کشمیر اور ترکیہ کے جاڑوں کا موازنہ

01:50 PM Dec 25, 2024 | افتخار گیلانی

دونوں علاقوں میں سخت سردیاں ہوتی ہیں، درجہ حرارت منفی پانچ سے سات تو کبھی منفی پندرہ تک بھی نیچے آجاتا ہے، مگر سردی کا سامنا کرنے کا انداز، اور بنیادی ڈھانچے کی دستیابی کے حوالے سے دونوں خطوں میں زمیں و آسمان کا فرق ہے۔

فوٹو: افتخار گیلانی

تقریباً پچیس سال سے زائد عرصہ تک دہلی کی آگ برساتی گرم آب وہوا میں زندگی گزارنے کی وجہ سے میں کشمیر کی سردیوں اور بچپن میں برف باری سے جڑی یادو ں کو تقریباً بھول ہی چکا تھا۔ ان برسوں میں شاید ایک آدھ بار ہی کبھی جاڑوں میں کشمیر جانے کا موقع ملا ہوگا۔

لیکن جب چند سال قبل میں روزگار کی وجہ سے ترکیہ کے دارالحکومت انقرہ منتقل ہوا، تو سوپور اور انقرہ کے موسم کی انتہائی حد تک مماثلت کی وجہ سے برف باری اور سردیوں سے دوبارہ ناطہ جڑ گیا۔

گو کہ دونوں علاقوں میں سخت سردیاں ہوتی ہیں، درجہ حرارت منفی پانچ سے سات تو کبھی منفی پندرہ تک بھی نیچے آجاتا ہے، مگر سردی کا سامنا کرنے کا انداز،اور بنیادی ڈھانچے کی دستیابی کے حوالے سے دونوں خطوں میں زمیں و آسمان کا فرق ہے۔

کشمیر کی طرح ترکیہ کے اناطولیہ میں بھی سردیوں کی شدت کا موسم 15دسمبر کے بعد ہی شروع ہوتا ہے۔ کشمیر میں یہ دسمبر کی 20تاریخ سے شروع ہوتا ہے اور اس کو چلہ کلاں کہتے ہیں۔ اس کا دورانیہ چالیس د ن کا ہوتا ہے۔

درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے گر جاتا ہے، اور زندگی برف کی سفید چادر میں ڈھک کر سست روی کا شکار ہو جاتی ہے۔ گاؤں الگ تھلگ ہو جاتے ہیں، راستے بند ہو جاتے ہیں، پانی کے نل جم جاتے ہیں۔ بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے کشمیر میں سردیاں کچھ زیادہ ہی سخت ہوتی ہیں۔اس وقت کے دوران گرنے والی برف جم جاتی ہے اور زیادہ دیر تک رہتی ہے۔

یہی برف ہے جو ہمالیہ کے گلیشیئرز میں اضافہ کرتی ہے اور آبی ذخائر کو بھرتی ہے جو گرمیوں کے مہینوں میں کشمیر میں ندیوں، ندیوں اور جھیلوں کو پانی فراہم کرتے ہیں۔

چلہ کلاں کے بعد کوئی بھی برف باری زیادہ دیر تک نہیں رہتی۔ اس برف سے دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیوں کو پانی فراہم ہو تا ہے، جس سے پنجاب اور سندھ کی زرعی زمینیں سیراب ہو جاتی ہیں۔

چلہ کلاں کے بعد چلہ خورد بیس دن کا اور چلہ بچہ دس دن کا ہوتا ہے۔ سائبریا کے بعد دنیاکا سرد ترین مسکن دراس قصبہ کشمیر اور کرگل کے درمیان ہی واقع ہے۔ یہاں 1995میں درجہ حرارت منفی 60ڈگری سیلسیس تک گر گیا تھا۔ ترکیہ کے کئی علاقوں میں بھی درجہ حرارت منفی 25سے 30ڈگری تک گر جاتا ہے۔

 مجھے یاد ہے کہ سوپور میں بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے اسکول اور کالج کی پڑھائی ہم نے مٹی کے تیل کے لالٹین یا چھت گیر کے نیچے ہی کی ہے۔ اس کا دھواں اس حد تک پھیپھڑوں میں سرایت کر جاتا تھا کہ بسا اقات ناک سے سیاہ رطوبت بہتی تھی۔ ویسے تو موسم سرما میں ہفتے میں دو دن تو مکمل لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی، مگر برف باری کی صورت میں مہینوں تک بجلی کے دیدار نہیں ہوتے تھے۔

