بیٹھ گیا ہے۔

 ہر سانحہ، ہر خبر، جھوٹ کے سرکس میں کھو جاتی ہے۔ یہ صحافت نہیں، ایک تماشہ سا بن گیا ہے، جس سے ہم سب کی معتبریت مجروح ہو گئی ہے۔

بین الاقوامی سطح پر ہندوستانی میڈیا کی ساکھ اس قدر متاثر ہو چکی ہے کہ  اس کا نقصان سب سے پہلے حکومت کو  ہی عالمی سطح پر اٹھانا پڑ رہا ہے۔ کل جماعتی وفد جو سفارتی مشن پر مختلف ممالک کے دورہ  پرہے، کو یہ ادراک ہو رہا ہے کہ میڈیا نے ملک کی کس قدر سبکی کی ہے۔

تیواری کے مطابق، دو ہزار سات  میں  کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے حکومت نے میڈیا ریگولیشن کا بل لانے کی کوشش کی، مگر میڈیا ہاؤسز نے شدید مزاحمت کی۔ انہیں ریاستی کنٹرل سے نہیں بلکہ کسی بھی کنٹرول سے پرہیز تھا۔ انہوں نے سیلف ریگولیشن کی وکالت کی، جس کی آئے دن دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ جب تک  اشتہارات کے کیبل ایکٹ کی طرز پر اس سیلف ریگولیشن کو کسی قانونی دائرہ میں نہیں لایا جاتا ہے، تب تک اس کا وجود ہی بے معنی ہے۔

ہندوستانی جمہوریت ایسے میڈیا ہاؤسز بنانے میں ناکام رہی ہے جو کاروباری مفادات سے آزاد ہوں۔ یہی ہندوستانی جمہوریت کا سب سے بڑا المیہ ہے۔

بنیے کا میڈیا آزاد معیشت اور ہندو تو نظریہ کو ضم کر چکا ہے۔ اب حکومت کو کچھ کرنے کی ضروت ہی باقی نہیں رہ گئی ہے۔  صحافت کو پیشہ ورانہ بنانے کی ہر کوشش کو میڈیا گروپس نے خود ناکام بنایا ہے، کیونکہ اب وہ خود ہی صحافتی اسکول بھی چلاتے ہیں اور معیار بڑھانے میں ان کو کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔

اگر ایک صحافی کی ضرورت ہے، تو اس کےلیے بیس کو ایڈمیشن دیتے ہیں، تاکہ مارکیٹ میں ان کی کثرت رہنے سے مسابقت رہے اور ان کو زیادہ تنخواہیں نہ دینا پڑیں۔

پاکستان کے ساتھ حالیہ جنگ میں بتایا جاتا ہے کہ حکومت کی طرف سے باضابطہ کوئی ہدایات نہیں تھیں۔ فوج کے سربراہ کا بھی کہنا تھا کہ اس نازک وقت میں ان کا پندرہ فی صد وقت غلط خبروں سے نمٹنے میں صرف ہوا۔

پاکستانی شہر ہندوستانی فوج کے قبضے میں آ گئے، یا اعلیٰ افسران ملک چھوڑ گئے، یہ نہ تو سرکاری بیانات تھے، نہ ہی کسی معتبر ذرائع سے تصدیق شدہ۔ یہ دعوے خود میڈیا اداروں نے گھڑے تھے۔ اور یہ زیادہ خطرناک ہے۔

جنگی جنون اور حالیہ مس انفارمیشن ایک پیٹرن کا حصہ ہے ، جس میں ، اقلیتوں کے خلاف نفرت، اور سرکاری بیانیے کی اندھی تکرار اور اس سے بھی آگے جاکر شاہ کی وفاداری میں مسابقت کرنااب  ایک معمول ہے۔

چونکہ میڈیا کے حالیہ رویہ سے ملک اور حکومت کی سب سے زیادہ سبکی ہوگئی ہے اور بین الاقوامی طور پر ہندوستان کا بیانیہ کتنا ہی سچا کیوں نہ رہا ہو، پٹ گیا ہے، اس لیے ضرورت ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ میڈیا کے اصلاحات کا بیڑا اٹھایا جائے۔ ایک بڑی جمہوریت ہونے کے ناطے یہ خطہ نے دیگر ممالک کےلے بھی مشعل راہ ہوسکتے ہیں۔

