سال 2024 میں ہیٹ اسپیچ  میں 74 فیصد کا اضافہ ، بی جے پی اور اس کے اتحادی سب سے آگے: رپورٹ

انڈیا ہیٹ لیب کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 2024 میں سب سے زیادہ 242 ہیٹ اسپیچ کے واقعات اتر پردیش میں درج کیے گئے۔ یہ 2023 کے مقابلے میں 132 فیصد کا اضافہ ہے۔ ہیٹ اسپیچ دینے والے ٹاپ ٹین لوگوں میں بی جے پی کے سینئر لیڈر- یوگی آدتیہ ناتھ، نریندر مودی اور امت شاہ کے نام شامل ہیں۔

انڈیا ہیٹ لیب کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 2024 میں سب سے زیادہ 242 ہیٹ اسپیچ کے واقعات اتر پردیش میں درج  کیے گئے۔ یہ 2023 کے مقابلے میں 132 فیصد کا اضافہ ہے۔ ہیٹ اسپیچ دینے والے ٹاپ ٹین لوگوں میں بی جے پی کے سینئر لیڈر- یوگی آدتیہ ناتھ، نریندر مودی اور امت شاہ کے نام شامل ہیں۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

نئی دہلی: ہندوستان میں گزشتہ سال 2024 میں ہیٹ اسپیچ  میں 74 فیصد  کااضافہ دیکھا گیا ہے۔ انڈیا ہیٹ لیب کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ سال 1000 سے زیادہ نفرت انگیز تقاریر کی گئیں، جبکہ 2023 میں ایسے 688 واقعات درج کیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق ، ریسرچ گروپ انڈیا ہیٹ لیب نے سوموار(10 فروری) کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے 1165 معاملوں  میں سے 98.5 فیصدمیں یا تو واضح طور پر مسلم کمیونٹی یا ان کے ساتھ عیسائیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ تقریباً 10 فیصد میں عیسائیوں یا ان کے ساتھ مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

ہیٹ اسپیچ کے تقریباً 80فیصد واقعات بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) مقتدرہ  ریاستوں یا مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں پیش آئے، جہاں پولیس اور پبلک آرڈر بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت کے تحت ہیں۔ اس کے علاوہ حزب اختلاف کی حکومت والی ریاستوں میں گزشتہ سال نفرت ہیٹ اسپیچ  کے 20 فیصد واقعات درج کیے گئے۔

پچھلے سال ملک بھر میں نفرت انگیز تقاریر کے 47 فیصد واقعات اتر پردیش، مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش میں ہوئے۔ ان تمام جگہوں پر بی جے پی یا اس کے اتحادیوں کی حکومت ہے۔

بی جے پی اکیلے ان میں سے تقریباً 30فیصد یا 2024 میں 340 واقعات کے لیے ذمہ دار تھی، جو ملک بھر میں نفرت پھیلانے والے پروگراموں کی سب سے بڑی آرگنائزر  بن گئی اور 2023 کے مقابلے میں 588فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جب پارٹی کی جانب سے ایسے 50 پروگرام  کا انعقاد کیا گیا۔

وشو ہندو پریشد اور اس کی یوتھ ونگ، بجرنگ دل نفرت انگیز تقاریر کے دوسرے سب سے زیادہ فعال منتظمین ہیں، جو گزشتہ سال اس طرح کے 279 اجتماعات کے لیے ذمہ دار ہیں۔ یہ 2023 کے مقابلے میں 29.16 فیصد کا اضافہ ہے۔

‘مودی کی بانس واڑہ تقریر ایک اہم موڑ ثابت ہوئی’

رپورٹ میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ایسے واقعات میں مئی 2024 کے آس پاس تیزی سے اضافہ کا مشاہدہ کیا گیا، جس وقت  ہندوستان میں لوک سبھا کی انتخابی مہم عروج پر تھی۔

رپورٹ میں 21 اپریل 2024 کو راجستھان کے بانس واڑہ میں وزیر اعظم نریندر مودی کی خصوصی  طور پر پریشان کن تقریر کا ذکر کیا گیا ہے، جہاں انہوں نے مسلم کمیونٹی کے خلاف ‘دقیانوسی‘ ریمارکس کیے تھے  اور اپنے ہی ملک کے شہریوں کے ایک طبقے کو’درانداز’ اور ‘زیادہ بچے  پیدا کرنے والے’ لفظوں سے مخاطب کیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ بانس واڑہ تقریر سے پہلے 16 مارچ سے 21 اپریل کے درمیان نفرت انگیز تقریر کے 61 واقعات پیش آئے۔ تاہم، مودی کی تقریر کے بعد ایسے واقعات میں تین گنا سے زیادہ  کااضافہ دیکھا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح انتخابات کے دوران مسلم مخالف نفرت کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔

ہیٹ اسپیچ میں بی جے پی سب سے آگے

رپورٹ کے مطابق، تقریباً 40 فیصد یا 462 نفرت انگیز تقاریر سیاست دانوں نے کیں، جن میں سے 452 کے ذمہ دار بی جے پی لیڈر تھے۔ سال 2023 کے مقابلے میں، جب بی جے پی لیڈروں نے 100 نفرت انگیز تقاریر کیں، یہ 352 فیصد کا اضافہ ہے۔

ہیٹ اسپیچ دینے والے سب سے زیادہ لوگوں میں چھ سیاستدان تھے، جن میں یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ، وزیر اعظم مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ شامل ہیں۔ آدتیہ ناتھ نے 86 (7.4فیصد) نفرت انگیز تقاریر کیں، جبکہ مودی نے 63، جو  2024 میں اس طرح کی تمام تقاریر کا 5.7فیصد ہے۔

آدتیہ ناتھ کی قیادت والے اتر پردیش میں سب سے زیادہ 242 نفرت انگیز تقاریر کے واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ یہ 2023 کے مقابلے میں 132 فیصد کا اضافہ ہے۔ اس کے بعد مہاراشٹر میں اس طرح کے 210 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کانگریس کے زیر اقتدار ہماچل پردیش میں بھی 2024 میں بی جے پی، وی ایچ پی اور بجرنگ دل کی سرگرمیوں کی وجہ سے نفرت انگیز تقریر کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا۔

نفرت کے لیے پلیٹ فارم

سال 2024 میں نفرت انگیز تقریر کے 1165 واقعات میں سے 995 سب سے پہلے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شیئر کیے گئے یا لائیو اسٹریم کیے گئے، جن میں فیس بک، یوٹیوب، انسٹاگرام اور ایکس شامل ہیں۔

