احمد آباد کی ایڈوٹیسٹ کمپنی کو یوپی حکومت نے بلیک لسٹ کیا ہے، لیکن اب یہ پی ایم نریندر مودی کی قیادت والی سی ایس آئی آر میں بھرتی امتحان کے دوسرے مرحلے کا انعقاد کر رہی ہے۔ اس امتحان کے کچھ امیدوار پہلے مرحلے کے دوران ہوئے نقل کے الزام میں جیل میں ہیں۔
نئی دہلی: اتر پردیش حکومت نے پیپر لیک معاملے میں احمد آباد کی جس ایڈوٹیسٹ سالیوشنز پرائیویٹ لمیٹڈکو گزشتہ ہفتے بلیک لسٹ کیا تھا ، وہ کمپنی اگلے ہفتے وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی سی ایس آئی آر میں سیکشن آفیسر (ایس او) اور اسسٹنٹ سیکشن آفیسر (اے ایس او) کے عہدوں کے لیے امتحان منعقد کر رہی ہے۔
دی وائر نے اپنی پچھلی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ایڈوٹیسٹ کے بانی سریش چندر آریہ ایک ہندو آرگنائزیشن کے صدر ہیں، پی ایم مودی ان کے پروگراموں میں شریک ہوتے ہیں۔ کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر ونیت آریہ کو ماضی میں جیل ہوچکی ہے،اس کے باوجود اس کو بی جے پی حکومتوں سے امتحان کے ٹھیکے ملتے رہے ہیں۔ پیش ہے اس کمپنی اور بی جے پی کے درمیان تعلقات پر دی وائر کی خصوصی پڑتال کی دوسری قسط۔
تنازعات
سائنس اور ٹکنالوجی کی وزارت کے تحت آنے والے سی ایس آئی آر کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق ، ایس او اور اے ایس او کےلیے دوسرے مرحلہ کے امتحانات7 جولائی 2024 کو ہوں گے۔ اس مرحلے میں صرف وہی امیدوار شامل ہوں گے، جنہوں نے پہلے مرحلے کا امتحان پاس کیا ہے۔
سی ایس آئی آر نے اس حقیقت کو بالکلیہ نظر انداز کر دیا ہے کہ یہ امتحان کئی تنازعات کے دائرے میں ہے۔
پہلا، اس امتحان کو احمد آباد کی وہی کمپنی کروائے گی جسے اتر پردیش حکومت بلیک لسٹ کر چکی ہے، جس کے منیجنگ ڈائریکٹر ونیت آریہ کے بارے میں خبر آئی تھی کہ وہ یوپی پولیس کی گرفتاری سے بچنے کے لیے بیرون ملک فرار ہو گئے ہیں۔
دوسرا، اس کمپنی کے ذریعے کرائے گئے پہلے مرحلے کے امتحان میں ہوئی دھاندلی کی تحقیقات دو ریاستوں کی پولیس کر رہی ہے۔ امتحان کے اس مرحلے کی ذمہ داری بھی ایڈوٹیسٹ کے پاس تھی۔
تیسرا، امیدواروں کی جانب سےامتحان کے پہلے مرحلے میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزام کے بعد معاملہ سینٹرل ایڈمنسٹریٹو ٹریبونل (سی اے ٹی) میں ہے۔
چوتھا، پہلے مرحلے کے امتحان میں نقل کے الزام میں اس وقت کئی امیدوار جیل میں ہیں، لیکن ان کے نام اس مرحلے میں پاس ہونے والے امیدواروں کی فہرست میں ہیں۔
اس کے باوجود ایڈوٹیسٹ سی ایس آئی آر کے اس اہم امتحان کے دوسرے مرحلے کا انعقاد کر رہی ہے، جس کے چیئرمین خود وزیر اعظم مودی ہیں۔
پہلے مرحلے کے امتحان پر اٹھنے والے سوال
گزشتہ سال 19 اکتوبر کوسی ایس آئی آر نے ایس او اوراے ایس او کے عہدوں پر بھرتی کے امتحان کے انعقاد کے لیےایڈوٹیسٹ کو 8 کروڑ روپے (80004000) کا ٹھیکہ دیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگلے ہی دن یعنی 20 اکتوبر کو بہار اسکول اگزامینیشن بورڈ (پٹنہ) کے کنٹرولر نے ایڈوٹیسٹ کو ایک خط لکھا تھا کہ کمیٹی ان کی ایجنسی کو ‘شدید لاپرواہی’ اور ‘غیر پیشہ ورانہ رویے’ کی وجہ سے بلیک لسٹ کر رہی ہے۔ اس خط کی ایکسکلوسیو کاپی دی وائر کے پاس ہے۔