اس پر طرہ کہ انہی دنوں یونیورسٹی یا بورڈ امتحانات بھی لیتے تھے۔ غالباً 1986 یا 87میں جب بھاری برف باری ہوئی تھی اور درجہ حرارت بھی نقطہ انجماد سے کافی نیچے ریکارڈ کیا گیا تھا، تو امتحانی مرکز میں وقفہ وقفہ کے بعد کانگڑی پر ہاتھ اور پین کو گرم کرنا پڑتا تھا، تاکہ وہ کام کرسکیں۔

سردیوں میں ایک بار مجھے ضلع کپواڑہ کے علاقہ چوکی بل کے ایک گاوٰں تمنہ جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں غسل خانہ میں نل کی ٹونٹی جمی ہوئی ہوتی تھی۔ اس کے نیچے آگ جلانی پڑتی تھی، تب ہی اس میں سے پانی ٹپکتا تھا۔

ویسے تو میں نے بچپن میں پورا ایک سال کپواڑہ ضلع کے رام ہال علاقے کے ایک دور افتادہ گاوٗں تارت پورہ میں گزارا ہے۔ چونکہ شمالی کشمیر میں صرف کالج سوپور اور بارہمولہ میں ہی تھے، اس لیے اس گاؤں کے ایک ذی عزت فرد ماسٹر محمد یوسف شیخ اور ان کے خاندان کے اکثر افراد سوپور کالج میں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے، تو ہمارے گھر پر ہی مقیم ہوتے تھے۔

ان کے ساتھ ایسا رشتہ بنا تھا کہ میں بھی بچپن میں ان کے بغیر نہیں رہتا تھا۔ جب ماسٹریوسف کے صاحبزادے حبیب اللہ شیخ کا گریجوشن کی تعلیم کے دوران ہی بطور استاد اپنے علاقے میں تقرر ہوا، تو میں بھی ان کے ساتھ جانے کے لیے بضد ہوگیا اور وہ پورا سال دیہاتی زندگی میں بسر ہوا۔

اس علاقے میں ان دنوں بجلی نہیں آئی تھی اور اندھیرا بھگانے کے لیے کائر درخت کی گوند سے لیس چھال جیسے لئش کہا جاتا تھا، استعمال کی جاتی تھی۔

فوٹو: افتخار گیلانی

اکتوبر میں ہی سبزیوں کو سکھانے کا عمل شروع ہوجاتا تھا۔ دسمبر میں پھر بھاری برف باری سے راستے مسدود ہو جاتے تھے،پوری دنیا سے رابطہ کا ذریعہ بس ریڈیوہی ہوتا تھا۔ برف باری بند ہونے کے بعد چھتوں سے برف کو ہٹانا اور پاس کے چشمہ تک راستہ نکالنا ہوتا تھا۔ یہ کام اجتماعی طور پر کیے جاتے تھے۔ رات کو سبھی فرد اور پڑوسی بھی ایک کمرے میں جمع ہو جاتے تھے۔ چولہے میں مسلسل آگ دھک رہی ہوتی تھی۔ چٹائیاں یا اونی چادروں کے بننے کا عمل شروع ہو جاتا تھا اور ساتھ ہی داستان سنائی جاتی تھی۔

داستان گو ہیمال ناگرائے، سام اور رستم پہلوان کی داستانیں وقفہ وقفہ گانوں کے ساتھ سناکر ایک طلمساتی سماں پیدا کردیتے تھے۔ رات کو باہر جانے پر پابندی ہوتی تھی۔ چونکہ جنگل قریب ہی تھا، اس لیے برف باری سے عاجز  جنگلی جانور بھی کھانے کی تلاش میں گاؤں میں آجاتے تھے۔ صبح سویرے مکان کی نچلی منزل میں موجود باڑے میں بھیڑ، بکریوں کی گنتی کرنی پڑتی تھی۔ہمارا قصبہ سوپور چونکہ دریائے جہلم اور مشہور جھیل ولر کے پاس تھا، اس لیے مچھلیوں اور ولر کے سنگھاڑوں کو بھی سکھانے کا عمل سردیوں سے قبل مکمل کیا جاتا تھا۔

کشمیر اور ترکیہ میں سردیوں سے نپٹنے میں جو واضح فرق ہے، وہ یہ ہے کہ کشمیر میں لوگ انفرادی طور پر اپنے آپ کو گرم رکھنے کے سامان کرتے ہیں، جبکہ ترکیہ میں اپنے اطراف کو گرم کیا جاتا ہے۔ کشمیر میں انفرادی طور پر گرم کرنے کے طریقوں میں بے شمار اونی کپڑے اور سوئٹر اور ان کے اوپر ایک لمبا اونی چوغہ جس کو فرن کہتے ہیں، پہنا جاتا ہے۔ فرن تو اب کشمیر کی انفرادیت اور فیشن اسٹیٹمنٹ بھی بن گیا ہے۔

