آدھار میں درج  نام پتہ پختہ ثبوت نہیں: الہ آباد ہائی کورٹ

03:20 PM Jan 29, 2019 | دی وائر اسٹاف

الٰہ آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ آدھار کارڈ سے متعلق اس کے سامنے بڑی تعداد میں ایسے معاملے سامنے آتے ہیں جن میں کسی خاص سال کے ساتھ تاریخ پیدائش1 جنوری بتائی گئی ہوتی ہے جبکہ کچھ معاملوں میں تو صرف تاریخ پیدائش کے سال کی جانکاری درج رہتی ہے۔

(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے کہا ہے کہ آدھار کارڈ میں دئے گئے نام، جنس، پتہ اور تاریخ پیدائش کو ان حقائق  کا پختہ ثبوت نہیں مانا جا سکتا ۔ ساتھ ہی، مجرمانہ معاملوں کی تفتیش میں شک ہونے پر ان کی جانچ کی جا سکتی ہے۔جسٹس اجئے لامبا اور جسٹس راجیو سنگھ کی بنچ نے حال میں دئے گئے ایک فیصلے میں کہا کہ Indian Evidence Act کے تحت یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آدھار کارڈ میں دئے گئے نام، پتہ، جنس اور تاریخ پیدائش کی تفصیل ان کے صحیح ہونے کا پختہ ثبوت ہے۔ اس جانکاری  پر اگر سوال اٹھتا ہے اور خاص طور سےمجرمانہ معاملوں کی جانچ‌کے دوران، تو ضرورت پڑنے پر ان کی جانچ کی جا سکتی ہے۔

عدالت نے بہرائچ کے سجولی تھانہ میں درج ایک معاملے کے جواز کو چیلنج دینے والی ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے حال ہی میں یہ حکم دیا تھا۔لائیو لاء  کی رپورٹ کے مطابق، یہ عرضی ایک جوڑے نے دائر کی تھی۔ انہوں نے لڑکی کی ماں کے ذریعے لڑکے اور اس کی فیملی کے خلاف دائر مجرمانہ معاملوں کو خارج کرنے کی مانگ کی تھی۔ عدالت میں اس بات کو ثابت کرنے کے لئے انہوں نے آدھار کارڈ پیش کیا تھا کہ وہ شادی کرنے کی عمر کے ہیں۔

آدھار کارڈ میں درج درخواست گزاروں کی تاریخ پیدائش پر تعجب اظہار کرتے ہوئے عدالت نے یو آئی ڈی اے آئی سے جواب مانگا تھا۔ اس معاملے میں آدھار کارڈ میں لڑکے کی تاریخ پیدائش ایک جنوری 1997 اور لڑکی کی تاریخ پیدائش ایک جنوری 1999 درج تھی۔ عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں عمر کے جوازکومان لیا گیا کیونکہ درخواست گزاروں نے خود کو شادی کی عمر کے لائق دکھانے کے لئے آدھار کارڈ میں لکھی گئی تاریخ پیدائش پر بھروسہ کیا ہے۔

عدالت نے کہا کہ آدھار کارڈ سے متعلق اس کے سامنے بڑی تعداد میں ایسے معاملے سامنے آتے ہیں جن میں کسی خاص سال کے ساتھ تاریخ پیدائش 1 جنوری بتائی کی گئی ہوتی ہے جبکہ کچھ معاملوں میں تو صرف تاریخ پیدائش ‌کے سال کی جانکاری درج رہتی ہے۔ اس کے بعد عدالت نے یو آئی ڈی اے آئی کو ایک مدعا علیہ کے طور پر پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے اس سے پوچھا کہ کیا آدھار کارڈ کو تاریخ پیدائش یا تاریخ پیدائش ‌کے سال کے طور پر ثبوت کے طور پر مانا جا سکتا ہے یا نہیں۔

اپنے حلف نامہ میں یو آئی ڈی اے آئی نے کہا، اگر کسی آدمی کے پاس اس کی تاریخ پیدائش سے متعلق کوئی قانونی دستاویز نہیں ہوتا ہے تو اس کی تاریخ پیدائش کا اعلان یا قیاسی تاریخ پیدائش آدھار پر درج کر دی جاتی ہے۔ قیاسی تاریخ پیدائش کے معاملے میں شخص آپریٹر کو زبانی طور پر اپنی عمر بتا دیتا ہے۔ اس کے بعد ای سی ایم پی ملازم اس کی تاریخ پیدائش ‌کے سال کا حساب کر لیتا۔ اس طرح سے تاریخ پیدائش کی تاریخ اپنےآپ اس خاص سال میں 1 جنوری کو درج ہو جاتی ہے۔ ‘