ان آسامیوں کے لیے امتحان 5 سے 20 فروری کے درمیان ملک کے مختلف مراکز پر آن لائن منعقد ہوا تھا۔ امیدواروں نے امتحان کے دوران بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات لگائے تھے ۔ 8 فروری 2024 کو پولیس نے اتراکھنڈ میں ایک مرکز پر چھاپہ مارا تھا۔
واقعہ کی جانکاری دیتے ہوئے دہرادون کے ایس ایس پی رورل اجئے سنگھ نے کہا تھا ، ‘نقل مافیا اور امتحان کا مرکز چلانے والے راج پور علاقے میں واقع آئی ٹی پارک اور ڈوئی والا میں واقع امتحان کے مرکز میں امیدواروں کو نقل کروا رہے تھے۔ سرور روم میں ریموٹ ایکسس لے کر امتحان کے سسٹم کو ہیک کیا گیا تھا۔’
راج پور پولیس اسٹیشن میں درج ایف آئی آر کے مطابق، مرکز سے پکڑے گئے انکت دھیمان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے 7 فروری کو امیدوار شیوین ڈباس (والد- بھوپیندر سنگھ، رول نمبر- 126241609، سیٹ نمبر – 66) کا پرچہ حل کرایا تھا۔
ایک اور ملزم سندیپ کمار نے پولیس کو بتایا کہ وہ انکت کے ساتھ مل کر اس دھاندلی کو انجام دے رہے تھے۔ سندیپ کی نشاندہی پر پولیس نے تمام الکٹرانک آلات ضبط کیے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انکت دھیمان نے جس شیوین ڈباس کو نقل کرانے کا دعویٰ کیا تھا، ان کا نام 3 جون کوسی ایس آئی آر کے جاری کردہ نتیجے میں شامل تھا۔
دہرادون کے ڈوئی والا میں واقع دون گھاٹی کالج آف پروفیشنل ایجوکیشن نام کے اگزام سینٹر میں بھی گڑبڑی کے معاملے سامنے آئے تھے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ، اگزام سینٹر پر نقل کے لیے باقاعدہ ایک کمرہ تیار کیا گیا تھا۔
ڈوئی والا کوتوالی کے سی او ابھینیہ چودھری نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا، ‘پولیس نے 5 لوگوں کو حراست میں لیا ہے۔ کچھ کا تعلق ہریانہ سے اور کچھ کا راجستھان سے بتایا جاتا ہے۔ دو ماسٹر مائنڈ فرار ہیں۔’
ڈوئی والا مرکز پر 14 فروری کو امتحان میں شریک ہوئے امیدوار وکرم سنگھ نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا، ‘میں دہرادون کا رہنے والا ہوں۔ انتہائی خراب علاقے میں امتحان کا مرکز تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ سی ایس آئی آر کو وہاں پیپر کروانے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ بالکل تھرڈ گرید سینٹر تھا۔’
امتحان کے مرکز کے حفاظتی انتظامات پر شک کا اظہار کرتے ہوئے وکرم نے کہا، ‘سی ایس آئی آر کا دعویٰ ہے کہ امتحان کے مرکز پر جیمر نصب تھا، لیکن جس طرح سے لوگ وہاں الکٹرانک آلات کا استعمال کر رہے تھے، اس سے صاف تھا ہے کہ وہاں کوئی جیمر نہیں تھا۔’
وکرم یہ بھی پوچھتے ہیں کہ ہریانہ اور راجستھان کے امیدواروں کو اتراکھنڈ میں اتنی دور امتحان کا مرکز کیوں دیا گیا تھا؟ کیا یہ نقل کو آسان بنانے کے لیے کیا گیا تھا؟
