ساتھ ہی کانگریس کی مجوزہ نیائے اسکیم کی تنقید کو لےکر الیکشن کمیشن نے نیتی آیوگ کے نائب صدر راجیو کمار کو بھی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا مجرم ٹھہرایا۔
نئی دہلی: ’مودی جی کی سینا ‘والے بیان پر اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے جواب سے الیکشن کمیشن مطمئن نہیں ہے اور ان کو انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا مجرم پایا ہے۔ حالانکہ کمیشن نے ان کو نصیحت کرتے ہوئے چھوڑ دیا۔انڈین ایکسپریس کے مطابق، الیکشن کمیشن نے اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو آئندہ انتخابی تقریروں میں فوج کے ذکر کو لےکر زیادہ احتیاط برتنے کی نصیحت دی۔
جمعہ کو الیکشن کمیشن کو دئے اپنے جواب میں اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے 31 مارچ کو غازی آباد میں ایک ریلی کے دوران دیے گئے اپنے ایک تبصرہ کا بچاؤ کیا۔ اپنے جواب میں آدتیہ ناتھ نے کہا کہ ‘ مودی جی کی سینا’ سے ان کا مطلب ملک کی فوج سے تھا۔آدتیہ ناتھ نے کہا کہ انہوں نے کچھ بھی غلط نہیں کہا کیونکہ فوجی دستوں کے سپریم کمانڈر صدر جمہوریہ نے وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی حکومت کی صلاح پر کارروائی کی تھی اور اس لئے ان کا تبصرہ دوسرے الفاظ میں ہندوستانی فوج کا ذکر کرنے کو لےکر تھا۔
آدتیہ ناتھ نے اپنا یہ جواب بدھ کو ان کو جاری کئے گئے اس وجہ بتاؤ نوٹس کے جواب میں دیا جس میں فوج سے جڑی سرگرمیوں کو سیاسی استعمال کے لئے ان کو پہلی نظر میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا مجرم پایا گیا تھا۔قابل ذکر ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ نے غازی آباد سے رکن پارلیامان، مرکزی وزیر اور سابق فوجی سربراہ وی کے سنگھ کی حمایت میں اتوار کو انتخابی جلسہ کے دوران یہ تبصرہ کیا تھا۔ اس میں یوگی نے کہا، ‘ کانگریس کے لوگ دہشت گردوں کو بریانی کھلاتے تھے اور مودی جی کی سینا دہشت گردوں کو گولی اور گولہ دیتی ہے۔ ‘
اپنے حکم میں کمیشن نے پایا کہ آدتیہ ناتھ کے بیان نے اس کی ان ہدایات کی خلاف ورزی کی ہے جس میں اس نے سیاسی جماعتوں سے اپیل کی تھی کہ وہ سیاسی فائدے کے لئے فوجی دستوں سے جڑی ہوئی سرگرمیوں کا استعمال نہ کریں۔آدتیہ ناتھ کو سینئر رہنما کہتے ہوئے الیکشن کمیشن نے ان سے مستقبل کے سیاسی خطابات میں زیادہ احتیاط برتنے کی اپیل کی۔
غور طلب ہے کہ آدتیہ ناتھ کے اس تبصرہ پر نیوی کے سابق سربراہ ایڈمرل ایل رام داس، لیفٹننٹ جنرل (سبکدوش) ایچ ایس پناگ اور شمالی کمانڈ کے سابق صدر جنرل ڈی ایس ہڈا نے تلخ رد عمل کا اظہار کیا تھا۔وہیں آدتیہ ناتھ نے جس سابق سربراہ اور بی جے پی رہنما وی کے سنگھ کے لئے انتخابی تشہیر کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا تھا انہوں نے کہا تھا کہ بی جے پی کی تشہیر میں سب لوگ اپنے آپ کو فوج بھی بولتے ہیں۔ لیکن ہم کس فوج کی بات کر رہے ہیں؟ کیا ہم ہندوستان کی فوج کی بات کر رہے ہیں یا پالیٹکل ورکرس کی بات کر رہے ہیں؟
انہوں نے کہا، ‘ مجھے نہیں پتا کہ کیا سیاق و سباق ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ ہندوستان کی فوج مودی جی کی فوج ہے تو وہ غلط ہی نہیں، وہ دیش دروہی بھی ہے۔ ہندوستان کی فوجیں ہندوستان کی ہیں، یہ سیاسی پارٹی کی نہیں ہیں۔ ‘وہیں الیکشن کمیشن کانگریس کی مجوزہ Minimum Income Guarantee Scheme(این وائی اے وائی )کی تنقید کرنے کو لےکر نیتی آیوگ کے نائب صدر راجیو کمار کے جواب سے بھی مطمئن نہیں ہے۔ کمیشن نے ان کو انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے لئے نوٹس دیا تھا۔
اس معاملے میں نیتی آیوگ اس نتیجہ پر پہنچا کہ این وائی اے وائی کو لےکر ان کے تبصرہ نے انتخابی ضابطہ اخلاق کی ہدایات کی خلاف ورزی کی ہے۔ کمیشن نے ان کو مستقبل میں احتیاط برتنے کے لیے تنبیہ کی۔راجیو کمار نے سب سے غریب 20 فیصدی لوگوں کو 6000 روپے مہینہ دینے کے کانگریس کے وعدے کو خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ پارٹی (کانگریس)انتخاب جیتنے کے لیے کچھ بھی کہہ سکتی ہے اور کچھ بھی کر سکتی ہے۔
کمیشن کی نوٹس کا جواب دیتے ہوئے کمار نے کہا تھا کہ انہوں نے ایک ماہر اقتصادیات ہونے کی وجہ سے ذاتی طور پر یہ بات کہی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ان کے اس تبصرہ کو کانگریس کے اعلان پر کمیشن کے رخ کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔اس دوران انہوں نے پلاننگ کمیشن کے سابق نائب صدر مونٹیک سنگھ اہلو والیا کی مثال بھی دی جس میں اپریل، 2014 کو انہوں نے لوک سبھا انتخاب میں انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ ہونے کے دوران گجرات ماڈل کو لے کر تبصرہ کیا تھا۔