کانگڑی، فوٹو: سوشل میڈیا

فرن اس لیے پہنا جاتا ہے، کیونکہ اس کے اندر انگاروں سے بھرا ہوا ہاتھ سے پکڑنے والا ایک چھوٹا برتن جسے کانگڑی کہتے ہیں، سما جاتا ہے۔ پرانے گھروں میں سردیوں میں نیچے کی منزل میں اور گرمیوں میں اوپر کی منزل میں منتقل ہو جاتے تھے۔ اس لیے ایسے گھروں میں دو کچن ہوتے تھے۔ اس کو ہم بچپن میں دربار مویا دربا ر کی منتقلی کہتے تھے۔ نومبر میں کھڑکیوں پر پلاسٹک کی شیٹس لگائی جاتی ہیں، اور ٹوٹے ہوئے شیشوں یا شگافوں کو بند کیا جاتا تھا۔ بھاری پردے لٹکائے جاتے تھے، تاکہ کاٹنے والی سردی کو روکا جا سکے۔

کشمیر میں ہر مسجد سے متصل ایک کمرہ ہوتا ہے، جس کو حمام کہتے ہیں۔ ترکیہ کے حمام کے برعکس، جو صرف نہانے کی جگہ کا نام ہے، یہ حمام ایک دیوان خانہ جیسا ہوتا ہے، جو پتھر کی سلوں سے بنا ہوتا ہے اور اس کے نیچے ایک خلا ہوتی ہے، جس میں لکڑیاں جلائی جاتی ہے، جو اس وسیع کمرہ کو گرم رکھتی ہے۔ سوشل میڈیا کے آنے سے قبل یہ سردیوں میں خبروں، افواہوں، بحث و مباحثہ کا مرکز ہوتا تھا۔ نماز کے بعد یہ جگہ کمیونٹی اور تعلق کا احساس مزید بڑھاتی تھی۔اب نئے گھروں میں بھی حمام کی تعمیر ہوتی ہے۔ اس ایک کمرہ کو بنانے میں پورے مکان کو بنانے سے زیادہ خرچ آتا ہے۔

اس کے برعکس ترکیہ میں مکانات کا طرز تعمیر ایسا ہے کہ، وہ سردی کو اندر جانے سے روکتے ہیں۔  انسولیٹڈ دیواریں، دوہری شیشوں والی کھڑکیاں اورتعمیر میں کھوکھلی اینٹوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ان اینٹوں میں چونکہ ہوا بند ہو جاتی ہے، اس لیے گرمی باہر نہیں نکلتی ہے۔

ترکیہ کے شہروں اور قصبوں میں بنگلہ یا سنگل فیملی مکانات تعمیر کرنے پر پابندی ہے۔ یہاں بلڈنگ بناکر فلیٹ سسٹم میں ہی رہنا پڑتا ہے اور عام طور پر اس کا گیس سے چلنے والا مرکزی حرارتی نظام ہوتا ہے۔ یہ حرارتی نظام فلیٹ کا اپنا انفرادی بھی ہوتا ہے۔ مگر یہ ایک ایسی سہولیت ہے، جس کی وجہ سے گھر کا درجہ حرارت بیس سے تیس ڈگری سیلسیس تک رہتا ہے اور کسی بھی دیگر حرارتی آلہ کی ضرورت پیش نہیں آتی ہے۔

 نل کبھی نہیں جم جاتے ہیں، کیونکہ ان میں پانی رواں ہوتا ہے۔ گیس سے چلنے والا حرارتی نظام باتھ روم میں گرم پانی فراہم کرتا ہے۔انقرہ میں ویسے تو سال بھر گرم پانی کی ضرورت رہتی ہے۔ روایتی ترک گھروں میں باتھ روم میں خشک ہوتا ہے اور اس پر قالین بچھا ہوتا ہے، صرف غسل کرنے کا حصہ قالین سے خالی ہوتا ہے۔ اس لیے بہت زیادہ گرم کپڑوں کی کم ہی ضرورت پڑتی ہے۔

گھر یا دفتر کے اندر تو بس گرمیوں کے ہی کپڑوں سے گزارہ ہو جاتا ہے۔ بس گھر سے بس اسٹاپ یا میڑو اسٹیشن تک بھاری جیکٹ پہنا جاتا ہے۔ اس طرح رات کو سونے کے لیے بھی بھاری بھرکم روئی والے لحاف کی ضرورت پیش نہیں آتی ہے۔ چاہے برف گرے یا تیز ہوا چلے ترکیہ میں زندگی بغیر رکاوٹ کے جاری رہتی ہے۔ برف کو فوری طور پر صاف کر دیا جاتا ہے تاکہ نقل و حمل میں روانی رہے۔