فیس بک نفرت انگیز تقاریر کا سب سے بڑا سوشل میڈیا پلیٹ فارم تھا جس پر اس طرح کے 495 واقعات پوسٹ کیے گئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘6 فروری 2025 تک رپورٹ کیے گئے  ویڈیومیں سے صرف 3 کو  فیس بک سےہٹایا گیا ہے، جبکہ باقی 98.4 فیصد کمیونٹی معیارات کی واضح خلاف ورزی کے باوجود مختلف پلیٹ فارمز پر موجود ہیں۔’

رپورٹ میں ‘خطرناک تقریر’ میں تشویشناک اضافہ بھی پایا گیا۔ اس طرح کی تقریر کو ہیٹ لیب نے نفرت انگیز تقریر کے ذیلی سیٹ کے طور پر درجہ بند کیا ہے، ایسی تقریر جو ‘اس خطرے کو بڑھا سکتی ہے کہ اس کے سامعین کسی دوسرے گروپ کے ممبروں کے خلاف تشدد کو نظر انداز کریں گے یا خود اس میں حصہ لیں گے۔’

خطرناک تقریری پروگراموں کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں فیس بک بھی پہلی پسند تھا۔ تشدد کی واضح کالیں سمیت خطرناک تقریر کی ریکارڈ شدہ 259 مثالوں میں 219 کو پہلے سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا یا لائیو اسٹریم کیا گیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسی تقاریر کے معاملے فیس بک پر 164 (74.9فیصد)، یوٹیوب پر 49 (22.4فیصد) اور انسٹاگرام پر 6فیصد تھے۔

کرناٹک

رپورٹ میں کہا گیا کہ نفرت انگیز تقاریر میں قومی سطح پر اضافے کے باوجود جنوبی ہندوستان کی ریاست کرناٹک میں ایسے واقعات میں 20 فیصد کمی واقع ہوئی۔ یہ تبدیلی بڑی حد تک ریاست میں سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے ہے۔

کرناٹک میں مئی 2023 تک بی جے پی کی حکومت تھی، لیکن ریاستی انتخابات میں کانگریس پارٹی کی جیت کے بعد نفرت انگیز تقاریر کے واقعات میں کمی واقع ہوئی۔

Next Article

آسام کے وزیر اعلیٰ کے ’جاسوسی‘ کے الزامات پر گورو گگوئی بولے – اپنی غیر قانونی سرگرمیوں کو چھپانے کی چال

حال کے مہینوں میں آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے کانگریس کے رکن پارلیامنٹ گورو گگوئی کی اہلیہ کے خلاف پاکستان کی آئی ایس آئی کے ساتھ روابط رکھنے کا الزام لگایا ہے۔ گگوئی نے کہا کہ ان کے خاندان کے خلاف یہ ہتک عزت کی مہم شرما کی جانب سے اپنے خاندان کی غیر قانونی سرگرمیوں کو چھپانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔

گورو گگوئی۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: گزشتہ چند مہینوں میں آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما کی طرف سے لگائے گئے الزامات پر اپنے پہلے عوامی تبصرے میں کانگریس کے رکن پارلیامنٹ اور پارٹی کے آسام کے نو منتخب صدر گورو گگوئی نے بدھ (28 مئی) کو کہا کہ انہیں بدنام کرنے کی مہم کا استعمال ‘کور’ کے طور پر کیا جا رہا ہے تاکہ کسی طرح کی ڈھال بنائی جا سکے یا ان غیر قانونی سرگرمیوں کو   چھپایا جا سکے جن میں وہ اپنے خاندان کے توسط سے ملوث رہےہیں۔

گگوئی نے شرما کی جانب سے ان کی اہلیہ الزبتھ کے خلاف پاکستان کی آئی ایس آئی کے ساتھ روابط کے الزامات کی تردید کی اور ان پر ‘سی گریڈ بالی ووڈ فلم’ کی سازش  کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ 10 ستمبر کو ریلیز ہوگی اور بری طرح فلاپ ہوگی۔

گگوئی نے کہا کہ ان کی اہلیہ نے 2011 میں ایک سال کے لیے پاکستان میں کام کیا تھا اور وہ 2013 میں ایک بار ان سے ملنے گئے تھے، لیکن انہوں نے سوال کیا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد سے گزشتہ 11 سالوں میں مرکزی حکومت نے اس معاملے کی تحقیقات کیوں نہیں کی ہے۔

نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں دی وائر کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے گگوئی نے کہا کہ شرما نے اپنے خاندان کو غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی دولت اور بڑی جائیدادیں جمع کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘میرے خاندان کے خلاف یہ ہتک عزت کی مہم آسام کے وزیر اعلیٰ کی طرف سے اپنے خاندان کی سرگرمیوں کو چھپانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آسام کے وزیر اعلیٰ نے اپنے خاندان کو غیر قانونی طریقے سے جمع کی  گئی دولت اور بھاری اثاثوں کے حصول کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ کچھ ایسا ہے جو ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں ، ساتھ ہی یہ بھی کہ ان کے خاندان کے افراد کس طرح 17 کمپنیوں کی سربراہی کر رہے ہیں اور سرکاری ٹھیکے حاصل کر رہے ہیں۔ یہ ہتک عزت کی مہم کسی طرح کی ڈھال یا ان غیر قانونی سرگرمیوں کو چھپانے کے لیے ہے، جن میں وہ اپنے خاندان کےتوسط سے ملوث رہے ہیں۔’

انہوں نے کہا، ‘ہم نے عوامی پالیسی کے شعبے میں میری اہلیہ کے کردار کے بارے میں حقائق سامنے رکھے ہیں۔ میں نے گیارہ سال قبل اپنے ذاتی دورہ پاکستان سے متعلق حقائق پیش کیے ہیں۔ جب میرے خاندان کی شہریت سے متعلق سوالات کی بات آتی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت نجی اور ذاتی معاملہ ہے، لیکن حقائق اب سامنے آچکے ہیں۔ اگر وزیر اعلیٰ کو کوئی غیر قانونی چیز نظر آتی ہے تو اسے پبلک کرنا ان پر منحصر ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ چیف منسٹر آسام کے حقیقی مسائل پر توجہ دیں کیونکہ ہم ایسا ضرور کریں گے۔’

آسام کانگریس کی اہم آواز ہیں گورو گگوئی

سوموار  (26 مئی) کو کانگریس نے گگوئی کو آسام کانگریس کا صدر بنا کر بی جے پی اور شرما کو چیلنج کیا ہے۔

