آئیےکچھ ایسی ہی ہستیوں کے بارے میں جانتے ہیں جنھوں نے سال 2017میں سماج کی پدریت کو تہ و بالا کرتے ہوئےمختلف میدانوں میں دنیا کے سامنے اپنی پہچان کا پرچم لہرایا ۔
2017میں بھی عورتوں نےثابت کیا کہ انھیں نہ صرف مشکل حالات سے لڑنے کا ہنر معلوم ہے بلکہ وہ اپنی قابلیت اور فتح کے پرچم بلند کر سکتی ہیں ۔ آئیےکچھ ایسی ہی ہستیوں کے بارے میں جانتے ہیں جنھوں نے سال 2017میں سماج کی پدریت کو تہ و بالا کرتے ہوئےمختلف میدانوں میں دنیا کے سامنے اپنی پہچان کا پرچم لہرایا ۔
اس ضمن میں پہلانام تمل ناڈو کی کوسلیا سنکر(Kausalya Sankar)کا ہے جو Caste crimeکے خلاف ابھرنے والی ایک پر زور آواز کہی جا سکتی ہے۔کوسلیا کی جدو جہد کمزور عورت کی داستان کوحوصلہ دیتی نظر آتی ہے۔آنر کلنگ کی درد ناک کہانی میں اپنے شوہر کو انصاف دلانے کی لڑ ائی میں کوسلیا کا جذبہ اپنی مثال آپ ہے۔دراصل کوسلیانے اپنی ذات برادری سے الگ ایک دلت سے جولائی2015 میں شادی کی۔یہ اس کے گھر والوں کے لیے ایسا گناہ تھاجس نےاس کے شوہرسنکر(Sankar) کی جان لے لی۔سنکرکومارچ 2016 میں دن دہاڑےسڑک پراس کی بیوی کے سامنےقتل کر دیا گیا۔اس حادثے میں کوسلیا کو بھی شدیدچوٹ آئی لیکن وہ زندہ بچ گئی۔سنکر کی موت کے بعد کوسلیا کے لیے زندگی گزارنا آسان نہیں تھا، ڈپریشن کے دور سے گزر رہی کوسلیا نے خودکشی کی کوشش بھی کی لیکن بچ گئی ،اور تب کوسلیا نے لڑنے کا فیصلہ کیا۔ وہ خود کہتی ہیں کہ یہ ایک نئی کوسلیا تھی ۔
اس کی جدوجہد نے ہمارے سماج اور قانون کی اندھی آنکھوں کو بھی دیکھنے پر مجبور کر دیا۔ اس کیس کی شنوائی کر رہی تمل ناڈو کی ایک عدالت نے12 دسمبر کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے 6 لوگوں کو سزائے موت دی ہے،جن میں کوسلیا کے والد بھی شامل ہیں۔آنر کلنگ کے معاملے میں کسی کو سزا ملنا ہمارے ملک میں ایک بڑی بات ہے کیوں کہ بیشتر کیس میں ملزم یا تو ثبوت کی کمی کی وجہ سے یا پھر سسٹم میں اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے چھوٹ جاتے ہیں۔کوسلیا کی کی لڑائی ضائع نہیں گئی ،آج نہ جانے کتنے لوگوں کے لیے وہ ایک مثال ہیں صرف عورتوں کے لیے نہیں ، مردوں کے لیے بھی۔کوسلیا نے عورت کی آزادی کی ایک جنگ لڑی اور اب بھی لڑ رہی ہے۔ میں اسے عورت کی ‘آزادی’اس لیےبھی کہہ رہی ہوں کہEVIDENCEکےKathirکےمطابق تمل ناڈو میں2013سے 2017کے درمیان آنر کلنگ کے187معاملوں میں قتل ہونے والوں میں عورتوں کی تعداد 80فی صدہے۔