اس نے آگے کہا کہ آدھار قانون میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ آدھار کو تاریخ پیدائش کے ثبوت کے طور پر منظور کیا جا سکتا ہے۔یو آئی ڈی اے آئی کے حلف نامہ کو اپنے علم  میں لاتے ہوئے بنچ نے کہا کہ Indian Evidence Actکے تحت یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آدھار کارڈ میں دئے گئے نام، پتہ، جنس اور تاریخ پیدائش کی تفصیل ان کے صحیح ہونے کا پختہ ثبوت ہیں۔ اس تفصیل پر اگر سوال اٹھتا ہے اور خاص طور پر مجرمانہ معاملوں کی جانچ‌کے دوران ضرورت پڑنے پر ان کی جانچ کی جا سکتی ہے۔

عدالت نے کہا، تاریخ پیدائش سے متعلق درخواست گزار نے جانکاری دی ہے جس کو یو آئی ڈی اے آئی نے تصدیق نہیں کیا ہے۔ اس لئے تاریخ پیدائش سے متعلق آدھار کارڈ کو قانونی ثبوت کے طور پر نہیں مانا جا سکتا ہے۔ ‘

اس معاملے میں ‘Osteoporosis check’ (ہڈیوں کے ذریعے انسان کی عمر کا پتا لگایا جانا) کے ذریعے تفتیش کاروں نے لڑکی کی عمر 17 سال بتائی ہے۔جانچ اہلکار نے ہڈیوں میں آنے والے فرق کی بنیاد پر لڑکی کی عمر کو دو سال کے شک کا فائدہ دیا ہے اور بتایا ہے کہ واقعہ کے دن اس نے عمر کی طےشدہ سرحد پار کر لی تھی۔

عدالت نے کہا کہ Osteoporosis check کے ذریعے کی گئی عمر کی تصدیق کی بنیاد پر وہ اس شادی کو منظوری عطا کرتا ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ لڑکی کا نہ تو اغوا ہوا تھا اور نہ ہی اس کو گروی بنایا گیا تھا۔ آخر میں بنچ نے لڑکے اور اس کے گھروالوں پر درج ایف آئی آر کو خارج کر دیا۔

غور طلب ہے کہ اسی مہینے، کلکتہ ہائی کورٹ نے آدھار نامزدگی کے دوران دی جانے والی جانکاریوں کی تصدیق نہ کئے جانے پر سوال اٹھایا تھا۔اس نے کہا تھا، آدھار نامزدگی عمل کے دوران تصدیق کے بغیر کسی آدمی کی پہچان قائم کرنے کے لئے ایک قسم کی جانکاری کی اجازت دینا من مانا ہے۔ ‘جسٹس پرتیک پرکاش بنرجی نے کہا تھا، آدھار نامزدگی کی کارروائی کے ساتھ کچھ تو مسئلہ ہے جس میں کسی کی پہچان سے جڑی اطلاع کے ساتھ بھی فرضی واڑا کیا جا سکتا ہے اور کسی کو پتا بھی نہیں چلتا ہے۔ ‘

گزشتہ سال،دہلی ہائی کورٹ نے مانا تھا کہ آدھار کارڈ کو جوینائل جسٹس (جے جے) اصولوں کے اصول 7 کے مقصدسے عمر کا ثبوت مانا جا سکتا ہے۔ دہلی ہائی کورٹ نے مدراس ہائی کورٹ کے اس رخ سے عدم اتفاق کا اظہار کیا تھا کہ آدھار کارڈ میں تاریخ پیدائش کے بجائے صرف تاریخ پیدائش کا سال درج ہے اس لئے اس کو نظربند آدمی کی تاریخ پیدائش کے ثبوت کے طور پر نہیں مانا جا سکتا ہے۔

The post آدھار میں درج  نام پتہ پختہ ثبوت نہیں: الہ آباد ہائی کورٹ appeared first on The Wire - Urdu.