لوک سبھا میں پارٹی کے ڈپٹی لیڈر گگوئی کو پارلیامنٹ میں اپوزیشن کی ایک مضبوط آواز کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور حالیہ مہینوں میں شرما کی جانب سے  ان کی اہلیہ پر پاکستان کی آئی ایس آئی کے ساتھ ملی بھگت کے الزامات کو لے کر ان کےاور شرما کے درمیان لفظی جنگ جاری ہے۔ گگوئی کی تقرری کو اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات سے قبل شرما کے لیے براہ راست چیلنج کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

گگوئی نے بدھ کوپہلی بار شرما کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی ٹائم لائن دیتے ہوئے کہا،’تقریباً 14-15 سال پہلے، میری اہلیہ، جو کہ ایک مشہور پبلک پالیسی ماہر ہیں، نے ایک بین الاقوامی پروجیکٹ پر کام کیا تھا،  جو جنوبی ایشیا میں موسمیاتی تبدیلی پر کام کر رہی تھی۔ 2011 میں، انہوں نے اس پروجیکٹ پر ایک سال پاکستان میں گزارا اور 2012-13میں ہندوستان واپس آگئیں۔ اور 2015 میں انہوں نےدوسری نوکری کر لی۔تقریباً 11-12 سال پہلے 2013 میں ایک بار ان کے ساتھ گیا تھا۔’

گگوئی نے کہا، ‘ان کا کام بدنام کرنا ہے، اس لیے وہ اسے سی گریڈ بالی ووڈ فلم بنانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں جس کی ریلیز کی تاریخ 10 ستمبر دی گئی ہے اور یہ فلاپ ہو گی۔’

بتادیں کہ شرما حکومت نے گگوئی کے خلاف الزامات کی جانچ کے لیے ایک ایس آئی ٹی (خصوصی تحقیقاتی ٹیم) تشکیل دی ہے، جو 10 ستمبر کو اپنی تحقیقات مکمل کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ ‘اگر میں نے یا میری بیوی نے کچھ غلط کیا ہے تو گزشتہ 11 سال سے کس کی حکومت ہے؟ سب جانتے ہیں کہ اگر کوئی سرحد پار کرتا ہے تو کس طرح کی جانچ کی جاتی ہے۔ میں اپوزیشن لیڈر ہوں اور ایوان میں کھل کر بات کرتا ہوں۔ حکومت گزشتہ 11 سال سے کیا کر رہی ہے؟

گگوئی نے ایک ایسے وقت میں آسام کانگریس کی باگ ڈور سنبھالی جب پارٹی ریاست میں ایک دہائی کی بی جے پی کی حکمرانی کے بعد اپنی قسمت کو پھر سے سنوارنے کی کوشش کر رہی ہے۔ شرما، جو خود کانگریس کے سابق رہنما ہیں، اور گگوئی کے سخت حریف کے طور پر دیکھے جاتے ہیں، نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں وزیر اعلیٰ کے خلاف ایک بڑی مہم شروع کی تھی، جب کانگریس کے رکن پارلیامنٹ نے ریاست میں حد بندی کے بعد اپنے پہلے کے حلقہ کالیا بور کے بجائے جورہاٹ سے انتخاب لڑا تھا۔

کانگریس نے آسام کی 14 لوک سبھا سیٹوں میں سے صرف تین پر کامیابی حاصل کی، لیکن جورہاٹ میں گگوئی کی جیت کو چیف منسٹرکےان کے خلاف انتخابی مہم کی وجہ سے جیت کے طور پر دیکھا گیا۔ تاہم، اس کے بعد سے کانگریس نے گزشتہ سال ضمنی انتخابات میں تمام پانچ سیٹیں کھو دی ہیں اور حالیہ پنچایتی انتخابات میں بھی اس نے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

گگوئی نے کہا کہ انہیں آسام کانگریس کا نیا صدر نامزد کرکے کانگریس قیادت کے ذہنوں میں شکوک پیدا کرنے کی شرما کی کوشش ناکام ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا، ‘آسام کے وزیر اعلیٰ نے میرے خلاف کئی ذاتی حملے کیے ہیں، میں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ لوگوں میں یہ تاثر تھا کہ میرا سیاسی کردار قومی میدان تک محدود ہے اور آسام میں میرا کردار کم سے کم ہے۔ لیکن حد بندی کے ذریعے، جس میں صرف میرا لوک سبھا حلقہ دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور حالیہ مہینوں میں انہوں نے جس طرح کے الزامات لگائے ہیں، انہوں  نے خود ہی میرا قد بڑھا دیا ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘میں اپنی پارٹی قیادت کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کیونکہ وزیر اعلیٰ ایسے الزامات لگانے کی کوشش کر رہے تھے جس سے میری پارٹی قیادت کے ذہن میں میرے بارے میں شکوک وشبہات پیدا ہوں۔ میں اپنی پارٹی قیادت کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے میرا ساتھ دیا اور وزیر اعلیٰ کی چالوں کا شکار نہیں ہوئے۔’

شرما کا جوابی حملہ

گگوئی کے تبصرے کے فوراً بعد شرما نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کے رکن پارلیامنٹ نے آخر کار اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔

شرما نے کہا، ‘ہمیں یہ واضح کر دینا چاہیے کہ یہ صرف آغاز ہے، اختتام نہیں۔ آگے جو ہونے والا ہے وہ بہت زیادہ سنگین ہے۔ باوثوق ان پٹ اور دستاویزی معلومات کی بنیاد پر یہ ثابت کرنے کی ہر معقول بنیاد موجود ہے کہ گگوئی نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قریبی روابط بنائے رکھا ہے۔’

ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شرما نے کہا کہ گگوئی نے جان بوجھ کر یہ اعتراف آسام کانگریس کے صدر بننے کے بعد کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ 10 ستمبر قریب آ رہا ہے۔

شرما نے کہا کہ گگوئی کے خلاف ان کے الزامات کا انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن وہ قومی سلامتی اور ہندوستان سے متعلق ہیں اور کانگریس کے رکن پارلیامنٹ کی اہلیہ پر انہوں نے انٹلی جنس بیورو (آئی بی) میں  جاسوسی کرنے  کا الزام لگایا۔

شرما نے کہا، ‘ان کی بیوی ہماری آئی بی کی جاسوسی کر رہی تھی اور میرے پاس اسے ثابت کرنے کے لیے دستاویزموجود ہیں۔ ترون گگوئی (آسام کے سابق وزیر اعلیٰ اور گگوئی کے والد) کے عہدے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے ہماری ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ میں اپنا کردار تیار کیا۔ یہ ایک مخصوص ماحولیاتی کارکن گروپ کی جانب سے جاسوسی تھی۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

ششی تھرور کا دفاع کرتے نظر آئے کرن رجیجو، پاناما میں دیے بیان کے لیے کانگریس نے کی تھی تنقید