نہ صرف میڈیا کی ملکیت کے حوالے سے شفافیت ہونی چاہیے بلکہ کراس ہولڈنگ پر بھی پابندی ہو۔ جو براڈکاسٹر ہے، وہ پروڈیوسر نہ ہو۔ ایک آزاد میڈیا کونسل کی بھی اشد ضرورت ہے، جو خود مختار اور سبھی سیاسی جماعتوں پر مشتمل ادارہ ہو۔ اس میں کسی ایک پارٹی کا غلبہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ادارہ ہمہ وقت معیار، اشتہارات کی نگرانی کے علاوہ احتساب کا بھی کام کرے۔

کئی میڈیا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دو ہزار چودہ کے بعد میڈیا نے جس طرح کی مثال قائم کی ہے، اگر وزیر اعظم مودی کی حکومت اقتدار سے باہر بھی ہو جاتی ہے، توبھی آئندہ آنے والی حکومتوں  کےلیے بھی ایک نظیرقائم کی گئی ہے۔ وہ بھی میڈیا کی اسی طرح کی تابعداری کی توقع کریں گے اور اگر کوئی ادارہ اس سے انکار کرےگا تو اس کو اسی طرح بھگتنا پڑے گا۔

 دی وائر کی ایڈیٹر سیما چشتی نے حال ہی میں معروف قانون دان کپل سبل کے ایک پروگرام میں کہا کہ سیاست دانوں نے سیکھ لیا ہے کہ میڈیا پر جتنا دباؤ ڈالو وہ اتنامطیع رہےگا۔  اب  کوئی بھی پاور میں آئےگا تو وہ جمہوریت کے اس چوتھے ستون کو غلام بنانے پر پورا زور صرف کرےگا۔

اندرا گاندھی کے ذریعے ایمر جنسی لگانے کے بعد 1977 میں جب ایل کے اڈوانی وزیر اطلاعات و نشریات مقرر ہوئے، تو انہوں نے ہندوستانی میڈیا پر طعنہ کستے ہوئے کہا کہ ان کو رکوع کرنے کےلیے کہا گیا  تھا مگر وہ پیٹ کے بل لیٹ گئے۔ موجودہ میڈیا کے حوالے سے اب کیا کہا جاسکتا ہے۔ وہ لیٹنے کے عمل کو بھی پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔

سبل کے مطابق یہ صرف میڈیا کا نہیں، بلکہ جمہوریت کے وجود کا مسئلہ ہے۔ جب سچ کی جگہ جھوٹ، اور احتساب کی جگہ تماشا لے گا، توملک ایک ہیجان زدہ قوم کا مسکن بن جائےگا، جو پورے خطے کےلیے خطرناک اور پریشان کن صورتحال ہے۔

ہندوستان کا میڈیا ایک باخبر عوام کے بجائے قوم کو ایک ہیجان زدہ جنونیوں کے قالب میں ڈھالتا جا رہا ہے۔دنیا بھر کے ذی ہوش اور ذی حس افراد کو اس کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔

Next Article

چھتیس گڑھ: ہندوتوا ہجوم کا عیسائی خاندان پر حملہ، پولیس کا ایف آئی آر درج کرنے سے انکار

کوردھا میں ایک عیسائی اسکول چلانے والے عیسائی خاندان کو 18 مئی کو چرچ سروس کے دوران ہندوتوا ہجوم کے پرتشدد حملے کے بعد روپوش ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ متاثرین کا الزام ہے کہ یہ واقعہ برسوں کی ہراسانی اور جبراً وصولی کا نتیجہ ہے، جو پولیس کی بے عملی اور سیاسی مداخلت کے باعث اور بھی بڑھ گیا ہے۔

گزشتہ 18مئی کو  عیسائی اسکول پر ہندوتوا  ہجوم کے حملے کے ویڈیو کا اسکرین شاٹ۔

کوردھا: چھتیس گڑھ کے کوردھا میں ایک عیسائی اسکول چلانے والے عیسائی خاندان کو 18 مئی کو اتوار کی چرچ سروس کے دوران ہندوتوا  ہجوم کے پرتشدد حملے کے بعد روپوش ہونے کو مجبور ہونا پڑا۔

آن لائن نشر ہونے والے ویڈیو کی تصدیق کی گئی  اور اس میں بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے اراکین کو ہولی کنگڈم انگلش ہائر سیکنڈری اسکول میں داخل ہوتے، ملازمین کے ساتھ مارپیٹ کرتے اور جبراً تبدیلی مذہب کا الزام لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے – ایک ایسا دعویٰ جس کے لیے حملہ آوروں نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔

