سولہ ہندوستانی صحافیوں پر یو اے پی اے کے تحت الزام عائد کیے گئے ہیں، اس وقت 7 سلاخوں کے پیچھے ہیں

گزشہ چند سالوں میں صحافی، انسانی حقوق کے کارکن، وکیل، طالبعلم، مزدور اور آدی واسی پر الزام لگانے کے لیے یو اے پی اے کا بے تحاشہ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جموں و کشمیر میں پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) اور چھتیس گڑھ پبلک سیفٹی ایکٹ، نیشنل سیکورٹی ایکٹ (این ایس اے) اور آئی پی سی میں سیڈیشن جیسے دیگر ایکٹ بھی لاگو کیے گئے ہیں۔

گزشہ چند سالوں میں صحافی، انسانی حقوق کے کارکن، وکیل، طالبعلم، مزدور اور آدی واسی پر الزام لگانے کے لیے یو اے پی اے کا بے تحاشہ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جموں و کشمیر میں پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) اور چھتیس گڑھ پبلک سیفٹی ایکٹ، نیشنل سیکورٹی ایکٹ (این ایس اے) اور آئی پی سی میں سیڈیشن جیسے دیگر ایکٹ بھی لاگو کیے گئے ہیں۔

 (السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

نئی دہلی: سخت قوانین کے تحت ملزم بنائے جانے والے صحافیوں کے اعداد و شمارہندوستان میں اظہار رائے کی آزادی کی تشویشناک صورتحال کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ 2010 سے اب تک ملک میں 16 صحافیوں پر یو اے پی اے کے تحت الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

جب یو اے پی اے کا استعمال ان صحافیوں کے خلاف کیا جاتا ہے جو مختلف مسائل کی تحقیقات اور رپورٹنگ کرنا چاہتے ہیں، تو یہ ان کے جائز کام کو مجرمانہ بنانے اور انہیں ‘دہشت گرد’ کے طور پر بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے پیشہ ور افراد کو بڑے پیمانے پر مضر اثرات ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔

دہشت گردانہ سرگرمیوں کو روکنے کے لیے یو اے پی اے کو متعارف کرایا گیا تھا۔ اس کا تعزیری عمل جیل کو قاعدہ اور ضمانت کو استثنیٰ بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ مقدمات درحقیقت دہائیوں تک چلتے رہتے  ہیں۔ اس دوران دو لوگ یو اے پی اے سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ان میں سے ایک کو الزام سے بری اور دوسرے کو رہا کر دیا گیا۔

نیوز ویب سائٹ نیوز کلک کے ایڈیٹر پربیر پرکایستھ کی گرفتاری کی تازہ ترین مثال سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ دہائی میں حب الوطنی، قومی سلامتی اور مبینہ ملک مخالف سرگرمیوں کو یو اے پی اے کے تحت الزامات  کی سیریز میں شامل کیا گیا ہے۔

پرکایستھ اور اس کے ایچ آر ہیڈ امت چکرورتی کے خلاف ایف آئی آر میں یو اے پی اے کی دفعہ 13 (غیر قانونی سرگرمی)، 16 (دہشت گردانہ کارروائیاں)، 17 (دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے فنڈ اکٹھا کرنا)، 18 (سازش) اور 22 سی (کمپنیوں اور ٹرسٹوں کے ذریعے کیے گئے جرائم) کے ساتھ ساتھ انڈین پینل کوڈ (آئی پی سی) کی دفعہ 153اے (مختلف گروپوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) اور 120 بی (مجرمانہ سازش) کے تحت الزام لگائے گئے ہیں۔

میڈیا کے خلاف دفعہ 153 اے قانون نافذ کرنے والی جانچ ایجنسیوں کی ایک پسندیدہ دفعہ ہے، جس کا استعمال نہا دکشت اور پرانجوئے گہا ٹھاکرتا سمیت کئی صحافیوں کے خلاف کیا گیا ہے۔

گزشہ چند سالوں میں صحافی، انسانی حقوق کے کارکن، وکیل، طالبعلم، مزدور اور آدی واسی  پر الزام لگانے کے لے یو اے پی اے کا بے تحاشہ استعمال کیاگیا ہے۔ اس کے علاوہ جموں و کشمیر میں ان لوگوں کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) اور چھتیس گڑھ پبلک سیفٹی  ایکٹ، نیشنل سکیورٹی ایکٹ (این ایس اے) اور آئی پی سی میں سیڈیشن جیسے دیگر ایکٹ بھی لاگو کیے گئے ہیں۔ یہی نہیں صحافیوں پر بھی ان ایکٹ کے تحت الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

اظہار رائے کی آزادی اور اختلاف رائے کے حق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم ‘فری اسپیچ کلیکٹو’ نے ‘بہائنڈ بارز’ کے عنوان سے ایک دہائی (2010-20) میں ہندوستان میں گرفتار کیے گئے صحافیوں کا مطالعہ کیا ہے۔