آندھرا پردیش کے چتّور کی جی آر رادھیکانے عالمی تاریخ میںMount Elbrus پر چڑھنے والی پہلی عورت ہونے کا اعزازحاصل کر کےپوری دنیا میں ہندوستان کا نام روشن کیا ہے ۔Mount Elbrusیورپ اور روس کا سب سےاونچا پہاڑ(,550ft18)ہونےکےساتھ ساتھ ایکDormat (Inactive) Volcanoبھی ہے۔رادھکیاماؤنٹ ایورسٹ،ماؤنٹ Kilimanjaro، ماؤنٹ Kosciuskoوغیرہ کو Scaleکر نے والی ہندوستان کی پہلی مہیلا پولس بھی ہیں ،جو افریقہ اور آسٹریلیا کا Highest peakہے ۔رادھیکا کی کوہ پیمائی کا یہ سفرابھی جاری ہے اور وہ دنیا کی چار اور اونچائیوں کو فتح کر کے the Seven Summit Challengeپورا کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
Roopa Alagiriswamy انڈین نیوی میں تمل ناڈو کی پہلی خاتونNaval Armament inspection Officerہیں ۔ ان کا یہ سفر مشکلات اور چیلنجز سے بھرا ہوا تھا جس میں کئی دفعہ انھیں ناکامی کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن اپنی لگن سے انھوں نے ثابت کر دیا کہ عورت کسی سے کم نہیں ۔ 26جنوری کو ہونے والی پریڈ کے لیے دوسری خاتون آفیسرس کے ساتھ ان کا انتخاب بھی کیا گیا ہے۔
سواتی لکرا حیدرآباد کیAdditional Commissioner of Police (Crimes & SIT)ہیں۔تلنگانہ میں عورتوں کے خلاف ہونے والے کرائمس کو کم کرنے کے لیے تندہی سے کام کر رہی سواتی کی کوشش قابل تعریف ہیں۔ ان کی ٹیم نے پچھلے تین سالوں میں عورتوں کے ساتھ ہوئے ہراسمنٹ کے درج کرائے گئے 3516کیس میں 1400ملزموں کو رنگے ہاتھوں پکڑا ۔
جولائی میں Roopa Moudgil (the deputy inspector general (prisons) of Karnataka)نےششی کلا اور دوسرے با رسوخ ملزموں کو بنگلور کی Parappana Agrahara سنٹرل جیل میں مل رہی وی آئی پی سہولتوں کے بارے میں جانکاری دی ،جس کی وجہ سے وہ کافی سرخیوں میں رہیں۔ حالانکہ اس رپورٹ کے بعد ان کا تبادلہRoad and Safety Departmentمیں کر دیا گیا ۔ روپا کو ستمبر ماہ میں ان کے اس انکشاف کے لیے راشٹر پتی میڈل سے نوازا گیا۔
حیدرآباد کی پی وی سندھوکسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ دنیا بھر میں ہندوستان کا ترنگا لہرانے والی سندھونے اس سال انڈین اوپن اور کوریا اوپن کا خطاب جیت کر ایک بار پھر کھیل جگت کی دنیا میں اپنی فتح کا پرچم لہرایا ہے۔
کیرالا کی کراٹے سسٹرس کے نام سے جانی جانے والی دو بہنیں Nikitha Sureshاور Nehaنےان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے والے پولیس کانسٹبل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ سوشل میڈیا پر سرخیوں میں رہی ان بہنوں نے کراٹے میں ٹرینگ لی ہے۔بلیوبیلٹ نکیتھا کچھ ٹورنامنٹ میں بھی حصہ لے چکی ہیں ۔ان کے مطابق کراٹے سیکھنے سے انھیں اس طرح کے حالات میں بہتر طور پر اپنا رد عمل ظاہر کرنے میں مدد ملی۔ وہ کہتی ہیں کہ اس طرح کے واقعات پرشدید رد عمل دینا بہت ضروری ہے تاکہ دوسرے مردوں کو یہ پیغام ملے کہ عورت کوgropeکرنا صحیح نہیں ہے۔