تاہم، متاثرین کا الزام ہے کہ یہ پورا واقعہ برسوں سے جاری ہراسانی اور جبراً وصولی کا نتیجہ ہے، جو اب پولیس کی بے عملی اور سیاسی مداخلت کے باعث اور بڑھ گیا ہے۔

‘ہم کئی دہائیوں سے یہاں عبادت کرتے آ رہے ہیں؛ اب ہم مجرم ہیں؟

گزشتہ 18مئی کو، صبح قریب 11:40 بجے، بجرنگ دل اور وی ایچ پی کے تقریباً 80-100 ارکان اسکول کے احاطے میں داخل ہوئے، جہاں اتوار کی چرچ سروس  چل رہی تھی۔ مبینہ طور پر، ہجوم نے’جئے شری رام’ کے نعرے لگاتے ہوئےعبادت گاہ میں گھس کر خواتین اور نابالغوں کوسمیت وہاں موجود لوگوں کو مارا پیٹا، اور ‘بیت الخلاء’ میں چھپی بچیوں کو ڈرایا دھمکایا گیا۔

ہولی کنگڈم اسکول کے پرنسپل، پادری جوز تھامس، 35 سال سے زیادہ سے کوردھا میں مقیم ہیں۔ ان کے بیٹے جوشوآ جوز تھامس بتاتے ہیں، ‘ہمارا خاندان تمام برادریوں کو تعلیم فراہم کرنے کے مقصد سے اس اسکول کو چلا رہا ہے۔ لیکن اس بار انہوں نے میری ماں اور چھوٹے بھائی کو زدوکوب کیا۔ میرے والد کو گرفتار کر لیا گیا۔ اب ہم چھپ کر رہ رہے ہیں۔ اور پولیس ہماری شکایت درج نہیں کرے گی۔’

ایک ویڈیو بیان میں پادری تھامس کہتے ہیں، ‘کئی آئی اے ایس افسران، پولیس افسران، ڈاکٹر، انجینئر اور سی اے (چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ) نے یہاں سے اپنی تعلیم مکمل کی ہے۔ یہ 35 سال پرانا اسکول ہے۔’

گزشتہ 18مئی کے واقعے کے ویڈیو میں مقامی پولیس اور میڈیا حملے کے دوران وہاں نظر  آ رہے ہیں۔ تاہم، پولیس نہ صرف مبینہ طور پر تشدد کو روکنے میں ناکام رہی، بلکہ انہوں نے مبینہ طور پر جبری تبدیلی مذہب  کے الزام کی حمایت کرنے کے لیے وہاں موجود لوگوں کو اپنے بیانات بدلنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔

بتایا گیا ہے کہ پولیس نے حملے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی قبضے میں لے لی ہے، تاہم، اسے عام نہیں کیا گیا ہے۔

سرکاری دباؤ

حملے کے ایک دن بعدپولیس نے پادری جوز کو مبینہ ‘سی سی ٹی وی تحقیقات’ کے لیے بلایا اور انہیں نامعلوم الزامات کے تحت گرفتار کر لیا۔

مبینہ طور پر بغیر وارنٹ کے ان کے فون کی تلاشی لی گئی اور ان کی بیوی کو بھی طلب کیا گیا۔ ضمانت ملنے کے بعد پادری جوز کو کار کی ڈکی میں چھپ کر کوردھا سے بھاگنا پڑا کیونکہ بجرنگ دل کے لوگ ان سے نمٹنے کے لیے عدالت کے باہر جمع ہو گئےتھے۔

کئی کوششوں کے باوجود پولیس نے حملہ آوروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے خاندان کو منع کر دیا ہے۔

جوشوآنے الزام لگایا کہ ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (اے ایس پی) بگھیل اور ایس پی دھرمیندر سنگھ سمیت مقامی پولیس اہلکار ‘سرکاری دباؤ’ میں کام کر رہے تھے۔

اس دوران بی جے پی کے ضلع صدر راجندر چندرونشی اور ریاستی وزیر داخلہ وجئے شرما سمیت سیاسی لیڈروں پر حملہ آوروں کو تحفظ فراہم کرنے کا الزام  بھی لگایا جا رہا ہے۔

