یورپ کے رکن پارلیامان نے حکومت ہند سے کہا، انسانی حقوق کے کارکنوں پر کارروائی بند کریں

20 ممبرآف پارلیامنٹ نے حکومت ہند اور نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کو خط لکھ‌کر انسانی حقوق اور سماجی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کے خلاف لگے الزامات ہٹانے اور جیل میں بند لوگوں کو رہا کرنے کی درخواست کی ہے۔

 20 ممبرآف پارلیامنٹ نے حکومت ہند اور نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کو خط لکھ‌کر انسانی حقوق اور سماجی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کے خلاف لگے الزامات ہٹانے اور جیل میں بند لوگوں کو رہا کرنے کی درخواست کی ہے۔

خط لکھنے والے یورپ کے رکن پارلیامان (وکی میڈیا کامنس اور ٹوئٹر)

خط لکھنے والے یورپ کے رکن پارلیامان (وکی میڈیا کامنس اور ٹوئٹر)

نئی دہلی: یورپ کے پارلیامنٹ کے20 ممبروں نے حکومت ہند اور نیشنل ہیومن رائٹس  کمیشن (این ایچ آر سی) کو خط لکھ‌کر انسانی حقوق کےکارکنوں  کے خلاف کارروائی پرتشویش  کااظہار کیا ہے۔ رکن پارلیامان نے ہندوستان سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے یہاں شہری سماجی کارکنان کے لئے کھلا ماحول بنائے۔رکن پارلیامان نے انسانی حقوق کے کارکنان کے تناظر میں مرکزی وزیر روی شنکر پرساد، قبائلی معاملوں کے وزیر جوال اورام اور سوشل جسٹس  کے وزیر تھاورچند گہلوت اور این ایچ آر سی کے رابطہ افسر کو مخاطب کرتے ہوئے خط لکھا ہے۔

یورپ کے رکن پارلیامان نے لکھاہے کہ ،ہندوستان دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت ہے اور یورپی یونین کا ایک اہم اسٹریٹجک شیئر ہولڈر ہے۔ دونوں کے تعلقات انسانی حقوق، جمہوریت اور قانون کی حکومت کے مشترکہ اقدار پر مبنی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ملک بھر میں انسانی حقوق کے کارکنان اور تنظیموں پر حال ہی میں ہوئے حملوں اور کارروائی کو لے کر فکرمند ہیں۔حکومت ہند کو لکھے گئے خط میں رکن پارلیامان کہتے ہیں، ملک میں تمام حراست میں لئے گئے انسانی حقوق کےکارکنان کو چھوڑیں، ان کے خلاف تمام الزامات کو ہٹائیں اور بنا کسی خوف کے ان کو اپنا کام کرنے کی اجازت دیں۔ ‘

خط میں ایک کے بعد ایک کئی واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ خط کی شروعات جنوری 2018 میں ہوئے بھیما کورےگاؤں تشدد کے لئے گزشتہ سال جون میں گرفتار کئے گئے تین دلت سماجی کارکنوں، ایک پروفیسر اور ایک سماجی کارکن کی گرفتاری سے کی گئی ہے۔ ان پریو اے پی اے کے تحت الزام لگائے گئے تھے۔ایک مہینے بعد، جھارکھنڈ پولیس نے ریاستی حکومت کی تنقید کے لئے قبائلی حقوق کے لئے لڑنے والے 20 سماجی کارکنان پر سیڈیشن کے معاملے درج کئے تھے۔

پھر اگست میں، سدھا بھاردواج، ورنان گونجالوس، ورورا راؤ، گوتم نولکھا اور ارون فریرا کو مختلف شہروں میں گرفتار کیا گیا، ان پر دہشت گردی سے متعلق الزام لگائے گئے۔ایک دیگر دلت کارکن، ڈگری پرساد چوہان کو بھی پولیس کے ذریعے اربن نکسل معاملے میں پھنسانے کا ذکر کیا گیا ہے۔خط میں مرکزی حکومت کے ذریعے اسپانسرشدہ اور مالی امداد یافتہ سلیم-چنئی گرین کاریڈور’شاہراہ منصوبہ کی مخالفت کرنے کے لئے گزشتہ سال جون میں ولارماٹھی مڈھائن اور پیوش مانس کی گرفتاری کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ، ای ڈی نے بنگلور میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ہندوستانی دفتر پر چھاپے مار‌کر 25 اکتوبر کو این جی او کے بینک کھاتے کو فریزکرنے کی بات خط میں لکھی گئی ہے۔خط میں کہا گیا ہے، ہندوستان میں شہری آزادی، زمین اور ماحولیاتی حقوق، دیسی اور اقلیتی حقوق کے لئے لڑنے والوں اور ہندوستانی جمہوریت کی ریڑھ مانے جانے والوں کی گرفتاری، جوڈیشل عتاب اور قتل دراصل ان انسانی حقوق کے کارکنان کو ڈرانے کی مثال ہے۔ ‘

یورپی وزراء نے ہندوستان سے انسانی حقوق کارکنان پر کی جا رہی کارروائیوں کو  فوراً ختم کرنے، سبھی کو رہا کرنے، الزامات کو ہٹانے اور تمام جوڈیشیل عتاب کو روکنے کی درخواست کی ہے۔اس کے ساتھ ہی خط میں لکھا گیا ہے کہ ہندوستانی افسروں کو شہری سماج کے لئے کھلا ماحول تیار کرنے اور ایک ایسا ماحول بنانے کی سمت میں کام کرنا چاہیے جس سے انسانی حقوق کےکارکن اپنا کام کر سکیں۔