جموں و کشمیر میں 2018 میں پتھر پھینکنے کے 1458 اور 2017 میں 1412 واقعات درج کئے گئے۔ گزشتہ سال پانچ اگست کو خصوصی ریاست کا درجہ ہٹانے کے بعد سے یہاں 1193 واقعات درج کئے گئے ہیں۔ اگست 2019 میں ریاست میں پتھربازی کے کل 658 واقعات سامنے آئے، جبکہ اس سے پہلے جولائی میں صرف 26 واقعات ہوئے تھے۔
14 اگست، 2019 کو سرینگر میں ہوئے ایک مظاہرہ کے بعد(فوٹو : رائٹرس)
نئی دہلی: جموں و کشمیر میں 2019 میں اس سے گزشتہ سال کے مقابلے میں پتھراؤ کے واقعات میں اضافہ درج کیا گیا۔ گزشتہ سال اس طرح کے 1996 واقعات درج کئے گئے، جن میں سے 1193 معاملے مرکز کے ذریعے پانچ اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتماموں کو ختم کرنے اور ریاست کو دو یونین ٹریٹری میں باٹنے کے اعلان کے بعد سامنے آئے۔
سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پتھراؤ کے سب سے زیادہ واقعات گزشتہ سال اگست میں سامنے آئے جن کی تعداد 658 تھی۔ مئی میں ایسے 257، ستمبر میں 248، اپریل میں 224، اکتوبر میں 203، فروری میں 103 اور نومبر میں 84 واقعات سامنے آئے۔ جموں و کشمیر میں 2018 میں پتھر پھینکنے کے 1458 اور 2017 میں 1412 واقعات درج کئے گئے۔
حالانکہ 2019 میں پتھراؤ کے واقعات کی تعداد 2016 کی بہ نسبت کم تھی۔ اس سال ایسے 2653 معاملے درج کئے گئے تھے۔ اسی سال حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کے مارے جانے کے بعد پورے کشمیر میں تشدد آمیز مظاہرے ہوئے تھے۔ سماجی کارکن روہت چودھری کی آر ٹی آئی عرضی کے جواب میں وزارت داخلہ نے جو اعداد و شمار دیے ان کے مطابق جموں و کشمیر میں 2019 میں نومبر کے آخر تک پتھراؤ کے 1996 واقعات سامنے آئے تھے۔ ان میں سے 1193 معاملے صرف اگست کے بعد چار مہینوں میں درج کئے گئے۔
دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال اگست کے مہینے میں پتھربازی کے واقعات میں کافی اضافہ درج کیا گیا تھا۔ اگست 2019 میں ریاست میں پتھربازی کے کل 658 واقعات سامنے آئے، جبکہ اس سے پہلے جولائی مہینے میں صرف 26 واقعات سامنے آئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال 19 نومبر کو لوک سبھا میں وزارت داخلہ نے بتایا تھا کہ ایک جنوری سے لےکر 15 نومبر 2019 کے درمیان پولیس نے پتھربازی / لاء اینڈ آرڈر سے متعلق 551 کیس درج کئے تھے، ان میں سے 190 کیس پانچ اگست کے بعد درج کئے گئے۔
جموں و کشمیر کے ڈی جی پی دل باغ سنگھ نے پہلے کہا تھا کہ 2016 کے مقابلے 2019 میں کل ملاکر تشدد کی سطح آٹھ فیصد کم ہو گئی ہے اور ایسا حالات سے بہترین طریقے سے نپٹنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ جموں و کشمیر پولیس نے گزشتہ سال پانچ اگست کے بعد سب سے قابل تقلید طریقے سے لاء اینڈ آرڈر کو سنبھالنے کی مثال پیش کی۔
غور طلب ہے کہ مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے والے
آرٹیکل 370 کےزیادہ تر اہتماموں کو پانچ اگست کو رد کردیا تھا اور ریاست کو دویونین ٹریٹری میں باٹنے کا اعلان کیا تھا۔اس اعلان کے ساتھ ہی ریاستوں میں لینڈ لائن، موبائل سروس اور انٹرنیٹ پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
بتا دیں کہ مرکزی حکومت کے ذریعے جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کئے جانے کے بعد سرینگر سے بڑی تعداد میں سیاسی کارکنان اور دیگر لوگوں کو اتر پردیش کی مختلف جیلوں میں رکھا گیا ہے۔ اس بیچ مین اسٹریم کے بہت سارے رہنما اور ریاست کے سابق وزیراعلیٰ پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت حراست میں اب بھی رکھے گئے ہیں۔
حال ہی
میں مرکزی حکومت نے راجیہ سبھا میں جموں و کشمیر انتظامیہ کی طرف سے دئے گئے اعداد و شمار کی بنیاد پر بتایا تھا کہ جموں و کشمیر میں لاء اینڈ آرڈر بنائے رکھنے کے لئے وادی میں چار اگست سے 5161 لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ ان میں سے 609 لوگوں کو احتیاطی طور پر حراست میں لیا گیا ہے۔
اتناہی نہیں گزشتہ دنوں جموں و کشمیر انتظامیہ نے نیشنل کانفرنس کے رہنما اور تین بار وزیراعلیٰ رہ چکے
فاروق عبداللہ کی حراست کی مدت تین مہینے کے لئے بڑھا دی ہے۔ فاروق عبداللہ کے علاوہ ان کے بیٹے اور سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ اور سابق وزیراعلیٰ اور پی ڈی پی رہنما محبوبہ مفتی بھی گزشتہ پانچ اگست سے حراست میں ہیں۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)