آپریشن سیندورکے بعد بیرون ملک بھیجے گئے کل جماعتی وفد میں شامل کانگریس کے رکن پارلیامنٹ ششی تھرور نے کہا تھا کہ پہلی بار ہندوستان نے ایل او سی اور بین الاقوامی سرحد پار کرکے  کارروائی کی۔ جب کانگریس نے اس پر تنقید کی تو مرکزی وزیر کرن رجیجو تھرور کا دفاع کرتے ہوئے نظر آئے۔

کانگریس کے رکن پارلیامنٹ ششی تھرور، جو ایک آل پارٹی وفد کی قیادت کر رہے ہیں، پاناما میں ہندوستانی برادری سے خطاب کر تے ہوئے۔تصویر: ایکس

نئی دہلی: مرکزی وزیر کرن رجیجو بدھ (28 مئی) کو اس وقت کانگریس لیڈر ششی تھرور کا بچاؤ کرتے نظرآئے جب ترواننت پورم کے ایم پی کو ایک بار پھر نریندر مودی کی قیادت والی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت کی حمایت کرنے پر اپنی ہی پارٹی – کانگریس کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بار تنقید کی وجہ ان کا ہزاروں کلومیٹر دور پاناما میں دیا گیا بیان تھا۔

پاناما میں وہ پہلگام دہشت گردانہ حملے، آپریشن سیندور اور پاکستان کے ساتھ چار روزہ فوجی تنازعہ کے بعد ہندوستان کے اجتماعی عزم کو پہنچانے کے لیے مرکزی حکومت کی طرف سے بیرون ملک بھیجے گئے سات آل پارٹی وفدمیں سے ایک کی قیادت کر رہے تھے۔

پاناما میں ہندوستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے تھرور نے کہا، ‘حالیہ برسوں میں جو تبدیلی آئی  ہے وہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ انہیں اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔ پہلی بار ہندوستان نے ستمبر 2016 میں اڑی میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر سرجیکل اسٹرائیک کرنے کے لیے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایل او سی (لائن آف کنٹرول) کی خلاف ورزی کی تھی ۔ یہ کچھ ایساتھا جو ہم نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔’

انہوں نے کہا، ‘کارگل جنگ کے دوران بھی ہم نے لائن آف کنٹرول کو عبور نہیں کیا تھا، لیکن ہم نے اڑی میں ایسا کیا۔ پھر پلوامہ میں حملہ ہوا۔ ہم نے نہ صرف لائن آف کنٹرول کو عبور کیا بلکہ ہم نے بین الاقوامی سرحد بھی عبور کی اور بالاکوٹ میں دہشت گردوں کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیا۔ اس بار (آپریشن سیندور میں) ہم ان دونوں سے آگے نکل گئے۔ ہم نے نہ صرف لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد پار کی، بلکہ ہم نے پاکستان کے پنجابی گڑھ میں  حملہ کیا اور نو مقامات پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کیا۔’

کانگریس نے تنقید کی

کانگریس کے سابق رکن پارلیامنٹ ادت راج، جو تھرور کے حالیہ بیانات پر باقاعدگی سے تنقید کر رہے ہیں،نے کہا کہ انہیں ‘بی جے پی کا سپر ترجمان’قرار دیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا،’ کاش! میں وزیر اعظم مودی پر دباؤ ڈال کر آپ کو بی جے پی کا سپر ترجمان اعلان کروا سکتا، یہاں تک کہ آپ کے ہندوستان آنے سے پہلے ہی وزیر خارجہ اعلان کروا سکتا۔’

انہوں نے کہا، ‘آپ یہ کہہ کر کانگریس کی سنہری تاریخ کو کیسے بدنام کر سکتے ہیں کہ پی ایم مودی سے پہلے ہندوستان نے کبھی ایل او سی اور بین الاقوامی سرحد کو عبور نہیں کیا۔ 1965 میں ہندوستانی فوج   کئی مقامات سے پاکستان میں داخل ہوئی، جس نے لاہور سیکٹر میں پاکستانیوں کو پوری طرح  حیران کر دیا تھا۔ 1971 میں ہندستان نے پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور یو پی اے حکومت کے دوران کئی سرجیکل اسٹرائیکس کی گئیں، لیکن سیاسی طور پر بھنانےکے لیے ڈھول نہیں پیٹا گیا۔ جس پارٹی نے آپ کو اتنا کچھ دیا، اس کے ساتھ آپ اتنے بے ایمان کیسے ہو سکتے ہیں؟’

اس کے بعد، کانگریس کے میڈیا اور پبلسٹی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ پون کھیرا نے لاہور ضلع کے برکی میں ایک مقبوضہ پاکستانی پولیس اسٹیشن کے باہر کھڑے چوتھی سکھ رجمنٹ کے افسران کی تصویر پوسٹ کی اور تھرور کو ٹیگ کیا۔

انہوں نے ایکس پر لکھا ، ‘یہ تصویر برکی کی لڑائی کی ہے (جسے لاہور کی لڑائی، 1965 کے نام سےبھی جاناجاتا ہے)،جو  1965 کی ہندوستان-پاکستان جنگ کے دوران ایک اہم جنگ تھی، جو ہندوستانی انفنٹری یونٹس اور پاکستانی بکتر بند افواج کے درمیان لڑی گئی تھی۔ برکی لاہور کے جنوب-مشرق میں ایک گاؤں ہے، جو  ہندوستان-پاکستان سرحد کے قریب ہے، لاہور کے علامہ اقبال بین الاقوامی ہوائی اڈے سے تقریباً 11 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جو بمباوالی-راوی-بیدیاں (بی آر بی) نہر پر ایک پل کے ذریعے شہر سے منسلک ہے۔’

بعد میں بدھ کو کھیڑا نے اکتوبر 2016 کے ایک مضمون کا لنک بھی پوسٹ کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ وزیر خارجہ ایس جئے شنکر، جو اس وقت خارجہ سکریٹری تھے، نے پارلیامانی اسٹینڈنگ کمیٹی کو بتایا تھا کہ ماضی میں بھی سرحد پار سے حملے کیےگئےتھے۔

نیوز آرٹیکل کا ایک حصہ پوسٹ کرتے ہوئےکھیڑا نے کہا ،’ماضی میں بھی لائن آف کنٹرول کےپار پیشہ ورانہ طور پر ہدف بنا کر، محدود صلاحیت کے انسداد دہشت گردی آپریشن کیے گئے ہیں، لیکن یہ پہلی بار ہے کہ حکومت نے اسے عام کیا ہے۔’

 جئے شنکر نے اکتوبر 2016 میں خارجہ امور کی پارلیامانی کمیٹی کے سامنے یہ بات کہی تھی۔