تحقیق کے مطابق ہندوستان میں 154 صحافیوں کو ان کے پیشہ ورانہ کام  کے لیے گرفتار کیا گیا، حراست میں لیا گیا، ان سے پوچھ گچھ کی گئی یا شوکاز نوٹس دیے گئے اور ان میں سے 40 فیصد سے زیادہ معاملے 2020 میں درج کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ 9 غیر ملکی صحافیوں کو ملک بدری، گرفتاری، پوچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑا یا انہیں ہندوستان میں داخلے سے محروم کردیا گیا۔

جمہوریت میں صحافی خبروں اور معلومات کے سفیر ہوتے ہیں۔ انہیں خاموش کرانے سے ان کی رپورٹنگ اور اہم مسائل پرتبصرے ختم ہو جائیں گے اور شہریوں کے بغیر کسی خوف کے معلومات تک رسائی کے جمہوری حق سےبھی سمجھوتہ ہوگا۔

ہندوستان میں یو اے پی اے کے تحت صحافی (2010 سے آج تک)

اس وقت یو اے پی اے کے تحت ملزم بنائے گئے صحافیوں کی تعداد 16 ہے۔

یو اے پی اے کے تحت جیل میں 7 صحافی بند ہیں۔

یو اے پی اے کے الزام میں ضمانت پر رہ رہے صحافی 8 ہیں۔

الزامات لگائے گئے لیکن گرفتار نہیں کیے  گئے صحافی کی تعداد ایک ہے۔

الزام سےبری کیے گئےصحافی کی تعداد 1 ہے

بری کیے گئے صحافی  کی تعداد 1 ہے۔

یو اے پی اے کے تحت گرفتار اور پولیس کی حراست میں

پربیر پرکایستھ (ایڈیٹر، نیوز کلک) – 03/10/2023 کو نئی دہلی میں گرفتار کیا گیا۔

جیل میں بند صحافی

آصف سلطان (رپورٹر، کشمیرنیریٹر) – 27/08/2018؛ سری نگر (جموں کشمیر)

فہد شاہ (ایڈیٹر، کشمیر والا) – 04/02/2022؛ پلوامہ (جموں و کشمیر)

سجاد گل، (ٹرینی رپورٹر، کشمیر والا) – 05/01/2022؛ باندی پورہ (جموں کشمیر)

روپیش کمار (آزاد صحافی) – 17/07/2022 رام گڑھ (جھارکھنڈ)

عرفان مہراج (ایڈیٹر، وانڈے پتریکا) – 21/03/2023 سری نگر (جموں کشمیر)

گھر میں نظر بند

گوتم نولکھا (مصنف اور کنسلٹنٹ ایڈیٹر، نیوز کلک) 30/08/2018 (نظربند)، 20/04/2020 (سرینڈر اور جیل)، 19/11/2022 (نظر بند)۔

ضمانت پر صحافی (گرفتاری کی تاریخ سے)

سیما آزاد (ایڈیٹر، دستک؛ الہ آباد، یو پی) – فروری 2010 میں گرفتار کیا گیا، اگست 2012 میں ضمانت ملی۔ 06/09/2023 کو چھاپہ مارا گیا۔

وشو وجے (ایڈیٹر، دستک؛ الہ آباد، یوپی) – فروری 2010 میں گرفتار کیا گیا، اگست 2012 میں ضمانت ملی۔ 06/09/2023 کو چھاپہ مارا گیا۔

کے کے شاہینہ (صحافی، آؤٹ لک) – دسمبر 2010 میں  معاملہ درج کیا گیا؛ جولائی 2011 میں پیشگی ضمانت دی گئی۔

صدیق کپن (صحافی، دہلی) – 05/10/2020 کو گرفتار کیا گیا، 09/09/2023 کو یو اے پی اے کیس میں ضمانت دی گئی اور 23/12/2023 کو منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت دی گئی۔

پاوجیل چاوبا (ایگزیکٹیو ایڈیٹر، دی فرنٹیئر منی پور؛ امپھال) – 17/01/2021 کو گرفتار کیا گیا، 18/01/2021 کو ضمانت دی گئی۔

دھیرین سدوکپم (ایڈیٹر، دی فرنٹیئر منی پور؛ امپھال) – 17/01/2021 کو گرفتار کیا گیا، 18/01/2021 کو ضمانت دی گئی۔

شیام میرا سنگھ (آزاد صحافی، نئی دہلی) پر 10/11/2021 کوالزام  عائد کیا گیا، 18/11/2023 کو پیشگی ضمانت ملی۔

منن ڈار (فوٹو جرنلسٹ، سری نگر، جموں و کشمیر) 22/10/2021 کو گرفتار کیا گیا، 04/01/2023 کو ضمانت دی گئی۔

الزام لگایا گیا، لیکن گرفتارنہیں کیا گیا

مسرت زہرہ (فوٹو جرنلسٹ، سری نگر) 18/04/2020 کو معاملہ درج کیا گیا تھا۔

الزام سے بری

سنتوش یادو (بستر، چھتیس گڑھ) – ستمبر 2015 میں گرفتار کیا گیا، 02/01/2020 کو الزام سےبری کر دیا گیا۔

رہا

کامران یوسف (پلوامہ، جموں و کشمیر) – ستمبر 2017 میں گرفتار کیا گیا، 16/03/2022 کو بری کر دیا گیا۔

یہ رپورٹ فری اسپیچ کلیکٹو میں شائع ہوئی ہے۔