ترکیہ میں رات کے وقت اسٹریٹ لائٹس پرندوں اور حشرات الارض کو ڈسٹرب نہ کرنے کے لیے مدہم رکھی جاتی ہیں۔ لیکن جب برف گرتی ہے تو روشنیوں کو تیز کر دیا جاتا ہے، جو برف کے ذرات پر منعکس ہو کر ایک جادوئی منظر پیش کرتی ہیں۔ یہ دلکش ماحول لوگوں کو برف باری کا لطف اٹھانے کے لیے پارکوں میں باہر لے آتا ہے۔

مصطفیٰ کمال اتاترک کا مزار، انقرہ قلعہ، اور کوجاتپے مسجد جیسے مقامات برف کی سفید تہہ کے ساتھ اور بھی دلکش نظر آتے ہیں۔ ایک بار سردیوں میں رات کی شدید برف باری کے بعد، مجھے صبح سویرے ڈیوٹی پر جانا پڑا۔ جب میں نے اپنے اپارٹمنٹ سے باہر قدم رکھا تو اندھیرا ہی تھا۔ دیکھا کہ برف میرے گھٹنوں تک جمی ہوئی تھی۔ میں لمبے جوتے پہن کر گہری برف سے گزرتا ہوا مرکزی سڑک تک پہنچا، جہاں پبلک ٹرانسپورٹ موسم کی سختی کے باوجود باقاعدہ چل رہی تھی۔

فوٹو: افتخار گیلانی

دوپہر کو جب میں واپس آیا تو گھر کے پاس برف مکمل طور پر صاف کر دی گئی تھی، جو شہر کے مؤثر نظام کی عکاسی کرتی ہے۔عوامی مقامات، جیسے عجائب گھر، شاپنگ مالز، اور کیفے، خوش آمدیدی ماحول فراہم کرتے ہیں، جس سے شہر کی ثقافتی زندگی زندہ رہتی ہے۔ بازاروں میں چہل پہل رہتی ہے، اور سردیوں کے میلے گرمی اور کمیونٹی کے احساس کو فروغ دیتے ہیں۔

تعلیم اور کام کے لحاظ سے دونوں خطوں میں نمایاں فرق ہے۔ کشمیر میں سردی اکثر سکولوں کی چھٹیوں اور دفتری اوقات میں کمی کا باعث بنتی ہے، جس کی وجہ سے روزمرہ کے معمولات میں تبدیلیاں آتی ہیں۔اس کے برعکس، انقرہ کے سکول اور یونیورسٹیاں کھلی رہتی ہیں،کیونکہ کلاس روم، لائبریری، پبلک ٹرانسپورٹ، دفاتر وغیرہ سبھی گرم ہوتے ہیں۔ اس لیے دفتری اوقات تبدیل نہیں ہوتے۔

یہ عام بات ہے کہ بچے اور دفتری ملازمین صبح سویرے مدھم روشنی میں بس اسٹاپ نظر آتے ہیں۔کشمیر کے برعکس، ترکیہ کے تعلیمی ادارے طویل گرمیوں کی چھٹیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ سردیوں کو انڈور تعلیم کے لیے وقف کیا جاتا ہے، جبکہ گرمیاں بیرونی سرگرمیوں، سفر، اور کھیلوں کے لیے مخصوص ہوتی ہیں۔ ترکیہ کی سردی کو منفرد بنانے میں صاف توانائی کے ذرائع کی دستیابی ایک اہم جز ہے۔ طلبہ امتحانات سے فراغت کے بعد جون سے اکتوبر تک  بیرون ملک یا اندرون ملک سفر کرکے یا کھیلوں میں شرکت کرکے چھٹیوں کا بھر پور مزہ لیتے ہیں۔

کشمیر کے لوگ سردیوں میں کھانے پینے کی خصوصی تیاری کرتے ہیں۔راجماش اور خاص قسم کے پکوان جیسے حریسہ سردیوں کے دوران عام کھانے کا حصہ ہوتے ہیں۔ دوسری طرف، انقرہ میں سردیوں کے مخصوص کھانے اور گرم مشروبات، جیسے سالپ اور بوزا، سردی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے پروسے جاتے ہیں۔

انقرہ، اپنی جدید سہولیات اور مؤثر نظام کے ساتھ اور کشمیر کانگڑی کی گرمی کے ساتھ یہ ظاہر کرتا ہے کہ سردی سے نپٹنے کے لیے انسان کی تخلیقی قوت کس قدر اس کو ماحول کے ساتھ ہم آہنگ کراتی ہے۔دونوں جگہوں پر، موسم کی مشکلات تخلیقیت، صبر، اور برف سے ڈھکے مناظر کی مشترکہ قدر کے ساتھ سامنے آتی ہیں۔