ڈیرا سچا سودا کے چیف گرمیت رام رحیم سنگھ کو عصمت دری کے معاملے میں 20 سال کی عمر قید اور 30 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ اس طرح کے باباؤں کی حقیقت کو افشا کرنے میں دو لڑکیوں نے اہم رول ادا کیا۔ یہ انھیں لڑکیوں کی کوشش کا نتیجہ تھا جس نے Godmanبنے گرمیت کو سلاخوں کے پیچھے پہنچایا۔ سزا کے بعدپنجاب ،ہریانہ کے کئی مقامات پر تشدد کی خبریں بھی آئی ، جس میں کافی تعداد میں لوگوں کی جانیں گئی(اکیلے پنچ کلا میں 32لوگ) اور کئی زخمی ہوئے۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس طرح کے باباؤں کی پہنچ کافی اوپر تک ہے ۔ ان حالات میں شکایت درج کرانے کے لیے سامنے آنے والی یہ دو لڑکیاں قابل مبارک باد ہیں کہ اس طرح کا تاریخی فیصلہ انھیں کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔
حال ہی میں ہندوستانی خاتون ٹیم نےایران میں ہوئے ایشین کبڈی چمپین شپ میں فتح حاصل کی ہے۔شمع پروین بھی اس ٹیم کا حصہ تھیں۔ہندوستانی خواتین کبڈی ٹیم کی اکیلی مسلم کھلاڑی شمع پروین کا یہاں تک کا سفر کافی مشکلوں بھرا رہا۔ مسلم گھرانوں میں کھیل جگت میں اپنا مستقبل بنانے والی لڑکیوں کو جیسا کہ عموماً دیکھنے میں آتا ہے ڈریس کوڈ کو لے کر کافی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ پہناوا ان کے مستقبل میں کس طرح روڑے اٹکاتا ہے اس کا ذکر شمع پروین بھی کرتی ہیں۔ گریجو یشن کر رہی شمع کو ان کے والد کا پورا تعاون حاصل ہے ۔ شمع خواتین کی پرو کبڈی لیگ کا حصہ بننا چاہتی ہیں اور اپنے اس سفر میں کئی مسلم لڑکیوں کے لیے مثال بھی پیش کرتی ہیں۔
ہادیہ کا نام اس سال سرخیوں میں رہا۔اپنی مرضی سے شادی کرنے کا خمیازہ ادا کر رہی ہادیہ کو ابھی تک کوئی راحت نہیں ملی ہے۔ انھوں نے کہا کہ‘ میں نے سپریم کورٹ میں آزادی مانگی تھی لیکن میں اب بھی آزاد نہیں ہوں ۔’ہادیہ کا کیس ہمارے ملک میں عورتوں کے حقوق کی پول کھولتا ہوا بھی نظر آتا ہے۔عورت کو بنیادی حقوق بھی حاصل نہیں ہیں ۔عورت کو نہ تو محبت کا حق ہے نا اپنی مرضی سے شادی کا،ہادیہ کی محبت اور شادی کو سیاسی رنگ دے کر اس کی آزادی کے ساتھ کھلواڑ کی انوٹھی مثال ہمارے ملک نے پیش کی ہے۔قابل افسوس مقام یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ بھی اس کی آزادی اسے نہیں دے سکا۔ ہادیہ جس طرح مختلف قسم کے دباؤ کو نظر انداز کر کے سامنے آئی اور اپنے بنیادی حقوق کے لیے اب بھی لڑ رہی ہیں وہ قابل تعریف ہے اور دوسری عورتوں کے لیے مثال بھی۔
ملّا پورم ،کیرلا کی میڈیکل آفیسر ڈاکٹر Shimna AzizنےVaccinationکے ٹیبو کو توڑنے میں ایک اہم رول ادا کیا ہے ۔ Measles Rubella Vaccineکو لے کر چلایا گیا ڈاکٹر شیمنا کی بیداری مہم ایک کیمپین کی صورت اخیتار کر گیا ہے۔ انھوں نےبچوں کے والدین کو اس کے بارے میں بتایا ،اس کے فوائد سے روبرو کرایا ۔کسی بچے کے والدین کے کہنے پر خود اپنے آپ کو بھی انجکٹ کر کے دکھایا۔ ان کا یہ عمل بہت سے والدین کو متاثر کر گیا ،سوشل میڈیا پر بھی ان کا یہ اسٹیپ کافی سراہا گیا کیوں کہ اس سےبچوں کے Vaccinationکو لے کر لوگوں کی بہت سی غلط فہمیاں دور ہوئیں ۔