اس کے بعد کھیڑا کی پوسٹ کا حوالہ کانگریس کے رکن پارلیامنٹ اور جنرل سکریٹری، میڈیا اور کمیونی کیشن انچارج جئے رام رمیش نے دیا۔

رمیش نے لکھا ، ‘اوہ، ہم کتنا پیچیدہ جال بنتے ہیں، جب ہم پہلی بار دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں…’

تھرور کو پاناما میں اپنے تبصروں کے لیے پارٹی کے ساتھیوں کی تنقید کا سامنا کر پڑ رہا ہے، جو بیرون ملک وفود کی تشکیل پر تنازعہ کے فوراً بعد شروع ہوا تھا۔ تھرور، جنہیں مودی حکومت نے سات وفود میں سے ایک کی قیادت کے لیے نامزد کیا تھا، کانگریس کی طرف سے اس وفد کا حصہ بننے کے لیے فراہم کردہ چار ناموں کی فہرست میں شامل نہیں تھے ۔

تاہم، تھرور نے حالیہ واقعات پر ملک کا نظریہ پیش کرنے کے لیے ایک آل پارٹی وفد کی قیادت کرنے کی دعوت کے لیے حکومت کا شکریہ ادا کرنے میں عجلت کا مظاہرہ کیا۔

کانگریس کی طرف سے پیش کی گئی فہرست میں ان کا نام نہ ہونے کے باوجود، تھرور کو یہ دعوت اس وقت ملی جب ترواننت پورم کے ایم پی نے چند دن پہلے انٹرویو میں بی جے پی حکومت کے حق میں حمایتی تبصرہ کیا تھا۔ دی وائر کے کرن تھاپر کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے آپریشن سیندور اور پاکستان کے ساتھ فوجی تنازعہ کے بعد حکومت کے اقدامات کی تعریف کی تھی۔ کانگریس نے تب کہا تھا کہ تھرور کے بیانات کو ان کی ذاتی رائے سمجھنا چاہیے۔

اس تنقید کے بعد کرن رجیجو نے ایکس پر کہا ، ‘کانگریس پارٹی کیا چاہتی ہے اور انہیں ملک کی کتنی پرواہ ہے؟ کیا ہندوستانی اراکین پارلیامنٹ کو غیر ممالک میں جاکر ہندوستان اور اس کے وزیر اعظم کے خلاف بات کرنی چاہیے؟ سیاسی طور پر فریسٹریشن  کی بھی کوئی حد ہوتی ہے!’

قابل ذکر ہے کہ تھرور حال کے ہفتوں میں بی جے پی حکومت اور وزیر اعظم نریندر مودی کی حمایت میں اپنے کئی بیانات بالخصوص پہلگام دہشت گردانہ حملے اور ہندوستان کی فوجی کارروائی کے بعد تنازعات کے مرکز میں ہیں۔

Next Article

علی گڑھ: بیف اسمگلنگ کے نام پر تشدد کے بعد آئی فرانزک رپورٹ میں گائے کے گوشت کا دعویٰ خارج

علی گڑھ میں چار مسلم نوجوانوں پر گائے کے گوشت کی اسمگلنگ کا الزام لگا کر ہندوتوا تنظیموں کے لوگوں نے حملہ کیا تھا۔ اب فرانزک رپورٹ میں گائے کے گوشت کے دعوے کو خارج کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ 15 دنوں میں یہ دوسرا موقع تھا جب انہی ملزمین نے متاثرہ افراد کی گوشت لے جانے والی گاڑی کو اسی جگہ پرنشانہ بنایا۔

اوپر: گرفتار ملزم کو ، یو پی پولیس نےایکس اکاؤنٹ پراس کی  جانکاری شیئر کی۔ نیچے: علی گڑھ حملے کے زخمی متاثرین

نئی دہلی: 24 مئی کو اتر پردیش کے علی گڑھ میں ہندوتوا تنظیموں سے وابستہ لوگوں نے چار مسلم نوجوانوں پر گائے کے گوشت کی اسمگلنگ کا الزام لگا کر حملہ کیا تھا ۔ اب اس معاملے میں پولیس ذرائع نے دی وائر کو بتایا ہے کہ ضبط کیا گیا گوشت گائے کا نہیں تھا۔

ہردوآ گنج تھانے کے ایس ایچ او دھیرج کمار نے تصدیق کی کہ متھرا کی سرکاری لیب میں جانچ کے لیے بھیجے گئے گوشت کے نمونے کی رپورٹ نے اس حقیقت کو مسترد کر دیا ہے کہ یہ گائے کا گوشت ہے۔

بدھ (28 مئی) کی صبح علی گڑھ پولیس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اس بابت پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ گائے کے گوشت کی اسمگلنگ کے الزامات جھوٹے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ 15 دنوں میں یہ دوسرا موقع تھا جب انہی  ملزمین کے گروہ نے متاثرہ افراد کی گوشت لے جانے والی گاڑی کو نشانہ بنایا۔ اس بار حملہ آوروں نے گاڑی کو آگ لگا دی اور ہائی وے کو بلاک کر دیا۔

حملے کا ایک نیا ویڈیو سوشل میڈیا پر سامنے آیا ہے، جس میں ملزم پولیس کی موجودگی میں ایک بے ہوش متاثرہ کو پولیس کی گاڑی سے گھسیٹتے ہوئے باہر نکالتے نظر آرہے ہیں۔ جن چار متاثرین کی شناخت ہوئی وہ ہیں-ارباز، عقیل، قدیم اور منا خان ہیں۔ سب علی گڑھ کے اترولی قصبے کے رہنے والے ہیں۔ الزام ہے کہ ہجوم نے انہیں برہنہ کیا اور تیز دھار ہتھیاروں، اینٹوں، لاٹھیوں اورراڈ سے بے دردی سے پیٹا۔

ایس ایچ او دھیرج کمار نے دی وائر کو بتایا کہ اس کیس میں چار ملزمین کو گرفتار کیا گیا، جن میں سے تین کا نام پہلےسے ایف آئی آر میں درج تھا، جبکہ چوتھے ملزم کی شناخت ویڈیو فوٹیج کی بنیاد پر کی گئی۔

ملزمین کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این سی) کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے، جن میں 191 (3) (مہلک ہتھیار سے دنگا)، 109 (قتل کی کوشش)، 308 (5) (موت کی دھمکی دے کر جبری وصولی) اور 310 (2) (ڈکیتی) شامل ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ چاروں متاثرین کو مقامی پولیس نے بچا یا تھا، لیکن تب تک وہ شدید زخمی ہو چکے تھے۔ سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) امرت جین نے میڈیا کو بتایا کہ پولیس نے زخمی افراد کو علی گڑھ کے دین دیال اپادھیائے اسپتال میں داخل کرایا، جہاں تینوں  کی حالت تشویشناک ہے۔

