گجرات فسادات کے دوران ہلاک ہوئے کانگریس کے سابق رکن پارلیامنٹ احسان جعفری کی اہلیہ ذکیہ جعفری نے 2002 کے فسادات کے دوران گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی سمیت 64 لوگوں کو ایس آئی ٹی کی کلین چٹ کو چیلنج کیاہے۔انہوں نے کہا کہ گجرات فسادات میں تشدد کو ‘سوچ سمجھ کر’ انجام دیا گیا تھا۔
ذکیہ جعفری۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: گجرات فسادات کے دوران مارے گئے کانگریس کے سابق رکن پارلیامنٹ احسان جعفری کی اہلیہ ذکیہ جعفری نے منگل کو سپریم کورٹ میں کہا کہ 2002 کے گجرات فسادات میں تشدد کو‘سوچ سمجھ کر’انجام دیا گیا تھا۔
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ جمہوریت ایک جہاز کی طرح ہے، جو صرف تبھی مستحکم رہےگا جب ‘قانون کی عظمت’برقرار رہےگی۔
احمدآباد میں گل برگ سوسائٹی میں 28 فروری، 2002 کو تشدد کے دوران مارے گئے کانگریس لیڈر احسان جعفری کی اہلیہ ذکیہ جعفری نے فسادات کے دوران گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی سمیت 64 لوگوں کو ایس آئی ٹی کی جانب سے دی گئی کلین چٹ کو چیلنج کر رکھا ہے۔
فسادات کے دوران بڑی سازش کا الزام لگانے والی ذکیہ جعفری کی جانب سے پیش سینئر وکیل کپل سبل نے جسٹس اے ایم کھانولکر، جسٹس دنیش مہیشوری اور جسٹس سی ٹی روی کمار کی تین رکنی بنچ کو بتایا کہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جہاں قانون کی عظمت ‘شدید طور پرمجروح’ہوئی ہے۔
گودھرا کے2002 کے واقعات اور اس کے بعد کے فسادات کو ‘قومی سانحہ’ بتاتے ہوئے سبل نے کہا کہ عرضی گزار اس بات سےفکرمند ہیں کہ قانون کی عظمت ایسے مدعوں سے کیسے نمٹےگی جب لوگ جانوروں کی طرح سلوک کرتے ہیں۔
جعفری کی جانب سے ریکارڈ پر رکھے گئےمواد کا ذکر کرتے ہوئے سبل نے بنچ سے کہا،‘یہ قتل یاتشدد کے کسی ایک ذاتی معاملے سے مخصوص نہیں ہے۔ یہ ایسا تشدد ہے جس کو سوچ سمجھ کر انجام دیا گیا تھا اور دستاویزوں سے اس کا پتہ چلتا ہے۔’
سبل نے کہا کہ یہ دستاویزسرکاری ریکارڈ کا حصہ ہیں اورایس آئی ٹی نے ان پہلوؤں کی جانچ ہی نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ عرضی گزار کسی خاص فرد کا ذکر نہیں کر رہی اور نہ ہی کسی کے خلاف مقدمہ چلانے کی ان کی خواہش ہے۔
سبل نے کہا،‘یہ مدعا افرادپر مقدمہ چلانے کےمدعے سے بہت بڑا ہے۔ یہ اس ملک کی سیاست سے متعلق ہے۔ یہ اس طور طریقے سے متعلق ہے جس میں اداروں کوقومی ایمرجنسی میں کام کرنا ہوتا ہے۔ یہ ایک قومی ایمرجنسی تھی۔ سابرمتی(ٹرین)میں جو ہوا، وہ قومی ایمرجنسی تھا۔’
سال 2002 میں سابرمتی ایکسپریس کے ایس6 ڈبے کو گودھرا میں جلا دیا گیا تھا، جس میں 59 لوگوں کی موت ہو گئی تھی اور اس کے بعد گجرات میں دنگے ہوئے تھے۔
بحث کے دوران سینئر وکیل نے کہا کہ سابرمتی ایکسپریس کے واقعہ کے بعد جو ہوا وہ ‘قومی سانحے’ کی طرح تھا۔
سبل نے کہا، ‘میں اس بات سے فکرمند ہوں کہ قانون کی عظمت ایسے مدعوں سے کیسے نمٹےگی جب لوگ جانوروں کی طرح سلوک کرتے ہیں۔’
انہوں نے کہا،‘اس لیےمیں آئین کو دیکھ رہا ہوں اور خود سے کہہ رہا ہوں، ہمارے سسٹم میں قانون کی حکمرانی کے تحت کیا اس کی اجازت دی جا سکتی ہے اور اگر اس کی اجازت دی جا رہی ہے تو ہماری حفاظت کون کرےگا؟’
