غازی آباد ضلع کے ڈاسنہ میں واقع شیو شکتی دھام کے مہنت یتی رام سوروپانند نے دہرادون پریس کلب میں مبینہ طور پرنفرت انگیز بیان دیے تھے، جس کا ویڈیو وائرل ہونے کے بعد مختلف گروپوں کے درمیان دشمنی بڑھانے کے الزام میں معاملہ درج کیا گیا ہے۔
(علامتی تصویر بہ شکریہ: Flickr/John S. Quarterman CC BY 2.0)
نئی دہلی: اتراکھنڈ پولیس نے اس ہفتے کی شروعات میں اتر پردیش کے مہنت یتی رام سوروپانند پردہرادون میں اقلیتوں کے خلاف مبینہ طور پر نفرت انگیز بیان دینے کے الزام میں ایف آئی آر درج کی ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق،یتی رام سوروپانند غازی آباد ضلع کے ڈاسنہ میں واقع شیو شکتی دھام کے مہنت ہیں، اور ان کا ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ان کے خلاف مختلف گروپوں کے درمیان نفرت پھیلانے کا معاملہ درج کیا گیا ہے۔
اس وائرل ویڈیو میں یتی رام سوروپانند کو مبینہ طور پر یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ہندوؤں کو اقلیتی برادری کے لوگوں سے خواتین اور بچوں کی حفاظت کے لیے ہتھیار رکھنا چاہیے۔
دہرادون میں پولیس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، انہوں نے وائرل ویڈیو کا از خود نوٹس لیا ہے اور یتی رام سوروپانند گری کے خلاف معاملہ درج کیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ معاملے میں تفتیش جاری ہے۔
دہرادون کے ایس ایس پی اجئے سنگھ نے کہا، ‘ہماری سوشل میڈیا مانیٹرنگ ٹیم نے پایا کہ اس تقریر میں استعمال کیے گئے الفاظ (مخصوص) ذات/مذہب کے خلاف تھے اور ہیٹ اسپیچ کے دائرے میں آتے ہیں۔ سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق جب بھی پولیس کو ہیٹ اسپیچ کا چلتا ہے وہ فوراً ایف آئی آر درج کر تی ہے۔ اس لیے جانچ کے بعد ایس آئی دیویندر گپتا کی شکایت پر مقدمہ درج کیا گیا۔
شکایت کے مطابق، یتی رام سوروپانند گری نے منگل (10 ستمبر) کو پریس کلب آف دہرادون میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں مبینہ طور پر یہ بیان بازی کی تھی۔
انہوں نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ وشو دھرم سنسد، جس میں کئی سنت شرکت کرنے والے ہیں، اس سال 14 دسمبر سے 21 دسمبر تک منعقد ہوگی۔ انہوں نے مبینہ طور پر کہا کہ وہ اس سنسد کے دوران اتراکھنڈ کو ‘اسلام سے پاک’ بنانے پر بات کریں گے۔
انہوں نے مبینہ طور پر یہ بھی کہا کہ اقلیتی برادری اکثریتی برادری سے زیادہ بچے پیدا کر رہی ہے اور ہندو ‘نامرد’ ہو چکے ہیں۔
ان کے خلاف ایف آئی آر بھارتیہ نیائے سنہتا کی دفعہ 196 (مذہب، نسل، مقام پیدائش، رہائش، زبان وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا اور ہم آہنگی کے خلاف متعصبانہ کام کرنا) اور 353 (عوامی شرپسندی کو بڑھاوا دینا) کے تحت درج کی گئی تھی۔
دہرادون کے ایس ایس پی نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے ایسی پوسٹ کو مشتہر نہ کریں جس سے سماج میں مذہب، ذات یا علاقے کی بنیاد پر نفرت پھیلتی ہو۔ انہوں نے کہا کہ پولیس ایسی پوسٹوں پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال
سپریم کورٹ نےہیٹ اسپیچ معاملے میں سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ نفرت انگیز تقاریر اس لیے دی جا رہی ہیں کیونکہ حکومت کمزور اور بے اختیار ہے۔ یہ بروقت کارروائی نہیں کرتی اوریہ اس وقت رک جائے گا، جب سیاست اور مذہب کو الگ کردیا جائے گا۔