ایک ویڈیو میں ایک مقامی خاتون اہلکار، جو بجرنگ دل کے مردوں کے ساتھ بحث کرتی نظر آرہی ہے، کو تبدیلی مذہب کے ‘ہزاروں معاملوں  کی جانچ’ کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ تاہم، ایسی کوئی خصوصی مثال کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔

جبراً وصولی کی کوشش

جوشواآکا دعویٰ ہے کہ تشدد کے پیچھے اصل وجہ فیس کا تنازعہ تھا۔ بی جے پی لیڈر راجندر چندرونشی نے اسکول کو فون کیا تھا اور بی جے پی کے ایک حامی کے بچے کے لیے ٹرانسفر سرٹیفکیٹ طلب کیا تھا، حالانکہ فیس دو سال سے ادا نہیں کی گئی تھی اور نہ ہی کوئی رسمی درخواست دی گئی تھی۔ اسکول نے انکار کیا تو دباؤ اور بڑھ گیا۔

خاندان کا دعویٰ ہے کہ اس کےبعد انہیں دھمکیوں، تاوان کے مطالبات کا سامنا کرنا پڑا – جس میں تبدیلی مذہب کے بیانیے کو دبانے کے لیے 1 لاکھ روپے کا مطالبہ بھی شامل تھا –اس کے ساتھ ہی  میڈیا کی طرف سے بھی پریشان کیا گیا۔

بتایا گیاہے کہ 6 مئی تک بجرنگ دل اور وی ایچ پی کے کارکنوں نے ایک مقامی آن لائن چینل کے ساتھ مل کر کلکٹریٹ پر احتجاج شروع کر دیا اور اسکول بند کرنے کی اپیل کی۔

بالآخر اسکول نے دباؤ میں آکر سرٹیفکیٹ جاری کر دیا، لیکن حملے یہیں نہیں رکے۔

ہراساں کرنے کا ایک پیٹرن ہے

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ تھامس فیملی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ 2010-11 میں پادری جوز کو جھوٹے الزامات میں 10 دنوں کے لیے جیل میں رکھاگیا تھا، جس کے بعد انہیں عدالتوں نے بری کر دیا تھا۔

اس کے بعد سال 2022 میں 100 لوگوں کے ہجوم نے اسکول کے رہائشی علاقے کے کچھ حصوں کو مسمار کر دیا۔ خاندان کا الزام ہے کہ انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ جیسی ایجنسیوں نے ان کے بینک کھاتوں کو بغیر کسی مناسب کارروائی کے منجمد کر دیا،یہ سب’انہیں باہر نکالنے کی ایک بڑی سیاسی کوشش’ کے حصے کے طور پر کیا گیا۔

ہجوم اب بھی مبینہ طور پر عدالتوں، تھانوں اور اسکول کے باہر روزانہ جمع ہوتا ہے۔

جوشوآ نے کہا، ‘وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے کوردھا  نہیں چھوڑا تو وہ ہمیں مار ڈالیں گے۔ کوئی بھی دوست ہمارا ساتھ نہیں دے رہا ہے۔ یہاں تک کہ جن کانگریسی لیڈروں سے ہم نے رابطہ کیا وہ بھی مدد کرنے سے ڈر رہے ہیں۔’

ڈی ایم سے ملاقات کے بعد جوشوآ کی ماں نے ایک شادی کی تقریب میں چھتیس گڑھ کے وزیر داخلہ وجئے شرما سے براہ راست بات کرنے کی کوشش کی۔ جوشوآ کہتے ہیں،’انہوں نے ان سے بات کی اور انہوں نے کہا، ‘ہم دیکھیں گے’، لیکن تب سے یہ بد سے بدتر ہوتا چلا گیا ۔’

حکام خاموش ہیں

ویڈیو، عینی شاہدین کے بیانات اور جوشوآ کی مفصل تحریری شکایت سمیت متعدد شواہد کے باوجود پولیس نے حملہ آوروں کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کی ہے۔

خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ ایک افسر کا تبادلہ کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کے علاوہ بھیڑ کی قیادت کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔

گزشتہ اتوار کو کوردھا میں کئی گرجا گھر بند رہے، جوشوآ نے کہا۔’لوگ خوفزدہ ہیں۔ یہاں تک کہ جو ہمارے ساتھ کھڑے تھے وہ بھی خود کو دور کر رہے ہیں۔ ہر کوئی صورتحال کے پرسکون ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔’

( انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)