جیل میں بند دو امیدواروں نے پہلے مرحلے کا امتحان پاس کیا
اس معاملے میں ایک اور ایف آئی آر 20 فروری کو راجستھان کے کوٹ پتلی-بہروڑضلع کے بہروڑ پولیس اسٹیشن میں درج کی گئی تھی۔ ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ ملزم روی یادو نے اعتراف کیا کہ وہ ایس او اور اے ایس او بھرتی امتحان میں نقل کروا رہا تھا۔ اس کے لیے اس نے اسکرین شیئرنگ ایپ ‘ایمی ایڈمن ‘ کا استعمال کیا تھا ۔
ایف آئی آر میں روی یادو اور ان کے ساتھی یوگیش شرما کو ملزم بنایا گیا ہے۔ ان دونوں پر الزام ہے کہ وہ دو امیدوار سندیپ کمار ( ساکن چرکھی دادری، ہریانہ) اور مہیش کمار ( ساکن کھیرتھل تجارا، راجستھان) کی نقل کرانے میں مدد کر رہے تھے۔ روی اور یوگیش کے ساتھ ساتھ دونوں امیدوار بھی عدالتی حراست میں ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ 26 مارچ کو عدالت نے ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سندیپ کمار اور مہیش کمار کے نام پہلے مرحلے میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کی فہرست میں شامل ہیں۔
کیٹ میں پہنچا معاملہ
اپریل کے مہینے میں امیدوار سوربھ کمار (تبدیل شدہ نام)سی ایس آئی آر کے خلاف اس معاملےکو سینٹرل ایڈمنسٹریٹو ٹریبونل (کیٹ) میں لے گئے۔ درخواست گزار نے کہا کہ اس امتحان کے دوران ملک بھر میں کئی مراکز پر نقل کے معاملے سامنے آئے ہیں۔ اس دھاندلی میں امتحان کے مراکز کے ملازمین اور امتحان دینے والے ادارے کی ملی بھگت ہے۔ اگر امتحان کو رد نہیں کیا گیا تو یہ آئین کے آرٹیکل 14 (مساوات کا حق) کی خلاف ورزی ہوگی۔
پہلا مرحلہ پاس کرنے والے شبھم مشرا نے اس معاملے پر دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا، ‘جس ایجنسی کو امتحان کرانے کا کام سونپا گیا ہے، اس کے خلاف کئی سنگین الزامات ہیں۔ حکومتوں نے اس پر پابندی لگا رکھی ہے۔ امتحان کی شفافیت کو برقرار رکھنے کے لیےسی ایس آئی آر کو چاہیے کہ وہ ایڈوٹیسٹ کا معاہدہ منسوخ کرے اور جرمانہ بھی عائد کرے۔ اس ایجنسی کو کسی امتحان کی ذمہ داری نہیں دی جانی چاہیے۔ اس پر بالکل بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔’
سی ایس آئی آر نے 14 مئی کو کیٹ کے سامنے جوابی حلف نامہ میں اپنا موقف تفصیل سے پیش کیا۔ ایڈوٹیسٹ کے انتخاب کے سوال پر اس نے کہا کہ حکومت نے اس امتحان کے لیے ٹینڈر جاری کیا تھا۔ سب سے کم بولی لگانے والی ایڈوٹیسٹ سالیوشنز پرائیویٹ لمیٹڈ کو اصولوں کے مطابق اکتوبر 2023 میں کام سونپا گیا۔
سی ایس آئی آر نے اپنے حلف نامے میں کہا ہے، ‘ ایس او، اے ایس او کے عہدے کے لیے 4.75 لاکھ سے زیادہ امیدواروں نےدرخواست دی تھی۔ اسٹیج 1 کا امتحان ہندوستان بھر کے 19 بڑے شہروں میں 138 مراکز کے ساتھ طے کیا گیا تھا۔ ہر اگزام سینٹر پر تکنیکی معاونت، معائنہ، نگرانی اور مدد وغیرہ کے لیےتعلیم یافتہ ملازمین تعینات کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ سی ایس آئی آر ہیڈ کوارٹر نے اپنے دو سینئر افسران کو ان مقامات پر بطور آبزرور مقرر کیا تھا۔ حکومت کی جانب سے ہر مرکزپر جیمرز بھی لگائے گئے تھے۔ یہ امتحان سی سی ٹی وی کی نگرانی میں لیا گیا تھا۔ مرکزپر تمام امیدواروں کی تصویروں کے ساتھ بایو میٹرک ڈیٹا ڈیجیٹل طور پر کیپچر کیا گیا تھا۔’