صبا گری نے انڈین نیوی کو اپنی زندگی کے 7 سال دیے لیکن انھیں اس لیے نکال دیا گیا کہ وہ ایک Transوومن ہیں۔ 25 سال کی صبا کو کافی ہراسمنٹ کا سامنا بھی کرنا پڑا، یہاں تک کہ انھیں 6 مہینے Psychiatric Wardمیں بھی رکھا گیا۔ Gender Discriminationکے اس کیس میں دہلی ہائی کورٹ نے Ministry of Defenceسےصبا کو الٹر نیٹو جاب دیے جانے کو کہاہے۔
سر پر غلاظت ڈھونےکےموضوع پر(Kakkoos)ڈاکیومنٹری فلم بنانے والی سی پی آئی ایم ایل اکٹوسٹ Divya Bharathiکی گرفتاری بھی ہمارے سماج کےپدری سوچ کی مظہرہے ۔انھوں نے ایک ویڈیوبھی بنایا تھا جس میں مبینہ طور پردلت اسٹوڈنٹس کے ساتھ انّا یونیورسٹی کے ڈین Chitra Selvi کی بدسلوکی کو دکھایا گیا تھا۔ ان پر طلبہ و طالبات کے ایک پروٹسٹ میں حصہ لینے کے معاملے میں ایک ایف آئی آر کی گئی تھی جس کے بعد پولیس نے انھیں گرفتار کیاتھا۔ ریپ اور قتل کی دھمکیوں کے بعد بھی دویا نے نہ صرف حالات کا سامنا کیا بلکہ اپنا فون بھی آف کرنے سے انکار کر دیا۔ اگست میں مدراس ہائی کورٹ نے اس ایف آئی آرپر Stayلگا دیا۔
گزشتہ دنوں ملیالم اداکارہ کے اغوا اور جنسی استحصال کے معاملے نے پوری فلم انڈسٹری کو ہلا کر رکھ دیا۔اس میں فلم انڈسٹری کے کئی اداکار ملوث پائے گئے۔اس اداکارہ نے پولیس میں شکایت بھی درج کرائی اور کیرلا کے چیف منسٹر کو خط بھی لکھا، اور استحصال کا شکار ہوئی لڑکیوں کے ساتھ لوگوں کے رویے پر سوال اٹھائے۔کئی اداکارہ وکٹم کے سپورٹ میں سامنے آئیں اور فلم لائن میں بھی عورتوں کے ساتھ ہونے والے دوجے رویے، پدری ذہنیت والے لوگوں کی کھل کر مذمت کی۔سوشل میڈیا پر ‘می ٹو’کے نام سے چلے ایک کیمپین میں کئی اداکارہ سمیت مختلف لڑکیوں نے اپنے ساتھ ہوئے جنسی استحصال کے واقعات کا ذکر کیا۔ اچھی بات یہ ہے کہ اب ڈرنے یا چپ رہنے کے بجائے عورتوں نے حوصلے کے ساتھ بولنا شروع کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : ہندوستانی خواتین کبڈی ٹیم کی اکیلی مسلم کھلاڑی شمع پروین سے ایک ملاقات
فلمی دنیا کی بات ہو ہی رہی ہے تو اس سال کی فلم انار کلی آف آرا کا بھی ذکر ضروری ہے جس نے Patriarchalسوچ کو تہ و بالا کرنے کی ایک اچھوتی اور بہترین مثال پیش کی۔ فلم بیگم جان پدری ثقافت پر ایک بھرپور طنز تو ہے ہی ،نوآبادیات کے خلاف بھی ایک آواز ہے۔فلم سکریٹ سپر اسٹار لڑکی کے خوابوں کی اڑان ہے جس کے پرہماری سوسائٹی میں بہت آسانی سے کاٹ دیے جاتے ہیں۔
