تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے اے ٹی ایم چارجز میں اضافہ کو ’استحصال‘ قرار دیا

تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے اے ٹی ایم سے رقم نکالنے کے چارجز میں اضافے کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے 'ادارہ جاتی استحصال' قرار دیا۔ مرکزی حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس قدم سے غریبوں کو نقصان ہوگا۔

تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے اے ٹی ایم سے رقم نکالنے کے چارجز میں اضافے کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے ‘ادارہ جاتی استحصال’ قرار دیا۔ مرکزی حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس قدم سے غریبوں کو نقصان ہوگا۔

(فائل فوٹو/پی ٹی آئی)

(فائل فوٹو/پی ٹی آئی)

نئی دہلی:  تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے مرکزی حکومت اور ریزرو بینک آف انڈیا پر تنقید کی ہے کیونکہ بینکوں کو اب مفت حد سے زیادہ اے ٹی ایم کیش نکالنے پر چارجز بڑھانے کی اجازت دی گئی ہے۔ اسٹالن کا خیال ہے کہ اس قدم سے غریبوں کے لیے بینکنگ کی سہولیات بیکار ہو جائیں گی۔

اسٹالن نے ایکس پر پوسٹ کیاہے؛’مرکزی حکومت نے سب سے کہا کہ وہ بینک اکاؤنٹ کھولیں۔ پھر نوٹ بندی آئی اور اس کے ساتھ ہی ڈیجیٹل انڈیا کو فروغ دیا گیا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ ڈیجیٹل لین دین پر چارجز، کم بیلنس پر جرمانہ اور اب آر بی آئی نے بینکوں کو ماہانہ حد کے بعد اے ٹی ایم سے نقد رقم نکالنے پر 23 روپے تک چارج لگانے کی اجازت دی ہے۔’

ڈی ایم کے سربراہ نے مزید لکھا، ‘یہ لوگوں کو ضرورت سے زیادہ نقد رقم نکالنے پر مجبور کرے گا اور خاص طور پر غریبوں کے لیے بینکنگ کی سہولیات بیکار ہو جائیں گی۔’

اسٹالن نے دعویٰ کیا ہے کہ آر بی آئی کے اس اقدام سے سب سے زیادہ نقصان منریگا (مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ) کے مستفیدین اور تمل ناڈو حکومت کی کالینگر مگلیر ارمائی تگئی اسکیم کے مستفیدین کو ہوگا۔

‘یہ ڈیجیٹلائزیشن نہیں ہے، یہ ادارہ جاتی استحصال ہے۔ غریب لوگ کارڈ سوائپ کریں گے، اور امیر لوگ مسکرائیں گے۔’

آر بی آئی نے کیا فیصلہ لیا ہے؟

آر بی آئی نے اے ٹی ایم ٹرانزیکشن چارجز کو 21 روپے سے بڑھا کر 23 روپے کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو یکم مئی 2025 سے لاگو ہوں گے۔ اس کے علاوہ، آر بی آئی نے کہا ہے کہ اے ٹی ایم انٹرچینج فیس — جو ایک بینک دوسرے بینک کو اے ٹی ایم خدمات فراہم کرنے کے لیے ادا کرتا ہے —اے ٹی ایم نیٹ ورک کے ذریعے کیا جائے گا۔ آر بی آئی کے مطابق، صارفین اپنے بینک کے اے ٹی ایم سے ہر ماہ پانچ مفت لین دین (مالی اور غیر مالی دونوں) کر سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ، وہ دوسرے بینکوں کے اے ٹی ایم سے بھی مفت ٹرانزیکشن کر سکتے ہیں- میٹرو شہروں میں تین اور غیر میٹرو شہروں میں پانچ۔ آر بی آئی نے کہا کہ’فری ٹرانزیکشن کی حد کے بعد صارف سے زیادہ سے زیادہ 23 روپے فی لین دین فیس وصول کی جا سکتی ہے۔ اس کا اطلاق یکم مئی 2025 سے ہوگا۔’