لیکن دو مختلف ریاستوں میں ایف آئی آر کے باوجود سی ایس آئی آر یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کہ امتحان کے دوران کوئی گڑبڑی ہوئی ۔ سی ایس آئی آر کا کہنا ہے کہ ‘درخواست دہندگان بغیر کسی ثبوت کے دہرادون اور راجستھان میں درج دو ایف آئی آر کی بنیاد پر بھرتی کے پورے عمل میں خلل ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔’
راجستھان میں پیش آئے واقعے کے بارے میںسی ایس آئی آر نے کہا ہے، ‘امتحان کی آخری تاریخ (20.02.2024) کے بعد، راجستھان کے کوٹ پتلی-بہروڑ میں نقل کا ایک واقعہ رپورٹ ہوا تھا۔ راجستھان پولیس نے 21.02.2024 کو ایف آئی آر درج کی تھی اور چند لوگوں کو چندی گڑھ/دہلی اگزام سینٹر پر اسکرین شیئرنگ ایپ کی مدد سے نقل کرانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔’
یعنی ایف آئی آر اور گرفتاری کو قبول کرنے کے باوجود سی ایس آئی آر یہ قبول نہیں کرنا چاہتا کہ امتحان میں دھاندلی ہوئی ہے، اس کے برعکس اس کا دعویٰ ہے کہ متاثرہ امیدوار اور درخواست گزار ‘ بھرتی کے عمل میں خلل ڈال رہے ہیں’۔
امیدوار پورے عمل کو رد کرکے دوبارہ امتحان لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن سی ایس آئی آر کا کہنا ہے، ‘غیر واضح الزامات کی بنیاد پر ایسا نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ معاملوں میں الزامات بالکل غیر واضح ہیں…’
سی ایس آئی آر کے اس ردعمل پر کہ اسے واضح ثبوت کی ضرورت ہے، شبھم مشرا نے کہا، ‘اگر امیدوار ثبوت اکٹھا کرنے کا کام کریں گے، تو کنڈکٹنگ باڈی کیا کرے گی؟ سی ایس آئی آر اپنی ذمہ داری سے بچنا چاہتی ہے؟’
سی ایس آئی آر نے یہ بھی کہا ہے کہ ‘داغدار امیدواروں کو بے داغ امیدواروں سے الگ کرنے کی کوشش کی جائے گی’، لیکن اس کے باوجود کم از کم تین امیدوار (شیوین ڈباس، سندیپ کمار اور مہیش کمار) ایسے ہیں جن پر پہلے مرحلے میں نقل کے الزام لگے ہیں ، اس کے باوجود انہوں اس مرحلے کا امتحان پاس کیا۔ ان میں سے دو جیل میں ہیں۔
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے شبھم مشرا نے کہا، ‘سی ایس آئی آر نے ہمیں یقین دہانی کرائی تھی کہ تمام داغدار امیدواروں کا آڈٹ کروانے کے بعد انہیں باہر نکال دیا جائے گا، لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا ہے۔’
انہوں نے کہا، ‘ان کی (سندیپ اور مہیش) کی ضمانت کی درخواستیں دو بار مسترد ہو چکی ہیں۔ کم از کم ان کا نتیجہ توہولڈکیا جا سکتا تھا۔’
دی وائر نے ایک مفصل سوالنامہ سی ایس آئی آر اور ایڈوٹیسٹ کو میل کیاہے۔ ہمارے رپورٹر سی ایس آئی آر کے دفتر بھی گئے ، عہدیداروں سے رابطہ کیا۔ لیکن ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا ہے۔