اب ذرا حکومت کے پدری رویے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ Sanitary Napkinsپر GSTلگانے والی حکومت نے سہاگ کی نشانی سمجھی جانے والی بندی، سیندوراور چوڑیوں کو ٹیکس سے آزاد رکھا ہے ۔ کوئی ان سے یہ پوچھے کہ بھائی عورت کے لیے Sanitary Napkinsزیادہ ضروری ہیں یا سہاگ کی نشانیاں؟ دہلی ہائی کورٹ نے بھی حکومت سے اس معاملے میں سوال کیے ہیں ،میڈیا میں بھی یہ ایشو خوب گرمایا۔ یہ بھی بتاتی چلوں کہ جے این یو کی پی ایچ ڈی اسکالر زرمینا اسرار خاننے Sanitary Napkinsپر 12 فی صد GSTلگانے پر حکومت کے فیصلے کوغیر قانونی بتاتے ہوئے کورٹ میں چیلنج کیا تھا ،جس کی شنوائی کرتے ہوئے ہائی کورٹ کی بنچ نے حکومت سے جواب مانگا،ساتھ ہی ایک بنچ نےGSTکونسل کے 31 ممبروں میں ایک بھی خاتون ممبر نہ ہونے پر حکومت کی کھنچائی کی۔
تین طلاق کو غیر قانونی بنانے اور اس کے خلاف قانون لانےکے پس پشت سالوں سے لڑ رہی مسلم عورتوں کاجدوجہدہی ہے جنھوں نے کئی فیصلوں میں خلاف توقع انصاف نہ ملنے کے بعد بھی اپنی لڑائی جاری رکھی۔یہ الگ بات ہے کہ تین طلاق پر مجوزہ قانونی جواز ابھی مشکوک ہے۔
یہ تمام کہانیاں عورتوں کے بلند حوصلے سےجنمی ہیں۔ اس سلسلے میں بی ایچ یو کی لڑکیوں کے ذکر کے بغیر یہ داستان ادھوری معلوم پڑتی ہے۔ بی ایچ یو کی لڑکیوں کا آندولن ہاسٹل کے کمرے سے سڑک پر آیا اور پھر وہاں سے ملک بھر میں پھیل گیا۔ بی ایچ یو میں لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ کے واقعات روز کا معمول ہیں ،اسی کے خلاف وہاں کی لڑکیوں نے کئی دنوں تک پروٹسٹ کیا ،ملک بھر میں ان کی آواز سنی گئی اور انھیں حمایت ملی۔ اپنی اس لڑائی میں انھوں نے پولیس کی لاٹھیاں بھی کھائیں لیکن ان کے حوصلے نہیں ٹوٹے۔
چلتے چلتےایک اور اہم شخصیت کا ذکربھی ضروری ہے،17سال بعد مس ورلڈ کا خطاب جیت کر دنیا بھر میں ہندوستان کا نام روشن کرنے والی ہریانہ کی مانوشی چھلّراس سےپہلےمس انڈیا کا خطاب بھی جیت چکی ہیں۔میڈیکل کی پڑھائی کر رہی مانوشی نےخوبصورت لڑکی بیوقوف ہوتی ہے والی پدری سوچ کو توڑتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ عورت اپنے خوابوں کی تعبیر خود لکھنا جانتی ہے ،اسے کسی Stereotypeمیں قید نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح کی مثالیں دے کر عورتوں نے سماج میں رائج اپنی دوجی حیثیت پر کاری ضرب لگائی ہے۔
مضمون شروع کرنے سے پہلے اندازہ نہیں تھا کہ عورتوں کی حصولیابی اور ان کے شب و روز کی داستان اتنی طویل ہو گی۔ میں یہ فیصلہ ہی نہیں کر پا رہی تھی کہ اس لسٹ پر کس طرح نظریں پھیروں۔ ایک مضمون میں سب کو سمیٹنا مشکل ہے۔ ہاں اس بات کی مجھے بے حد خوشی ہے کہ دوجی سمجھی جانے والی عورت آج ہر میدان میں اپنے کارناموں کے جھنڈے گاڑ رہی ہے۔
The post
2017 : عورتوں کے لیےمشکلات مگر حصولیابی کا سال appeared first on
The Wire - Urdu.