حملے اور فرانزک رپورٹ کے بعد اب متاثرین کے اہل خانہ نے انتظامیہ سے تمام حملہ آوروں کو گرفتار کرنے اور متاثرین کے خلاف درج ‘جھوٹی’ ایف آئی آر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

معلوم ہو کہ ایک مقامی شخص وجئے بجرنگی نے چار مسلم نوجوانوں کے خلاف گائے کے ذبیحہ سے متعلق ایکٹ 1955 کی دفعہ 3، 5 اور 8 کے تحت ایف آئی آر درج کروائی تھی۔حالانکہ پولیس نے وجئے بجرنگی کو گرفتار کر لیا ہے، لیکن ایف آئی آر کو ابھی تک رد نہیں کیا گیا ہے۔

عقیل کے بھائی محمد ساجد نے کہا کہ لیب رپورٹ سے واضح ہو گیا ہے کہ ضبط کیا گیا گوشت ‘بھینس’ کا تھا، اس لیے اب جھوٹے مقدمے کو ختم کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا، ‘حقیقت اب پوری دنیا اور میڈیا کے سامنے ہے۔ اس نے خود کو بچانے کے لیے یہ جھوٹا مقدمہ درج کروایا تھا۔ اگر حکومت خود اس کو ختم نہیں کرتی تو اس سے زیادہ شرمناک اور کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ یہ ہمارے لیے دوہری مار ہے۔’

انہوں نےمزید کہا کہ ‘مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ یہ فرضی کیس واپس لے لیا جائے گا۔’

اپوزیشن نے کی تھی مذمت

کانگریس، سماج وادی پارٹی، عام آدمی پارٹی اور اے آئی ایم آئی ایم جیسی اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے حملے کی مذمت کی تھی اور بعد میں متاثرین کے اہل خانہ سے ملاقات  بھی کی  ہے۔

گزشتہ 27 مئی کو بھیم آرمی چیف اور نگینہ کے ایم پی چندر شیکھر آزاد نے علی گڑھ کے جواہر لال نہرو اسپتال میں متاثرین سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ ‘ یہ صرف امن و امان کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں اور غریب  لوگوں کے کاروبار پر منظم حملہ ہے ۔’

عقیل کے والد سلیم نے پہلے دی وائر کو بتایا تھا کہ جب سے یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت اقتدار میں آئی ہے، ان کا کام کاج  پوری طرح سے ٹھپ ہوگیا ہے اور ان کی روزی روٹی خطرے میں پڑ گئی  ہے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے پاس لائسنس  بھی تھا اور گوشت کا نمونہ بھی پولیس کے حوالے کر دیا گیا تھا، اس کے باوجود ان پر حملہ کیا گیا۔

وہیں، ساجد نے کہا، ‘یہ جو گئو رکشک ہیں ،یہ اب بھتہ خور گینگ بن چکے ہیں۔ انہیں حکومت کا مکمل تحفظ حاصل ہے۔ اس بار حملہ پولیس کی موجودگی میں ہوا۔ اسے پولیس کی گاڑی سے گھسیٹ کر باہر نکالا گیا۔ بی جے پی، آر ایس ایس، بجرنگ دل – یہ سب ایک ہی ہیں۔ انہوں نے سماج کو ہندو-مسلمان کے نام پر تقسیم کرنے کے لیے غنڈہ گردی کا ماحول بنایا ہوا ہے۔ کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا جا رہا تھا، پھر بھی حملہ کیا گیا۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

پنجاب کے تین نوجوان ڈنکی روٹ سے ایران پہنچنے کے بعد لاپتہ، اہل خانہ کا اغوا اور مارپیٹ کا الزام

پنجاب کے جسپال سنگھ، امرت پال سنگھ اور حسن پریت سنگھ اس مہینے کی پہلی تاریخ سے لاپتہ ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اسی دن وہ ایران پہنچے تھے۔ ان کے اہل خانہ کے مطابق، ان کی اپنے بیٹوں سے آخری بار تقریباً12 روز قبل بات ہوئی تھی، جس کے بعد سے ان کا ان سے رابطہ منقطع ہے ۔

علامتی تصویر۔ (فوٹو بہ شکریہ: فلکر ڈاٹ کام

جالندھر: پنجاب کے ہوشیار پور، نواں شہر اور سنگرور اضلاع کے تین افراد، جو اپنے گاؤں سے ‘ڈنکی’ روٹ سے آسٹریلیا کےلیے نکلے تھے، کو ایران کے تہران ہوائی اڈے پر پاکستانی ایجنٹوں نے مبینہ طور پراغوا کر لیا ہے۔ یہ الزامات ان لوگوں کے گھر والوں نے لگائے ہیں۔

جسپال سنگھ (32)، امرت پال سنگھ (23) اور حسن پریت سنگھ (27) نام کے تین افراد یکم مئی سے لاپتہ ہیں۔ اسی دن وہ ایران پہنچے تھے۔ ان کے اہل خانہ کے مطابق، ان کی اپنے بیٹوں سے آخری بار تقریباً 12 روز قبل بات ہوئی تھی، جس کے بعدسے  ان کا ان سے رابطہ منقطع ہے۔

دی وائر کو پتہ چلا ہے کہ ان تینوں کے جسم پر گہرے زخم تھے اور انہیں مبینہ پاکستانی ڈونکروں نے یرغمال بنانے کے بعد بے دردی سے مارا پیٹا تھا۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مبینہ پاکستانی ڈونکروں نے ان تینوں سے رہائی کے بدلے  18-18 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا تھا۔

اس معاملے میں متعلقہ اضلاع میں تینوں کے اہل خانہ کی شکایات پر ہوشیار پور کے تین ٹریول ایجنٹوں دھیرج اٹوال، کمل اٹوال اور سویتا سویا کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) 2023 کی دفعہ 143 (کسی شخص کی اسمگلنگ)، 318 (4) (دھوکہ دہی)، 61 (2) (مجرمانہ طور پرسازش) اور پنجاب ٹریول پروفیشنلز (ریگولیشن) ایکٹ، 2014 کی دفعہ 13کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی  ہے۔

ایف آئی آر کے بارے میں  علم ہوتے ہی ٹریول ایجنٹ فرار

اہل خانہ نے بتایا کہ ایف آئی آر کے بارے میں معلوم ہونے کے بعد ٹریول ایجنٹ مبینہ طور پر فرار ہوگئے اور انہیں بتایا کہ وہ تینوں کا سراغ لگانے کے لیے ایران جا رہے ہیں۔

