اگر الیکشن کمیشن واقعی اپنی نئی ایڈوائزری کے حوالے سےسنجیدہ ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، اس کا جواب دیا جانا چاہیے کہ اس بار اس کی تعمیل کے لیے کون سا نیا نظام بنایا گیا ہے جن سے یقین ہو کہ پچھلی بار کی طرح اس بار کوئی جانبداری نہیں کی جائے گی؟
گزشتہ جمعہ کو الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کے لیے جاری کی گئی اپنی تازہ ترین ایڈوائزری میں ہدایت دی ہے کہ آئندہ لوک سبھا انتخابات میں وہ ذات پات ، مذہب اور زبان کی بنیاد پر ووٹ مانگنے اور بھکت—بھگوان—رشتوں کا مذاق اڑانے سے گریز کریں، نیز عبادت گاہوں (مندروں، مسجدوں، گرودواروں اور گرجا گھروں) کو انتخابی مہم کے لیے استعمال نہ کریں، اس پر کئی طرح کے رد عمل سامنے آئے۔ بدقسمتی سےان میں تلخ اور ترش زیادہ ہیں۔ ایک دوست نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ انہیں سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ اس پر ہنسیں ہے یا روئیں –رسمی سمجھیں یا ‘تازہ ترین’، ‘سخت’ اور ‘غیرمعمولی’، جیسا کہ بہت سے حلقوں میں دعویٰ کیا جا رہا ہے۔
دوست کے ہی ردعمل کو آگے بڑھائیں تو کہنا پڑے گا کہ یہ ایڈوائزری رسمی ہے اور کمیشن نے اسے لکیر پیٹنے کی اپنی پرانی ‘روایت’ کے تحت جاری کیا ہے (اس روایت کے تحت وہ ہر الیکشن سے پہلے پارٹیوں اور امیدواروں کے لیے ایسی ایڈوائزری جاری کرتا ہے، پھر ان کی سختی سے تعمیل کو یقینی بنانے کی ذمہ داری سے منہ موڑ لیتا ہے یا اسے خاص پارٹی، کہنا چاہیےمحض اپوزیشن پر ڈال دیتا ہے اور زیادہ تر اس کے لیڈروں کو ہی ان کی خلاف ورزیوں وغیرہ پر نوٹس وغیرہ بھیج کر اپنی ذمہ داریاں پوری کرلیتا ہے۔) تو بھی اس پر ہنسنے یا رونے سے زیادہ سر دھننے اور یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ پھر وہ اتنے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو کیسے یقینی بنائے گا، جس کے نتائج میں عام ووٹروں کا بھروسہ باقی رہے۔
زیادہ دور نہ جائیں، گزشتہ لوک سبھا انتخابات کی ہی بات کریں تو کمیشن نے اس میں ایسی کئی مثالیں قائم کی تھیں، جن میں وزیر اعظم نریندر مودی سمیت حکمراں پارٹی کے بیشتر لیڈر براہ راست — بالواسطہ، ڈھکے چھپے یا کھلے عام خلاف ورزی کرکےاس کی نصیحتوں اور ضابطہ اخلاق کی پابندیوں سے ‘آزاد’ نظر آتے تھے، کہنا چاہیے کہ ان کی پابندیاں قبول کرتے نظر نہیں آئے تھے، جبکہ دوسری پارٹی کے رہنماؤں کو ہر قدم پر ان کی پابندیوں کو برداشت کرنا پڑا تھا۔
یہ صورتحال، بلاشبہ، انتخابی مقابلوں میں برابری کے بنیادی اصول کی سنگین خلاف ورزی تھی، جس کے تحت تمام امیدواروں کے لیے یکساں کھیل کے میدان فراہم کیے جانے چاہیے۔
اسی کی وجہ سے آج کمیشن کو اپنی ایڈوائزری میں یہ کڑوا سچ تسلیم کرنا پڑ رہا ہے کہ انتخابی مہم، ڈسکورس اور بحث و مباحثے کی سطح تشویشناک حد تک گر گئی ہے۔ اس گراوٹ کے لیے دیگر عوامل جو بھی ہوں، مذاہب، مذہبی مقامات اور ذات پات وغیرہ کے انتخابی غلط استعمال کو روکنے میں کمیشن کی ناکامی بھی ذمہ دار ہے۔یہ ناکامی جس بھی وجہ سے اس کے حصے میں آئی ہو، عام خیال یہ ہے کہ مذاہب، عبادت گاہوں اور ذات پات کے انتخابی غلط استعمال کو روکنے کے لیے پہلے ہی سنجیدگی سے کام لیا جاتا تو حالات اتنے سنگین نہ ہوتے۔ یہی بات منی پاور اور مسل پاور کے انتخابی استعمال کے بارے میں بھی کہی جاتی ہے۔