دلچسپ بات یہ ہے کہ آر بی آئی نے کہا کہ اے ٹی ایم انٹرچینج فیس کا فیصلہ اے ٹی ایم نیٹ ورک کرے گا۔ 2021 میں، آر بی آئی  نے مالیاتی لین دین پر انٹرچینج فیس کو 15 روپے سے بڑھا کر 17 روپے اور غیر مالیاتی لین دین پر 5 روپے سے بڑھا کر 6 روپے کر دیا ہے۔ اسے 1 اگست 2021 سے لاگو کیا گیا تھا۔ ہندوستان کا اے ٹی ایم نیٹ ورک، جو بینکنگ انفراسٹرکچر کا ایک اہم حصہ ہے، بنیادی طور پر نیشنل فنانشل سوئچ (این ایف ایس)کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ یہ نیشنل پیمنٹ کارپوریشن آف انڈیا (این پی سی آئی ) کے زیر انتظام ہے۔

آر بی آئی نے چارجز میں اضافہ کیوں کیا؟

آر بی آئی کے مطابق، اے ٹی ایم ٹرانزیکشن کے لیے انٹرچینج فیس کی شرح آخری بار اگست 2012 میں تبدیل کی گئی تھی، جبکہ صارفین پر لگائے جانے والے چارجز میں آخری بار اگست 2014 میں نظر ثانی کی گئی تھی۔ اس لیے ان چارجز میں تبدیلی کو لمبا وقت ہوگیا تھا۔ آر بی آئی نے کہا کہ یہ اضافہ ‘اے ٹی ایم کی تنصیب اور ان کی دیکھ بھال کی بڑھتی ہوئی لاگت کے ساتھ ساتھ تمام اسٹیک ہولڈرز کی توقعات اور صارفین کی سہولت کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی ضرورت کے پیش نظر کیا گیا ہے’۔

اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) اے ٹی ایم سے نقد رقم نکالنے کےتوسط سے اچھا منافع کما رہا ہے، جبکہ دیگر پبلک سیکٹر بینک (پی ایس یو) اس شعبے میں نقصان اٹھا رہے ہیں۔ ایس بی آئی کے پاس ملک بھر میں تقریباً 65000 اے ٹی ایم کا ایک بڑا نیٹ ورک ہے، جس سے اس نے مارچ 2024 کو ختم ہونے والے مالی سال میں اے ٹی ایم کیش نکالنے سے 331 کروڑ روپے کا منافع کمایا۔ حکومت نے یہ معلومات پارلیامنٹ میں دی۔

تاہم، اسی مدت کے دوران دیگر پبلک سیکٹر بینکوں کو مجموعی طور پر 925 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ بینک آف بڑودہ کو 212 کروڑ روپے اور یونین بینک کو 203 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق ، پچھلے پانچ سالوں میں ایس بی آئی نے اے ٹی ایم کیش نکالنے سے 2043 کروڑ روپے کا بہت بڑا منافع کمایا، جبکہ اس عرصے کے دوران پبلک سیکٹر کے نو بینکوں کو مجموعی طور پر 3738 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ اس مدت کے دوران صرف دو دیگر پی ایس یو بینکوں – پنجاب نیشنل بینک (پی این بی) اور کینرا بینک نے منافع کمایا۔ پی این بی نے 90.33 کروڑ روپے کا منافع کمایا اور کینرا بینک نے 31.42 کروڑ روپے کا منافع کمایا۔

ایس بی آئی  کی کامیابی کی بنیادی وجہ اس کا بہت بڑااے ٹی ایم  نیٹ ورک اور منظم فیس پالیسی ہے۔ اسی وقت، دیگر پی ایس یو بینک کم ہوتے لین دین اور بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ بینکنگ کے بدلتے ہوئے منظر نامے میں ان بینکوں کو آپریشن جاری رکھنے اور مالی استحکام برقرار رکھنے کے لیے اپنی اے ٹی ایم حکمت عملی پر دوبارہ کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