اس سلسلے میں ایران کے تہران میں ہندوستانی سفارت خانے نے ایکس پر ایک بیان جاری کیا اور کہا، ‘تین ہندوستانی شہریوں کے اہل خانہ نے ہندوستانی سفارت خانے کو مطلع کیا ہے کہ ان کے رشتہ دار ایران کا سفر کرنے کے بعد لاپتہ ہیں۔ سفارت خانے نے اس معاملے کو ایرانی حکام کے ساتھ زوردار طریقے  سے اٹھایا ہے اور درخواست کی ہے کہ لاپتہ ہندوستانیوں کا فوراً پتہ لگایا  جائے اور ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔ ہم سفارت خانے کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کے بارے میں خاندان کے افراد کو بھی باقاعدگی سے اپڈیٹ کر رہے ہیں۔’

غور طلب ہے کہ ایران میں ہندوستانیوں کے لیے صرف سیاحت کے مقاصد کے لیے 15 دنوں  تک کے لیے ویزا فری پالیسی ہے، جس سے ‘ڈنکی’ روٹ کے لیے ایک ممکنہ راستہ بن جاتا ہے۔

معلوم ہو کہ ڈنکی غیر قانونی امیگریشن کا ایک طریقہ ہے، جس میں اکثر خطرناک راستے شامل ہوتے ہیں۔ ایران ،پاکستان، افغانستان، ترکی، عراق، ترکمانستان، آذربائیجان اور آرمینیا سے گھرا ہوا ہے۔

یہ خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب حال ہی میں 5 فروری کو امریکہ سے ڈی پورٹ کیے گئے لوگوں کو لے کر پہلا فوجی طیارہ امرتسر پہنچا تھا۔ اس کے بعد سے پچھلے تین مہینوں میں 400 سے زیادہ ہندوستانیوں کو امریکہ سے ڈی پورٹ کیا جا چکا ہے۔

اٹھارہ-اٹھارہ لاکھ روپے اضافی مانگے

دی وائر سے بات کرتے ہوئے ضلع نواں شہر کے گاؤں لنگرویا سے تعلق رکھنے والے جسپال سنگھ کے بھائی اشوک کمار نے بتایا کہ یکم مئی 2025 کو ایران کے تہران ہوائی اڈے پر اترنے کے فوراً بعد ان کے بھائی اور دو دیگر کو پاکستانی ڈونکروں نے اغوا کر لیا۔

انھوں نے کہا، ‘جیسے ہی وہ ہوائی اڈے سے باہر نکلے،ڈونکرزان کی تصویریں لے کر ان کے پاس آئے اور ان کی شناخت کی تصدیق کی۔ تاہم، جب وہ کار میں بیٹھے اور بیچ راستےمیں پہنچے تو ڈونکروں نے انہیں بتایا کہ ان کا اغوا کر لیا گیا ہے۔’

انہوں نے کہا کہ انہیں ڈانکروں کی طرف سے پہلی کال یکم مئی کو موصول ہوئی، جس کے دوران ان کے بھائی نے خاندان کو بتایا کہ انہیں اور دو دیگر افراد کو اغوا کر لیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘میرے بھائی نے پہلےہمیں یکم مئی کو تقریباً 2 بجے جاگتے رہنےکے لیے کہا تھا، یہی وہ وقت تھا جب پاکستانی ڈونکرز نے ویڈیو کال کی اور ہر ایک سے 18 لاکھ روپے اضافی کا مطالبہ کیا۔ میرے بھائی کو آسٹریلیا بھیجنے کے لیے ہم نے پہلے ہی 18 لاکھ روپے ادا کیے تھے۔’

مزدور کے طور پر کام کرنے والے اشوک کمار کے مطابق، خاندان نے رشتہ داروں اور دوستوں سے رقم ادھار لے کر جسپال سنگھ کو آسٹریلیا بھیجنے کے لیے 18 لاکھ روپے کا بندوبست کیا تھا۔

روتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘ہم 11 مئی تک جسپال سے رابطے میں تھے، اس کے بعد ہمارا ان سے رابطہ ٹوٹ گیا۔ پاکستانی ڈونکرز نوجوانوں کو یرغمال بناکر ان کے کپڑے اتارکر، ان کے جسم پر  گہرے زخم دکھاتے ہوئے، انہیں بے رحمی سے پیٹتے ہوئےہم سے بات کرواتے تھے، اس دوران وہ خود کو بچانے کی درخواست کرتے تھے،نہیں تو پاکستانی ڈونکر انہیں مار ڈالیں گے۔’

انہوں نے کہا کہ ڈونکرز نے انہیں اپنے پاکستانی بینک اکاؤنٹس بھی دیے اور ان سے پیسےدینے کے لیے دباؤ ڈالا۔ انہوں نے کہا، ‘میں نے انہیں بتایا کہ ہمارے پاس کوئی پیسہ نہیں بچا ہے اور ہندوستان سے پاکستان کو کوئی بھی ادائیگی کرنا ناممکن ہے۔ لیکن، انہوں نے ہماری ایک نہ سنی اور ہمارے بیٹوں کو تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔’

اسی طرح ہوشیار پور کے بھوگووال لڈن گاؤں کے امرت پال سنگھ کی والدہ گردیپ کور نے دی وائر کو بتایا کہ ان کا بیٹا 25 اپریل 2025 کو دبئی گیا تھا ،جہاں سے وہ ایران پہنچا۔

انہوں نے کہا، ‘جسپال یکم اپریل کو دبئی پہنچا، جبکہ دیگر دو لڑکے بعد میں اس کے ساتھ شامل ہوئے۔ میرا بیٹا اور دیگر دو نوجوان صرف ویڈیو کال کے ذریعے ہم سے رابطے میں رہے، اس دوران پاکستانی ڈونکرز نے ان کی پٹائی کی۔ وہ ڈونکرز کے چنگل سےانہیں  بچانے کی درخواست کر رہے تھے۔’

انہوں نے کہا کہ ان لوگوں سے بات کرتے ہوئے 12 دن گزر چکے ہیں، انہیں امید ہے کہ ہندوستانی حکومت کی مداخلت سے ان کی جان بچ جائے گی۔

بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح، گردیپ کور بھی کپڑے سلائی کر کے گھر چلاتی  ہے اور نقلی ٹریول ایجنٹس کے خطرناک گٹھ جوڑ کا شکار ہو گئی، جو پنجاب اور مرکزی حکومتوں کے دعووں کے باوجود، سادہ لوح نوجوانوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔

