کشمیر میں مودی حکومت کے پروپیگنڈہ کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا: برٹش ایم پی

برٹن کی لبرل ڈیموکریٹس پارٹی کے رکن پارلیامان کرس ڈیوس کا کہنا ہے کہ کشمیر دورہ کے لئے ان کو دی گئی دعوت کو حکومت ہند نے واپس لے لیا کیونکہ انہوں نےسکیورٹی کی غیر موجودگی میں مقامی لوگوں سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔

برٹن کی لبرل ڈیموکریٹس پارٹی کے رکن پارلیامان کرس ڈیوس کا کہنا ہے کہ کشمیر دورہ کے لئے ان کو دی گئی دعوت کو حکومت ہند نے واپس لے لیا کیونکہ انہوں نےسکیورٹی کی غیر موجودگی میں مقامی لوگوں سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔

برٹن کے رکن پارلیامان کرس ڈیوس (فوٹو بہ شکریہ : ٹوئٹر)

برٹن کے رکن پارلیامان کرس ڈیوس (فوٹو بہ شکریہ : ٹوئٹر)

نئی دہلی: برٹن کی لبرل ڈیموکریٹس پارٹی کے رکن پارلیامان کرس ڈیوس کا کہنا ہے کہ کشمیر کے دورے کے لئے ان کو دی گئی دعوت کو حکومت ہند نے واپس لے لیا کیونکہ انہوں نے پولیس ایسکارٹ کے بغیر مقامی لوگوں کے ساتھ بات کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ ہندوستان ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق، یورپین پارلیامنٹ کے ممبر کرس ڈیوس نے کہا کہ کشمیر دورے کے لئے ان کو سات اکتوبر کو دعوت نامہ بھیجا گیا تھا لیکن کوئی وجہ بتائے بغیر تین دن بعد اس کو واپس لے لیا گیا۔

حکومت ہند نے کشمیر میں صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے سوموار کو اٹلی، برٹن، فرانس، جرمنی، چیک جمہوریہ اور پولینڈ سے یورپی پارلیامنٹ  کے ممبروں کے ایک وفد کو وہاں جانے کی منظوری دی تھی۔ معلوم ہو کہ پانچ اگست کو جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370ختم کرنے کے بعد منگل کو کشمیر کا دورہ کرنے والا یہ پہلا بین الاقوامی وفد ہے۔ اس وفد میں رائٹ ونگ  پارٹیوں کے رہنما شامل ہیں، جن میں سے چار ممبر برٹن کی بریکسٹ پارٹی سے تھے۔

کرس ڈیوس نے کہا، ‘ میں نے اس شرط پر کشمیر جانے کی دعوت کو قبول کیا تھا کہ جہاں بھی میں جانا چاہوں‌گا وہاں مجھے بلا روک ٹوک جانے دیا جائے‌گا۔ میں جس سے بھی بات کرنا چاہوں‌گا اس سے ایسا کرنے کے لئے آزاد رہوں‌گا۔ میرے ساتھ فوج ، پولیس ، سکیورٹی اہلکار نہیں ہوں گے ، صرف صحافی ہو سکتے ہیں۔ ‘

انہوں نے کہا، ‘ وہ نریندر مودی حکومت کے پروپیگنڈہ   کا حصہ بننے کے لئے تیار نہیں تھے اور وہ یہ دکھاوا نہیں کرنا چاہتے تھے کہ جموں وکشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے۔ یہ بہت واضح ہے کہ کشمیر میں جمہوری‎ اقدار کو طاق پر رکھا گیا اور دنیا کو اس طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ ‘ اے ایف پی کے مطابق، ڈیوس نے کہا، ‘ ایسا کیا ہے، جس کو حکومت ہند کو چھپانا پڑ رہا ہے؟ حکومت صحافیوں اور رہنماؤں کو مقامی لوگوں کے ساتھ بات کرنے کی چھوٹ کیوں نہیں دے رہی؟ ‘

انہوں نے کہا، ‘ ہندوستان فوجی حکومت نافذ کرکےکشمیری لوگوں کا دل نہیں جیت سکتا اور ان سے ان کی آزادی نہیں چھین سکتا۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ صحیح طرح سے ختم نہیں ہونے والا۔ ‘ ڈیوس نے کہا کہ وہ شمال مغربی انگلینڈ کے انتخابی حلقہ سے ایسے کئی لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں، جن کے رشتہ دار  جموں و کشمیر میں رہتے ہیں۔ وہ اپنے رشتہ داروں سے بات کرنا چاہتے ہیں اور ان کی آواز سننا چاہتے ہیں۔

ڈیوس نے کہا کہ وومین اکانومک اینڈ سوشل تھنک ٹینک (ڈبلیو ای ایس ٹی ٹی) نامی ایک غیر سرکاری تنظیم نے ان کو مدعو کیا تھا۔ یہی تنظیم ہندوستان میں وفد کے دیگر ممبروں کی میزبانی کر رہی ہے۔ اس دورے کا خرچ ‘ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار نان ایلائنڈ اسٹڈیز ‘ اٹھائے‌گا۔ بتا دیں کہ یورپی یونین کے 23 رکن پارلیامان کا ایک وفد دو روزہ دورہ پر منگل کو سرینگر پہنچا ہے۔ وہاں سرکاری افسر ان انہیں کشمیر کی زمینی حقیقت کے بارے میں جانکاری دے رہے ہیں۔ وہاں ان کی مقامی لوگوں سے بھی ملاقات ہوگی۔

کشمیر دورے سے ایک دن پہلے 28 اکتوبر کو یورپی پارلیامنٹ کے ان ممبروں نے دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تھی۔ پی ایم او کی طرف سے کہا گیا کہ یورپی وفد کے جموں و کشمیر دورےسے لوگوں  کوجموں و کشمیر اور لداخ کے ثقافتی اور مذہبی تنوع کے بارے میں بہترجانکاری مل سکے‌گی۔