کوڑھ میں کھاج یعنی ستم بالائے ستم یہ ہے کہ دس سال قبل ملک کے جمہوری اور آئینی اداروں کا زوال اچانک بہت تیز ہوگیا، تو کمیشن بھی اس سے خود کو نہ بچا سکا۔ یہاں تک کہ اسے کثیر رکنی بنانے سے بھی اس کی تنزلی کو روکنے میں کوئی مدد نہیں ملی۔ چیف الیکشن کمشنر رہتے ٹی این شیشن محتاط اندازمیں اسے حکومت ہند کا نہیں، ہندوستان کا الیکشن کمیشن بتایا کرتے تھے، لیکن اب یہ حکومت ہند کا ہی زیادہ نظر آتا ہے۔
یہ ‘حکومت’، ماڈل ضابطہ اخلاق کے باقاعدہ نفاذ کے آخری لمحے تک، اپنی طاقت اور اختیار کو لامحدود طریقے سے استعمال کرکے، اپوزیشن پر برتری حاصل کرنے کے لیے نفسیاتی جنگ چھیڑنے یعنی مقابلہ کو غیر مساوی بنانے میں لگی رہتی ہے، تو کمیشن کو اس میں کچھ بھی غلط نہیں لگتا۔ وہ اپنی محدود طاقتوں (پڑھیں: بے بسی) کا رونا روتے ہوئے اس سب پر آنکھیں بند کر لیتا ہے اور اسے روکنے کے لیے اقدامات کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا۔
اس کے برعکس اس نے ادھر ایک نئی روایت قائم کی ہے کہ انتخابی پروگرام کا اعلان کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ حکومت کے مکھیا یعنی وزیراعظم سرکاری اعلانات کی بنا پر غیر رسمی انتخابی مہم کا اپنا مطلوبہ سلسلہ اس سے پہلے ہی پورا کرلیں۔
ہاں، اگر وہ واقعی نئی ایڈوائزری کے بارے میں سنجیدہ ہے تو’جب جاگے تبھی سویرا’ کہہ کر اس کا خیر مقدم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود اس سوال کا جواب دیا جانا چاہیے کہ اس نے اپنی نئی ایڈوائزری کی تعمیل کے لیے کون سا نیا نظام بنایا ہے اور کون سے نئے انتظامات کیے ہیں تاکہ یہ یقین ہو سکے کہ اس بار کوئی جانبداری نہیں ہو گی؟
فی الحال، اس نے کہا ہے کہ وہ نہ صرف اس کی براہ راست بلکہ بالواسطہ خلاف ورزیوں پر بھی کڑی نظر رکھے گا اور کسی بھی خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف سخت کارروائی کرے گا – چاہے وہ اسٹار پرچارک ہی کیوں نہ ہوں۔
لیکن اس سے اس کی ‘سخت کارروائی’ میں تعصب کا شبہ کم نہیں ہوگا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس بار ایسے خدشات پہلے سے کئی گنا زیادہ مضبوط ہو گئے ہیں۔ اس بات کویوں سمجھا جا سکتا ہے کہ 2019 میں نئے ووٹروں سے اپنا پہلا ووٹ پلوامہ کے شہیدوں کے نام دینے کے لیے کہہ کر (یعنی شہیدوں کے نام پر ووٹ مانگ کر) بھی ماڈل کوڈ کی خلاف ورزی کی سزا سے بچ نکلے وزیر اعظم نریندر مودی اس بار وزیر اعظم سے زیادہ دھرم آچاریہ کے طور پر سامنے ہیں۔
چولا بدلنے میں ماہر وزیراعظم اپنی پارٹی کے کئی وزرائے اعلیٰ کے ساتھ جارحانہ ہندوتوا کے ‘کھیل’ میں کبھی اپنی ذات کا تذکرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور کبھی آئین کے سیکولرازم کی مقدس قدر کی توہین کرتے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ گزشتہ لوک سبھا انتخابات سے عین قبل جب انہوں نے اپنی کابینہ میں توسیع کی تھی تو نئے وزراء کی کاسٹ کی بھی خوب تشہیر کی تھی۔ قارئین یہ بھی جانتے ہیں کہ وزیر اعظم کا تعلق ایک ایسی جماعت سے ہے جورام مندر کے نام پر ووٹ مانگنے کے لیے کئی دہائیوں سے اس سوال سے کنارہ کشی کرتی، یا یوں کہنا چاہیے کہ مذاق اڑاتی آئی ہے کہ کیا کسی سیکولر ملک میں مندر یا مسجد کے نام پر اس کی تعمیر یا انہدام کے لیے مینڈیٹ مانگا جا سکتا ہے؟