سبل نے کہا کہ ایس آئی ٹی نے ریکارڈ پر دستیاب کئی پہلوؤں اور مواد کی جانچ نہیں کی تھی اور نچلی عدالت نے بھی اس پر غور نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ شاید ہی کسی کے پاس سازش کا براہ راست ثبوت ہو سکتا ہے اور یہ اس وقت کے حالات کے شواہد پر مبنی ہے جو جانچ ہونے پر ہی سامنے آئےگا۔
انہوں نے کہا، ‘اگر آپ جانچ نہیں کرتے ہیں تو آپ کبھی بھی حالات کا پتہ نہیں لگا پائیں گے اور آپ کبھی بھی سازش کا پتہ نہیں لگا پائیں گے۔’
سبل نے اپنی دلیل میں کہا، ‘یہاں سازش قائم کرنے کے لیے نہیں ہوں۔ یہ میرا کام نہیں ہے۔ یہ ایس آئی ٹی کا کام ہے۔’
سبل نے کہا، ‘میری شکایت یہ ہے کہ انہوں نے اس کی جانچ نہیں کی۔’
سبل نے اپنی دلیل یہ کہتے ہوئے ختم کی،‘جمہوریت ایک جہاز کی طرح ہے۔ اسے مستحکم بنانا ہوگا اور جہاز صرف تبھی مستحکم رہےگا جب قانون کی عظمت قائم رہے۔’
انڈین ایکسپریس کےمطابق،جعفری نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ تفتیش کاروں نے لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ کا بیان درج نہیں کیا، جنہوں نے فوج کےدستے کی قیادت کی تھی اورصوبے میں امن بحال کیا تھا۔ یہ پتہ لگانے کے لیے کہ فورسز کوفوراً رسائی دی گئی تھی یا نہیں۔
کپل سبل نے کہا، ‘ان کا بیان درج نہیں کیا گیا۔ انہیں فوراً رسائی دی گئی یا نہیں؟ اگر انہیں فوراً رسائی نہیں دی گئی، تو ایسا کیوں ہوا؟’
لیفٹیننٹ جنرل شاہ کی ایک یاد داشت کا ذکر کرتے ہوئے سبل نے کہا کہ کتاب میں کہا گیا ہے کہ نقل وحمل کی کمی کی وجہ سے وہ(فوج)ایئر فیلڈ میں پھنسے رہے۔
انہوں نے کہا، ‘میں اسے ٹھوس ثبوت کے طور پر استعمال نہیں کر رہا ہوں۔ اگر انہوں نے ان کا بیان لیا ہوتا تو یہ سب ریکارڈ میں آ جاتے۔’
بنچ نے جاننا چاہا کہ کتاب کب شائع ہوئی۔ سبل کے 2018 کے کہنے کے بعد عدالت نے جواب دیا،‘تو یہ ایس آئی ٹی کے سامنے نہیں تھی۔’
سبل نے کہا کہ سابق افسر نے کہا تھا،‘انتظامیہ کاشروعاتی ردعمل سست تھا اور یہاں تک کہ وہ سرکاری ملازمین سے بھی رابطہ نہیں کر سکے۔’
سبل نے کہا،‘یہ سرکاری ریکارڈ کا ایک حصہ تھا، وہ اس کی جانچ کر سکتے تھے۔ یہ سب درج کیا گیا تھا تھا، اس کی جانچ کیوں نہیں کی گئی؟’
انہوں نے کہا کہ عرضی گزار نے آر ٹی آئی کے تحت آپریشن امن کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ جنرل شاہ کو گجرات میں امن بحال کرنے کے لیے میڈل ملا، لیکن ان کے پاس کہنے کے لیے اچھےلفظ نہیں تھے۔
یہ کہتے ہوئے کہ میڈیا کے ذریعے بہت زیادہ غیرمہذب زبان کو نشر کیا گیا تھا، سبل نے کہا کہ ایڈیٹرس گلڈ نے ایک رپورٹ میں این ایچ آرسی کےنتائج سے اتفاق کیا تھا کہ میڈیا کی ذمہ داری کی جانچ کی جانی چاہیے تھی۔
انہوں نے کہا، ‘فتح پور مسجد سے اندھادھند گولی باری کے بارے میں خبریں تھیں اور یہ پوری طرح سے فرضی تھیں۔اگر آپ کہانیاں گڑھتے ہیں اور انہیں اخبار کے پہلےصفحے پر چھاپتے ہیں تو کیا ہوگا؟ جو ہوا وہ ہوگا۔’
سبل نے کہا کہ اس وقت کے اےڈی جی پی آر بی شری کمار نے کہا تھا کہ خفیہ جانکاری دستیاب تھی لیکن احمدآباد کے پولیس کمشنرکی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔
