مجاہد آزادی سبھاش چندر بوس کی بیٹی انیتا بوس فاف نے کہا کہ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ مجاہدین آزادی کی قدریں اب بھی لوگوں کو متاثر کر رہی ہیں، تاہم انہوں نے والد کی یادوں اور وراثت کو فرقہ وارانہ دشمنی کے لیے استعمال کیے جانے کے امکان پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔
نئی دہلی: سبھاش چندر بوس کی 125 ویں سالگرہ پر 23 جنوری کو وزیر اعظم نریندر مودی نےانڈیا گیٹ پر بوس کے ہولوگرام مجسمے کی نقاب کشائی کی ، اس کے دو دن بعد بوس کی بیٹی نے کہا کہ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ مجاہدین آزادی کی قدریں اب بھی لوگوں کو متاثر کر رہی ہیں۔
حالاں کہ،این ڈی ٹی وی کے ساتھ بات چیت میں بوس کی بیٹی انیتا بوس فاف نے اپنے والد کی یادوں اور وراثت کو فرقہ وارانہ دشمنی کے لیے استعمال کیے جانے کے امکان پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔
بتا دیں کہ وزیر اعظم مودی نے23 جنوری کومجاہد آزادی سبھاش چندر بوس کے 125 ویں یوم پیدائش کے موقع پرانڈیا گیٹ پر ان کےہولوگرام مجسمے کی نقاب کشائی کی تھی۔
اس دوران وزیر اعظم مودی نے آزادی کے بعد کانگریس کی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ،ہمارے ہیروز کے رول جنہیں آزادی کے بعد مٹایا جا رہا تھا، اب انہیں دوبارہ زندہ کیا جا رہا ہے۔
حالاں کہ بوس کے ہولوگرام کی نقاب کشائی کو اگلے ماہ پانچ ریاستوں میں ہورہے انتخابات سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔
حکومت نے حال ہی میں نیتا جی کی سالگرہ کو ‘پراکرم دوس’ کے طور پر منانے اوراس کے ساتھ ہی یوم جمہوریہ کی تقریبات کے انعقادکے آغاز کا اعلان کیا تھا۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ان کے والد کی امیج کااستعمال کیا جا رہا ہے یا کیا یہ انتخابی موسم کے بیچ اعزازکی بات ہے؟
اس پر انیتا نے کہا، میرے خیال میں یہ دونوں کا مرکب ہے۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم کا احترام بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی سے کم نہیں ہے۔ دونوں سچے پرستار ہیں، لیکن دوسری طرف یہ لیڈر ہیں اور مجھے نہیں لگتاکہ سیاستدانوں کے لیے اسے اپنے ووٹرز کو بتانا غلط ہے۔
انیتا نے کہا، میں یہ قبول نہیں کروں گی کہ نیتا جی کی یادوں کو فرقہ وارانہ دشمنی کے لیے استعمال کیا جائے۔ یہ یقیناً ان (بوس) کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔
انہوں نے کہا، اس وقت کے لیڈروں نے اختلافات کے باوجود ملک کی آزادی کے لیے کام کیا۔ سردار پٹیل میرے والد کے مخالف تھے، لیکن میرے دل میں کسی بھی طرح سے ا ن کی عزت میں کوئی کمی نہیں ہے۔
انیتا نے کہا کہ آزادی کے 75 سال بعد نیتا جی کو آج بھی پیار سے یاد کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا، یہ خوش کن ہے کہ ان کے اقدار اب بھی لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ انہوں نے انڈین نیشنل آرمی کے ساتھ ایک بہت اچھی مثال پیش کی کہ فرقہ وارانہ اختلافات کو دور کیا جا سکتا ہے۔
انیتا نے جاپان سے سبھاش چندر بوس کی استھیاں (راکھ) واپس لانے کےادھورے کام کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا، وہ وطن لوٹنے کے حقدار ہیں۔ جب وہ زندہ تھے، ایسا نہیں کر سکے۔ مجھے یقین ہے کہ انہیں وطن لوٹنا اچھا لگے گا۔ حالاں کہ جاپان نے ان کی اچھی مہمان نوازی کی تھی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ جب وہ قانونی وارث ہیں تو یہ معاملہ دو ملکوں کی حکومتوں کے درمیان کیوں پھنسا ہوا ہے؟ اس پر انیتا نے کہا، ممکنہ طور پر میں قانونی طور پر اس کی حقدار ہوں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ اس مندر (جہاں بوس کی استھیاں رکھنے کی بات کی جارہی ہے) اور جاپان کے تئیں تہذیب اور شائستگی کا معاملہ ہے۔ وہ یقینی طور پر ان کی استھیوں کو لوٹاناپسند کریں گے۔
انیتا نے کہا کہ نیتا جی کے لیے ملک ہمیشہ ان کے خاندان اور ان کی اپنی جان سے اوپر رہا ۔
انہوں نے کہا، میری ماں کا ان کےلیےجانبدارانہ نظریہ تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے وقف تھے۔ ایک بالغ فرد کے طور پر میں نےمحسوس کیا کہ میری ماں کے ساتھ غلط ہوا۔میں سمجھ سکتی اگران کے دل میں میرے والد کے خلاف کڑواہٹ ہوتی ۔ ملک ہمیشہ پہلے تھا۔ یہ جان کر خوشی ہوتی ہے کہ کہ ان کی اتنی شدید وفاداری تھی۔