کیا الیکشن کمیشن اپنی اب تک کی تاریخ میں کبھی اسے سختی سے اس سوال کا مذاق اڑانے اور رام مندر کے نام پر ووٹ مانگنے سے روک پایا؟
جواب ہے – نہیں، جب بھی یہ موضوع اٹھایا گیا، وہ ‘پالیٹکلی کریکٹ’ ہونے کی کوشش ہی کرتا نظر آیا۔ اس سلسلے کا نیا سوال یہ ہے کہ اب جب حکمراں پارٹی نے رام جنم بھومی-بابری مسجد تنازعہ کے حل کے بعد سپریم کورٹ کے حکم سے ایودھیا میں ‘وہیں’ بن رہے رام مندر کا سہرا اپنے سر باندھ کر ووٹروں سے ‘ شکر گزاری کے ساتھ’اس کو پھر سے منتخب کرنے کو کہہ رہی ہے،تو کمیشن مندر کی تعمیر کے لیے ووٹ مانگنے کو مندر کو تشہیر کے لیے استعمال کرنا مانے گا یا نہیں؟
اگر نہیں، تو کیا اس سے ان کی ایڈوائزری بے معنی ہوکر نہیں رہ جاتی؟ اور کیا اس سے یہ سمجھنا ذرا بھی مشکل ہے کہ بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی رام مندر کے مسئلہ پر ووٹروں کو راغب کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیں گے – کیے تو خیر ابھی بھی ہوئے ہیں – تو وہ اس ایڈوائزری کی تعمیل میں معروضی رویہ اپنا کر اپنی امپائرنگ کی امیج کوبہتر کرے گا یا انہیں محفوظ بنانے کے لیے نئے ‘دلائل’ پیش کرے گا؟
کم سے کم ایک ‘دلیل’ توانہوں نےاپنی طرف سے ابھی سے پیش کر دیا ہے۔یہ کہ جن بھگوان رام کےپانچ سو سال کے نام نہاد انتظار کو ختم کرنے کے بعد ‘سناتن’ کے فتح کے نعروں کے درمیان وہ انہیں ایودھیا لائے ہیں، وہ کسی ایک مذہب کے تھوڑے ہی ہیں، ‘راشٹر پرش’ اور ‘سناتن’ یعنی چِت بھی میری پَٹ بھی میری، اَنْٹا میرے باپ کا۔
یہ سوال اس لیے بھی کمیشن سے فوری جواب کا متقاضی ہے کہ گزشتہ کئی انتخابات میں اس کی جانب سے اٹھائے جانے والے ‘بے مثال’ اور ‘انوکھے’ اقدامات نے انتخابات میں حکمران جماعت اور اپوزیشن کے ساتھ یکساں سلوک کرنے کے اس کے امپائرنگ کی کسوٹی کو متزلزل کر دیا ہے۔ یہ بلا وجہ نہیں ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں بعض اوقات یہ شکایت کرتی ہیں کہ انہیں حکمراں جماعت کے ساتھ مل کر الیکشن کمیشن کے تعصب کا بھی مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ کئی بار کمیشن قانونی طریقہ کار کے مطابق انتخابات کرانے کے اپنے حق کو سلب کرتا ہے اور ایسے اقدامات کرنے لگتا ہے جس سے لگتا ہے کہ وہ مذکورہ عمل کو ہی بدلنا چاہتا ہے۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ووٹروں کے گھروں اور احاطوں کی دیواروں پر لکھ کر، جھنڈے، بینرز اور پوسٹرز وغیرہ لگاکر روایتی مہم میں اب بہت سی پابندیاں ہیں لیکن بڑی جماعتیں اور امیدوار پرنٹ الکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیم سے اپنے ووٹروں کے ڈرائنگ اور ڈائننگ روم تک میں داخل ہو کر بغیر کسی خوف کے اپنی تشہیر کرتے ہیں اور ان کا ذہن بناتے یا بگاڑتے رہتے ہیں۔
کیا یہ مقابلے میں تمام حریفوں کو یکساں موقع دینے اور سب کے ساتھ یکساں سلوک کرنے کے منصفانہ امپائرنگ کے بنیادی اصول کے مطابق ہے؟
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)