سبل نے کہا کہ شری کمار نے کہا تھا کہ انہوں نے خصوصی طور پر بتایا تھا کہ وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے ممبر کارروائی پر غور کر رہے تھے اور میڈیا نے اسے زندہ رکھنے میں فیصلہ کن رول نبھایا۔
انہوں نےاس وقت کے بھاؤنگر ایس پی راہل شرما کے بیان کو بھی عدالت میں رکھا۔ سبل نے کہا کہ شرما نے کہا ہے کہ فسادات میں موبائل فون کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا تھا۔
سبل نے کہا، ‘یہاں ایک پولیس افسر کہہ رہا ہے کہ موبائل فون کا استعمال کیا گیا تھا۔ پھر آپ نے موبائل فون ضبط کیوں نہیں کیا۔ کال ریکارڈ کی کبھی جانچ نہیں کی گئی۔’
انہوں نے کہا، ‘شرما نے بتایا تھا کہ کیسےسیاسی لیڈروں نے ملزم کی ضمانت کے لیے ان سے رابطہ کیا اور یہ سیاسی دخل اندازی کوظاہر کرتا ہے۔’
فسادات میں سازش کےعناصر پر زور دیتے ہوئے سبل نے کہا، ‘سازش تبھی قائم کی جا سکتی ہے جب جانچ کی جائے۔ سوال یہ ہے کہ سب کون شامل تھے۔ یہ صرف جانچ پرمنحصر کرےگا۔ اس لیے ہم آپ سے کہہ رہے ہیں کہ کچھ جانچ ہونی چاہیے۔’
انہوں نے کہا کہ شرما نے بتایا تھا کہ کیسےسیاستدانوں نے ملزم کی ضمانت کے لیے ان سے رابطہ کیا اور کہا تھا کہ یہ‘سیاسی دخل اندازی ’ کوظاہر کرتا ہے۔
بنچ نے سبل کی دلیلیں سننے کے بعد کہا کہ وہ ایس آئی ٹی کی جانب سے سینئر وکیل مکل روہتگی کی دلیلیں بدھ کو سنےگی۔
سبل نے اس سے پہلے دلیل دی تھی کہ ذکیہ جعفری کی 2006 کی شکایت یہ تھی کہ ایک بڑی سازش ہوئی تھی، جہاں نوکر شاہی کی بے حسی، پولیس کی ملی بھگت، نفرت انگیز بیانات، نعرےبازی اور تشدد کو بڑھاوا دیا گیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ گودھرا میں سابرمتی ایکسپریس کے ایس 6 کوچ میں آگ لگائے جانے سے 59 لوگوں کے مارے جانے کے ٹھیک ایک دن بعد 28 فروری، 2002 کو احمدآباد کی گل برگ سوسائٹی میں 68 لوگ مارے گئے تھے۔ فسادات میں مارے گئے ان لوگوں میں ذکیہ جعفری کے شوہر احسان جعفری بھی شامل تھے۔
واقعہ کے تقریباً 10 سال بعد آٹھ فروری، 2012 کو ایس آئی ٹی نے مودی اور 63 دیگر کو کلین چٹ دیتے ہوئے ‘کلوزر رپورٹ’ داخل کی تھی۔ مودی اب ملک کے وزیر اعظم ہیں۔
کلوزر رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ جانچ ایجنسی کو ملزمین کے خلاف ‘مقدمہ چلانےکے کوئی ثبوت نہیں ملے’۔
سپریم کورٹ کی جانب سےبنی ایس آئی ٹی کے سال 2012 میں سونپی گئی کلوزر رپورٹ کے خلاف ذکیہ نے سال 2014 میں گجرات ہائی کورٹ کا رخ کیا تھا، جس نے ایس آئی ٹی کی کلوزر رپورٹ کی قانونی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے ذکیہ کے الزامات کو خارج کر دیا۔
حالانکہ گجرات ہائی کورٹ نے ذکیہ کے الزامات کو لےکر کسی اور عدالت میں معاملے کی نئے سرے سے جانچ کرانے کی اجازت دی تھی اور ٹرائل کورٹ کے اس فیصلے کو پلٹ دیا، جس میں معاملے کی نئے سرے سے جانچ کے امکان کو یہ مانتے ہوئے خارج کر دیا کہ ایس آئی ٹی سپریم کورٹ کی نگرانی میں جانچ کر رہی تھی۔
ذکیہ نے ایس آئی ٹی کے فیصلے کے خلاف دائر عرضی کو خارج کرنے کے گجرات ہائی کورٹ کے پانچ اکتوبر، 2017 کے آرڈرکو سال 2018 میں سپریم کورٹ میں چیلنج کیاتھا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)