دریں اثنا، سنگرور کے دھوری سے تعلق رکھنے والے حسن پریت کے خاندان نے مرکزی حکومت سے پرزور اپیل کی کہ وہ ان کے بیٹے کو بحفاظت گھر واپس لانے میں مدد کرے۔ اہل خانہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اپنے بیٹے سے تقریباً 10 دن تک رابطے میں تھے، جس کے بعد انہیں کوئی کال یاپیغام نہیں آیا۔

امرت پال سنگھ کے اہل خانہ نے ہوشیار پور کے ایم پی راج کمار چبیوال اور پنجاب کے این آر آئی امور کے وزیر کلدیپ سنگھ دھالیوال سے بھی رابطہ کیا ہے اور ان سے اپنے بیٹے کی جلد رہائی کی اپیل کی ہے۔

جسپال اور حسن پریت کے اہل خانہ نے مقامی رہنماؤں سے بھی ملاقات کی ہے اور ان سے اپنے بیٹوں کو اس مصیبت سے بچانے کی اپیل کی ہے۔

( انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

ہریانہ: ٹوپی کو لے کر ہوئے جھگڑے میں مسلم نوجوان کی موت، پولیس نے کہا – کوئی فرقہ وارانہ زاویہ نہیں

گزشتہ دنوں ہریانہ کے پانی پت میں بہار کے کشن گنج سے تعلق رکھنے والے مزدورفردوس عالم کی مذہبی ٹوپی کو لے کر ہوئے تنازعہ کے دوران حملے کے بعد موت ہو گئی۔ اہل خانہ نے اس کی وجہ ان کی مذہبی پہچان  بتائی ہے، جبکہ پولیس نے کسی بھی فرقہ وارانہ زاویے سے انکار کیا ہے۔

فردوس عالم (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

نئی دہلی: ہریانہ کے پانی پت میں 24 مئی کو ایک 24 سالہ مزدور فردوس عالم عرف اسجد بابو کی جان لیوا حملے میں موت ہوگئی۔ یہ واقعہ مذہبی ٹوپی کے حوالے سےہوئے جھگڑے کے بعد پیش آیا،  جو بعد میں پرتشدد ہو گیا۔

تاہم، پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعہ میں کوئی فرقہ وارانہ زاویہ نہیں ہے۔

فردوس بہار کے کشن گنج ضلع کا رہنے والا تھا اور پانی پت کی ایک فیکٹری میں درزی کا کام کرتا تھا۔ فردوس کے بھائی اسد نے بتایا کہ فردوس حال ہی میں شادی کرکے اپنی سسرال سے اپنے دوست شاہنواز کے ساتھ واپس لوٹ رہے تھے۔ رات 8 بجے کے قریب، سیکٹر 29 کے فلورا چوک کے پاس ان کی ملاقات ایک دکاندار شیشو لال عرف نریندر سے ہوئی، جو وہاں کریانہ کی دکان چلاتا ہے۔

اسد نے کہا، ‘اس نے میرے بھائی کی ٹوپی چھین کر پہن  لی اور مذاق اڑانے لگا۔ جب میرے بھائی نے اسے ٹوپی واپس کرنے کو کہا تو اس نے ٹوپی زمین پر پھینک دی۔’

اسد کے مطابق، فردوس نے لڑائی نہیں کی۔ اسد نے بتایا، ‘اس نے صرف غصے سے دیکھا اور پوچھا کہ ٹوپی کیوں پھینکی؟ اس پر نریندر غصے میں آگیا اور بولا، تو مجھ سے اس طرح  بات کیسے کر سکتا ہے؟’ اس کے بعد جب فردوس اپنی ٹوپی لینے کے لیے نیچے جھکے تو نریندر نے اس کے سر پر ڈنڈے سے وار کیا اور پوچھا کہ کیسا لگا۔ حملے کے بعد فردوس بے ہوش ہو گئے۔

شاہنواز نے بتایا کہ انہوں نے گھبراکر اسد کو فون کیا۔ اسد موقع پر پہنچے اور انہیں  مقامی سرکاری ہسپتال لے گئے، جہاں سے انہیں پی جی آئی روہتک ریفر کر دیا گیا۔ فردوس کی روہتک میں علاج کے دوران موت ہو گئی۔

اسد نے بتایا،’ میں 9 سال سے  درزی کا کام کر رہا ہوں، فردوس دو سال پہلے ہی آیاتھا۔ میں یہاں بہت زیادہ لوگوں کو نہیں جانتا ہوں ، تو فردوس اس دکاندار کو کیسے جانتا ہوگا۔’

اسد کا مانناہے کہ اس کے بھائی کو اس کی مذہبی پہچان  کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ انہوں نے کہا، ‘ان دنوں حالات ہی ایسے ہیں۔’

ملزم نریندر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این سی) کی کئی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے،جس میں دفعہ 103(1) (جان بوجھ کر کیا گیا قتل) بھی شامل ہے۔

پولیس کا فرقہ وارانہ زاویہ سے انکار

تاہم، انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ، پانی پت پولیس نے اس واقعے کے پیچھے کسی بھی فرقہ وارانہ زاویہ سے انکار کیا ہے۔ رپورٹ میں انڈسٹریل سیکٹر 29 تھانے کے تھانہ انچارج (ایس ایچ او) سبھاش  کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے،’بالکل نہیں (جب فرقہ وارانہ زاویہ کے بارے میں پوچھا گیا))۔ ملزم نے صرف ٹوپی پہن کر  دیکھنا چاہا تھا، اسے شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کہ یہ مذہبی ٹوپی ہے۔ اس نے ٹوپی پہن کر پوچھا کہ یہ کیسی لگ رہی ہے، جس پر متوفی نے اسے لوٹانے کے لیے کہا۔اس کے بعد جھگڑا ہو گیا،معاملہ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ تفتیش جاری ہے۔’

وہیں،کشن گنج کے کانگریس ایم پی محمد جاوید نے اس واقعہ کے بارے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس  پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ یہ صرف ہیٹ کرائم نہیں ہے، بلکہ ‘ریاستی سرپرستی ‘  میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ ہے۔

انہوں نے لکھا، ‘ہریانہ میں کشن گنج کے کوچادھامن کے اسجد بابو کو صرف اس لیے بے دردی سے قتل کر دیا گیا کیونکہ اس نے ٹوپی پہن رکھی تھی۔ یہ صرف ہیٹ کرائم نہیں، بلکہ ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی ہے۔ اس ٹارگٹ کلنگ کے لیے ہریانہ حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے۔ ہم تمام مجرموں کے خلاف سخت کارروائی اور متاثرہ خاندان کو 50 لاکھ روپے کے معاوضے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ کسی بھی مہذب معاشرے میں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)